اسماء عرفان وتصوف کی اصطلاح میں


تحریر علامہ سید علی الموسوی خپلوی


  اسماء عرفان وتصوف کی اصطلاح میں


عرفان وتصوف میں اسم اوراسما ءکا ایک خاص مقام اوراہمیت ہے ۔ عرفان کی اصطلاح میں جب ذات کو بعض صفات ،شئون،حیثیات اورتعینات کے ساتھ اعتباراورفرض کیا جائے تو اس کو اسم کہتے ہیں ۔یعنی عرفان اوراہل ذوق اوراهل معرفت کی اصطلاح میں اسم سے مراد خارجی حقائق ہیں اوریہ خارجی حقائق جو کہ وجود کے مراتب اورشئون میں سے ہیں اگر انہیں ذات سے متصف کئے بغیر لحاظ کیا جائے تو صفت سے تعبیر کیا جاتاہے اوراگر ذات کے ساتھ لحاظ کیا جائے یعنی ذات کا ان صفات میں ظاہر ہونے کے لحاظ سے ملاحظہ کیاجائے تو اسم کہاجاتاہے۔
چنانچہ قیصری اسم کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:(الذات مع صفة معینة واعتبارتجل من تجلیاته تسمی بالاسم؛فان الرحمن ذات لها الرحمة والقهار ذات لها القهر وهذه الاسماء هی اسماء الاسماء)
ذات الہیہ کو ایک ایک خاص صفت یا تجلیات میں سے ایک خاص تجلی کے ساتھ اعتبار کیا جائے تو اس کا نام اسم ہے ۔ مثلا رحمن سے مراد ذات الہی ہے صفت رحمت کے اعتبار کے ساتھ اورقہار سے مراد بھی ذات الہی ہے صفت قہر وغلبہ کے لحاظ سے اوریہ اسماء در حقیقت اسماء الاسماء ہیں ۔
عبدالرزاق کاشانی رقم کرتے ہیں : ہر نسبت ،ایک صفت ہے اورذات کو ہر صفت کے ساتھ لحاظ کیا جائے تو وہ اسم ہے ۔
اسیری لاہیجی بیان کرتے ہیں : اسم عبارت ہے اس ذات سے جو ایک خاص نسبت کے ساتھ ہو۔
ملاصدرا لکھتے ہیں: (ان الذات مع اعتبار صفة من صفاتها اسم من الاسماء) یعنی ذات کو کسی صفت کے ساتھ متصف کیا جائے تواسی کو اسم کہا جاتاہے ۔اکابر عرفاء کے نزدیک اسم سے مراد وہ ذات ہے جوبعض شئون ،اعتبار یا حیثیات کے ساتھ لحاظ کیا جائے ۔ اس لئے کہ حق تعالی کے لئےکچھ شئون ذاتیہ اورمراتبہ غیبیة ہیں کہ ہر شئون اورمراتب کے لحاظ سے اس کے لئے ایک اسم یاحقیقی ،اضافی اورسلبی صفت ہے ۔
عرفان کی اصطلاح میں اسم عبارت ہے ،ذات الہی سے جو ایک خصوصیت (تعین) کے ساتھ ہو اور عالم خارج میں منشااثر واقع ہو۔
اس لحاظ سے اگر ذات الہی کو بغیر کسی صفت اورتعین کے مطلق طور پر اعتبار کیا جائے تو نہ کوئی نام رکھتاہے نہ کوئی رسم۔ اسی لئے اس مقام کو مقام (لااسم له ولارسم له) کہتے ہیں ۔مقام ظہور اورعالم تجلی میں یہ اسماء پیداہوتے ہیں ۔ظہوراورتجلی سے پہلے ہر قسم کے اسم ورسم سے مبراہے۔
عرفان اسماء وصفات کی معرفت کا راستہ
اسما وصفات الہیہ کی معرفت اورشناخت کی راہ نہ کلام ہے نہ فلسفہ۔یعنی انسانی عقل اللہ کے اسماء وصفات کی معرفت حاصل نهیں کر سکتی ہے اس کا واحد راستہ سیروسلوک اورتصوف وعرفان ہے ۔
