چھيڑخانى


تحریر اداریہ


چھيڑخانى harassment شرعًا حرام ہے، يہ ايك قابلِ مذمت عمل ہے، اور اس كا وجہ جواز پيش كرنا درست نہيں۔
گزشتہ کئی دنوں سے چھيڑ خانى harassment كے واقعات سے متعلق سوشل ميڈيا اور ديگر ذرائع ابلاغ ميں بہت سى باتيں كہى جارہى ہيں مثلًا يه كہ بسا اوقات چھيڑخوانى كرنے والا اُس شخص كو مار بيٹھتا ہے جواسے روكنے، منع كرنے يا اس عورت كى حفاظت كرنے كى كوشش كرتا ہے جو دراصل چهيڑ خوانى كا شكار ہورہى ہو، جبكہ بعض لوگ لڑكى كے لباس يا اس كے سلوك وكردار كو چھيڑ خوانى كا سبب بتا كر چھيڑخانى كرنے والے كے گھناؤ نے جرم كا وجہ جواز پيش كرتے ہيں، يا كم از كم گناه ميں لڑكى كو بھى شريك قرار ديتے ہيں۔
اس پس منظر ميں چھيڑخانى harassment خواه وه اشارے، زبان يا عمل سے ہو ايك حرام اور نا مناسب عمل ہے اس كا كرنے والا شرعًا گنہ گار ہوتا ہے، معاشره اسے ناپسند كرتا ہے، لوگ اس سے اپنا دامن بچاتے ہيں اور اس سے تركِ تعلق كر ليتے ہيں، اسى طرح تمام آئين وقوانين اُسے مجرم قرار ديتے ہيں، ارشاد بارى ہے ” والذين يؤذون المؤمنين والمؤمنات بغير ما اكتسبوا فقد احتملوا بهتانًا وإثمًا مبينًا”
ترجمہ: اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں كو ايسے كام كى تہمت سے جو انهوں نے نہ كيا ہو ايذا ديں تو انهوں نے بهتان اور صريح گناه كا بوجھ اپنے سر پر ركھا”۔
# كسى قيد وشرط كے بغير چھيڑخانى harassment كو جرم اور چھيڑخانى كرنے والے كو مجرم قرار ديا جائے، لڑكى كے لباس يا اُس كے سلوك وكردار كو چھيڑخانى كى وجہ قرار دينا ايك غلط فهمى ہے، كيونكه چھيڑخانى سے عورت كى خصوصيت ، اس كى آزادى اور اس كى عزت وكرامت پر آنچ آتى ہے، اس كے علاوه اس گھناؤنى صورتحال كے عام ہونے سے معاشرے ميں لوگوں كے ہاں امن وامان كا احساس كم ہوتا رہتا ہے ۔
# كسى معاشرے كے تہذيب يافتہ يا ترقى يافتہ ہونے كا اندازه اس سے لگايا جاتا ہے كه اس معاشرے ميں عورت كے ساتھ كس قدر ادب واحترام كا معاملہ كيا جاتا ہے، اور اُسے كس قدر امن وامان، استحكام اور اكرام وتعظيم حاصل ہے، چنانچہ جب الله كے رسولﷺ نے اسلام كى عظمت وبلندى اور اس كے اركان كى مضبوطى كى دليل پيش كرنے كا اراده كيا تو عورت كے امن وامان كے احساس وشعور كو اس كى علامت قرار ديا، لهذا آپ نے فرمايا: آپ ديكھيں گے كہ مسافر عورت كوفہ كے قريبى مقام حيره سے جاتى ہے اور كعبه كا طواف كرتى ہے اور الله كے سوا كسى اور سے نہيں ڈرتى۔
چھيڑ خانى كو جرم قرار دينے والے اور اس كے ارتكاب پر سزا مقرر كرنے والے قوانين كو فعال كيا جائے، اور اسى طرح متعلقہ اداروں سے اپيل ہے كہ وه معاشرے كو چھيڑ خانى كى تمام شكلوں اور اس سے لاحق ہونے والے خطره سے آگاه كيا جائے ، اور شرم وحيا اور اخلاق وكردار پر پڑنے والے اس كے تباه كن اثرات سے خصوصاً بچوں كے ساتھ چھيڑ خانى كے تباه كن اثرات سے معاشرے كو خبردار كيا جائے ، اور شہريوں كو آگاه كرنے كے لئے ميڈيا اور ديگر پروگراموں ميں اس موضوع پر روشنى ڈالى جائے كہ اگر چھيڑخوانى كا واقعہ پيش آئے تو ان كى ذمہ دارى كيا ہے اور اس وقت ان كيا كرنا چاہيئے، اور چھيڑ خانى كرنے والے كو كس طرح بازركھا جائے اور جس عورت يا لڑكى كے ساتھ چھيڑخانى كى جارہى ہے اس كى كس طرح حفاظت كى جائے ، اسى طرح ذرائع ابلاغ سے يه مطالبہ كرتا ہے كه وه ايسے پروگرام نشر نه كريں جس سے چھيڑخانى كو رواج حاصل ہو، يا اس ميں چھيڑخانى كرنے والا اس انداز سے ظاہر ہوكہ دوسرے اس كى تقليد كرنے كى كوشش كريں۔