حیات مبارکہ؛ پیامبرِ خداؐ قسط ۳


تحریر سید ازلان علی شاہ


مولائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ولادت
آپؐ کی تاریخ ولادت کے بارے میں پہلی قسط میں بحث ہوئی، یہاں ہم آپؐ کی ولادت کے وقت رونما ہونے والے واقعات کا مختصر جائزہ لینگے۔ ساتھ ہی آپؐ کے بچپن کا بھی ذکر کرینگے۔
تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ آپؐ کی ولادت کے وقت غیر معمولی واقعات پیش آئے جو کہ درج ذیل ہیں:
ستارہِ احمدؐ کا طلوع ہونا۔
ایران کے محلِ کسریٰ میں زلزلہ کا آنا۔
بتوں کا گرنا۔
پیغمبر اکرمؐ کا نور آسمان کی جانب بلند ہونا۔
(بحار الانوار ج۱۵ ص۲۵)
آپ کی ولادت کے متعلق کاہنوں اور اس وقت کے عالموں کی پیشن گوئیاں:
فارس کا وہ آتشکدہ جو پچھلے ایک ہزار سال سے مسلسل روشن تھا، اس کا ایک دم بجھ جانا وغیرہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اب باطل اور شیطانی قوتوں کو زوال شروع ہوا ہے اور حق کی مشعل روشن ہونے کو ہے۔
آپؐ کا بچپن
جیسا کہ ذکر ہوا تھا کہ آپ کی ولادت سے دو ماہ یا اس سے کم و بیش قبل ہی والد محترم کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس لئے شروع سے ہی آپؐ کی پرورش و تربیت آپؐ کے دادا حضرت عبد المطلبؑ نے کی۔ آپؐ کے دادا عبد المطلبؑ نے جب پوتے کی ولادت کی خبر سنی تو کعبہ میں جا کر سجدہ ریز ہوگئے اور اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کیا اور نام محمد رکھا۔ حضرت آمنہؑ نے جب اپنے شوہر کی نشانی کو دیکھا تو آنکھیں بھر آئیں اور خوشی سے نڈھال ہو گئیں۔
لونڈی “ثویبہ” خوشی میں دوڑتی ہوئی گئی اور ابو لہب کو بھتیجا پیدا ہونے کی خوشخبری دی تو اس نے اس خوشی میں ثویبہ کو آزاد کر دیا۔ روایت ہوئی ہے کہ اس عمل کا ثمرہ ابو لہب کو یہ ملا کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں نے اس کو خواب میں دیکھا کہ اسے کچھ (کھانے پینے) کو نہیں ملا بجز اس کے کہ “ثویبہ” کو آزاد کرنے کے سبب سے اس انگلی کے ذریعہ کچھ پانی پلا دیا جاتا ہے۔
(بخاری)
اس سے میلاد منانے کا ایک سند ملتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے خوشی مناتے ہیں اور اس موقع پر نیک کاموں میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو کتنا اجر ملتا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر خوشی مناتے ہیں، آپ کا ذکر کرتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں۔
آپؐ کی ولادت سے لے کر وصال تک ایک ایک واقعے کا ذکر اور رُخِ مصطفیٰؐ کی ایک ایک جھلک کا تذکرہ سرمۂ چشمِ بصیرت، رحمتِ الٰہی اور برکاتِ ربانی کے نزول کا موجب ہے۔ ایک مسلمان کے لیے تو رسول اللہؐ سے وابستہ ومتعلق اشیاء کا تذکرہ بھی عین عبادت ہے۔ جب رسول اللہؐ سے نسبت رکھنے والی چیزوں کا تذکرہ عین عبادت ہوا تو آپؐ کا ذکرِ ولادت کیوں باعثِ تسکینِ ایمان نہ ہوگا؟ دنیا کا کوئی مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی مکتبِ فکر سے ہو، آپؐ کے ذکرِ ولادت اور اس ماہِ مقدس سے، جب آپؐ عالمِ قدس سے عالمِ امکان میں رونق افروز ہوئے، تَنفُّر اختیار نہیں کرسکتا۔ رسول اللہؐ کی ولادت وطفولیت کے واقعات کا بیان ایمان کی پختگی اور رُسوخ کا ذریعہ اور شروع سے صحابہ کرامؓ و آئمہؑ طاہرین سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں میلاد کی محافل، جلسے، جلوس و دیگر پروگراموں کی صورت میں مسلمان ذکر مصطفیٰؐ کرتے اور میلاد مناتے ہیں۔ لیکن اس موقع پر اس بات کا خیال رہے کہ کہیں بھی کسی صورت میں خلاف شرع کوئی فعل سرزد نہ ہو۔ بدعات، خرافات، فضول خرچ، آتشبازی، گلی سڑکیں بند کرنا یا لوگوں کو تنگ کرنا وغیرہ سے بچے۔
