رہنما اور رہبر کی ضرورت


تحریر



تحریر: سید اجلال حیدر شگری

پرور دگار لم یزل کا فرمان ہے
:إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ‏
بے شک تمہارا ولی اللہ اور اسکا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جو لوگ نماز قائم کرتے ہے اوررکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے میں۔[آیت مائدہ ۵۵]
یہاں رب تعالیٰ “انما” سے اس آیت کو شروع کرتا ہے جسے اصطلا ح میں کلمہ حصر کہا جاتا ہے ۔ کلمہ حصر تالے کی مانند ہے یعنی جب کسی کمرے کو تالا لگا دیا جائے تو تالا لگنے کے بعد اندر کی چیزیں نہ باہر آ سکتی ہیں نہ باہر کی چیزیں اندر ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اس آیت مبارکہ کے شروع میں کلمہ حصر لاکر لفظ ’ولی‘ کو انہی تین ہستیوں کے ساتھ قید کیا ہے، یعنی ولی کے اس مفہوم میں کوئی داخل ہو سکتا ہے نہ کوئی ان کو نکال سکتا ہے۔
ان تینوں سے مراد کون ہے؟
یہاں پہ” هُمْ راكِعُونَ‏ “کے جملہ میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے۔ یعنی بعض مفسرین نے “واو” کو عاطفہ قرار دیا ہے۔ اس صورت میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ : الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ هُمْ راكِعُونَ۔یعنی جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں۔
لہٰذا آیت کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ نماز اور رکوع الگ چیز ہے۔ جبکہ تمام اہل اسلام اس بات پہ متفق ہیں کہ رکوع نماز کے ارکان میں سے ہے نہ کوئی الگ چیز ۔اور اکثر مفسرین اور صاحبان علم ادب “واو” کو” واوِ حالیہ” قرار دیتے ہیں۔ یعنی واو حالیہ سے مراد کسی چیز کے حال کو بیان کرنا ہے۔ اس آیت کا مفہوم یہ نکلتا ہے : جو لوگ ایمان لائے، جو لوگ نماز قائم کرتے ہے اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں ۔
لہٰذ اس ضمن میں مفسرین نے اس آیت کی شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:
ابوذر غفاری بیان فرماتے ہے : ایک دن میں رسول خدا ؐ کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک سائل مسجد نبوی میں داخل ہوا اور لوگوں سے مدد طلب کی لیکن کسی نے بھی اسے کچھ نہیں دیاتو اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! گواہ رہنا کہ میں نے تیرے رسول کی مسجد میں مدد طلب کی لیکن کسی نے مجھے جواب تک نہیں دیا۔ اسی حالت میں جبکہ حضرت علی ؑ رکوع میں تھے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی سے اشارہ کیا۔ سائل قریب آیا اور انگوٹھی آپ کی انگلی سے اتار لی۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس واقعہ سے باخبر ہوئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو سر مبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور دعا کی:خدا وند میں محمد تیرا رسول ہوں ،میرے سینے کو کھول دے ،میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے اور میرے خاندان میں سے علی ؑ کو میرا وزیر بنا دے تاکہ اس کی وجہ سے میری کمر مضبوط اور قوی ہو جائے۔
ابھی پیغمبر خدا کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ جبرائیل امین علیہ السلام مذکورہ آیت لے کر نازل ہوئے۔
[تفسیر در منثور، جلال الدین سیوطی/ تفسیر نمونہ ناصر مکارم شیرازی]
اس کے علاوہ نوربخشی سلسلہ الذہب کے اہم قطب اور پیر حضرت شیخ علاءالدولہ سمنانی نے رسالہ فتوت میں فرماتے ہیں کہ جب علی علیہ السلام نے رکوع کی حالت میں سائل کو انگوٹھی دی تو یہ آیت ا ن کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔
آیت کی شان نزول اور شیخ علاءالدولہ سمنانی کی بات سے اس آیت کی روشنی میں میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ولی فقط تین ہیں :۱۔خدا ، ۲۔ رسول خداور ۳۔ علی ابن ابی طالب
