خاندانی زندگی کے قرآنی اسلوب میں والدین اور اولاد کا باہمی رویہ اور برتاو


تحریر


تحریر : بختاور ظہیر شگری
خلاصہ
آج کے پر اس آشوب دور میں جبکہ ہر انسان دنیاکے رنگینوں میں مگن ہے اور دین سے دور ہوچکا ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہے ،جس کی وجہ سے بہت سے مسائل پیش آتے ہیں۔ ہر شخص کے لیے اپنے فرائض وحقوق سے آگاہی اور انجام دہی ضروری ہے ،تا کہ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکے۔ خاندانی نظام زندگی میں والدین اور اولادکا باہمی رویہ اور برتاو ٔ ایک ضروری عنصر ہے، اس میں ان کا باہمی برتاؤ دیکھا جائے گا ۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر کوئی اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہو۔ میں نےاپنے اس مقالے میں خاندانی زندگی کے قرآنی اسلوب میں والدین اور اولادکا باہمی رویہ اور برتاؤ پر روشنی ڈالنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے ۔
والدین کے اولاد کے ذمہ حقوق جیسےوالدین کے ساتھ نیکی اور احسان ، ان کے لیے دعا ، استغفار ، احترام، ادب ، شکریہ کرنا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد نیکی کرنا ، ۔۔۔وغیرہ ۔اس کے علاوہ والدین کے حقوق کی ادائیگی کے اثرات و فوائدکی وضاحت کی ہے۔
اسی طرح والدین کے ذمہ بھی کچھ حقوق ہیں۔خاندانی زندگی میں والدین کا رویہ اور برتاؤاولاد کے ساتھ کیسا ہونا چاہے؟ ان کی تعلیم وتربیت ،دینی امور سے ان کو آگاہ کرنا۔۔۔وغیرہ ۔ اس کی طرف روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے
مقدمہ
تمام حمد اُس خالق لم یزل کے لیے
سکون جھیل کو دیتا ہے جو کنول کے لیے
میں اُس کے نا م سے اپنے مقالے کا آغاز کرتی ہوں کہ جس نے مجھے علوم آل محمد ؑسے بہرہ ور ہونے کی تو فیق دی اور بہت زیادہ شکر گزار ہوں اُس ذات رحمٰن ورحیم کی کہ جس نے ہمیں مہر و محبت سے خلق کیا ہے ،اسی محبت کی ایک کڑی والدین جیسی عظیم نعمت ہے۔والدین بغیر کسی لالچ اور فائدےاپنی اولاد کے ساتھ محبت اور عطوفت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔اسلام سے پہلے اگر دیکھا جائے تو الہی ادیان میں بھی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کی تلقین کی گئی ہے اور دیگر ادیان میں بھی والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اولاد کے بارے میں بھی مہربانی و رحم دلی کی سفارش کی گئی ہے لیکن اس کا عملی طور پر اجراء نہیں ہو سکا ۔اسلام سے قبل والدین اپنی اولاد کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ عرب تو اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔اور کچھ اپنی اولاد کو غربت وتنگدستی کی وجہ سے مار دیتے تھے ۔جبکہ دوسری طرف اولاد کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھر سے نکال دیتے تھے یا انھیں پہاڑ وغیرہ سے گرا دیتے تھے ۔
اسلام نے آکر جہاں تمام انسانوں کے لیے حقوق وفرائض متعین کیے، وہیں والدین واولاد کے حقوق و فرائض بھی مقرر کیے ہیں ۔ اسلام میں والدین کے ساتھ نیک برتاوکے بارے میں بہت زیادہ تا کید کی گئی ہے۔ خدا وندعالم نے قرآن مجید میں جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا وہاں ساتھ ہی والدین کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ۔یہاں تک کہا گیا ہے کہ اپنے والدین کے سامنے “اف ” تک نہ کہو ۔ میں اس کے لے سورہ اسرا ءآیت ۲۳ کا انتخاب کیا ہےپس ہمیں بھی چاہیئے کہ ان کے حقوق کو پہچان لیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں ۔جہاں والدین کے ساتھ اچھے برتاو کا حکم دیا ہے وہاں والدین کو اولاد کی اچھی تربیت و تعلیم کا حکم دیا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی جا ئے گی کی قرآنی اسلوب میں والدین اور اولاد کے باہمی رویا اور برتائو،اورحقوق اور فرائض کو بیان کیا جا ئے اور تا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو سکیں اور ان کو احسن طریقے سے انجام دینے کے کوشش کر سکیں ۔