عربوں میں یہ دستور چلا آرہا تھا کہ بچوں کی پرورش کیلئے آس پاس کے دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے وہاں کی صاف ستھری ہوا میں پرورش پاکر تندرست وتوانا ہو جائیں۔ نیز وہاں وہ خالص عربی زبان سیکھ جائیں۔ اسی غرض سے رسول اکرمؐ کو بھی پرورش کیلئے ایک صحرائی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے حوالے کیا گیا، جن کا تعلق قبیلہ بنی سعد سے تھا۔ قبیلہ بنی سعد کے درمیان رسول خداؐ کی موجودگی حضرت حلیمہؑ نیز بنی سعد کے دیگر تمام افراد کے لئے نعمت کی فراوانی اور برکت کا باعث ہوئی چنانچہ مدت رضاعت ختم ہوگئی تو حضرت حلیمہ اس نونہال کو والدہ کی خدمت میں لے آئی تو انہوں نے حضور اکرمؐ کو دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی چنانچہ حضرت آمنہ نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ (السیر الحلبیہ ج۱ ص۴۳۹ )
مزید دو یا تین سال حلیمہ کے پاس پرورش پانے کےبعد آپ کو واپس اپنی والدہ کے پاس بھیج دیا گیا۔ طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سال اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہے۔ چھ سال کے ہوئے تو والدہ محترمہ یسرب اپنے عزیز و اقارب سے ملانے لے گئیں۔ اسی دوران حضرت عبد اللہ کی بھی قبر کی زیارت کی۔ ایک ماہ قیام فرمایا واپسی پر ابواء کے مقام پر جو بدر کے قریب ہی ہے، وہاں طبیعت خراب ہوئی اور ابواء کے مقام پر رحلت فرما گئیں۔ (السیرۃ النبویہ ج۱ ص۱۷۷)
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر دادا کے پاس آئیں اور ان کی امانت ان کے حوالے کر دی۔ دادا کو پوتے سے انتہا کا پیار تھا۔ ان کو کھیلتا کودتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ دو سال بعد یعنی ۸ سال کی عمر میں دادا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ حضرت عبد المطلب کی وصیت کے مطابق اب آپ کی ذمے داری آپ کے چچا حضرت ابو طالبؑ پر آپڑی جو چالیس سال تک اپنے پیارے بھتیجے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے اور ہر طرح ان کا خیال رکھا۔ حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت اسدؑ حضور اکرمؐ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ آپ کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ جب کھانے کا وقت ہوتا تو حضرت ابوطالب اپنے بچوں سے فرماتے کہ ’’ ٹھہرو! فرزند عزیز (حضرت محمدؐ) کو آنے دو‘‘۔ (مناقب ابن شہر آشوب ض۱ ص۱۴)
اسی محبت و الفت کا اظہار کرتے ہوئے فاطمہ بنت اسد کے بارے میں آپؐ فرماتے ہیں: ’’ وہ بلکل میری ماں کی طرح تھیں۔ کیوں کہ اکثر وہ اپنے بچوں کو تو بھوکا رکھتیں مگر مجھے اتنا کھانا دیتیں کہ شکم سیر ہو جاتا اور اپنے بچوں سے پہلے مجھے نہلاتی، دھلاتی اور سنوارتی تھیں۔‘‘ (تاریخ یعقوبی ج ص۱۴)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالبؑ کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالبؑ کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالبؑ نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔
(جاری ہے)