ورود کربلا سے شہادت حسینؑ تک


جس وقت کربلا کا جان کاہ حادثہ پیش آیا اس وقت علی ابن الحسینؑ کی عمر ۲۲ سال تھی۔ یہ المناک واقعہ آپؐ کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا۔ جس میں یزید کی فوج نے آپ کے پدر بزرگوار امام حسین علیہ السلام کی مع ۷۲ جانثاروں کے ساتھ کربلا کی تپتی ریت پر تین دن کا بھوکا پیا سا ۱۰ محرم ۶۱ھ کو شید کر دیا۔ علامہ ابن حجر مکی نے’’اصابہ فی تمیز الصحابہ‘‘ اور احمد بن حنبل نے اپنے ’’مقتل‘‘میں لکھا ہے کہ آپ ۲ محرم کو پانے والد محترم کے ساتھ کربلا میں پہنچ کر سخت بیمار ہو گئے۔ اس بیماری کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپؑ نے ایک آہنی زرہ پہنی جس کے دامن اتنے لمبے تھے کہ آپ کے پر چست نہ آتی تھی۔ آپ نے زرہ کو چھوٹا کرنے کے لئے پاوں سے سے دبا کر پھاڑنا شروع کر دیا۔ زنگ آلود زرہ کے دنوں طرف پھٹ گئے مگر اس زرو آزمائی سے جسم میں متعدد خراشیں آئیں جس میں زنگ کے اثر سے سمیت پیدا ہو گئی اور رفتہ رفتہ اسی تکلیف سے بخار آنے لگا اور بخار شدت اختیار کرنے لگا۔ یہاں تک کہ ساتویں محرم کے بعد امام حسینؑ پر یزید کے لشکریوں نے پانی بند کر دیا۔ عاشور کے روز آپ پر مرض کا انتہائی غلبہ تھا باربار بے ہوشے ہو جاتے تھے۔ عاشورہ کی صبح کو یزید کی فوج نے امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر چڑھائی کر دی تو امام کو حملہ آوری سے دفاعی جنگ کرنا پڑی۔ اس جنگ میں حضرت امام حسینؑ کے تمام انصار اور رشتہ دار کام آئے۔ یہاں تک کہ چھے مہینے کا شیر خوار بچہ علی اصغر بھی شہید ہو گیا۔ لیکن علی ابن الحسینؑ کو مرض کی شدت او عشی کی کیفیت میں ان واقعات کی بالکل خبر نہ ہوئی۔ آخر جب امام حسینؑ میدان میں تنہا رہ گئے تو رخصت ہونے کے لئے بیمار کربلا کے خیمے میں تشریف لائے۔ تو آپ اپنے پدر بزرگوار کو بیک نظر نہ پہچان سکے۔ کیونکہ زخموں کی کثرت اور غموں کی شدت نے امام حسینؑ کے جسم اطہر میں بڑی تبدیلی پیدا کر دی تھی۔ بوڑھے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر نوجوان بیٹے پر جو کچھ گزری ہو گی۔ بیان سے باہر ہے بیٹے نے باپ کی تعظیم کے لئے اٹھنا چاہا مگر اٹھ نہ سکے۔ حضرت زینب ؑ نے بمشکل سہارا دے کر بیٹھایا۔ امام نے جب کیفیت مزاج پوچھی تو بیمار نے سر جھکا کر خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے چچا عباس ابن علی ؑ کا حال پوچھا یہ بڑا سخت وقت تھا مریض کور معلوم نہ تھا کہ علی کا سر سبز باغ خزاں میں بدل چکا ہے۔ اب محمدؐ کے گھرانے میں ان کے مظلوم باپ کے علاوہ کوئی دوسرا فرد باقی نہ تھا۔ جناب زینب کا دل اس سوال سے قابو میں نہ رہا آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اور اپنے بھائی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کیا جواب دیتے ہیں امام حسینؑ نے فرمایا بیٹا تمہارے چچا عباس نہر فرات کے کنارے شہید کر دئیے گئے۔ علی ابن الحسینؑ یہ سن کر اس قدر روئے کہ روتے روتے بے ہوش ہو گئے پھر کافی دیر بعد ہوش میں آئے تو باقی تمام عزیز و اقارب اور جانثار انصاروں کا حال پوچھا اور ان کی شہادت کا ذکر سن کر ایک دفعہ پھر بے ہوش عہو گئے کچھ دیر بعد جب چہرے پر حضرت زینب علیہا السلام کے آنسو ٹپکے تو ہوش آیا اور آنکھیں کھول کر پوچھا کہ میرے بھائی علی ابن الحسینؑ کہاں ہیں؟ اب امام سے ضبط نہ ہو سکا آپ نے فرمایا کہ بیٹا! اب یہ سمجھ لو کہ میرے اور تمہارے علاوہ مردوں میں کوئی زندہ نہیں ہے پپ کے اس لرزہ خیز کلام کو سن کر بیمار کربلا سمجھ گئے کہ جنگ شروع ہو کر ختم بھی ہو چکی ہے اور پدر بزرگوار خود میدان میں تشریف لے جا رہے ہیں ہاشمی شجاعت جوش میں آگئی حضرت امام زین العابدین ؑ نے حضرت زینبؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ پھوپھی جان میری تلوار اور عصاء مجھے دیجئے تا کہ میں بھی میدان میں جا کر اپنا فرض ادا کروں۔ امام حسینؑ نے بیمار کربلا کو گلے سے لگایا اوربڑی شفقت سے فرمایا بیٹا تم سے جہاد ساقط ہے تم بیمار ہو لہذا میں اسلام کا علم بلند کرنے کے لئے مقتل گاہ میں تشریف لے جا رہا ہوں۔ میرے بعد تم ہی میرے جانشین اور لاوارث بچوں اور بے آسرا عورتوں کے وارث ہو میں تمہیں صبر و حلم اور تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت امام حسینؑ نے امامت کی مقدس امانت اور ہدایت و ارشاد کا عظیم فریضہ بیمار کربلا کے سپرد کیا اور اپنے تمام اہل بیت کو ان کی اطاعت کا حکم دیا اور اہل حرم کو بیمار کربلا کے اور بیمار کربلا کو حضرت زینب ؑ کے سپرد فرما کر میدان میں تشریف لائے اور حجت پوری کرنے کے لئے بآواز بلند فرمایا۔
ھل من ناصر ینصرنا
ھل من مغیث یغیثنا
کوئی ہے جو ہماری مدد کرے۔ کوئی ہے جو ہماری فریاد کو پہنچ۔
یہ آواز کربلا کے خون ریز میدان میں گونجی اوراہلبیت ؑ کے خیموں سے ٹکرائی بیمار کربلا یکایک غش سے چونک پڑے اور لبیک یا ابن رسول اے فرزند رسول میں حاضر ہوں کہتے ہوئے بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے کانپتے ہوئے ہاتھ میں تلوار پکڑی اور لڑکھڑاتے قدموں سے میدان جنگ کا قصد کیا ام کلثوم یہ دیکھتے دوڑیں اور فرمایا میرے لال واپس آجاو آپ نے فرمایا پھوپھی جان اب مجھے نہ روکیں کیا آپ نے ابھی بابا جان کی آواز نہیں سنی۔ مجھے نواسۂ رسول کی حمایت میں جانے دیجئے۔ اتنے میں امام حسین علیہ السلام مڑ کر خیمہ کی طرف دیکھا اور پکار کر کہا۔
اے ام کلثوم اے روک لو اور میدان میں نہ آنے دو۔ پدر بزرگوار کا یہ حکم سن کر سید سجاد مجبور ہو گئے۔ پھر بستر علالت کے قریب آئے اور اب کی دفعہ ایسے بے ہوش ہوئے کہ پھر قتل الحسین بکربلاء (حسین کربلا میں شہید ہوگئے) کی آواز پر بھی ہوش میں نہیں آئے۔

امام سجادؑ شہادت پدر بزرگوار کے بعد
صاحب ناسخ التواریخ اور دوسرے مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد جب منادی نے غیب سے الا قتل الحسین بکربلاء کی آواز بلند کی تو جناب زینبؑ نے حضرت امام زین العابدینؑ کو جگایا اور کہا کہ بیٹا اٹھو۔ پدر بزرگوار شہید ہو گئے ہیں۔ حضرت امام زین العابدین ہوش میں آئے تو و ابتاہ کہتے ہوئے اٹھ بیٹھے اور زینبؑ کبریٰ سے فرمایا کہ پھوپھی جان آپ بچوں کو سنبھالئے میں وہیں آتا۔ حضرت زینبؑ یہ سن کو اہل حرم کے خیموں کی طرف روانہ ہوگئیں۔ بیمار کربلا شدت مرض اور کمزوری کی وجہ سے پھر غش کھا کر گر پڑے۔ادھر مقتل میں امام حسینؑ کا لاشہ کھڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا جانے لگا اور ادھر فوج یزید شمر لعین کی قیادت میں اہل بیت محمدؑ کو لوٹنے کیلئے خٰموں میں گھس آئی اور پردہ نزین خواتین کے سروں سے چادریں اور بچوں کے کانوں سے گوشوارے تک اتار لئے۔ جس سے کئی بچوں کے کان لہو لہان ہو گئے۔
حضرت امام زین العابدینؑ اپنے خیمہ میں بستر علالت پر بے ہوش پڑے تھے۔ شمر کچھ ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچا۔ جناب زینبؑ نے جو یہ ماجرا دیکھا تو بچوں اور بی بیوں کو چھوڑ کر بھتیجے کے خیمہ کی طرف دوڑیں۔ شمر نے علی ابن الحسینؑ کا بستر گھسیٹ کو مظلوم کربلا کے اس بیمار فرزند کو فرش زمین پر گرا دیا۔ سید سجاد غش سے چونک پڑے اور شمر لعین کر دیکھ اٹھنے کا ارادہ فرمایا۔ شمر ہاتھ میں خنجر لے کر آپؑ کو شہید کرنے کے ارادے سے بڑھا۔ اتنے میں جناب زینب اس خیمے میں داخل ہوئیں اور بیمار کربلا سے لپٹ کر شمر سے کہا کہ اے شمر جب میں زندہ ہوں میں اپنے بھائی کی نشانی کو نہیں مٹانے دوں گی۔ حمید بن مسلم کو بیان ہے کہ اس دوران میں لشکر کا سردار عمر سعد اس خیمہ گاہ تک پہنچ گیا۔ اس نے جب یہ صورت حال دیکھی تو گوشۂ چشم سے شمر کو منع کیا اور اس طرح علی ابن الحسینؑ کی جان بچ گئی۔