ولایت کی قسمیں
منطق کی اصطلاح کے مطابق “ولی” کو لفظ مشترک کہلاتا ہے یعنی لفظ ایک ہو اور اس کی کئی معنی ہوں ۔ لیکن یہاں پر آیت کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ولی سرپرست اور آقا کے معنی میں ہیں ۔
ایک جہت سے ولایت کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ تکوینی یعنی اللہ کی طرف سے انجام پانے والے امور ، جس کا اختیار صرف پروردگار کے پاس ہے ۔
۲۔ تشریعی یعنی ایسے امور جو اللہ کے حکم سے ان کے خاص بندے انجام دیتے ہیں ۔
تشریعی کی مزید دو اقسام ہیں :
۱۔ولایت شمسیہ :یعنی وہ اولیاء کرام جن کے نور سے باقی چیزیں بھی روشن ہوتی ہیں ۔یہاں ولایت شمسیہ سے مرادحضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولایت ہے جس کے طفیل میں تمام انبیاء و ائمہ کو ولایت ملی ہے ۔
٢۔ولایت قمریہ :یعنی وہ ولایت جو کسی اور کے نور سے منور ہوتی ہے۔ تمام اولیاء کی ابتدا حضرت امام علی علیہ السلام ہیں ان کے نور سے ولایت اولیاء منور ہوتی ہے ۔
رہبر کی ضرورت
یہ ایک عقلی اور بدیہی بات ہے کہ کسی بھی قوم یا ملت اگر اپنی منزل تک صحیح طریقوں سے جانے کی خواہشمند ہو تو ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنے رہبر اور رہنما کا صحیح انتخاب کرے ۔اب قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ دیکھنا ہو گا کہ صحیح رہبر کون ہے جس کی ہم پیروی کریں تا کہ منزل مقصود تک پہنچ سکیں ،اور اس کی پہچان کیا ہے ؟ خداوند متعال سورہ نساءمیں ارشاد فرماتا ہے : أَطِيعُوا اللَّهَ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي‏ الْأَمْر.[سورہ نساء ، آیت ۵۹] اللہ کی پیروی کرو، رسول کی پیروی اور صاحبان امر کی پیروی کرو۔پس معلوم ہوا سب سے بہترین رہبر اور رہنما خود خدا کی ذات ہے جس کی پیروی سے ہم منزل تک پہنچ سکیں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ خدا کی پیروی کیسے کی جائے تو اس کا بھی جواب خدا دیتا ہے :جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی پیروی کی ہے ۔ لیکن ایک اور سوال رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے بعد کس کی اطاعت کی جائے ؟ تو تواتر کے ساتھ احادیث کی ایک کثیر تعداد تمام عالم اسلام کی کتابوں میں موجود ہیں جن کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ رسول خدا ص کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام کی پیروی اور اطاعت ضروری ہے ۔ یہ احادیث عالم اسلام کی کتب احادیث میں کبھی حدیث سفینہ کے نام سے تو کبھی ثقلین کے نام سے اور کبھی حدیث منزلت کے نام سے موجود ہیں ۔ دوسرے علمائے اسلام کی طرح مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے بزرگان نے بھی اپنی کتابوں میں پیغمبر خدا ص کی ان احادیث کو مختلف طُرق سے نقل کیا ہے یہاں پر بعنوان مثال صرف ایک حدیث نقل کریں گے ۔جیسا کہ مبلغ اسلام حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی رح نے اپنی مایہ ناز کتاب مودۃ القربی میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَرْكَبَ سَفِينَةَ النَّجَاةِ وَ يَسْتَمْسِكَ‏ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ وَ يَعْتَصِمَ‏ بِحَبْلِ‏ اللَّهِ‏ الْمَتِينِ فَلْيُوَالِ عَلِيّاً بَعْدِي وَ لْيُعَادِ عَدُوَّهُ وَ لْيَأْتَمَّ بِالْأَئِمَّةِ الْهُدَاةِ مِنْ وُلْدِهِ فَإِنَّهُمْ خُلَفَائِي وَ أَوْصِيَائِي وَ حُجَجُ اللَّهِ عَلَى الْخَلْقِ بَعْدِي وَ سَادَةُ أُمَّتِي وَ قَادَةُ الْأَتْقِيَاءِ إِلَى الْجَنَّةِ حِزْبُهُمْ حِزْبِي وَ حِزْبِي حِزْبُ اللَّهِ وَ حِزْبُ أَعْدَائِهِمْ حِزْبُ الشَّيْطَانِ.