صدر المتالہین ،ملاصدرا اس حقیقت کے بارے میں بیان کرتے ہیں : اسماء الہی اورصفات الہیہ کی معرفت بہت اہمیت کا حامل ہے ، فلسفی افکار اوراستدلال وبرہان سے اس حقیقت تک رسائی ممکن نہیں ہے….جب تک حقیقت انسانی ان ظاہری علوم کی قید وبند سے آزاد نہ ہواس وقت تک انسان اسماء وصفات کی معرفت کی بلندیوں کو سر نہیں کرسکتا ہے ۔اسی لئے بعض متکلمین جیسے معتزلہ نے کلی طور پر صفات کا انکار کیا اورتنزیہ نے انہیں تعطیل تک پہنچا دیا اوربعض متکلمین صفات زائد برذات کے قائل ہوگئے اورمبتلائے شرک ہوگئے ۔ یہ لوگ عقلائے قوم ہیں کہ اس طرح وه حیرت میں پڑگئے ۔لیکن جن لوگوں نے سرچشمہ نبوت سے نورِمعرفت حاصل کیا انہوں نے حق کی صحیح معرفت حاصل کی جس سے دوسرے لوگ محروم اوربے بہرہ تھے ۔
اسماء کی اقسام
اسماء الہیہ کو مختلف جہتوں سے تقسیم کیا گیا ہے ۔عرفاء اسمائے الہی کو تین قسموںمیں تقسیم کرتے ہیں ۔اسمائے ذات ،اسمائے صفات اوراسمائے افعال
اللہ اسمائے ذاتیہ میں سے ہے ۔اسم ذات سے مرادوہ اسم ہے جو ہر لحاظ سے جامعیت اورعمومیت رکھتاہو اورتمام متضاد صفات کاجامع ہو۔ یعنی یہ اسم صفاتِ متباین سے متعلق ہوتاہے اوراس میں اطلاق پایا جاتاہے اورتمام اسماء کا جامع ہے ۔مثلا اللہ اسم (قہار) اور (رئوف) دونوں سے متعلق ہوتاہے یعنی اللہ وہ ذات ہے
جو قہار بھی ہے اوررئوف بھی۔ صاحب مصباح الانس لکھتے ہیں : اگر اسماء کے احکام عام ہوں یعنی تمام متباین امور جیسے قدم ، تحیز،تناہی واضدادسے متعلق ہوں تو ان کو اسمائے ذات کہا جاتاہے ۔
ملاصدرا لکھتے ہیں : جان لو!(( اللہ)) نے تمام اسماء کو اپنے ما تحت جمع کیا ہے کیونکہ ((اللہ)) مقام الوہیت سے عبارت ہے جس کو لسان شرع میں ((عماء)) کہا جاتاہے ۔اور((اللہ))کا مسمی تمام اسماء کے مسمی کو شامل ہوتاہے ،چنانچہ خدائے احد کا وجود تمام موجودات کا سرچشمہ ہے ۔
قیصری اسماء کی تقسیم کے بارے میں لکھتے ہیں:بعض اسماء کو امہات اسماء کہتے ہیں جو چار اسموں پر مشتمل ہے۔ الاول والآخروالظاهر والباطن کو امہات اسما ء سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اورکبھی اسماء کی تقسیم ہوتی ہے اسم ذات ، اسم صفات اوراسم افعال میں ۔ اگرچہ ایک لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمام اسماے الہی اسم ذات ہیں لیکن اگر ظہور ذات کے اعتبار سے لحاظ کیا جائے تو اسمائے ذات سے تعبیر کیا جاتاہے اورصفات کے ظہور کے لحاظ سے اسمائے صفات کہتے ہیں اورافعال کے ظہور کے لحاظ سے اسم افعال کہا جاتاہے ۔
ابن عربی لکھتے ہیں:اسمائے ذاتیہ یہ ہیں:(الله،الرب،الملک،القدوس،السلام،المومن،المهیمن،العزیز،الجبار،المتکبر،العلی، العظیم،الظاهر،الباطن،الاول،الآخر،الکبیر،الجلیل،المجید،الحق،المبین،الواحد،الماجد،الصمد،المتعالی،الغنی،النور،
الوارث، ذو الجلال،الرقیب)
اسمائے صفات یہ ہیں:(الحی،الشکور،القهار،القاهر،المقتدر،القوی، القادر،الرحمن،الرحیم، الکریم،الغفار،الغفور،الودود، الرؤف، الحلیم،الصبور،البر،العلیم، الخبیر،المحصی،الحکیم،الشهید ،السمیع ،البصیر)