شام غریباں و تاراجئ خیام
علامہ ابن جوزی کا بیان ہے کہ ادھر جناب زینب؂ؑ اپنے بھتیجے کی جان بچانے میں لگی ہوئی تھیں ادھر ابن سعد کے حکم سے خیام اہل بیت میں آگ لگا دی گئی۔ اس وقت مخدرات عصمت و طہارت اور زنان انصار امام حسین کا یہ عالم تھا کہ وہ ڈرے سہمے ہوئے بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ادھر سے ادھر بھاگ رہی تھیں اور کسی جگہ امان نہ ملتی تھی۔ جب تک خیمہ جلنے لگتا تو دوسرے خیمہ میں چلی جاتیں۔ یہاں تک کہ پورے خیمہ گاہ میں آگ کے شعلے بھڑک اٹحے۔ اس وقت تمام بی بیاں حضرت زینبؑ کی پاس دوڑ کر آئیں۔ جناب زینبؑ نے سید سجاد سے پوچھا۔ بیٹا اب عورتوں کیلئے کیا حکم ہے؟ امام نے فرمایا کہ ان سب کو لیکر باہر نکلیں۔ یہ سن کر تمام بی بیاں جناب زینبؑ کے ہمراہ خیمہ سے نکل کر میدان کی طرف پڑیں۔ سید سجاد بھی اپنی پھوپھی ام کلثوم کے سہارے جلتے ہوئے خیمہ سے باہر تشریف لے آئے۔
سید شہداءؑ کی شہادت کے بعد اہل بیت پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ آپؑ کے اہل و عیال بے سر و سامان ہوگئے اور گیارہویں محرم کی شب جناب زینب کبریٰ نے اپنے تمام بچوں اور بیبیوں کو ایک جلے ہوئے خیمہ میں جمع کیا پھر جو بچے غارتگری اور ظالموں کے ظلم سے بچنے کیلئے میدان میں نکل پڑے انہیں اس اندھیری رات میں دیر تک تن تنہا ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتی رہیں۔ سید سجاد کا یہ عالم تھا کہ شدت تب سے مسلسل غش پر غش آرہے تھے۔ اگر کبھی آنکھ کھول لیتے تھے تو آپؑ کی چھوٹی پھوپھی ام کلثومؑ آپؑ کا سر دبانے لگتی تھیں اور آپؑ پر پھر غشی طاری ہو جاتی تھیں۔ جناب زینبؑ جب سب بچوں کو اکٹھا کر چکیں اور امام حسینؑ کی چار سالہ بچی سکینہ کو بھی جو اس ہنگامے میں گم ہو گئی تھیں، قتل گاہ سے گود اٹھا کر لے آئیں تو اپنی چھوٹی بہن ام کلثومؑ کو ان سب بچوں کی نگہبانی اور دیکھ بھال کی ہدایت فرمائی اور خود ایک ٹوٹا ہوا نیزہ اٹھا کر نگہبانی کیلئے چلیں اور رات بھر اس لٹے ہوئے قافلہ کے گرد گھومتی اور حفاظت کرتی رہیں۔ اس دوران میں ایک بار سید سجادؑ غش سے یکایک کچھ افاقہ ہوا تو ذمہ داری کے احساس نے آپؑ کو مرض کی تمام تکالیف بھلا دیں اور فوراً عصا لے کر بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور حفاظت کے فرائض کی انجام دہی میں پھوپھی کا ساتھ دیتے رہے۔ حمید بن مسلم بیان کرتا ہے کہ نسب شب کے بعد اس نے کئی تکبیروں کی آواز سنی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زین اپنی عادت کے مطابق ہوش میں آتے ہی عبادت الہٰی میں مشغول ہو جاتے تھے۔ نہ جانے اس ڈراؤنی رات کے سناتے میں عبد و معبود کے درمیان کیا کیا راز کی باتیں ہوتی ہوں گی۔

ہائے ! اہل بیت ؑ محمد ؐ زنجیروں میں
بیمار کربلا نے قیامت خیز رات عبادت الٰہی میں گزارا۔ صبح ہوئی تو یزید کی فوج نے ابن سعد کے غکم سے اپنی طرف کے مقتولین کو دفن کرکے بیمار کربلا سید سجادؑ کے پاؤں میں دوہری زنجیریں‘ گردن میں طوق اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں۔ اہل حرم کی پردہ نشین خواتین کے بازؤوں میں رسیاں باندھ دی گئیں اور قافلۂ اہل بیتؑ کر دربار کوفہ لے جانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ظہر کے بعد مخدرات عصمت و طہاعت اور انصار حسینؑ کی بیویوں کی بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کیا گیا۔ شہداء کے سر نیزوں کے نوک پر بلند کئے گئے۔ سید سجادؑ کو اس اسیر قافلہ کا سردار معین کیا گیا۔ اور آپؑ اپنی بے ردا ماں بہنوں کے ناقوں کے مہار پکڑے خود لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے جلتی ہوئی ریت پر پیادہ کربلا سے کوفہ کی طرف چلے۔ جب یہ پر حسرت قافلہ مقتل شہداء کی طرف سے گزرا تو گنج شہداء میں اپنے پدر بزرگوار‘ چچا‘ بھائی اور تمام انصار حسینؑ کی لاشیں دیکھ کر بیمار کربلا پر غش آنے لگا۔ جناب زینبؑ نے جب بھتیجے کا یہ عالم دیکھا تو پکار کر کہا بیٹا! تمہاری ذمہ داریاں عظیم ہیں صبر کرو خدا کی قسم یہ ایک عہد تھا جو تمہارے پدر بزرگوار سے لیا گیا تھا۔
قافلہ آگے بڑھا سورج کی تپش اور تابناکی عروج پر پہنچنے کے ڈھل رہی تھی اور میدان نینوا کی ریت تمازت آفتاب سے بھٹی کی بھبھک رہی تھی۔ سید سجادؑ کا یہ عالم تھا کہ آپؑ کا تمام بدن پہلے ہی سے جل رہا تھا۔ اوپر سے سورج کی گرمی اور نیچے سے تپتی ہوئی ریت جسم پر آفتاب کی کرنوں سے دہکتا ہوا لوہا بس انہی کا دل جانتا ہوگا کہ مصائب کی ان منزلوں سے کس طرح گزرے۔ صاحب ناسخ التواریخ لکھتے ہیں کہ چند ہی قدم چلنے کے بعد سنگریزوں کے چبھنے اور اس کی دہکتی ہوئی ریت کے مس ہونے سے تلوؤں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ مگر چلے جارہے تھے کیونکہ قریب ہی شمر اور خولی تازیانے لئے ہوئے تھے اور ان کی سنگ دلی نے پشت مبارک کو چند ہی لمحوں میں لہو لہاں کر دیا تھا۔
کربلا سے منزل بہ منزل یہ کلفتیں اور اذیتیں جھیلتے ہوئے کئی روز کے بعد یہ قافلہ کوفہ پہنچے۔

اہل حرم کوفہ میں
طبری اور دیگر مؤرخین نے اس واقعہ کو اپنی اپنی تواریخ یں نقل کیا کہ خزیمہ اسدی کہتے ہیں کہ اتفاق سے اسی روز میرا گزر کوفہ سے ہوا۔ جبکہ سید سجادؑ اور ان کے اہل بیت رسالت کے قیدیوں کا قافلہ کوفہ میں داخل ہو رہا تھا۔ ابن زیاد کے حکم سے شہر کو نواسۂ رسول کے قتل کی خوشی میں سجا کر جشن منا جا رہا تھا کوفہ کے والی کو حکم ملا تھا کہ وہ ایک ہزار سوار اور پیادے لے کر بازاروں میں گشت کرے۔ اور جہاں کہیں اہل بیتؑ کے چاہنے والے پائے اس کی گردن اڑا دے۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ ایک باغی نے خلیفہ وقت پر خروج کیا تھا۔ اس لئے قتل کر دیا گیا اور اس کے خاندان خاندان کو میدان جنگ سے قیدی بنا کر لایا جا رہا ہے۔ تمام لوگ قیدیوں کا تماشا دیکھنے کیلئے ہر جگہ ہجوم کئے ہوئے تھے۔ عورتیں اپنے بچوں کو لے کر گھروں کی چھتوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب نبی زادوں کا تباہ حال قافلہ کوفہ کے بازاروں سے گزرا۔ لوگوں نے شہیدوں کے سروں کو نیزوں کی نوک پر اور مصیبت زدہ یتیم بچوں کو ایک رسی میں بندھے ہوئے اور بے ردا بی بیوں کو بال بکھرائے‘ بے کجاوہ اونٹوں پر سوار دیکھا تو لوگ بے ساختہ رونے لگے اور بعض کی چیخیں نکل گئیں۔ جناب زینبؑ نے جب یہ آوازیں سنیں تو بڑے پر جلال لہجے میں کوفہ والوں سے مخاطب ہو کہنے لگیں۔

جناب ثانئ زہراؑ کا خطاب
’’رونے والو چپ رہو اور میری بات سنو‘‘ اس خطاب سے تمام مجمع میں سناٹا چھا گیا۔ جناب زینبؑ نے بلند آواز سے فرمایا۔
’’آج تم روتے ہو خدا کرے ہمیشہ روتے رہو۔ تمہارے آنسو کبھی تھمیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ تم لوگوں نے کیا کیا؟ تم نے رسول اکرمؐ کی پاک اولاد کو ذبح کر ڈالا اور اب ان کی بیٹیوں کی ننگے سر بازاروں میں تشہیر کر رہے ہو۔ سنو! اس چند روزہ مہلت پر غرور نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ جلد بازی نہیں کرتا۔ اس کی گرفت سخت ہے‘‘
خزیمہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم میں نے فصیح و بلیغ اور ایسا مؤثر خطبہ کسی خاتون کی زبانی نہیں سنا تھا۔ گویا کہ علی ابن طالبؑ گفتگو کر رہے ہوں۔ سننے والوں نے آپؑ کا خطبہ سنا اور شرم و ندامت سے گردنیں جھکالیں۔

