مخلوط نظام زندگی


تحریر فضل خان صاحب


معاشرے کے اندر عورت اور مرد کا مخلوق صورت میں رہنا مناسب نہیں ہے او دین اسلام بھی اس بات کو پسند نہیں کرتا. البتہ دین کے اندر یہ گنجائش موجود ہے کے شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت اور مرد اکٹھا ہونا جائز ہے اور حرام نہیں ہے .

ایک دن نبی اکرم نے حکم دیا کہ کہ عشاء کے وقت جب نماز ختم ہو جائے تو سب سے پہلے عورتوں کو مسجد سے باہر جانا چاہئے اور پھر مردوں کو باہر جانا چاہیے تاکہ وہاں پر دونوں مخلوط نہ ہو جائیں.

رسول اکرم میں اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ عورت اور مرد مل کر مسجد سے باہر جائیں.

تاریخی کتابوں کے اندر یہ بھی ملتا ہے کہ نبی اکرم نے اپنی زندگی مبارک میں مسجد کے ایک دروازے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ :

عورتوں کے مسجد میں آنے والا دروازہ مردوں سے علیحدہ ہونا چاہیے .اس عبارت کے یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ:

اگر ہم یہ دروازہ خواتین کے لیے مخصوص کر دیں تو بہت اچھا ہے .

تاریخی کتب کے اندر یہ بھی ملتا ہے کہ مسجد نبوی کے بنانے میں عورتوں نے بھی شرکت کی تھی. اس کے بنانے کے لئے مرد دن کے ٹائم پتھر اٹھاتے اور جمع کرتے تھے اور خواتین رات کے وقت پتھر اٹھا کے لاتی تھیں.

اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید کی سورہ احزاب آیت ۵۳ میں مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب آپ کا نبی کی بیویوں سے واسطہ پڑے تو تمہارا رویہ کیسا ہونا چاہیے .

ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

اذا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتاعاً فَسْئَلُوهُنَّ مِنْ وَراءِ حِجاب ذلِکُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَ قُلُوبِهِنَّ

اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جب آپ ضروریات زندگی میں سے کوئی چیز پیغمبر کی بیویوں سے لینا چاہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں اور طلب کریں کیونکہ یہ کام تمھارے دلوں اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کا باعث ہے.

حضرت علی علیہ السلام کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ آپ شروع میں خواتین کو سلام نہ کریں اور انہیں اپنے ساتھ کھانے کی دعوت نہ دیں.

اسی مخلوط ہونے کی وجہ سے جو مسائل ہمارے معاشرے میں بنے ہیں اس میں آپ لوگ گواہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں شادی شدہ ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہوتے ہیں یہ اسی اختلاط اور مخلوط ہونے کا نتیجہ ہے.

ر وہ چیز جو انسان کی گمراہی کا باعث بنتی ہے اللہ تعالی نے ہمیں اس چیز سے منع کیا ہے.

اللہ نے قرآن میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ. یہ ارشاد نہیں ہوا کہ تم زنا نہ کرو بلکہ یہ حکم ہے کہ تم اس کے قریب بھی نہ جاؤ .

یعنی ہر وہ چیز جو زنا کے لئے مقدمہ بنتی ہے اور اس کے زمینہ فراہم کرتی ہے اس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے.

اس لیے دین کے اندر ہمیں مخلوط ہونے سے بھی منع کیا گیا ہے چونکہ یہ انسان کی اخلاقی گمراہی کا باعث بنتا ہے اور اس سے دوری انسان کے کمال کا باعث ہے.

البتہ ایسے افراد موجود ہیں جو مغربی نفسیات کے مطابق اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر ایک ادارے میں یا ایک دفتر میں عورت اور مرد اکٹھے ہوں گے تو یہ وقت کی ایک ضرورت ہے .

ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سے کام اچھے انداز میں انجام دیا جا سکتا ہے چونکہ ان کے اندر رقابت کی فضا پیدا ہوتی ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اس سے پیچھے نہ رہ جائیں.

اول تو یہ کہ یہ خود بات سوچنے والی ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے یا نہیں ہے؟

اگر فرض کر لیا جائے کہ دونوں کے مخلوط ہونے سے اچھا نتیجہ مل سکتا ہے تو کیا کبھی اس بات کو سوچا ہے کہ ہمیں اس کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے.

ایک دفتر یا فیکٹری کے اندر اچھا کام لینے کے لیے جب عورت اور مرد کو مخلوط کیا جاتا ہے تو اس سے کتنے گھروں کی بنیادمتزلزل ہو جاتی ہیں جن کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں.

اس کے علاوہ ہم نے سابقہ پوسٹوں میں مخلوط نظام تعلیم پر بھی بات کی تھی کہ جس کے نتائج ہمارے سامنے بہت بھیانک صورت میں سامنے آرہے ہیں.

اگر ہمارے لئے ممکن ہو تو ہم ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کریں جہاں پر مخلوط نظام موجود ہے یا اگر ایسی جگہ پر کام کرنا ہے یا پڑھنے کے لیے مجبور ہیں تو ایسا کام کریں کہ جس سے ہم ان کے برے اثرات سے خود کو یا اپنی اولاد کو بچا سکیں.

تحریر: فضل خان