اسمائے افعال یہ ہیں:(المبدئ،الوکیل،الباعث،المجیب،الواسع،الحسیب،المقیت،الحفیظ،الخالق،الباری،المصور،الوهاب، الرزاق،الفتاح،القابض،الباسط،الخافض،الرافع،المعز،المذل،الحکیم،العدل،اللطیف،المعید،المحی،الممیت،الوالی،التواب،المنتقم، المقسط،الجامع،المغنی،المانع،الضار،النافع،الهادی،البدیع،الرشید)
بعض نے اللہ کے سات ناموں کو آئمہ اسماء سے تعبیر کیا ہے ۔چنانچہ اسیر ی لاہیجی لکھتے ہیں : حیات وعلم وقدرت وارادہ وسمع وبصر وکلام ،امہات صفات اورنسب ذاتیہ ہیں ؛اورجب ان سات اسماء کو ذات کے ساتھ اعتبار اورلحاظ کیا جائے تو ان کو آئمہ اسماء اوراسمائے الہیہ کہتے ہیں ۔ ان سات اسماء میں سے ہر ایک اسم کی اس کی شمولیت اوراحاطہ کی وجہ سے اعیان میں سے ہر ایک عین کے ساتھ ایک خاص نسبت پائی جاتی ہے اورتمام اسماء ان کی طرف محتاج ہیں کہ جن کو اسمائے ربوبیة کہتے ہیں ۔
اسماء وصفات جمالیہ
صفات جمالیہ سے مراد وہی صفات ثبوتیہ ہیں ۔اوران صفات سے مراد وہ صفات ہیں جن کے ذریعے ذات الہی کی شان وشکوہ اور زیبائش ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسے علم وقدرت ،ارادہ وغیرہ ۔
اسماء وصفات جلالیہ
صفات جلالیہ کو کلامی اصطلاح میں صفات سلبیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔یعنی وہ صفات جن سے اللہ کی ذات کی تجلیل اورتمجید کی جاتی ہے ۔جیسے سبوح وقدوس کہ سبوحیت اورقدوسیت اللہ کا مادہ ،عوارض مادہ ،جسم وجسمانیت اورماہیت وحد سے منزہ ہونے کو بیان کرتی ہے ۔ ملاصدرا صفات کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:((الصفة اما ایجابیة ثبوتیة واما سلبیة تقدیسیة،وقد عبر الکتاب عن هاتین بقوله(تبارک الاسم ربک ذی الجلال والاکرام) فصفة الجلال ما جلت ذاته عن مشابهة الغیروصفة الاکرام ماتکرمت ذاته به وتجملت))
سبوح وقدوس دو ایسے اسمائے الہی ہیں جوذات الہی کی قداست اورصرافت پر دلالت کرتے ہیں ۔سبوح سے مراد یہ ہے کہ اللہ ہر قسم کے عیب ، شین،نقص ،سلب ،حدوماہیت وغیرہ سے منزہ اورمبرا ہے اور اطلاق وبسیط الحقیقت سے مراد یہی ہے ۔
ملاصدرا تسبیح کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:(حقیقة التسبیح وروحها تجرید الذات الالهیة عن علائق الاکوان و شوائب الحدثان والامکان)
تسبیح کی حقیقت اورماہیت یہ ہے کہ ذات الہیہ تمام علائقِ (تعلقات )کائنات اورامکان وحدوث کی آمیزش سے بالکل منزہ اورمجرد ہے ۔اوراسی طرح قدوس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(القدوس : هوالمجرد ،المستغنی فی وجوده وحقیقته عن التعلق والارتباط بغیره) یہاں پر تجرد سے مراد ،تجرد تام عقلی بلکہ فوق التمام ہے یعنی ہر قسم کی ترکیب سے مجرد اورمنزہ ہے اوراسی کو جناب ملاصدرابسیط الحقیقہ کی تعبیر سے یاد کرتے ہیں ۔
ملاہادی سبزواری دعای جوشن کبیر کی شرح میں(یاسبوح یا قدوس)کے بارے میں رقمطراز ہیں :(وهما من الصفات التنزهیة والسلبیة ،معناهاما: المنزه عن النقائص والمجرد عن المواد حتی عن الماهیة)
یہ دونوں (سبوح وقدوس) صفات تنزہیہ اورسلبیہ میں سے ہیں کہ ان کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تمام نقائص سے منزہ اورتمام مواد حتی ماہیت سے مجرد ہے ۔