جناب بیمار کربلا کا خطاب
حضرت امام زین العابدینؑ نے دیکھا کہ حضرت زینبؑ کے خطبہ سے لوگوں کے دل نرم ہو چکے ہیں اور انہیں ندامت کا احساس ہوا ہے تو آپؑ نے اپنے جد بزرگوار حضرت محمد ؐ کے پر جلال انداز حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ
’’اے لوگو! میں علی ابن حسینؑ یعنی اس مظلوم غریب کا فرزند ہوں جو دریائے فرات کے کنارے بغیر کسی جرم و گناہ کے بھوکا اور پیاسا ذبح کیا گیا۔ جس کو سر پشت گردن سے جدا کیا گیا۔ جس کو ازیت اور تکالیف پہنچانے میں ظالموں نے کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی۔ جس کا سب مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ جس کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیا گیا۔
لوگو! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے میرے باپ کر خطوط لکھ کر نہیں بلوایا تھا اور کیا ان کے نام پر بیعت نہیں کی تھی۔ پھر تم عہد و پیمان سے پھر کر انہی کے مقابل صف آرائے ہوگئے۔ تم پر خدا کا غضب ہو تم نے آخرت کیلئے کتنا مہلک زاد راہ مہیا کیا ہے اور کیسی بری راہ اختیار کی ہے۔ تم کس منہ سے قیامت کے دن رسول خداؐ کے سامنے جاؤ گے اور کس طرح ان کی شفاعت کی امید رکھو گے اور جب وہ تم سے سوال کریں گے کہ میری عترت کو کس جرم پر قتل کیا اور کسی قصور کی بناے پر ان کی بے حرمتی کی کیا تم میری امت میں سے نہ تھے۔ تو وقت تم لوگ پیغمبر اکرمؐ کو کیا جواب دو گے؟‘‘
علی بن حسینؑ اس مقام تک پہنچے تھے کہ چاروں طرف سے گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہوئیں اور لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ افسوس ہماری غفلت نے ہمیں ہلاکت تک پہنچا دیا۔
چند لمحات کے بعد جب شور کم ہوا علی بن حسینؑ نے پھر اپنا خطبہ شروع کیا اور فرمایا۔
’’اے خدا ان لوگوں پر رحمت نازل فرما جو خدا‘ رسول خداؐ اور اہل بیتؑ کے حق میں ہماری نصیحت پر عمل پیرا ہوں۔
بے شک ہم اہل بیت تبلیغ رسالت میں رسول اللہ کی سیرت مبارکہ پر کاربند ہیں۔ ‘‘
امام کے یہ کلمات سن کر چاروں طرف سے آوازیں بلند ہوئیں اے رسول خدا ؐ کے فرزند! ہم آپؑ کے حق پہچانتے ہیں۔ آپؑ کے حکم کی تعمیل کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حکم دیجئے تو ہم ان ظالموں سے آل رسولؐ کے خون کا انتقام لیں۔
کوفیوں کے یہ الفاظ سن کر امام زین العابدینؑ نے فرمایا
’’افسوس ہے اے بے وفائی کے عادی انسانو! میں تمہارے فریب میں نہیں آؤں گا۔اور نہ تمہارے جھوٹی قسموں کا اعتبار کروں گا۔ جو سلوک تم نے میرے پدر بزرگار کے ساتھ کیا وہ بھلایا نہیں جاسکتا۔ لیکن خیر میں تمہارے صرف اس بات پر بھی رضامند ہوں کہ نہ تم ہمارے ساتھ ہو نہ ہمارے دشمنوں کے رہو۔

دربار ابن زیاد میں خطبہ
حضرت امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں کہ جب ہم ابن زیاد کے دربار کوفہ ودمشق وعراق کے سرداروں سے بھرا ہوا تھا۔ ابن زیاد بڑے متکبرانہ انداز میں کرسی پر بیٹھی ہوا تھا۔ سب سے پہلے سنان نے میرے پدر بزرگار کا سر اس کے سامنے پیش کیا اور یہ جملہ شعر کے انداز میں کہا کہ ’’میں اس جلیل القدر بادشاہ کا سر تیری نزر کے لئے لایا ہوں جو حسب ونسب میں تمام انسانوں سے بہتر تھا اور اس کی مادر گرامی دنیا کی تمام عورتوں سے افضل تھیں‘‘ ابن زیاد یہ سن کر غضبناک ہوا اور کہا جب تو اسے ایسا سمجھتا تھا تو کیوں قتل کیا؟ اور جلاد کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑادی جائے۔ چنانچہ وہ اسی وقت مارا گیا ابن زیاد جناب زینبؑ کی طرف متوجہ ہوا اور طنز کے لہجے میں بولا۔ کیونکہ علی کی بیٹی: تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے بھائی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ جناب زینب نے جواب دیا کیسا سلوک کیا۔ میں نے تو اچھا ہی دیکھا وہ خود اپنے مرضی سے خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنی گاہ کی طرف گئے۔ عنقریب خدا کے سامنے تیرا اور ان سامنا ہوگا۔ اس وقت تو خود بھی دیکھ لے گا کہ کس نے شکت کھائی اور کس نے فتح پائی۔
ناسخ التواریخ میں لکھتے ہیں کہ ابن زیاد کو شکستہ دل اور غمزدہ زینبؑ سے ایسے جواب کی توقع نہ تھی۔ بغض سے بھرے ہوئے انداز میں اس نے کہا۔ خدا کا شکر ہے جس ن تمہیں رسوا کیا اور تمہارے جھوٹ ساری دنیا پر عیاں ہوگیا۔
جناب زینبؑ نے بڑے اطمینان سے فرمایا ہاں شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں پاک وپاکیزہ قرار دیا رسوا تو وہ ہے جو فاسق وفاجر ہے اور جھوٹ اسکا عیاں ہوا جسے حق سے واسطہ اور لحاظ نہیں۔
جواب سنکر ابن زیاد برہم ہوا اور سخت لہجے میں جناب زینبؑ کی طرف متوجہ ہوکر کہا تیرے بھائی اور اس کے پیروکاروں کو قتل کرکے میرا دل بہت خوش ہوا یہ سنکر جناب زینب کے دل پر سخت چوٹ لگی قریب تھا کہ آنسو ٹپک پڑیں مگر آپ نے نہایت صبر واستقلال سے کام لیا اور غمگین ہوکر فرمایا بے شک تو بہت خوش ہوا تیری مراد پوری ہوئی تو نے میرے بھائیوں کو شہید کیا۔ ابھی آپؑ کی گفتگو ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ سید سجاد نے محسوس کیا کہ جناب زینبؑ کا دل بھر آیا ہے اور اب ابن زیاد سے ان کی گفتگو ختم کرانا ضروری ہے لیکن آپ نے جناب زینب کی گفتگو میں خلل ڈالنے کے بجائے کچھ اس انداز سے ابن زیاد کی طرف متوجہ ہوئے تو ابن زیاد نے آپؑ سے پوچھا تم کون ہو؟ تو آپ نے فرمایا میں علی ابن حسین ہوں ابن زیاد نے کہا کیا علی ابن حسین کو خدا نے قتل نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا وہ میرا چھوٹا بھائی تھا اسے لوگوں نے قتل کیا ابن زیاد کو یہ سنکر غصہ آیا اور چلا کر کہنے لگا لوگوں نے نہیں خدا ن تیرے بھائی کو قتل کیا سید سجاد ن قرآن کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔
ترجمہ:۔ خدا ہی موت کے وقت روح قبض کرتا ہے کوئی اس کے حکم کے بغیر نہیں مرسکتا
ابن زیاد یہ آیت سن کر بھڑک اٹھا اور کہا تجھے یہ کیسے جرائت ہوئی کہ میرے کلام کا جواب دے سر جھکا لیا اور کچھ دیر بعد گردن اٹھا کر جناب زینب کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا علی کی بیٹی میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی قسم تم اس نوجوان سے پہلے قتل ہونا چاہتی ہو جو خود ہی اپنی بیماری سے مرنے والا ہے۔ یہ کہہ کر ابن زیاد امام حسینؑ کے سر مبارک کی جانب متوجہ ہوا جو اس کے سامنے ایک طشت میں رکھا ہوا تھا علامہ طبری بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ابن زیاد کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ اور وہ چھڑی سے نواسۂ رسول کے لب دندان سے بے ادبی کررہا تھا۔ اتفاق سے دربار میں حضور ؐکے مشہور صحابی ارقم موجود تھے جو یہ دیکھ کر غصہ سے ان کا جسم تھر تھرا اٹھا اور چلا کر بولے ارے کم بخت کیا کرتا ہے میں نے رسول اللہؐ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ حسینؑ کے انہیں لب ودندان کو جن کے ساتھ تو یہ گستاخی کر رہا ہے پیار کرتے تھے۔ اور چومتے تھے زید بن ارقم یہ کہہ کر چیخ کر رونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابن زیاد کی محفل مجلس عزاء بن گئی۔ ابن زیاد یہ دیکھ کر بہت برہم ہوا اور (نعوذ باللہ) کہنے لگا اے اللہ کے دشمن خدا نے ہم کو فتح دی اور تو روتا ہے۔خدا تجھے مار ڈالے تو بھی انہی میں سے ہے۔
اگر تو بڑھاپے سے ضعیف نہ ہوتا تو میں ابھی تیری گردن اڑادیتا زید بن ارقم نے کہا۔ اے ابن زیاد خدا پاک کی قسم میں نے خود رسول اکرمؐ کو ایک دن دیکھا کہ حضرت حسنؑ کو دائیں زانو پر اور حضرت حسینؑ کو بائیں زانو پر بیٹھا کر ان کے سروں پر اپنے دست شفقت رکھے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے۔ خداوندا میں ان دونوں بچوں کو تیرے اور تیرے نیکو کاروں کے سپرد کرتا ہوں اے ابن زیاد تو نے امانت رسول کی خوب نگہبانی کی۔یہ کہہ کر زید بن ارقم دل برداشتہ ہوکر دربار سے نکل گئے۔
اے کوفہ والو! آج سے تم غلام ہو تم نے فاطمہ کے لال کو قتل کیا ہے اور یزید جیسے فاسق و فاجر اور بدکار کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور بدمعاشوں کو زندہ رکھتا ہے۔ تم دولت کے پیچھے اسیر ہوئے خدا انہیں ہلاک کرے جو دولت کی خاطر جان دیتے ہیں۔ ابن زیاد نے علی بن الحسینؑ اور ان کے ساتھ کے اسیروں کو جامع مسجد کوفہ کے قریب ایک تنگ و تاریک مکان میں قید کر دیا اور یزید کے پاس فتح کی مبارک باد بھیجی اور دریافت کیا کہ قیدیوں کے ساتھ اب کیا سلوک کیا جائے۔ ہفتہ کیب عد یزید کا قاصد یہ حکم نامہ لے کر آیا کہ قیدیوں کو مع شہیدوں کے سروں کے دمشق روانہ کر دیا جائے۔ ارشاد شیخ مفید اور اخبار الطوال کا بیان ہے کہ ابن زیاد نے شہداء کے سر مرّہ بن قیس ار طارق بن ظبیان کی حفاظت میں شام کی طرف روانہ کئے الور بعد میں شمر ابن ذی الجوشن کی نگرانی میں اسیران اہلبیت کو روانہ کیا گیا۔ کوفہ دمشق سے تقریباً پانچ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے اور دمشق کو دو راستے جاتے ہیں جن میں سے ایک عام گزر گاہ ہے جس پر عراق اور شام کے بڑے بڑے شہر واقع ہیں چونکہ حکومت کو علی ابن الحسینؑ اور اہلبیت کی تشہیر کر کے اپنی طاقت کا سکہ جمانا مقصود تھا اس لئے شہیدوں کے سرپائے بریدہ اور اسیران آل محمدؐ کو عام گزر گاہ سے بھیجا گیا تا کہ حسینؑ کی شکست اور یزید کے فتح کی شہرت عام ہو جائے۔ لیکن یزید اور ابن زیاد کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اس سلسلے میں قضائے الہی سے ٹکر لے رہے ہیں اور اس خون ناحق کا ڈھنڈورا پیٹ کر خود کر اپنے ہاتھوں اپنی بنیادیں متزلزل کر رہے ہیں اور قدرت خود انہی اقدامات سے ان کے مظالم کا پردہ چاک کر رہی ہے چنانچہ دوران سفر جہاں جہاں سے بھی کربلا کے قیدی اور سر شہداء گزرتے تھے اور لوگ علی ابن الحسینؑ سے ہمکلام ہو کر حقیقت حال سے باخبر ہوتے تھے یزید کے خلاف شورش اور یزیدیت کے خلاف عام نفرت پیدا ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اس سفر کے دوران سید سجاد ؑ اور آپ کے ساتھ جناب زینبؑ و ام کلثومؑ بھی گویا حق و صداقت کے اعلان کی منہ بولتی ہوئی تصویریں تھیں۔ جنہوں نے حسین ؑ مظلوم کی محبت ان لوگوں کے دلوں میں بھی راسخ کر دی جنہوں نے حسینؑ کو کھبی نہیں دیکھا تھا۔