ترجمہ: جو کوئی چاہے کہ کشتی نجات میں سوار ہو اور عروة الوثقیٰ کو پکڑلے اور اﷲ تعالیٰ کی رسی کو ہاتھ میں تھام لے’ اسے چاہیئے کہ میرے بعد علی علیہ السلام سے دوستی رکھے اور دشمن سے دشمنی رکھے اور پیروی کرے ان ائمہ ہداة علیہم السلام کی جو کہ اس کی اولاد میں سے ہوں گے۔ کیونکہ وہ لوگ (معصومین ) میرے جانشین اور میرے اوصیاء اور میرے بعد مخلوق الٰہی کے لئے حجت خدا ہیں اور میری امت کے سردار اور متقیوں کو جنت کی طرف رہبری کرنے والے ہیں۔ ان کی جماعت میری جماعت ہے اور میری جماعت اﷲ تعالیٰ کی جماعت ہے اور ان کے دشمنوں کی جماعت شیطان کی جماعت ہے۔[مودۃ القربی ، مودت نمبر ۱۰ ، حدیث ۹]
اس حدیث شریفہ میں واضح الفاظ میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علی اور ان کی اولاد ہی میرے جانشین ہیں اور یہی خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں ۔ پس رسول خدا ص کے بعد رہبر الہٰی یعنی خدا کی طرف سے منسوب رہنما علی علیہ السلام اور آل علی ہیں ۔
اسی حدیث کی تائید کرتے ہوئے مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے مجتہد اعظم حضرت میر سید محمد نوربخش نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں :
فلک پیوسته می مالد مرا گوش که در حبّ علی و آل او کوش
ز مشرق تا بمغرب گر امام است علی و آل او مرا تمام است
ترجمہ: آسمان ہر وقت میرا کان کھینچتا ہے کہ علی (علیہ السلام )اورعلی (علیہ السلام )کی اولاد کی محبت میں کوشاں رہو، مشرق سے مغرب تک اگر کوئی امام ہے تو صرف اور صرف علی و آلِ علی ہی میرا امام ہے۔ [رسالہ معراجیہ ]
پس نوربخشی بزرگان کی تعلیمات کی روشنی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دین اسلام کے رہبر و رہنما امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کی نسل سے آنے والے ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں ۔
اماموں کے بعد دین کا رہبر کون
دوسرا اہم سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ خدا کے آخری حجت اور رہبر الہٰی بارہویں امام حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام غیب کے پردے میں تشریف فرما ہیں تو ان کی عدم موجودگی میں رہبر و رہنما کون ہوں گے جو ہمیں صحیح راستہ بتائے ؟ اس سوال کے جواب کے لئے بھی ہمیں نوربخشی بزرگان کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا تا کہ اس مسئلے کو حل کیا جاسکے ۔ یہاں پر اختصار کے خاطر حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی کی کتاب کا حوالہ ہی کافی سمجھتا ہوں ۔ دعوات صوفیہ امامیہ میں سلسلہ ذہب کے پیران طریقت کے ذکر کے بعد کچھ جملے موجود ہیں ان میں سے ایک جملہ انتہائی اہم ہے جو ہمارے اس سوال کےجواب کے لئے کافی ہے ، فرماتے ہیں : لان ائمتنا في الدين . یہی دین میں ہمارے امام و رہبر ہیں ۔ پس اماموں کے بعد خصوصاً امام زمان علیہ السلام کی غیبت کے وقت ہمارے رہنما اور رہبر جو ہمیں امور دین میں رہنمائی کرکے منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ سلسلہ ذہب کے پیران طریقت ہیں ۔
بحث کا نتیجہ
مندرجہ بالا مختصر مطالب بیان کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دین کے اندر ایک رہبر و رہنما کا ہونا ضروری ہے جو ہماری رہنمائی کرکے ہمیں منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں ۔ قرآنی آیات اور احادیث و رویات کی روشنی میں رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہبر الہٰی ہیں ان کے بعد یہ رہبری کی یہ ذمہ داری امامت میں منتقل ہوتی ہے ، بزرگان نوربخشیہ کی کتابوں کے مطابق بعد از رسول خدا ص امام علی علیہ السلام اور ان کی نسل سے آنے والے ائمہ معصومین علیہم السلام ہمارے رہبر و رہنما جبکہ امام زمان علیہ السلام کی غیبت میں جانے کے بعد سلسلہ ذہب کے بزرگان دین ہمارے رہبر و رہنما ہیں جن کی پیروی اور اطاعت ہم سب پر لازم ہیں ۔ خدا ہم سب کو ان کی اتباع کرنے کی توفیق عنایت کرے ۔آمین ۔
منابع
قرآن مجید
۱۔ تفسیر در منثور ، علامہ جلال الدین سیوطی ۔
۲۔ تفسیر نمونہ ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ۔
۳۔ دعوات صوفیہ امامیہ ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، ترجمہ : سید خورشید عالم ۔
۴۔ مودۃ القربی ٰ، امیر کبیر سید علی ہمدانی، ترجمہ : آخوند تقی حسینی۔
۵۔ رسالہ معراجیہ ، شاہ سید محمد نوربخش، ترجمہ : سید بشارت تھگسوی ۔
۶۔ رسالہ فی الفتوۃ ، شیخ علاء الدولہ سمنانی، ترجمہ؛ سید بشارت تھگسوی۔