حیات مبارکہ؛ پیامبرِ خداؐ چوتھی قسط


تحریر سید ازلان علی شاہ


امینِ قریش
حضرت ابو طالب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے رہتے تھے۔ جب رسول خداؐ حضرت ابو طالب کے گھر منتقل ہوئے تو آپؐ بھی تجارتی سفر میں اپنے چچا کے ساتھ جاتے تھے۔ یہیں سے لوگوں سے میل ملاپ اور معاملات بڑھا اور یہیں سے آپ کو امینِ قریش کہنے لگا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا سفر جب آپؐ کی عمر مبارک ۱۲ سال تھی۱ اپنے چچا کے ہمراہ؛ لیکن اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بطورِ تاجر شریک نہ تھے بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ کے چچا نے آپ کو ساتھ لے کر گیا تھا۔ اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، راہب حضرت ابو طالب سے کہنے لگا اگر ان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر وہی باتیں یہودی بھی جان لیں تو وہ نقصان پہنچائے بغیر نہ رہیں گے۔ اس لئے بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں جتنی جلدی ہو سکے مکہ واپس لے جائے۔ اس کے بعد آپؐ کے چچا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔
اور دوسرا سفر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا سامان لے کر کیا۔ جس وقت حضرت خدیجہؑ نے امینِ قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خداؐ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر آپ میرے سامان کے ذریعے تجارت کرنے کے لئے شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس اس کا دُگنا آپ کو دوں گی۔ اس پر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کر بھیجا ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ “بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔

دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاوٴ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَإنّي لَأَمُرُّ فَأَعْرِضُ عَنْھُمَا“ میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔ اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ”ھٰذا وَاللّٰہِ نَبِيٌ، تَجِدُہ أَحْبَارُنَا مَنْعُوْتاً فِيْ کُتُبِھِمْ“۔ خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرمؐ پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپؐ سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرمؐ اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفعِ کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انھوں نے آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا۔سیرہ ابن اسحاق اس وقت نبی اکرمؐ کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عمر چالیس سال تھی۔ السیرۃ الحلبیہ
حضرت خدیجہؑ نے حضرت محمد سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرکات کو اس طرح بیان فرمائی ہے: ’’اے میرے چچا زاد بھائی! چونکہ مین نے تمہیں ایک شریف، دیانتدار، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری طرف مائل ہوئی (اور شادی کا پیغام بھیجا) (السیرہ الحلبیہ ص۲۷۱)
حضرت خدیجہ کا غلام ’زید‘ کو جسے آپ کا بھتیجا حکیم بن حزام ملک شام سے لے آیا تھا جب رسولؐ نے دیکھا تو آپؐ نے یہ خواہش ظاہر کیا کہ یہ غلام مجھے دے دیں۔ حضرت خدیجہ نے زید بن حارثہ کو حضرت محمد کے حوالے کر دیا۔ رسول اکرم نے اسے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔
جب زیدؓ کے والد حارث کو یہ معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا شہر مکہ میں رسول اکرمؐ کے پاس ہے تو وہ اپنے بیٹے کو لینے آیا۔ حارث آپؐ کے پاس آیا اور کہا کہ ان کا بیتا ان کو واپس دیا جائے۔ اس پر آپؐ نے زید سے فرمایا: ’اگر چاہو تو ہمارے ساتھ رہو اور چاہو تو اپنے والد کے ساتھ واپس چلے جاو‘ مگر حضرت زیدؓ نے رسول خداؐ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ بعثت کے موقع پر حضرت علی علیہ سلام کے بعد وہ پہلے مرد تھے جنہوں نے رسول اکرمؐ پر ایمان لائے۔ (السیرۃ النبویہ ج۱ ص۲۶۴)
جاری ہے