مفاہیم شناسی
أسَالِيب، أُسْلُوب کی جمع ہے اور اس کا معنی راه و روش ، فن گفتار ،يا كردار ہے ۔ [۱]
اصطلاحی معنی
سادہ سے الفاظ میں اسلوبیات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسلوب (method) کا علم ہے یا یوں کہہ لیں کہ علم اسلوب کو ہی اسلوبیات کہا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں Methodology کہتے ہیں ،کسی بھی شعبہ علم میں کسی بھی کام کو انجام دینے کے طریقہ کارکو اسلوب کہا جاتا ہے۔ [۲]
قرآن کریم کی آیت میں بھی اس کی تأ یید ملتی ہے”ربنا اغفرلی و الولدی” [۳]
(الف)والدین کی لغوی معنی
والدین لغت میں ولد کے مادہ سے ہے۔اس کے حروف اصلی (واؤ،لام،دال) ہے ۔ ولد سے اسم فاعل والد اور والدۃ ہے۔ والد باپ کے لیے اور والدہ ماں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور والدان ماں اور باپ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ والدان کی نصبی اور جری حالت والدین ہے۔ [۴]
(ب)حقوق کی تعریف
حقوق حق کی جمع ہے اور حق “حقق” کے مادہ سے نکلا ہے۔ اس کا معنی ہے: تاکید کرنا،واجب کرنا ، کہ ہر کام یا بات حقیقت میں جس انداز میں ہو، جسطرح واجب ہو ،جس وقت واجب ہو ،اسے اسی طرح انجام دینا ہے۔
خاندان کی ضرورت اور ا ہمیت
ہمارے معاشرے میں خاندان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔والدین اور اولاد اس معاشرے کا اہم حصہ ہے۔ایک معاشرہ تب کامیاب معاشرہ بن سکتا ہے جب اس معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے۔اس لیے اللہ نے ہر انسان کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں تاکہ ہمارہ معاشرہ ایک بہترین معاشرہ بن کر دنیا کے سامنے آئے۔
خاندانی زندگی میں والدین اور اولادکا باہمی رویہ اور برتاو
اس معاشرتی نظام کی تمام اکائیاں ایک دوسرے سے مربوط ہوتی ہیں ۔اسلامی تعلیمات میں جہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے والدین اگر اس معاشرے کی اکائی ہیں تو بچے ان اکائی کا نتیجہ ہیں۔
اس سلسلے میں پہلے والدین کے بارے میں گفتگو کی جا ئے گی :
والدین کے حقوق
اسلام نے خاندان کوخاص اہمیت دی ہے اور چونکہ معاشرہ سازی کے سلسلہ میں اسے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے لہذا اسلام نے اس کی حفاظت کے لئے تمام افرد پر ایک دوسرے کے حقوق معین کئے ہیں اور چونکہ والدین کا نقش خاندان اور نسل کی نشو ونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے لہذا قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں ان کی عظمت کوبیان کیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے قرآن میں مختلف مقامات پروالدین کا ذکر آیا ہے خصوصا چار جگہوں پر توحید کے ہمراہ والدین کے ساتھ احسان اورنیکی کرنے کا حکم بیان ہوا ہے عظمت والدین کے لئے یہی کافی ہے کہ پروردگا ر عالم نے اپنی توحید کے ساتھ والدین کا ذکر کیا ہے۔[۵]
قرآن کی ان آیات میں والدین کے ساتھ احسان ونیکی کرنابطور مطلق ذکر ہوا ہےیعنی والدین مسلمان ہوں یا نہ ہوں ان کے ساتھ ہر حال میں احسان کرنا ہے۔ جس طرح صرف خدا کی ذات کو تسلیم کرلینے سے حق عبودیت ادا نہیں ہو سکتا اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنے سے ان کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔
والدین کے بارے میں قرآن ارشاد فرماتا ہے:

وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا مًوَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيما
[۶]
ترجمہ:اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ،اور والدین کے ساتھ نیکی کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت وتکریم کےساتھ بات کرنا۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَاعبدوالله ولا تشرکوا به شیاً وبالوالدین احسانا

[۷]
ترجمہ :اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو
والدین کے ساتھ احسان کی چند اقسام کو بیان کیا ہیں:
۱)والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا۔
۲ ) والدین کے لیے دعا اور استغفار کرنا۔
۳) والدین کے ساتھ ادب کی رعایت کرنا۔
۴ )ماں باپ کے ضروریات کا خیال رکھنا۔
۵)والدین کے ساتھ نیکی کرنا ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد۔
۶)والدین کا شکریہ ادا کرنا۔
۷)والدین کا احترام۔
قرآن میں ارشاد ہے:
“ووصیناالإنسان بوالديه احسانا” اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے ۔[۸]
والدین کے حقوق کی ادائیگی کے اثرات
۱) رضایت الٰہی ہے
۲)آسمانی نزول رحمت ہے
والدین کے ساتھ بد سلوکی آثار
ماں باپ سے بد اخلاقی کرنے سے نہ صرف دنیا میں عذاب ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی عذاب ملتا ہے۔
اولاد کے حقوق :
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

“الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا”۔ [۹]

ترجمہ:مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے، اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواباور (آئنده کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔
اولاد ،والدین کے لیے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہو گی تو وہ والدین کے لیے دنہا و آخرت میں باعث راحت ہو گی۔
اولاد کا رویہ اور برتاؤ والدین کے ساتھ
قرآن میں بہت دفعہ والدین کے ساتھ اچھے برتاوکا حکم آیا ہے۔
۱)والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا
قرآن کریم میں کئی مقامات پر والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید ہوئی ہے

“وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً” [۱۰]

ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین پر احسان کرو۔
۲(والدین کے لیے دعا اور استغفار کرنا
(الف)دعا
والدین سے نیکی کرنے کےلئے امام سجاد ؑکی دعا بھی پڑھیں اورخدا سے ادب واحترام کی توفیق اور والدین سے نیکی کرنے کی توفیق کی دعا بھی کریں ۔دعا کا ترجمہ یہ ہے:خدا یا! میرے والدین کو بھی خصوصیت کے ساتھ اپنی بارگاہ میں کرامت اور رحمت عطا فرما اے بہترین رحم کرنے والے۔
(ب)استغفار
والدین کے حقوق میں سے ایک اور حق ان کے لئے دعا کرنا ہے؛ جیسا کہ مستحب ہے کہ اولاد ان کے لئے یہ دعا پڑھے قرآن کریم میں آیا ہے کہ
” وَ قُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً ” [۱۱]

ترجمہ: اور کہو پروردگارا! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پالا تھا۔
۳(والدین کے ساتھ ادب کی رعایت کرنا
قرآن میں بہت دفعہ والدین کے ساتھ ادب کی رعایت کرناکا حکم آیا ہے۔
(الف)قرآن

“إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ”

ترجمہ: اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں اف تک نہ کہنا
۴)ماں باپ کی ضروریات کاخیال رکھنا
ابی ولاد الحفاط نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے عرض کیا : وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا کی آیت میں احسان کا ذکر کیا گیا ہے ۔اس سے کیا مراد ہےامام ؑ نے فرمایا :مقصد یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھی معاشرت رکھو اور انہیں اس بات پر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنی ضروریات کےلیے تجھ سے سوال کریں ۔ان کی تمام ضروریات کا خود خیال رکھو اگرچہ وہ مستغنی بھی کیوں نہ ہوں کیا اللہ تعالٰی نے یہ نہیں فرمایا:

لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ۔[۱۲]

ترجمہ:”تم اس وقت نیکی کا مقام حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزیں خرچ نہ کرو”۔ [۱۳]
۵]والدین کے ساتھ نیکی کرنا ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد
اسلامی تعلیمات کے مطابق والدین کے حقوق صرف ان کی حیات تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ جب وہ انتقال کرجائیں، اس کے بعد بھی ان کےحقوق ہیں۔
ابو سید انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت رسول ؐ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا:یا رسول اللہ ؐ !میرے والدین وفات پا چکے ہیں کہ کیا اب بھی میں ان سے بھلائی کرسکتا ہوں اور اگر چاہوں تو کیسے کروں ؟
آنحضرت ؐ نے فرمایا:
جی ہاں ، تم والدین سے بھلائی کرسکتے ہو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے حق میں دعا و استغفار کرو اور اُن کے کیے ہوئے عہد کو پورا کرو اور ان کے رشتہ داروں سےصلہ رحمی کرو ۔ [۱۴]
۶]والدین کا شکریہ ادا کرنا:
اللہ تعالی انسان کو والدین کی شکر گزاری اور اچھائی و حُسن ِ سلوک کی نصحت و تاکید کرتے ہوئے ماں کے حمل کی مشقت و تکلیف اور پھر دودھ پلانے کا ذکرتے ہوئے فرماتا ہے۔