منزل بمنزل علی ابن الحسین ؑ کی تبلیغ حق
ناسخ التوایخ روضۃ الصفاء منتخبات اعلام طریحی اور علامہ طبری کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ قافلۂ اہلبیت کوفہ سے چل کر دمشق تک جس جس منزل سے گزرا وہاں کے نوسے فیصد لوگوں میں یزید کے خلاف نفرت اور حسینؑ کی محبت کا جذبہ پیدا ہوتا چلا گیا۔ علامہ ہاشم السعدی نے جفرا العراق میں لکھا ہے کہ یہ قافلہ کوفہ کے بعد ایک صحرا کو طے کرتا ہوا تل عقر سے سے گزرتا ہوا سنجار میں پہنچا جہاں یزید کے معتقدین کی آبادی تھی۔ اسی شہر کے نزدیک وادی قضائے شیخان واقع ہے جو یذیوں کامقدس مقام ہے اگر چہ اس مقامات پر کوئی خاص حادثہ رونما نہیں ہوا تا ہم سید سجاد کی جبیں مبارک پر نوجوانی کے عالم میں سجدے کا نشان دیکھ کر اور بے پناہ تکلیفوں اور مصیبتوں کے باوجود زبان مبارک سے خدائے تعالی کا شکر سن سن کر لوگوں کے دل آپ کی طرف کھینچ آتے تھے اور اکثر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔ سنجار سے یزیدی فوجیں نصبین میں پہنچیں جہاں ملا حسین کاشفی کے مطابق منصور بن الیاس حکمران تھا اس منزل پر جب لوگ سید سجاد کے زہد و تقوی کو دیکھ کر آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ حضرت زینب ؑ نے بھائی کے سر کو مخاطب کر کے کہا’’ محمد کے لال تم دیکھ رہے ہو کہ یہ ظالم لوگ ہمیں شہر بہ شہر تشہیر کر رہے ہیں‘‘ مختصر سے چند الفاظ تھے جو تیر کی طرح لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو گئے اور تماشائیوں کے ماتھوں پر بل پڑ گئے۔ فوج کے سالار نے رنگ بگڑتے ہوئے دیکھ کر قافلے کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا اور جلد ہی شامیوں اور کوفیوں نے نصبین سے نکل کر عین الورد سے گزرتے ہوئے تشہیر دعواۃ میں قیام کیا۔ جہاں شمر لعین کے حکم سے امام حسینؑ کا سر سید سجاد کے قریب لا کر ایک شخص بار بار یہ اعلان کر رہا تھا۔ ’’ یہ اس شخص کا سر ہے جس نے یزید بن معاویہ کے خلاف خروج کیا تھا اور یہاس کا بیٹا ہے‘‘ ان کلمات کو سن ک لوگ سید سجاد کے چہرے کو دیکھتے تھے اور آپ کے روئے مبارک پر زہد تقوی کے آثار دیکھ کر شرم سے گردنیں جھکا لیتے تھے۔دعواۃ سے آگے چل کر یہ قافلہ پینسٹھ میل کے فاصلے رقہ میں مقیم ہوا قاضی نصیر الدین مصنف تفسیر ’’ البیضاوی‘‘ اسی شہر کے باشندے تھے البیضاء کی حکومت اس وقت دو بھائیوں کے ہاتھ میں تھی جن میں ایک کا نام سلیمان بن یوسف تھا شمر کی خواہش پر یہ دونوں بھائی یزید کے استقبال کو آئے لیکن سلیمان نے جب امام زین العابدین کی طرف دیکھا تو ایسے زاہد و عابد نوجوان کو زنجیروں میں جکڑاہو ا دیکھ کر اس دل تڑپ اس نے اپنے بھائی کو ان اسیروں کی ہمدردی کا مشورہ دیا۔ جس پر ان دونوں میں تکرار ہوگئی آخر سلیمان نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ یزیدی لشکر یہ دیکھ کر تیز رفتاری کے ساتھ وہاں سے آگے بڑھے۔ راستے میں جناب سکینہ اونٹ سے گر پڑیں اور کسی کو پتہ نہ چلا جب معلوم ہوا تو شمر قافلے کر روک کر سید سجاد کر کھینچتا ہوا ان کی تلاش میں چلا۔ آخر جناب سکینہ کچھ فاصلے پر مل گئیں۔ رقہ سے چل کر یہ لوگ تیز میل کے فاصلئے پر قلع�ۂ جو سق میں پہنچے یہ یہودیوں کی ایک بستی تھی۔ قلعہ دار کا نام عزیز تھا عزیز کو علی ابن الحسینؑ کی شکل دیکھ کر ہمدردی پیدا ہوئی اور اس نے بتایا کہ جناب موسیٰ و ہارون نے جس مقدس ہستی کی پیش گوئی کی تھی اس نوجوان کے چہرے میں اس کے آثار پائے جاتے ہیں نیز ان قیدیوں کے سر پرست حسینؑ کی شہادت کا واقعہ بالکل وہی ہے جس کی خبر توریت میں دی گئی ہے۔ عزیز یہ کہہ کر اسلام لے آیا اور فوج یزید اس کی پذیرائی سے بالکل مایوس ہو کر ہو کر آگے بڑھی۔
جوسق سے چند میل کے فاصلے پرمنزل بشر یہاں ابو الحنوق کی روایت مطابق سر حسینؑ کے نگہبان اسماعیل نے نیم بیداری کے عالم میں علی بن الحسین کو اپنے نانا رسالت مآب سے باتیں کر تے ہوئے اور آنحضرت ؐ کو ان مصائب پر گریہ فرماتے ہوئے دیکھا۔ بشر کے بعد یہ جماعت شہر عقیلان‘ بسر سے ہوتی ہوئی حلب میں پہنچی ان مقامات پر لوگ علی ابن الحسینؑ کی نورانی چہرے کی زیارت کر کے یزید منحرف ہوگئے۔
حلب سے کوہ جوشن کے بعد اسیران اہل بیتؑ اور سر حسین قرین میں لائے گئے یہاں بھی لوگوں کے دل قافلہ سالار اہل بیتؑ کے قدموں کے فرش راہ بن گئے اور شاہیوں کو لعنت و مالامت کرنے لگے۔
اس منزل کے بعد معتمرۃ النعمان میں ایک رات جشن منا کر شاحی دستے علاقہ حمص کے قصبے شیرز میں پہنچے۔ سید سجاد نے یہاں خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کی جس کے بعد یہاں کے باشندے مقابلے پر آمادہ ہوگئے۔ اس کے قلع�ۂ کفر میں بھی یہی صورت پیش آئی۔ اگرچہ خولی نے قلعہ والوں کو بہت دھمکایا مگر وہ فوج یزید سے کسی قسم کے تعاون پر تیار نہ ہوئے اور آخر کار یزیدیوں کو اس مقام پر قیام کئے بغیر آگے بڑھنا پڑا۔
حماد میں بھی جنگ ہوئی۔ حمص کے لوگوں نے بھی سید سجاد کو گرفتار مصائب دیکھ کر افسوس کیا کہ شامیوں نے ایسے باخدا انسان کو کیوں گرفتار کیا ہے۔
یزیدی فوج نے دیر راہب میں قیام کیا۔ ارباب مقاتل نے بالاتفاق لکھا ہے کہ یزید دستے کے سپاہی یہاں شراب نوشی اور عیش و عشرت میں مشغول تھے کہ کیایک ایک ہاتھ نمودر ہوا اور اس نے دیر راہب کی دیوار پر یہ شعر لکھ دیا۔
اتر جوا امۃ قتلت حسینا
شفاعۃ جدہ یوم الحساب
یعنی جن لوگو نے حسین کو قتل کیا ہے کیا وہ روز قیامت ان کے جد امجد کی شفاعت کی امیر رکھتے ہیں۔ اس واقعہ کو دیکھ کر لوگ ڈر گئے۔ رات کو راہب نے ایک طرف سید سجاد کو شب بھر عبادت الہٰی میں ان خصوصیات کے ساتھ مصروف پایا جو اس کی آسمانی کتاب میں مختص ہیں اور دورسری جانب ایک صندوق سے نور چھنتے ہوئے دیکھا۔ اسے سخت تعجب ہوا دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ نوجوان علی ابن الحسینؑ ہیں اور اس صندوق میں اس کے باپ حسین ؑ کا سر حفاظت کی غرض سے بند کر دیا گیا ہے۔ راہب ان واقعات سے بے حد متاثر ہوا اور شامیوں سے عدم تعاون کا اعلان کر دیا۔
حران یہودیوں اور عیسائیوں کی بستي تھی۔ روضۃ الاحباب کا بیان ہے کہ جب قافلہ اہل بیتع یہاں پہنچا اور تمام لوگوں نے امام زین العابدینؑ کی صورت سے ان کی بے گناہی کا اندازہ لگایا تو اس کی خبر سن کر یکہودیوں کا سب سے بڑا عالم یحییٰ حرانی واقعات کی تصدیق کیلئے آیا۔ اس نے دیکھا کہ امام حسین کے سربریدہ کے ہونٹ جنبش میں ہیں۔ اس نے قریب جا کر سنا تو آپؑ آی�ۂ قرآنی
و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون o
کی تلاوت فرما رہے تھے۔ یہودی یہ واقعہ دیکھ کر اسلام لے آیا۔
علامہ طبری نے اپنی کتاب میں اسناد کے سارھ درج کیا ہے کہ تیس میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ لوگ بعلبک میں پہنچے اور وہاں جی بھر کر شراب نوشی کی۔ اس مقام پر لوگوں نے یزیدیوں کے فسق بالاعلان اور امام زین العابدین کی خدا پرستی کو دیکھ کر یزید اور اس کے چاہنے والوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا۔