اللہ اسم اعظم
قرآن کریم میں لفظِ اللہ تقریبا ٢٦٩٧بار ذکر ہواہے۔اہل عرفان کے نزدیک اسمائے الہی کی دوقسمیں ہیں ۔ اسمائے کلیہ اوراسمائے جزئیہ ۔ام الاسماء جس کے تحت باقی تمام اسماء ہیں وہ اسم(( اللہ)) ہے اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اسی اسم کا مظہر ہیں ۔
بزرگان طریقت فرماتے ہیں کہ اسمائے الہیہ میں سے صرف اسم ((اللہ)) ہے جس میں سراعظم کا ظہور ہوتاہے اوران حروف کے
علاوہ کوئی اورحرف اسم اعظم کے اس بے نظیر موتی _جس کو گوہر شب چراغ اوراکسیر اعظم کہا جاتاہے_کی صدف (سیپ) بننے کی لائق نہیں ہے ۔
اللہ ذات الہی کا اسم ہے جو اس کے تمام صفات کمالیہ کوظاہرکرتاہے یعنی یہ نام مستجمع ِتمام ِکمالات اورتمام اسماء کا مبدا ِاعلی ہے کیونکہ تمام لامتناہی شئون کے لئے شامل ہوتاہے ۔باقی اسمائے جمالیہ اورجلالیہ سب اسی اسم کے خداموں میں سے ہیں اورسب اس کے دائرہ حدود واحاطہ میں ہیں ۔ اس اسم پر اسم اعظم یا اسم جامع کا اطلاق ہوتاہے اس لئے کہ یہ اسم تمام اسماء وصفات الہیہ پر محیط ہے اوراسے ((اللہ الوصفی))سے تعبیر کیا جاتاہے کیونکہ یہ ذات الہیہ کے اوصاف میں سے ایک وصف اوراس کے تعینات میں سے ایک تعین ہے۔
اسیری لاہیجی رقمطراز ہیں:تمام اسما وصفات کے اعتبار سے، اللہ اسم ذات ہے ،اورتمام اسما وصفات اسم اللہ کے تحت مندرج ہیں…..اللہ تمام صفات کے اعتبار سے ذات مسمی اوراسم اعظم ہے اوراللہ اکبر اسی حقیقت کو بیان کرتاہے ۔پس جس طرح اللہ حقیقت اورمرتبہ کے لحاظ سے تمام اسماپر مقدم ہے اورتمام اسما پر متجلی ہوتاہے،انسان کامل جوکہ اللہ کے کلی اسم کا مظہر ہے وہ بھی ذات اورمرتبہ کے لحاظ سے باقی مظاہرپر مقدم ہے …دیگراسمائے الہی اللہ کے کلی اسم جوکہ تمام اسما وصفات کے مستجمع ذات کا اسم ہے ،کے تحت مندرج ہیں؛جس طرح کہ جزوی چیزیں کلی چیزوں کے تحت مندرج ہیں ۔
قیصری لکھتے ہیں:(وذکر الشیخ اسم ((الله))لانه اسم للذات من حیث هی هی باعتبار،واسمها من حیث احاطتها لجمیع الاسماء والصفات باعتبار آخر،وهو اتصافها بالمرتبة الالهیة،فهو اعظم الاسماء واشرفها.)
اللہ اس ذات کا نام ہے جسے دوجہت سے لحاظ کیا جاتاہے۔
١: من حیث هی هی ۔
٢:تمام اسماء وصفات پر محیط ہونے کے لحاظ سے ۔ اوروہ مرتبہ الہیت سے متصف ہوناہے ،پس وہ اسم اعظم اورتمام اسماء میں سب سے بہتر ہے ۔
اسم اللہ تمام اسماء کے لئے شامل ہوتاہے اورمراتب اورمظاہر کے لحاظ سے ان تمام اسماء میں متجلی ہے ….پس یہ اسم دوسرے اسموں کے ساتھ دونسبت رکھتاہے : ہرایک اسم میں اس کی ذات کے ظہور کی نسبت اورمرتبہ کے لحاظ سے اللہ کا تمام اسماء پر مشتمل ہونے کی نسبت۔
شیخ رکن الدین شیرازی لکھتے ہیں:(ان((الله))باعتبار یکون اسماللذات من حیث هی هی فی مرتبة الاحدیة،وبآخر یکون اسما للذات من حیث انه محیط بجمیع الاسماء والصفات فی مرتبة الواحدیة،فیکون اسماجامعا.)