“وَوَصَّيْنَاالْإِنسَانَبِوَالِدَيْهِحَمَلَتْهُأُمُّهُوَهْنًاعَلَىوَهْنٍوَفِصَالُهُفِيعَامَيْنِأَنِاشْكُرْلِيوَلِوَالِدَيْكَإِلَيَّ الْمَصِيرُ”[۱۵]

ترجمہ: “اور ہم نے انسان کو ان ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہےاس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر، اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہےکہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکرگزاری کیا کرو”۔
۷)والدین کا احترام
“وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا”ترجمہ:”اور ان کے ساتھ احترام سے گفتگو کرو “۔
اگر وہ تمہیں جھڑکیں یا مار پیٹ کریں تو ان سے کہو خدا تمہاری مغفرت فرمائے یہی قول کریم ہے ۔مقصد یہ ہے کہ والدین کو شفقت ورحمت کی نگاہ سے دیکھنے سے تمہیں طول ِخاطر نہیں ہونا چاہیے اور ان کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو اور ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ بلند نہ کر اور ان کے آگے مت چلو۔
۸)والدین کے ساتھ نیکی کرنا بہترین عمل
منصور بن حازم نے امام صادق ؑ سے پوچھا : سب سے بہترین عمل کونسا ہے؟
امام ؑ نے فرمایا : بروقت نماز ،والدین سے نیکی اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔ [۱۶]
۹)والدین سے نیکی کرنےکے مخصوص اوقات
والدین سے نیکی کرنے کا کوئی خاص زمانہ نہیں ہے لیکن بعض اوقات میں دو برابر ثواب ملتا ہے۔
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا:
کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو عید قربان کے اعمال اور والدین سے نیکی کرنے سے افضل ہو۔ [۱۷]
رسول خدا ؐ نے فرمایا: جو شخص ہر جمعہ کے دن ماں باپ کی قبروں کی زیارت کرتا ہے اس کی مغفرت ہوتی ہے اور اس کا شمار نیک افراد میں سے ہے۔ [۱۸]
والدین کے حقوق کی ادائیگی کے اثرات و فوائد
۱۔رضایت الٰہی:
روایت میں ملتا ہے کہ: خداوند متعال نےلوح محفوظ پر جو چیز لکھا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس کے والدین اس سے راضی ہوں ۔ [۱۹]
۲۔آسمانی نزول رحمت :
رسول خدا ؐ نے فرمایا: آسمانی رحمت کے دروازے چار وقت کھلتے ہیں ،بارش برسنے کے دوران ،بچے کا والدین کے چہرے پر نگاہ کرتے وقت،کعبہ کے کھلنے کے دوران اور شام کے نکاح کے وقت۔ [۲۰]
۳۔ احتضار کے وقت سکرات موت میں آسانی:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو یہ چاہے کہ خدا اس کی سکرات الموت کو آسان کرے تو اس کو چاہیئے کہ صلہ رحمی کرےاور اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے، اسی طرح خدا اس پر سکرات الموت کو آسان کرے گا۔
والدین سے بد سلوکی کے بعض آثار
ماں باپ سے بد اخلاقی کرنے سے نہ صرف دنیا میں عذاب ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی عذاب ملتا ہے ۔
حدیث قدسی میں ہے کہ خدافرماتا ہے:”میری عزت وجلالت کی قسم !اگر والدین کا عاق شخص تمام انبیاء کے برابر بھی عبادت کرے ،میں اس کی وہ عبادت قبول نہیں کروں گا۔ [۲۱]
۱)والدین سے قطع رحمی
رسول خدا ؐ نے فرمایا:والدین پر ستم کرنے سے پرہیز کرو ہزار سال کی مسافت سے جنت کی آنے والی خوشبو کو نہیں سونگھ سکتے اور والدین کی عاق اولاد بھی اسے نہیں سونگھ سکتی ہے۔ [۲۲]
والدین کا رویہ اور برتاؤاولاد کے ساتھ
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت نیک اولاد کا ہونا ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہے اس لئے اولاد کا ہونا خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔جنہیں یہ نعمت میسر آتی ہے ۔وہ بہت خوش و خرم رہتے ہیں ،اور جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ،وہ ہمیشہ اولاد کی محرومیت کے صدمے میں پڑے رہتے ہیں ۔مگر جب انہیں اولاد مل جاتی ہے تو گویا وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت مل گئی۔ خاندانی زندگی کی تمام اکائیاں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اسلامی تعلیمات میں جہاں والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت بیان کی گئی ہے والدین اگر اس معاشرے کی اکائی ہیں تو بچے ان اکائی کا نتیجہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

“الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا” ۔

ترجمہ:”مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے، اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواباور (آئنده کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں”۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:”تو ہم نے اسکو اسحٰق کی اور اسحٰق کے بعد یعقوبؑ کی خوشخبری دی”۔ [۲۳]
ترجمہ:” اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر میں اسماعیل اور اسحٰق بخشے ۔بے شک میرا پرور دگار دعا سننے والا ہے۔
۱ )اولاد كی دینی تربیت نجات کے لیے ضروری ہے
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے” [۲۴]
اس آیت کریمہ میں جو یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ،یہ اس طرح کہا جا رہا ہے کہ جیسے آگ سامنے ہے حالانکہ ہمارے سامنے تو کوئی آگ نہیں بھڑک رہی،بات دراصل یہ ہے کہ یہ جتنے گناہ ہوتے نظر آرہے ہیں یہ سب حقیقت میں آگ ہیں ۔
۲)اولاد کا معاملہ دیگر رشتہ داروں کی طرح نہیں
صرف اولاد کو ایک دو بار کہنا یہ کافی نہیں ، بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ بھائی ہم تو اپنی اولاد کو کہتے ہیں مگر وہ نماز نہیں پڑھتی فلاں کام نہیں کرتی ،اس آیت میں یہ سمجھا یا گیا ہے کہ اپنی اولاد کو آگ سے بچاؤ،اب یہ تصور کرو کہ اولاد دین پر نہیں چل رہی تو سمجھ لو کہ آگ میں جا رہی ہے ،اگر کسی شخص کا بیٹا آگ میں جانے کے قریب ہو تو صرف کیا یہ کہنا کافی ہوگا کہ آگ میں نہ جاؤ یا آگے بڑھ کر اس کو بچانے کی کوشش کرو گے؟اس لیے صرف ایک دو بار کہنا کافی نہیں بلکہ اولاد کی دینی تربیت کی اتنی فکر کرنا ضروری ہے جتنی خود اپنی ذات کی اصلاح کی فکر ضرروی ہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ بیوی بچوں کی اصلاح کے لیے ضرورت کے وقت ان پر سختی کرنا بھی جائز ہے،جبکہ بھائی بہنوں ،دیگر رشتہ داروں اور عام مسلمانوں کو نرمی کے ساتھ تبلیغ کرنا کافی ہے لیکن اولاد کے لیے صرف یہ کافی نہیں۔
۳)اہل وعیال کو نیک اعمال کا حکم انبیاء علیہم السلام کو بھی دیا گیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ:
آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس کی پابندی کریں۔ [۲۵]
اسی طرح قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا اپنی اولاد کو نصیحت کرنے کا ذکر ہے:
حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے۔ [۲۶]
سورہ بقرہ میں ذکر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی جب وفات ہونے لگی تو اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ بتاؤ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟
یہ نہیں فرمایا کہ تم کہاں سے کماؤں گے یہ فکر پیدا کرنے کی ضرروت ہے صرف کہنا کافی نہیں۔
۴)نماز کی ادئیگی کے ساتھ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
بچوں کی ان بنیادی تربیتوں کے بعد اس کو شعائز اسلام اور احکامات کی طرف دعوت دینا بے حد ضروری امر ہے اگر آپ بچے کو اسلام کے بنیادی اصول اور اراکین سے بے بہرہ رکھیں گے تو وہ دنیاوی لحاظ سے کتنا ہی ترقی پر کیوں نہ چلا جائے، دینی لحاظ سے بے فائدہ ہی رہے گا

“يبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلي مَا اَصَابَكَ اِنَّ ذلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ”۔ [۲۷]