دمشق میں داخلہ اور زین العابدین ؑ کی ایک بوڑھے سے گفتگو
ابن شہر آشوب نے صحابی رسولؐ سہل بن سعد کے حوالے سے بیان کیا ہے سہل فرماتے ہیں میں ۱۴ ربیع الاول ۶۱ھ کو ایک سفر کے دوران دمسق میں پہنچا دیکھا کہ بازاروں میں آئینہ بندی کی گئی ہے دکانوں پر رنگا رنگ پردے لٹکائے گئے ہیں۔ لوگ لباس فاخرہ پہنے جابجا میلہ لگائے ہوئے ہیں۔ دف‘ نقارے اور طرح طرح کے باجے بجائے جارہے ہیں سوچا کہ شائد آج یہاں کوئی مقامی تہوار ہوگا بڑھ کر ایک راہ گیر سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہو نواسۂ رسول امام حسینؑ شہید کردئے گئے اور آج ان کے فرزند علی بن الحسینؑ معہ ان کے ماں بہنوں اور بی بیوں کو قید کرکے یہاں لایا جارہا ہے اس لئے حکومت کی جانب تمام شہر کو جشن منانے کا حکم دیا گیا ہے پہلے یہ سنا کہ یہ قافلہ باب الساعات سے شہر میں داخل ہوگا پھر پتہ چلا کر ادھر ہجوم کی وجہ سے داخلہ مشکل ہے اس لئے اسیران اہلبیت کسی اورباب سے شہر میں لائے جائیں گے۔ آخر میں یہ خبر ملی کہ زین العابدینؑ اور اہل حرم کو باب جیرون سے شہر میں داخل کیا جارہا ہے میں دوڑ کریں طرف پہنچا۔ اس وقت یزید کے فوجی شہر میں داخل ہوچکے تھے۔ میں نے دور سے دیکھا کہ ایک بیمار ناتواں پاؤں میں بیڑیاں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں گلے میں خاردار پہنے ہاتھ میں اونٹوں کی مہار لئے گرتا پڑتا چلا آرہا ہے۔ اس کے پیچھے چند بی بیوں کے ناقے ہیں جن کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے ہیں یہ تمام بیبیوں سر برہنہ بال بکھرائے ننگی بے کجاوا اونٹوں پر سوار ہیں بیمار کے پیچھے ناقے پر ایک معظمہ سوار ہیں۔ اس ناقے کے ساتھ ساتھ ایک شخص چل رہا ہے جو نوک نیزہ پر ایک سر لئے ہوئے ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حسین مظلوم کا سر ہے اور یہ بیمار نوجوان ان کے فرزند علی بن الحسینؑ ہیں جو رسول ذادیوں کے ناقے کی مہار لئے ہوئے ہیں۔ میرا دل تڑپ اٹھا آنکھوں میں رسالت مآبؐ کے زمانے کی تصویریں پھرنے لگیں سر چکرا گیا۔ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ہجوم کو رینگتا ہوا کسی طرح اسیروں کے قریب پہنچا اور اس ہنگامہ میں جو ممکن تھا خدمت بجالایا یہاں تک کہ یہ قافلہ جامع مسجد کے قریب پہنچ گیا۔ اور یہاں لاکر سب قیدی کھڑے کردے گئے یکایک ایک بوڑھا علی بن الحسین کے قریب آیا اور کہنے لگا خدا کا شکر ہے کہ تمہارے بزرگ مارے گئے شہروں کو ان کے مظالم کے نجات ملی فتنہ وفساد کی شاخ کٹ گئی اور یزید تم لوگوں پر غالب آیا۔ امام نے بوڑھے کی بات سن کر پوچھا اے شیخ تو نے قرآن پاک پڑھا ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں ضرور پڑھا ہے۔
فرمایا’’ قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربی‘‘ٰ
(اے محمد کہہ دے کہ میں تم سے رسالت کا اجر سوائے اس کے نہیں مانگتا کہ میرے قرابتداروں سے محبت رکھو)
ضرور تیری نظر سے گزرا ہوگا بوڑھے نے جواب دیا کہ بے شک گزرا ہے امام نے فرمایا تو یقین کرو کہ وہ قرابت دار رسول ہم ہی ہیں اور ہماری شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر فرمایا اے شیخ تو نے آیہ’’ اٰت ذی القربی حقہ‘‘ (اے محمد ذوی القربیٰ کو ان کا حق ادا کرو) بھی پڑھی ہوگی۔ اس نے کہا ہاں یہ آیت بھی پڑھی ہے۔ پھر فرمایا اور تو یہ آیت پڑھی ہے جس میں مسلمانوں سے خطاب کیا گیا ہے
’’واعلموا انما غنمتم من شئ فللہ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ‘‘
یعنی اے مسلمانوں اچھیً طرح جان لو کہ تمہیں جو کچھ مال غنیمت ملے اس کا پانچواں حصہ اللہ رسول اور ذوی القربیٰ کے دے دو۔
جواب دیا ہاں میں نے یہ آیت بھی پڑھی ہے۔ علی بن الحسین نے فرمایا وہ ذوی القربیٰ بھی ہم ہی ہیں جنمیں اللہ نے اپنے رسول کے ساتھ خمس کے حق میں شریک قرار دیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کیا تو نے آیہ تطہیر بھی پڑھی ہے شامی نے کہا جی ہاں میں نے یہ آیہ تطہیر بھی پڑھی ہے۔
فرمایا وہ اہلبیت جن کی طہارت پر خدائے تعالی نے یہ سند نازل فرمائی ہے ہم ہی ہیں۔ بوڑھا یہ سن کر رو دیا اور اپنے جسارت پر شرمندہ ہوا اور عمامہ سر سے پھینک کر آسمان کی طرف منہ بلند کیا اور بارگاہ رب العزت میں رو رو کر کہنے لگا الہی میں دشمنان آل محمد سے بیزار ہوں میری توبہ قبول کر۔ ابھی علی ابن الحسین اسی مقام پر کھڑے تھے کہ اتنے میں طلحہ کا بیٹا ابراہیم آپ کی خدمت میں پہنچا اور کہنے لگا علی بن الحسین خدا کا شکر ہے کہ تم مغلوب ہوئے۔ امام نے فرمایا’’ اے طلحہ کے فرزند اگر اس امر کو جاننا چاہتا ہے کہ کون مغلوب ہوا تو نماز کے وقت اذان و اقامت اور پھر اشہد ان محمد رسول اللہ سن کر فیصلہ کر لینا کہ محمدؐ کی اولاد مغلوب ہوئی یا دوسروں کی‘‘

علی ابن الحسین ؑ دربار یزید میں
امیر معاویہ وہ محل قصر خضرا جسے اس نے لاکھوں اشرفیاں خرچ کر کے بنوایا تھا اور اس کی تعمیر کے بعد حضرت ابوذر غفاریؓ نے امیر معاویہ کی فضول خرچی اور عیش پسندی پر سخت اعتراض کیا تھا اور انہی اعتراضات کی پاداش میں امیر معاویہ کی شکایت پر انہیں ربذہ میں جلا وطن میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ جہاں بے کسی کے عالم انہوں نے رحلت کی تھی۔ اسیران اہل بیتؑ کا قافلہ جامع مسجد دمشق سے چل کر اس محل کے پاس لایا گیا اور وہاں دیر تک ٹھہرایا گیا۔
ارباب مقاتل کے بیان کے مطابق خود امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں کہ جس طرح گوسفند کی گردن میں رسی باندھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح ہم اسیران اہل بیتؑ کی گردنیں ایک ریسمان میں باندھ کر ہمیں دربار یزید میں لے گئے۔ اس وقت یزید بڑی شان و شوکت کے ساتھ مسند شاہی پر فاتحانہ انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ کرسیوں پر شرفاء و امراء تھے ہمارے داخل ہوتے ہی ایک شخص نے پکار کر کہا فاجران لئیم! امیر المؤمنین یزید کے سامنے حاضر کئے جارہے ہیں۔ امام فرماتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے بھی ضعف و نقاہت کے باوجود گرج کر فرمایا کہ فاجر اور لئیم وہ ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ کے احکام کی اہانت کا مرتکب ہو۔ اس وقت یزید کے سامنے ساغر و مینا اور دوسرے سرود و ساز کا سامان رکھا ہوا تھا۔ امام کے یہ کلمات تیر کی طرح دلوں میں پیوست ہوگئے ہوں گے مگر زبان سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اتنے میں یزید کے سامنے ایک سنہری طشت میں امام حسینؑ کا سر پیش کیا گیا تو یزید نے بڑے فخر و ناز کے ساتھ چند اشعار پڑھے۔ جنکا خلاصہ یہ ہے۔
کاش میرے بزرگ جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے آج زندہ ہوتے تو مجھے داد دیتے۔
میں نے بني ہاشم کے سرداروں کو قتل کیا۔ بے شک میں عتبہ کی نامور نسل سے ہوں۔
’’سچ یہ ہے کہ بني ہاشم (محمد ؐ) نے سلطنت کا کھیل کھیلا تھا ورنہ کیسی وحی اور کہاں کے فرشتے‘‘۔
طبقات ابن سعد اور مروج الذہب کا بیان ہے کہ اس کے بعد سر مبارک کے ساتھ یزید نے بھی بے ادبی کی جس مرتکب ابن زیاد ہوا تھا۔ یزید کے ہاتھ میں اس وقت خیزراں کی ایک چھڑی تھی۔ اس وقت دربار میں ابو برزہ اسلمی صحابی رسول ؐ موجود تھے۔ وہ یزید کی جرأت دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور بولے کہ اے نامراد اپنی چھڑی ان لب مبارک سے جلد ہٹا۔ خدا کی قسم میں نے رسولؐ کو لب حسین پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یزید نے غصے میں آکر حکم دیا کہ اس کو کھینچ کر دربار سے نکال باہر کیا جائے۔ چنانچہ اسی وقت اس فرعونی حکم کی تعمیل کی گئی۔ خواص الائمہ میں ابن ابی الدنیا نے حسن بصری کے حوالے سے یہی واقعہ نقل کیا ہے۔ بعض تاریخوں میں یہ واقعہ سمرہ بن جندب صحابی رسول ؐ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے احتجاج پر یزید نے کہا اے اگر مجھے تمہارے صحابی ہونے کا پاس نہ ہوتا تو میں تمہیں ضرور قتل کرا دیتا۔ سمرہ نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ رسولؐ کے صحابی کا یہ پاس اور نواسے سے یہ سلوک۔

