انجام بخیری


تحریر علامہ سید علی الموسوی خپلوی


قال الله تعالی فی کلامه المجید: یاایها الذین امنوا اتقواالله حق تقاته ولاتموتن الا وانتم مسلمون
.(آل عمران ١٠٢)
سورہ مبارکہ آل عمران کی یہ آیہ کریمہ عاقبت اورانجام بخیر ی کے بارے میں ہے ۔ہر انسان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب اور سعادت مند زندگی گزارے اورآخرت میں بھی سعادت مندوں کی صف میں شامل ہویعنی ہر انسان چاہتا ہے کہ زندگی کی ابتدا سے لیکر اس کی انتہا تک ،اسکے آغازسے لیکر انجام تک اس کی زندگی اچھی طرح سے گزرے اوراسی مقصد اورہدف کو حاصل کرنے کی خاطروہ اپنی تمام تر کوشش کو بروئے کار لاتاہے ۔ہر انسان کا یہی مقصد ہوتاہے لیکن بات یہ ہے کہ میدان عمل میں انسان کتنا کامیاب ہوتاہے اور کون اس را ہ پر چلتا ہے جواسے اس ہدف تک پہنچادے اورکون مقصد اورہدف اوراس تک پہنچنے کی راہ سے بے راہ رہ جاتاہے ؟جب ہم تاریخ انسانیت کے آغاز سے لے کر اختتام تک دنیا میں بسنے والے انسانوں کی طرف نظر کرتے ہیں اورقرآن کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ ہمیں چارطرح کے انسان دکھائی دیتے ہیں ۔یعنی قرآن کی آیتوں کے مطابق انسانوں کی چار قسمیں ہیں۔
پہلی قسم:بعض انسان وہ ہیں جن کی ابتدا بھی درست ہے اوران کی انتہا بھی درست ہے ۔وہ ہر قسم کی غلطی اورہر قسم کے گناہ وطغیانی سے پاک ہیں اوران کی زندگی ہر قسم کی غلطی ،خطا ،گناہ،مکروہ فعل یہاں تک کہ نسیان سے پاک ہے جن کو ہم اصطلاح میں معصوم کہتے ہیں ۔جیسے انبیاء علیہم السلام اورآئمہ طاہرین علیہم السلام کہ ان کی پوری زندگی ابتداسے انتہا تک درست ہے اورکسی طرح کی کوئی لغزش اورخطا ان سے سرزد نہیں ہوتی ہے ۔ہمہ وقت اطاعت الہی میں ان کی زندگی گزرتی ہے۔ سورہ مریم میں جناب یحیی علیہ السلام کے بارے میں ارشادہوتا ہے۔وسلام علیه یوم ولد ویوم یموت ویوم یبعث حیا(مریم ١٥ا)سی طرح اسی سورہ کی آیت ٣٣ میں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا.یہ تو انبیاء عظام کی عصمت و طہارت کا تذکرہ ہے ۔ اورسورہ احزاب آیت ٣٣ میں اہل بیت علیہم السلام کی عصمت وطہارت کے بارے میں قرآن نی گواہی دی اورفرمایا:
انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا

.(احزاب ٣٣)
دوسری قسم : یہ وہ لوگ ہیں جن کی ابتدا بھی بری اورانتہا بھی بری ،یعنی ان کی زندگی کا آغازشرک والحاد ،کفر وظلم سے ہوا اورکبھی بھی دائرہ ایمان میں آنے اور اطاعت الہی میں مشغول رہنے کی انہیں توفیق نہیں ہوئی اوران کا سر کبھی اللہ کی اطاعت وبندگی میں نہیں جھکا بلکہ کفر وظلم کے ساتھ ان کی زندگی کا آغازہوا اور حالت کفر وشرک اورظلم وجبر میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ایسے لوگوں پر اللہ ،فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہوگی ۔ایسے لوگوں کے بارے میں سورہ بقرہ آیت نمبر١٦١میں فرمایا: اِن الذین کفرواو ماتوا وهم کفاراولئِک علیهِم لعنة الله و الملائکةِ و الناسِ ا جمعین
تیسری قسم:یہ وہ لوگ ہیں جن کی ابتدادرست تھی ان کا آغاز صحیح تھا ابتدا میں وه راہ حق میں چل رہے تھے اوراطاعت الہی میں ان کی زندگی گزر رہی تھی لیکن زندگی کی انتہا اورانجام میں پہنچ کر وہ راہ حق سے بے راہ ہو گئے اوراطاعت الہی اورراہ حق سے ہٹ گئے اورانہوں نے باطل کا راستہ اختیارکیااوربی ایمانی اورکفر کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ۔ ان الذین امنوا ثم کفروا ثم امنوا ثم کفرواثم ازدادوا کفرا لم یکن الله لییغفرلهم ولا لیهدیهم سبیلا
.(نساء١٣٧)
شیطان کی مثال لیجئے کہ ابتدا میں فرشتوں کی صفوںمیں اطاعت الہی میں مشغول رہتا تھا اس کا رہنا سہنا ،اٹھنا بیٹھنافرشتوں کے ساتھ تھا لیکن فرمان الہی کی نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ الہی ہوگیا نہ صرف خود راہ حق سے بہک گیا بلکہ پوری طاقت وتوان سے انسانوں کو بھی راہ حق سے بہکانے کی کوشش کرتاآرہا ہے اورانہیں گمراہ کرنے کی قسم بھی کھائی ہے۔قال
ربِ بِماا غویتنی لازیِنن لهم فِی الارضِ ولاغوِینهم ا جمعین.(حجر ،39)
قرآن کریم بلعم باعورا کا قصہ بیان کررہا ہے کہ اس کا آغاز درست تھا ۔وہ ایک عابد انسان تھا اس کی دعا بارگاہ پروردگار میں قبول ہوتی تھی یعنی مستجاب الدعوات تھا اہل کرامت تھا اسم اعظم جانتاتھا اوراللہ کا مقرب بندہ تھا اورحضرت موسی کے زمانے کا سب سے بڑا مفسراورمبلغ تھالیکن اس نے نفس کی پیروی کی اوروہ شیطان میں بہکاوے میں آگیااوریہاں تک کہ وہ حضرت موسی پر نفرین کرنے پر آمادہ ہوگیا اورموسی کی قوم کی شکست کے لئے دعا کی اوراس کا انجام برا ہوگیایعنی وہ انجام بخیر نہیں ہوا اوربے ایمانی کی حالت میں ہی اس دنیا سے چلا گیا ۔سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے: واتل علیهم نباء الذی اتیناه آیاتنا فانسلخ منها فاتبعه الشیطان فکان من الغاوین،ولو شئنا لرفعناه بها ولکنه اخلد الی الارض واتبع هواه فمثله کمثل الکلب
.(١٧٥و١٧٦)
اورانہیں اس شخص کی خبربتا دیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ ان سے جدا ہوگیا اورشیطان نے اس کا پیچھا پکڑ لیا پس وہ گمراہوں میں سے ہوگیا اوراگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اوراس نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا تو اب اس کی مثال کتے کی سی ہے …۔
چوتھی قسم:یہ وہ لوگ ہیں جو آغاززندگی میں برے تھے، شروع میں اہل ایمان نہیں تھے ،ابتدامیں ایمان کے دائرہ سے خارج تھے لیکن آخر کار دائرہ ایمان میں داخل ہوگئے اوران کا انجام نیک ہوگیا اورحالت ایمان میں اس دنیا سے عالم آخرت کی طرف رخصت ہوگئے ۔ فرعون کے زمانے کے جادوگروں کو دیکھئے جو صبح دائرہ ایمان سے خارج تھے فرعون کی طرف سے حضرت موسی سے مقابلہ کرنے آئے تھے موسی کو شکست دینے آئے تھے ۔وہ لوگ جب فرعون کے ساتھ تھے تو فرعون سے اجروپاداش مانگ رہے تھے چنانچہ قرآن بیان کررہا ہے۔{وجآء السحرة فرعون قالوا ان لنا لاجرا ان کنا نحن الغالبین}(اعراف 113)اگرہم غالب آجائیں اورموسی کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں تو کیا ہمارے لئے انعام اور عوض میں کچھ ملے گا؟تو فرعون نے کہا:(قال نعم وانکم لمن المقربین)فرعون نے کہاہاں تم لوگ میرے مقربین میں سے ہوں گے ۔ لیکن جب انہوں نے جناب موسی کے معجزہ کودیکھااورحقیقت ان کے لئے عیاں ہوگئی تو فرعون کے انعام وپاداش وغیرہ سب بھول گئے اورسب پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ میں گرپڑے۔(والقی السحرة ساجدین)یعنی اس معجزہ کو دیکھ کر نہ صرف موسی سے مقابلہ نہیں کیا بلکہ دائرہ میں ایمان میں آگئے(قالوا امنا برب العالمین ورب موسی وهارون)اورکہا ہم رب العالمین اورموسی و ہارون کے رب پرایمان لے آئے اوروہ لوگ اسی حالت ایمان میں ہی شہادت کی موت اس دنیا سے رخصت ہوگئے اوروہ عروس سعادت سے ہمکنار ہوگئے ۔شہادت سے پہلے جب فرعون نے انہیں ڈرایا دھمکایا(قال فرعون امنتم به قبل ان آذن لکم ….لاقطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ثم لاصلبنکم اجمعین) تو انہوں نے کہا اب ہمیں حق کا راستہ مل گیا ہے اورہمارے لئے حقیقت واضح ہوگئی ہے اب ہمیں کسی چیز کا کوئی خوف نہیں ہے تم کچھ بھی کرلو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے ۔قالوا انا الی ربنا منقلبون وما تنقم منا الا ان امنا بایات ربنا لما جائتنا
اوراسی طرح کی بہت سی مثالیں آپ کوملیں گی آپ کربلا میں دیکھئے کہ کتنے ایسے تھے جو پہلے امام حسین علیہ السلام کے مقابلے میں تھے ان کے مخالف تھے لیکن کربلامیں آکے رکاب حسینی میں لڑتے ہوئے شہادت کی نیند سوگئے اورانجام بخیری کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔جناب زہیر کو دیکھئے پہلے وہ امام حسین علیہ السلام کا چاہنے والا نہیں تھا لیکن بعدمیں امام حسین کے یاروں میں شامل ہوگیا ۔اسی طرح جناب حرجو چارہزار افراد پر مشتمل لشکر لیکر امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکنے آیاتھا اوروہ یزیدی فوج کا سپہ سالارتھا لیکن فرزند زہرا کی معرفت ہوگئی اورانہوں نے امام حسین کی رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔ہماری بھی یہی دعا ہونی چاہیے کہ اللہ ہمیں بھی انجام بخیر ہونے کی توفیق فرمائے ۔