بیٹا ، نماز قائم کر ، نیکی کا حکم دے ، بدی سے منع کر ، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر ۔
یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔:
نماز،نیکی کا حکم دینا ،برائی سے روکنا،پریشانی پر صبر سے کام لینا یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو انسان ان پر عمل پیرا ہو جاتا ہے وہ دنیاوی اوراخروی طور پر سرخرور ہو جاتا ہے اگر ہم جائزہ لیں تو ہمارا معاشرہ ان ہی چیزوں کے گرد گردش کرتاہے ۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ایمان کی علامات میں سے، جبکہ نماز دین کا اولین فرض ہے جس کی نماز درست ہوجائے اس کے باقی امور با لاولی درست ہوتے چلے جاتے ہیں، نیز تکلیف پر صبر انسان کو مضبوط بناتا ہے اور اللہ پر مکمل بھروسے کی طرف راغب کرتا ہے۔
۵)تکبر سے دوری
قرآن نے بڑے خوب تر انداز سے تربیت اولاد کو بیان کیا اگر ہم تھوڑی سی توجہ سے دیکھیں تو سب سے پہلے انسان کی ذات کو مقدم کیا گیا جب اس کی اصلاح ہو گئی تو معاشرتی طور پر اس کو اچھا انسان بننے کی تلقین کی گئی تاکہ معاشرے میں امن بھی قائم رہ سکے اور عدل و اعتدال بھی لھذا بچوں کی یہ تربیت کرنی چاہئے جس کی طرف قرآن مجید فرقان حمید میں یو ارشاد ہوتاہے:

“وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ”۔

اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔
اپنی چال میں اعتدال رکھیں اللہ کی نعمتوں پر فخر و تکبر نہ کریں کیوں کہ اگر اللہ نعمتیں دے سکتا ہے تو وہ نعمتیں لے بھی سکتاہے، لہذا نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے نہ کہ تکبر و غرور کے ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا چاہئے ۔[۲۸]
۶ ) تربیت اولاد کے لئے زمینہ سازی
تربیت اولاد کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہر مکتب اور مذہب انسانی تربیت کی ضرورت کو درک کرتے ہیں اگر اختلاف ہے تو روش اور طریقے میں ہےتربیت کی اہمیت کو پیغمبر اسلام (ص)یوں فرماتے ہیں:

وَ كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْانْصَارِيُّ يَدُورُ فِي سِكَكِ الْانْصَارِ بِالْمَدِينَةِ وَ هُوَ يَقُولُ عَلِيٌّ خَيْرُ الْبَشَرِ فَمَنْ ابَی فَقَدْ كَفَرَ يَا مَعَاشِرَ الْانْصَارِ ادِّبُوا اوْلَادَكُمْ عَلَی حُبِّ عَلِيٍّ فَمَنْ ابَ ی فَانْظُرُوا فِي شَانِ امِّهِ

جابر بن عبداللہ انصاریؒ مدینے میں انصار کے کانوںمیں یہ کہتے ہوئے گھوم رہے تھے: علی(ع) سب سے بہتر اور نیک انسان ہیں ۔پس جس نے بھی ان سے منہ پھیرا وہ کافر ہوگیا اے انصارو! تم لوگ اپنے بچوّں کومحبت علیؑ کی تربیت دو،اگر ان میں سے کوئی قبول نہیں کرتا ہے تواس کی ماں کو دیکھو کہ وہ کیسی عورت ہے ایک اور حدیث میں فرمایا: اپنی اولادوں کو تین چیزوں کی تربیت دو: اپنے نبی(ص) اور اس کی ال پاک(ع) کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کریں اور قران مجید کی تعلیم دیں۔[۲۹]
۶)نماز کی پابندی نہ کروانا
ایک حدیث شریفہ کے مفہوم کے مطابق جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب دس سال کا ہوجائے تو اگر پھر بھی نماز کا عادی نہ بنے تو اس پر سختی کی جائے اور یعنی اس کے والدین کو چاہئے کہ وہ اسے سختی کے ساتھ نماز کا پابند بنائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
الغرض بچے مالک کائنات کی انتہائی خوبصورت اور بہترین نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یہ بات تو ان سے پوچھی جائے جن کو اﷲ تعالیٰ نے اس نعمت عظمیٰ سے محروم رکھا ہے۔ اس نعمت کی قدر کرنا اور ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا والدین کا فرض ہے۔
تمام والدین کو آپﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے:
’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے جس سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے۔ اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے سوال ہوگا اور خادم اپنے مالک کے مال و دولت کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔

کل مولود يولد علي الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسان

“ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کے ماں باپ اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں”
نتیجہ گیری
مندرجہ بالا بحث میں قرآنی آیتوں ، رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے گہر بار کلمات کو نقل کرکے دقت سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ شریعت محمدی میں ایک بہترین خاندانی نظام چلانے کا قانون کلیہ موجود ہے ۔ نیز یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ شرعی حوالے سے والدین اور اولاد کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے ۔ اگر ہم ایک بہترین خاندانی نظام کو چلانے کے خواہشمند ہوں تو ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے تعلقات کو مضبوط کریں اور باہمی رویوں میں بہتری لائیں تا کہ ایک بہتر خاندان کی تشکیل ممکن ہو ۔ جب بہترین خاندان تشکیل پائے گا تو ایک بہترین اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے گا جو کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے مشن کا حصہ تھا۔
حوالہ جات :
[۱]فرہنگ ابجدی
[۲] https://ur.wikipedia.org/wiki
[۳] سورہ ابراہیم ،آیت ۴۱
[۴] مفردات راغب ، ج ۲ ، ص ۵۷۶
[۵] سورہ بقرہ ،آیت ۸۳، سورہ نساء،آیت ۳۶، سورہ انعام ،آیت ۱۵۱، سورہ اسراء،۲۳
[۶] سورہ بنی اسرائیل ، آیت ۲۳
[۷] سورہ نساء ،آیت ۳۶
[۸] سورہ عنکبوت ،آیت ۸
[۹] سورہ کہف ، آیت ۴۶
[۱۰] سورہ بقرہ ،آیت ۸۳
[۱۱] سورہ بنی اسرائیل ، آیت ۲۴
[۱۲] سورہ آل عمران، آیت ۹۲
[۱۳] تفسیر نور الثقلین ، ج ۵، ص ۱۹۶
[۱۴] ایضاً، ص ۱۹۹ تا ۲۰۰
[۱۵] سورہ لقمان ، آیت ۱۴
[۱۶] الکافی ، ج ۲ ،ص ۱۵۳
[۱۷] بحار الانوار ، ج ۱۶ ، ص ۲۲
[۱۸] ایضاً، ص ۳۲۹
[۱۹] مستدرک الوسائل ،ج ۱۵،ص ۱۷۳
[۲۰] جامع الاخبار ، ص ۲۰۷
[۲۱] جامع السعادات ، ج ۲، ص ۲۷۱
[۲۲] الکافی ، ج ۲ ، ص ۳۴۹
[۲۳] سورہ ہود ، آیت ۷۱
[۲۴] سورہ تحریم ، آیت ۶
[۲۵] سورہ طہ ، آیت ۱۱۳
[۲۶] سورہ مریم، آیت ۲۵
[۲۷] سورہ لقمان، آیت ۱۷
[۲۸] من لا یحضر الفقیہ ، ج ۳، ص ۴۹۳
[۲۹] صحیح مسلم، کتاب القدر، باب معني کل مولود، 4 : 2047، رقم : 2658
منابع و ماخذ
قرآن
1. بحار الانوار ، محمد باقر مجلسی ، دار إحياء التراث العربي‏ بیروت۔
2. جامع الاخبار،مفاتیح الحیات ظفر جواد حسین نقوی آملی/
3. جامع السعادات ، ملا محمد مہدی نراقی، انتشارات اسماعلییان۔
4. صحیح بخاری ، ابو عبداللہ محمد ابن بخاری۔
5. صحیح مسلم،مسلم بن ججاج،ترجمہ علامہ وحید الزمان۔
6. صحیفہ سجادیہ ،حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام ،ترجمہ حواشی: مفتی جعفر حسین ۔
7. الکافی، محمد بن يعقوب بن اسحق رازى كلينى ،ترجمہ: سید ظفر حسن نقو ی۔
8. مستدرک الوئل ومستند المسائل۔
9. مفردات القرآن ، علامہ راغب اصفہانی ،مترجم: حضرت مولانا محمد عبدُہ فیرورزپوری۔
10. https:/ur.wikipedia.org/wiki