علی ابن الحسین ؑ کا یزید سے مکالمہ
یذید امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا جو پابہ زنجیر اس کے سامنے کھڑے تھے۔ یذید نے بڑے متکبرانہ لہجے میں کہا’’ تم نے دیکھا یہ کیا ہو گیا؟ یہ سب اس بات کا نتیجہ ہے کہ تمہارے باپ نے قطع رحم کیا اور خلافت کے بارے میں میری مخالفت کی‘‘ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کے جواب میں حسب ذیل آیت کی پڑھی۔ ما اصحاب من مصیبۃ فی الارض و لا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل الخ یعنی’’ جتنی مصبتیں نازل ہوئی ہیں وہ سب ہم نے لوح محفوظ میں لکھ دی ہیں قبل اس کے کہ تمہیں پیدا کریں۔ تاکہ جو کچھ تمہیں نہیں مل سکا اس پر آزردہ نہ ہو اور جو چیز تمہیں مل گئی ہے اس پر خوشیاں نہ مناو‘‘ اس آیت کی تلاوت فرمانے کے بعد امام نے کہا اے یذید ہم ہی ہیں جنہوں نے اس آیت پر عمل کیا ہے اور ہر حال میں قضائے الہی پر راضی اور خوشنود رہے ہیں نہ کھبی فوت ہونے والی شے کا غم کیا ہے اور نہ کھبی ہاتھ میں آئی دولت پر مسرور ہوئے ہیں۔ یذید نے اپنے بیٹے خالد نے کہا کہ جواب دو۔ مگر وہ ہونٹ چاٹ کر رہ گیا۔

یہودی اور نصرانی علی ابن الحسین ؑ کی حمایت میں
دربار یذید میں اسیران اہلبیت کی تحقیر کے خیال سے جو تماشائی بلوائے گئے تھے ان میں ایک یہودی بھی شامل تھا ۔ اس نے علی بن الحسینؑ کو جن کے چہرے سے زہد و تقوی کا نور جھلک رہا تھا اسیروں کی شکل میں دیکھ کر یذید سے پوچھا کہ نورجوان کون ہے؟ یذید نے کہا علی ابن الحسینؑ
یہودی نے دریافت کیا حسین ؑ کون ہے؟ یذید نے جواب دیا علی ابن ابی طالب کا بیٹا اور محمد بن عبد اللہ کا نواسہ۔
یہودی نے حیرت سے کہا کیا یہ حسینؑ جس کو تم نے شہید کیا ہے وہی ہے جو تمہارے نبی کا بیٹا کا نواسہ تھا۔ یذید نے یہ سن کر خاموش ہو گیا یہودی نے کہا افسوس ہے کہ تم نے حسینؑ کو شہید کرتے وقت اپنے پیغمبر اکرمؐ کے رشتے کا کچھ پاس و لحاظ نہ کیا۔ قسم خدا کی اگر موسی ؑ کا نواسہ ہمارے درمیان ہوتا تو یہود اس کی پرستش کرتے۔ تمہارا پیغمبر ابھی کل کی بات ہے تم سے رخصت ہوا ہے اور تم اس کی اولاد کے ساتھن یہ سلوک کر رہے ہو تم بدترین امت ہو۔ یذید اس یہودی کی حق گوئی پر سخت برہم ہوا اور حکم دے دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے یہودی نے کہا تم مجھے مار دویا چھوڑو مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہوں گا توریت میں لکھا ہے کہ جو شخص پیغمبر اکرمؐ کی عزت پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ دنیا میں بھی مردود ہے اور آخرت میں بھی۔
بالکل اسی نوعیت کا واقعہ بازطینی سلطنت(رومن امپائر) کے سفیر کے ساتھ پیش آیا جو دربار یذید میں اس وقت موجودڈ تھا اس نے علی بن الحسین ؑ کی نورانی صورت میں علم حلم و صبر وتحمل کے ان آثار کا مطالعہ کر کے جو اولیاء اللہ کے علاوہ دوسروں میں نہیں پائے جاتے یذید سے حقیقت احوال دریافت کی اور کہا’’ تم کیسے مسلمان ہو کہ اپنے نبی کے نواسے کے فزند اور ان کی بال بچوں کے ساتھن ایسا ناروا سلوک کر رہے ہو جو کفار کے ساتھ بھی کیا جاتا خدا کی قسم جافر میں خر موسی ؑ کی ایک یادگار ہے ہم عیسائی ہر سال وہاں جا کر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور مراسمِ احترام م بجا لاتے ہیں۔ اے اہل شام بخدا تم ہلاک ہو گئے یہ کہ کر وہ سفیر یکایک اٹھ کھڑا ہوا اور تنفر او ر تحقیر کے ساتھ درباریوں کو دیکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا ایک اور یہودی نے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا’’ میرے اور حضرت داؤد علیہ السلام کے درمیان ستر پشتوں کا فاصلہ ہے مگر اب تک کل یہودی میرا احترام کرتے ہیں مگر تم اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ ایسا برتاو کر رہے ہو اور اس پر نازاں ہو۔ تم قیامت کے دن اپنے رسول ؐ کو کیا منہ دکھاو گے۔ یہ اقعہ اس خلکان نے اپنی تصنیف میں بڑی تفصیل کے ساتھ درج کیا ہے۔

علی ابن الحسین ؑ زندان شام میں
سید سجاد ؑ اور ان کی ماں بہنوں کو سر دربار مجمع عام میں بلوانے اور بخیال خود رسوا کرنے کے بعد یذید نے حکم دیا کہ انہیں اس مجلس( قید خانہ) میں پہنچا دیاجائے ۔ جو مسجد شام کی پشت پر واقع ہے۔ یہ ایسا تکلیف دہ مکان تھا جس میں گرمی سردی سے مطلق پناہ نہ تھی اور قیامت تنگ و تاریک اور بوسیدہ تھا۔ ابتداء میں اسیران آل محمد ؐ کے ساتھ خورد و نوش سے مکمل بے توجہی برتی گئی۔ کئی کئی وقت بھوکے میں گزر جاتے تھے۔ یہاں تک کہ بچے بھوک و پیاس سے دم توڑنے لگتے علی ابن الحسینؑ کا بیان ہے کہ ایک روز انہوں نے جناب زینب کو دیکھا کہ ہانڈی چولہے پر چڑھائے اس طرح بیٹھی ہیں جئسے آگ روشن کرنے کا عزم ہے۔ آپؑ نے پوچھا کہ پھوپھی اماں یہ کیا حال ہے؟ بولیں کہ بچے بھوک کی شدت سے بے تاب ہو گئے تھے یہ انہیں بہلانے کا سامان کر رہی ہوں۔ کچھ عرصہ تک اسیران اہل بیت اس خراب و خستہ مکان میں مقید رہے۔ اس کے بعد یزید کی چہیتی بی بی ہندہ بنت عبد اللہ نے اپنے محل ہی میں ایک مکان ان قیدیوں کے لئے خالی کر دیا۔ یہاں اہل بیت کر راحت نصیب ہوئی اور آب و غذا کی بھی خیر خبر لی جانے لگی۔
زندان شام سے علی بن الحسینؑ کی رہائی
جب یزید کو یہ احساس ہو گیا کہ اب وہ سید سجاد اور اسیران اہل بیت کی رہائی کے بغیر بغاوت کے طوفان کو نہیں روک سکتا۔ ایک رات جب کہ گھر کے باقی سب افراد سوئے ہوئے تھے تو اپنے بستر سے اٹھا اور ایک کمرے میں دیوار کی طرف منہ کر کے زانو پر سر رکھ کر بیٹھ گیا اور کچھ سوچنے لگا۔ اسی اثناء میں اس کی بیوی ہندہ بن عبد اللہ ایک ڈراؤنہ خواب دیکھ کر گھبرا کر اٹھ بیٹھی اور یزید کے پاس گئی کہ اس کو اٹھا کر اپنا خواب بیان کرے اسے کمرے میں نہ پا کر ادھر اُدھر تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ حجرے میں دیور کی جانب منہ کئے بیٹھا ہے اور اپنے آپ سے کچھ کہہ رہا ہے کہ ’’نہیں مجھے حسین سے کیا واسطہ‘‘ ہندہ آگے بڑھی اور اسے جھنجوڑ کر کہا کر یہاں کیوں بیٹھے ہو اٹھو اور بستر پر چلو میں نے ایک نہایت ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔ جس کے خوف سے میرا دل تھر تھر کانپ رہا ہے۔ یزید نے اس کی جانب دیکھا اور خواب کے بارے میں پوچھا ہندہ نے کہا میں میٹھی نیند سو رہی تھیکہ کیا دیکھتی ہوں کہ آسمان سے فرشتے اترتے چلے آرہے ہیں اور میرے گھر میں جمع ہو رہے ہیں۔ اتنے میں سفید بادل آسمان سے جس سے چیختے ہوئے چند نورانی بزرگ ہمارے گھر کی طرف بڑھے اور روتے ہوئے اس حجرے کے قریب آپہنچے جس میں علی ابن الحسینؑ اور اہل بیت عصمت و طہارت مقیم ہیں ان میں سے ایک بزرگ نے غمگین آواز میں کہا میرے لال افسوس ہے کہ میری امت نے تیرا احسان بھلا دیا اور تجھے بھوکا و پیاسا فرات کے کنارے شہید کردیا میں تیرا نانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں۔ یہ تریا باپ علی المرتضیٰ اور تیرے بھائی حسن مجتبیٰؑ ہیں ہندہ نے کہا کہ ان بزرگ کے یہ کلمات سن کر میں خواب میں اتنا روئی کی سانس بند ہوگئی آنکھ کھول کر دیکھا تو ارد گرد کوئی نظر نہ آیا۔ اس وقت سے مسلسل میرا دل کانپ رہا ہے۔ یزید خدا کیلئے ان اسیروں پر رحم کرو۔ ہندہ کہتی ہے کہ میری التجا سن کر یزید نے سر جھکا لیا اور بولا ٹھیک ہے صبح ہونے دو۔ یہ واقعہ جلاء العیون بحارالانوار اور دیگر کتب مقاتل سے نقل کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے صبح ہوتے ہی امام زین العابدینؑ کو بلوایا اور کہا کہ علی ابن الحسین میں تمہیں رہا کرتا ہوں کوئی آرزو ہوتو بیان کیجئے۔
یہ سن کر امام کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور فرمایا میرے دل میں کسی چیز کی تمنا نہیں ہے۔ لیکن اتنی خواہش ضرور ہے کہ بزرگوں کے تبرکات جو تیرے لشکر نے میدان کربلا میں لوٹ لئے تھے مجھے واپس کردے۔
یزید نے کہا کہ علی ابن الحسینؑ اگر آپؑ شام میں قیام کرنا پسند کریں تو یہاں آپؑ کیلئے انتظام کیا جائے گا اگر آپؑ مدینہ جانا چاہیں تو اس کا بندوبست کیا جائے۔ امام زین العابدینؑ نے جناب زینب علیہ السلام کے مشورے سے جواب دیا۔ ہمارے لئے مدینہ جان ہی بہتر ہے۔
یزید نے تمام تبرکات جو افواج نے کربلا میں لوٹ لئے تھے واپس کردئے۔ بعض مؤرخیب کے بیان کے مطابق سید سجاد نے اپنے پدر بزرگوار کا سرمبارک بھی تبرکات کے ساتھ یزید سے طلب فرمایا تھا وہ بھی یزید نے آپؑ کے حوالے کردیا۔ تاریخ الخمیز اور دوسری کتابوں میں لکھا ہے کہ یزید نے امام سے اپنے مظالم کی معافی چاہی جس کو سن کر سید سجاد نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ بعض مؤرخین نے رہاءئ اہل بیتؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یزید نے اس موقع پر اپنے گناہ سے توبہ کرلی تھی۔ یہی سبب تھا کہ یزید امام ؑ اور اہل حرم کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا۔ لیکن ہمارے خیال میں مؤرخین کی رائے صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر یزید اس وقت توبہ کرچکا ہوتا تو اس کے دوہی سال بعد ۲۷‘۲۸؍ذی الحجہ 63ھ بہ مطابق 17‘ 18 ؍ اگست 583ء کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے‘ اصحاب رسول اور محبان اہل بیتؑ کے قتل عام کا مرتکب نہ ہوتا اور اس کے فوراً بعد بیت اللہ کی بے حرمتی کیلئے قدم نہ اٹھاتا۔