اللہ اس ذات کا نام ہے جب مقام احدیت میں اسے من حیث ہی ہی اعتبار کیا جائے۔اوراسی ذات کا نام ہے جب مقام واحدیت میں اسے تمام اسماء وصفات پرمحیط ہونے کے لحاظ سے اعتبار کیا جائے ۔لهذا یه اسم ،اسم جامع ہے۔
لفظ اللہ کی خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کی ابتدا سے حروف کوکم کردیا جائے پھر بھی اسمیت باقی رہتی ہے اگر الف کا حرف حذف کردیا جائے تو(( للہ)) باقی رہتاہے جواسی کے ساتھ خاص ہے ۔( لله الامر من قبل ومن بعد) روم ٤(ولله ملک السموات والارض)آل عمران ١٨٩( لله ما فی السموات وما فی الارض) آل عمران ١٠٩،مائدہ ١٧،نور٤٢ ،جاثیہ ٢٧ اور اگر لام کوبھی حذف کردیا جائے تو ((لہ)) باقی رہتاہے جواس کی مالکیت پر دلالت کرتاہے ۔(…..بل له ما فی السموات و الارض)بقرہ ١١٦( له الملک وله الحمد) تغابن ١ اوراگر دوسرا لام بھی حذف کردیاجائے تو ((ہو))باقی رہتاہے جواس کی ذات پر دلالت کرتاہے ۔(هو الحی لااله الاهو)غافر٦٥(قل هو الله احد) اخلاص ١اور((ہو ))میں(واو)زائدہے؛ اس لئے کہ تثنیہ اور جمع میں وہ واو حذف ہوجاتاہے جیسے ہما وہم۔پس جس اسم میں یہ خصوصیات پائے جائیں وہ سب سے عظیم اسم ہے۔
ان رجلا قام الیه(امیرالمومنین علیه السلام) فقال : (یا امیرالمومنین اخبرنی عن بسم الله الرحمن الرحیم ما معناه؟ فقال: ان قولک: ((الله)) اعظم اسم من اسماء الله عزوجل وهو الاسم الذی لاینبغی ان یسمی به غیرالله ولم یتسم به مخلوق) .
ایک شخص امیر المومنین کی خدمت میں آیا اورکہا: اے امیر المومنین مجھے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں خبردیں کہ اس کے معنی کیاہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ خدا کے اسماء میں سے عظیم ترین اسم ہے اوروہ اسم ہے جس سے غیر اللہ میں سے کسی کو موسوم نہیں کیا جاسکتاہے ۔
بعض اہل معرفت اورمحققین نے اللہ کا اسم اعظم ہونے کی کچھ وجوہات بیان کی ہیں ۔
تمام اسماء کی نسبت اسی اسم کی طرف دی جاتی ہے ۔(ولله الاسماء الحسنی) اعراف ١٨٠
غیر خدا پریه نام رکھنا جائز نہیں ہے ۔یہ اسم تمام اسماء پر مقدم ہے ۔یہ اسم اس ذات پر اطلاق ہوتا ہے جوتمام صفات کمالیہ کا مالک ہے کہ اس کے حیطہ ذات سے کوئی صفت خارج نہیں ہے ۔یہ نام تمام امتوںمیں مشہور ومعروف ہے ۔قرآن میں اس کا کثرت سے ذکر آیا ہے کہ تقریبا ٢٦٩٧ دفعہ ذکر ہواہے ۔
منابع و مآخذ
1. اسفار ملاصدرا شیرازی
2. تعلیقات علی شرح فصوص الحکم
3. تفسیر القرآن الکریم صدرالمتالہین
4. تفسیر کبیر فخررازی
5. تمہید القواعد ابن ترکه
6. شرح الاسماء الحسنی ملاہادی سبزواری
7. شرح فصوص الحکم قیصری
8. شرح فصوص الحکم کاشانی
9. شرح گلشن راز اسیری لاهیجی
10. شرح مقدمہ قیصری آشتیانی
11. کتاب التوحید
12. مجمع المطالب ومنتہی المآرب
13. مصباح الانس ابن فناری
14. مصنفات فارسی علاء الدوله سمنانی
15. مفاتیح الغیب ملاصدرا
16. نصوص الخصوص فی ترجمة الفصوص ،رکن الدین مسعود بن عبداللہ الشیرازی