پیر طریقت حضرت میر سید محمد اکبرؒ شرف الاخیار


تحریر سید اکبر علی ابن حسن


پیر طریقت حضرت میر سید محمد اکبرؒ کا تعلق کریس سے تھا۔ آپ میر سید خانہ علوم پیر نوربخشیہ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔ اگر چہ آپ علوم دینی میں زیادہ متبحر نہ تھے لیکن زہد و تقویٰ میں بے مثال تھے۔ آپ کے کل چار بھائی تھے جن کے نام سید مہدی، سید عون علی، سید سعادت جان اور سید جلال تھے۔ ان میں سے سید مہدی سلطان علی ڈغونی کے شاگردی میں سنی مذہب اختیار کر گئے۔ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے کہا کہ آپ دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں سادہ لوح ہیں تو آپ نے فرمایا کہ سادہ لوح اور انجان میرے بھائی ہیں جنہوں نے دنیاوی مفاد کی خاطر مذہب حقا کو خیرباد کہا جب کہ، میں اس پر قائم اور خدمت گزار ہوں۔ انہوں نے عاقبت خراب کردی جب کہ میں اپنی اخروی زندگی میں کامرانی کے لئے عمل پیرا ہوں۔
آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں کریس اور گردنواح میں سید ابولحسن کے تبلیغ زوروں پر تھی بلخصوص محرم کی مجالس کی شدومد سے مخالفت کرتے تھے۔ چنانچہ 1324 ھ (1906) کے لگ بھگ سید ابولحسن کے چیلنج پر خانقاہ کریس میں مناظرہ ہوا جس میں ایک طرف موصوف کی قیادت میں ان کے ہم خیال علماء جمع تھے تو دوسری طرف سید مختار حسین نوربخشیوں کی قیادت کررہے تھے۔ مناظرہ شروع ہوا تو نوجوان سید مختار عزاداری کے حق میں احادیث و روایات پیش کرتے ہوئے مد مقابل بیٹھے اپنے استاد مولانا عبدالسمد سے انکی سندِ صحت کی تصدیق کراتے گئے الغرض مناظرہ میں سید مختار جیت گئے اور نوربخشیوں نے صلوات پڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اس موقع پر پیر طریقت میر سید اکبرؒ نے اپنے بھانجے سید مختار کو گلے سے لگایا اور دعا کہ آپ نے مذہب حقا کا بول بالا کر دیا ہے اللہ تیرے خاندان کا بھلا کرے اس موقع پر خوشی سے آپ کے آنسو چھلک پڑے۔
پیر طریقت حضرت میر سید محمد اکبرؒ کی فرمائش پر اخوند نصیب علی بلغارری نے ’’کتاب الربض‘‘ تالیف کی جو واقعہ کربلا پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا ایک نصخہ پیر طریقت سید محمد شاہ نورانی مد ظلہ عالی کے پاس محفوظ ہے۔
ایک دفعہ غالباً سالانہ نظرانے جمع کرنے کے لئے خپلو آئے ہوئے تھے اور محلہ ڈینس میں اپنے عقیدت مند اپو غلام چھونپا کے گھر میں مقیم تھے۔ راجہ حاتم خان کے محل سے آپ کے لئے کھانا آتا تھا تا ہم آپ اس کھانے کو تناول فرمانے سے اجتناب کرتے رہے۔ بعض لوگوں نے راجہ کو چغلی کی تو راجہ صاحب ناراض ہوئے اور کھانا بھیجنا بند کر دیا۔ انہی دنوں آپ علیل ہو کر وفات پا گئے۔ غسل و تکفین کا مرحلہ آیا تو آپ کے خدمت گار اپو غلام نے عقیدت کی بنا پر اسی کمرے میں غسل دینے کا بندوبس کیا جس میں آپ وفات پاگئے تھے۔ اخوند ابراہیم ڈینس کی روایت کے مطابق ان کے دادا اخوند محمد جان نے میت کو غسل دیا۔ پانی کی نکاسی کے لئے کمرے کے فرش میں سوراخ کیا گیا اور پانی کو تہہ خانے میں موجاد بھوسے اور گھاس کے ذخیرہ پر گرنے دیا گیا۔ اخوند جان اکثر اس واقعے کا ذکر کرتے تھے کہ بعد میں لوگوں نے دیکھا کہ بھوسہ اور گھاس بلکل خشک تھی اور جس کمرے میں آپ کو غسل دیا گیا تھا وہاں سے عرصہ تک خوشبو آتی رہی جو آپ کی بزرگی کی دلیل ہے۔ آپ خانقاہ معلیٰ خپلو کے مغرب میں واقع آستانہ میر محمد ابن میر مختار اخیار کے پہلو میں دفن کیا گیا۔