امام زین العباد ؑ ہمیشہ شہدائے کربلا کی یاد میں روتے رہے
ابن قولویہ و ابن شہر آشوب وغیرہ نے حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ابن الحسین ؑ نے اپنے پدر بزرگوار اور باقی شہداء پر تیس سال و بروایتے دیگر چالیس سال گریہ کیا اور جس وقت کھانا حضرت کے سامنے حاضر کئے جاتے تھے تو حضرت گریہ فرماتے تھے۔ جب پانی آپؑ کے واسطے لاتے تو حضرت اس قدر روتے تھے کہ اس برتن کا پانی آنسو سے دوگنا ہو جا تا تھا۔ آپؑ کے ایک غلام نے عرض کیا کہ میں آپؑ پر قربان جاؤں۔ یابن رسول اللہؐ میں ڈرتاہوں کہ آپؑ اپنے آپ کا ہلاک کر ڈالیں گے۔
حضرت نے فرمایا ! میں اپنے درد و الم کی شکایت صرف خدا سے کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ خدا کی جانب وہ سب جو تم نہیں جانتے۔ پھر فرمایا کہ میں فرندان فاطمہ ؑ کا قتل ہونا کسی وقت خیال میں نہیں لاتا مگر یہ کہ گریہ میرے گلو گیر ہو جاتا ہے۔
دوسری روایت کے مطابق فرمایا کہ کیونکر میں گریہ نہ کروں حالانکہ میرے پدر بزرگوار کو اس پانی سے منع کیا جسے وحشی اور چرند پرند سب پیتے تھے۔ مگر شہدائے کربلا کو پیاسا شہید کئے گئے۔
ابن شہر آشوب وغیرہ نے روایت کی ہے کہ غلاموں میں ایک نے آپؑ سے شدت گریہ کی وجہ سے عرض کیا کہ مولا! آپؑ کا گریہ کب ختم ہو گا؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ وائے ہو تم پر حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ ایک بیٹا ان میں سے غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں سفید ہو گئیں۔ اور یوسف ؑ کے فراق میں کمر خم ہو گئی۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا فرزند زندہ ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ میرے پدر و برادر و چچا اور سترہ نفر میرے عزیزوں میں سے میرے سامنے شہید ہوئے۔ اور ان کا سر بدن سے جدا بھی کیا گیا تو بتاؤ میرا غم و اندوہ کسی طرح تمام ہو۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ امام سجادؑ فرزندان عقیل پر بہت گریہ فرماتے تھے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی یا ابن رسول اللہؐ آپؑ فرزندان جعفرؑ سے زیادہ فرزندان عقیل پر زیادہ کیوں روتے ہیں؟ فرمایا کہ مجھے وہ وقت یاد آتا ہے جب انہیں ان کے پدر سمیت بے کسی کی حالت میں شہید کئے گئے اور یہ خبر کربلا جانے والے قافلہ تک پہنچی۔

خطبات امام ؑ
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپؑ کے اہل حرم کو قیدی بنا کر کوفہ وشام ک کوچہ وبازار میں پھرایا جانا امام کے لئے ایک جانکاہ صدمہ تھا۔ اگرچہ ظالم یہ خیال کر رہے تھے کہ اس کام سے ان کو کچھ اور عزت مل جائے گا۔ لیکن اہلبیتؑ رسولؐ نے اس قید کی حالت میں جبکہ ہاتھ اورپیر ظلم کی رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے پھر بھی اپنی زبانوں سے امام حسینؑ کے مقصد ومشن کو ہر ایک کے کانوں تک پہنچا دیا اور اس سلسلے میں باریک سے باریک مواقع سے استفادہ کیا۔ اور اہل حرم کی حق وصداقت میں ڈوبی ہوئی تقریریں تھیں کہ جس نے مقصد حسینی ؑ کو اجاگر کردیا۔ اگر اہل حرم نہ ہوتے تو پیغام حسینیؑ کربلا کی خاک میں دفن ہوکر زرہ جاتا۔ حسینی آواز دوسروں کے کانوں تک نہ پہنچتی۔ یزید لعین کا ظلم وجور اور فرعونی کردار لوگوں کے سامنے کھل کر نہ آجاتا۔
اکثر لوگ یہی خیال کررہے تھے خصوصاً بنی امیہ اور من کے ساتھی یہی خواب دیکھ رہے تھے اگر اہل حرم کو اسیر کر لیا گیا اور ان کے ہاتھ پیر کو رسی میں جکڑ دیا گیا اور ان کا مال واسباب لوٹ لیا گیا اور ان کے خیموں کو تاراج کر دیا گیا تو اس وقت ان کی شکست اور ہماری فتح وکامیابی یقینی ہوجائے گی۔ یکن بنی امیہ ابھی یہ خواب دیکھ ہی رہے تھے کہ اسیروں نے اسی اسیری کی حالت میں ببانگ دہل اپنی فتح اور ظالم کی شکست کا اعلان کردیا۔ ہر مقام پر اپنے کو فاتح’ کامیاب اور یزید کو شکست خوردہ اور مغلوب بتاتے تھے۔ ہر جگہ یہی اعلان تھا۔ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ فتح ہمیشہ حق وصداقت کی ہے اور ظلم وجور کے حصے میں شکست ذلت‘ رسوائی‘ گمراہی‘ اور ضلالت ہے۔ حسینی پیغام کی تبلیغ یوں تو ہر بچہ بچہ کر رہا تھا لیکن ان میں جناب زبنبؑ شریکۃ الحسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام کا کردار سب سے نمایاں نظر آتا ہے اگرچہ امام حسین کی شہادت کے وقت آپکے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بیمار تھے۔ اس کے علاوہ عزیز واقارب اور دوستوں کی شہادت کی وجہ سے آسمان زندگی پر غم کے بادل چھا چکے تھے لیکن یہ تمام چیزوں تبلیغ کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں اور نہ تو کمزوری لاغری اور نہ غم واندوہ ہی مانع بن سکے۔ بلکہ امام کی تھر تھراتی ہوئی آواز غم میں ڈوبی ہوئی صدا اور زیادہ موثر ثابت ہوئی۔ جب کوفہ کے چھلکتے ہوئے بازار میں جناب زینبؑ اور ام کلثوم اور فاطمہ کبریٰ کے خطبوں سے اہل کوفہ شرم کے مارے گردنیں جھکائے ہوئے زار وقطار آنسو بہا رہے تھے اسی وقت امام نے فرمایا ذرا خاموش جاؤ۔ امام کا اشارہ پاتے ہی سارے مجمع پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا اور ہمہ تن گوش ہو کر امام کی طرف متوجہ ہوگئے امام نے حمد وثنا اور آنحضرت پر درود وسلام کے بعد فرمایا۔ اے لوگو! تم میں سے جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا ہے وہ سن لے میں علی ہوں میں حسین ابن علی ابن ابی طالب کا نور نظر ہوں میں اس کا فرزند ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نامکمل ہے

دربار یزید میں خطبہ امام سجادؑ
ایک دن یزید نے شام کی جامع مسجد میں ایک خطیب کو حکم دیا کہ منبر پر جاکر امیر المومنین اور امام حسن وحسین علیہما السلام کو برا بھلا کہو حکم پاتے ہی خطیب منبر پر گیا اور جاتے ہی گالیاں دینی شروع کردیں۔ اور یزید ومعاویہ کی تعریف میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے بآواز بلند خطیب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا وائے ہو تجھ پر کہ تو نے مخلوق کی خوشنودی کے خاطر خالق اکبر کو ناراض کیا اور جہنم کا مستحق بنا۔ اس کے بعد یزید کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا مجھے ان لکڑیوں (منبر) پر جانے دے تاکہ وہ بات کہوں کہ جس سے خدا خوشنود ہو۔ اور سننے والوں کو بھی ثواب ملے۔ یزید نے قبول نہ کیا لوگوں نے اصرار کرنا شروع کردیا یزید نے چلا کر کہا اگر ی منبر پر آگئے تو میری اور خاندان ابو سفیان کی ذلت ورسوائی ہو کر رہے گی۔ لوگوں نے کہا آخر اس حالت میں یہ کہہ کیا سکتا ہے؟ یزید نے جواب دیا یہ اس خاندان کا فرد ہے جن کی گھٹی میں علم ودانش گھول کر پلایا گیا ہے۔
لوگوں کا اصرار اور بڑھا آخر کار یزید کو مجبوراًٰ قبول ہی کرنا پڑا امامؑ منبر پر تشریف لائے حمد خدا اور پیامبر اسلام پر درود بھیجنے کے بعد یوں فرمایا۔
ایھا الناس! ہمیں چھ صفتیں عطا کی گئی ہیں اور ہمیں سات باتوں کے ذریعہ فضیلت دی گئی ہے۔
ہماری صفتیں علم ‘ حلم‘ سخاوت‘ فصاحت‘ شجاعت اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے اور ہمارے اسباب فضیلت یہ ہیں کہ رسول اکرمؐ ہم میں سے ہیں صدیق (علی)ؑ طیار (جعفر) اسد اللہ (حمزہ) سیدۃ نساء العالمین (فاطمہؑ ) سبطین امت وسیدا شباب اہل الجنۃ (حسنینؑ ) ہمارے ہی بزرگ ہیں۔ جس نے مجھے پہچان لیا اس نے پہچان لیا اور جس نے نہیں پہچانا اس سے اپنا تعارف کرا رہا ہوں۔
میں مکہ ومنیٰ کا فرزند ہوں میں زمزم وصفاء کا لال ہوں‘ میں اس کا فرزند ہوں جس نے روا میں زکوٰۃ کو اٹھا کر غریبوں تک پہونچایا ہے۔ میں بہترین لباس وروا والے کا فرزند ہوں میں بہترین زمین پر قدم رکھنے والا کا لال ہوں۔ میں بہترین طواف وسعی کرنے والے اور بہترین حج وتلبیہ ادا کرنے والے کا لال ہوں میں اس کا فرزند ہوں جیسے براق پر سوار کیا گیا‘ میں اس کا لال ہوں جسے راتوں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور کیا بے نیاز اور پاکیزہ صفات والا ہے وہ لے جانے والا میں اس کا لال ہوں جسے جبریل سدرہ المنتہیٰ تک اپنے ساتھ اے گئے میں اس کا فرزند ہوں جس نے تقریب کی تمام منزلیں طے کرکے اپنے کو دو کمانوں کے فاصلہ تک پہونچا دیا‘ میں اس کا لال ہوں جس نے ملائکہ کے ساتھ نماز ادا کی‘ میں اس کا فرزند ہوں جس نے رب جلیل نے وحی کے ذریعہ راز کی باتیں کیں۔ میں محمد مصطفےٰ کا لال ہوں میں علی مرتضیٰ کا فرزند ہوں میں اس کا لال ہوں جس نے کفار کی ناک رگڑ دی یہاں تک کہ کلمہ پڑھ لیا۔ میں اس کا وارث ہوں جس نے رسول اکرمؐ کے سامنے دو تلواروں سے جنگ کی دو نیزوں سے نیزہ بازی کی‘ دو ۔قبیلوں کی طرف نماز پڑھی دو بیعتوں میں حصہ لیا اور دو ہجرتیں کیں جس نے بدر وحنین کی معرکہ سرکی اور ایک لمحہ برابر شرک نہیں کیا۔ میں صالح المومنین کا فرزند ہوں میں وارث النبیین‘قاتل الملحدین‘ یعسوب المسلمین‘ نور المجاہدین‘ زین العابدین‘ اصبر الصابرین’ افضل القائمین‘ من آل یاسین و رسول رب العالمین کا فرزند ہوں۔ میں اس کا لال ہوں جس کی جبریل کے ذریعہ تائید اور میکائیل کے ذریعہ مدد کی گئی۔ میں حرم مسلمین کے محافظ کا لال ہوں۔
میں بیعت شکن منحرف اور دین سے نکل جانے والوں سے جہاد کرنے والے نواصب سے جنگ کرنے والے اور تمام قریش میں سب سے زیادہ بلند ترانسان کا وارث ہوں‘ میں اس کا فرزند ہوں جس نے سب سے پہلے دعوت الہیٰ پر لبیک کہا سب سے پہلے صاحب ایمان تھے‘ ظالموں کی کمر توڑنے والے مشرکین کو ہلاک کرنے والے دشمنوں کی صفوں کو برہم کردینے والے‘ سب سے زیادہ مطمئن القلب‘ سب سے زیادہ صاحب اختیار‘ سب سے زیادہ فصیح وبلیغ‘ سب سے زیادہ صاحب عزم وعزیمت‘ سب سے زیادہ صاحب حوصلہ وہمت‘ سب سے زیادہ شجاع‘ باران رحمت‘ میدان جنگ میں نیزوں کی باہمی آویزیش اور گھوڑوں کی باہمی تک ودو میں ظالموں کو پیس ڈالنے والے اور انہیں ذرات کی طرح ہوا میں اڑا دینے والے حجاز کے شیر‘ صاحب اعجاز‘ عرب وعراق کے سردار‘ بیعت شجرہ وہجرت کے مجاہد‘ میدان جنگ کے شیر‘ حسنین کے والد‘ مظہر عجائب وغرائب‘ شہاب ثاقب‘ اسد اللہ الغالب‘ مطلوب کل طالب‘ تھے۔ یعنی میرے جد علی بن ابی طالب جدہ فاطمہ زہراؑ سیدۃ النساء طاہرہ بتول بضعۃ الرسول کافرزند ہوں اس کے بعد مصائب کربلا کا ذکر کرکے دربار میں انقلاب برپا کردیا اور گویا ظالم کے دربار میں فضائل ومصائب پر مشتمل ایک مکمل تقریر کردی۔
لوگ حیرت ذدہ ہو کر امامؑ کو دیکھ رہے تھے۔ امام کا ایک ایک جملہ خاندان ہاشمی کی عضمت کو اجاگر اور شہادت حسینی کے مقصد کی اشاعت اور وضاحت کررہا تھا۔ یہاں تک کہ کاسۂ چشم اشکوں سے لبریز ہوگیا۔ اور لوگوں کی ہچکیاں بندھنے لگیں۔ اور ہر طرفسے آہ وبکا گریہ وزاری کی صدائیں بلند تھیں یہ دیکھ کر یزید کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے جلدی سے مؤذن کوحکم دیا کہ گلدستہ پر جاکر آذان کہے موذن گلدستہ پر جاکر کہا اللہ اکبر۔
امامؑ نے فرمایا کہ بے شک اللہ بزرگ و برتر عظیم و جلیل ہے۔ ہر اس شئے سے جس سے ڈرا جائے۔
اشہد أن لا الہ الا اللّہ
امام نے فرمایا کہ میں تمام گواہی دینے والوں کے ساتھ گراہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ اور کوئی معبود
اشہد أن محمد رسول اللّہ۔
لوگ شرم کے مارے سر جھکائے ہوئے تھے اور کان لگائے ہوئے امامؑ کے جواب کو غورسے سن رہے تھے لیکن آنحضرتؑ کا اسم مبارک آتے ہی لوگوں نگاہیں امام کے چہر�ۂ اقدس پر جم گئیں۔ آنسوؤں کی کثرت کی بناء پر ایک پردہ سا آنکھوں پر چھا گیا تھا۔ گویا لوگ امامؑ کے چہرۂ اقدس میں آنحضرت کی تصویر ڈھونڈ رہے تھے۔ امامؑ نے عمامۂ مبارک سر اترا اور مؤذن کی طرف اشارہ کرکے ارشاد فرمایا کہ مؤذن بخدا ذرا رک جا۔ مؤذن اکاموش ہوگیا سارے مجمع پر ایک خاموشی چھا گئی۔ یزید کے چہرے ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ایک رنگ آتا تھا اور ایک رنگ جاتا تھا کہ آذان بھی اس کے مقصد کو پورا نہ کر سکی۔ امامؑ نے یزید کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد فرمایا۔
یزید ذرا یہ بتا لپ رسول خداؐ تیرے جد ہیں یامیرے۔ اگر یہ کہے کہ تیرے جد ہیں تو یہ سارا یہ بتا مجمع تیرے جھوٹ کی گواہی دے گا۔ اور اگرہ یہ کہے کہ میرے جد ہیں تو پھر یہ بتا کہ تو نے میرے بابا کی کیوں قتل کیا۔ ان کے مال و اسباب کو کیوں لوٹا۔ ان کے گھر کو کیوں تاراج کیا۔ ان کے اہل حرم کو کیوں اسیر کیا۔
یزید تو ان تمام کاموں کے باوجود حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کو خدا کو رسول جانتا ہے اور قبلہ رخ ہو کر نماز بجالاتا ہے تو قیامت کے دن میرے جد اور میرے باپ کو کیا منہ دکھائے گا۔
یزید نے مؤذن کو اقامت کا حکم دیا۔ یہ حکم سنتے ہی مجمع پھر گیا اور غصے کے مارے کچھ لوگ بغیر نماز پ؟رھیت مسجد سے چلے گئے۔ صفحات تاریخ آج بھی اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت امام سجادؑ اور اہل بیت ؑ عصمت و طہارت کے خطبوں کے اثرات کہاں تک پہنچے اور کس حد تک مقصد حسینیؑ لوگوں کے دلوں میں جگہ پیدا کر چکا تھا۔
اور وہ ضمیر جن پر اموی سیاست‘ مصلحت وقت اور تخت و تاج کے خاطر جہالت کے پردے ڈال دئے گئے تھے اور لوگوں کے غور و فکر کی صلاحیت چھین کی گئی تھی۔ امامؑ کے خطبوں نے ان میں انقلاب پیدا کر دیا۔ اور ہر ضمیر خفتہ کو حقائق کے چھینٹوں شے بیدار کر دیا۔ غور و فکر کی راہیں گولوں کے سامنے واضح طور پر آشکارا کردیں۔ یہی وجہ تھی کہ جس کی بناء پر یزید کو مجبور ہونا پڑا کہ اہل حرم کو جلد از جلد آزاد کر دے اور عزت و احترام کے مدینہ پہنچا دے۔ لیکن حقائق سے بھری تقریریں اپنا اثر قائم کر چکی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ابھی کوئی زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ عراق اور حجاز میں اموی سلطنت کے خلاف علم بلند ہونا شروع ہو گئے اور ہزاروں لوگ امام حسینؑ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے آمادہ ہوگئے۔ ہر مجلس و محفل کی زینت شہادت حسینی کا تذکرہ اور اموی ظلم و تشدد کی تشہیر ہونے لگی۔