حضرت سید محمد نوربخش ؒ کی بلتستان میں تبلیغ اسلام


تحریر ایم نذیر صاحب سکردو


تعارف

نام : سید محمد نوربخش
(پیر طریقت سلسلۃ الذھب )
والد : سید عبد اللہ
پیدائش: ۱۴ شعبان المعظم۷۹۵ھ
جائے پیدائش : قائن ایران
وفات: ۱۴ ربیع الاول۸۶۹ھ
جائے مدفن : سولقان ایران

رب العزت خالق کائنات نے انسان کی فلاح اور رہنمائی کے لئے اپنے مقرب بندوں کو دین حق کی تبلیغ کا فریضہ سونپ دیتا ہے اور یہ بندے اپنے تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جما ہوا کفر، شرک کا زہر آلود زنگ اتار کر تاریک دلوں کو نور ایمان کی دولت سے مالا مال کراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں ایسی برگزیدہ بندے پیدا کئے ہیں جن کے متاع زیست کا ہر لمحہ ہدایت اور تبلیغ کے لئے مینارہ نور کا کام دیتا ہے۔ ان برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہستی آٹھویں صدی ہجری کے روحانی پیشوا، عارف کامل حضرت سید العارفین غوث المتاخرین شاہ سید محمد المعروف نوربخش ؒ بھی شامل ہیں۔
سید محمد نوربخش نور اللہ مرقدہ دریائے حبل اللہ کا گوہر تابندہ اور آسمان جمال مصطفوی کا روشن ستارہ ہے آپ ؒ ملت نوربخشیہ کے مجتہد اعظم، نامور مصلح، شاعر لاثانی، عالم ربانی جنہوں نے اسلامی تبلیغ دین کو اپنا مقصد حیات بنایا۔ آپ ؒ جامع شخصیت کے حامل اعلیٰ صلاحیت و قابلیت ہمہ گیر ذہانت کے مالک تھے۔ علاوہ ازیں آپ ؒ محقق بھی تھے اور فلسفی بھی، آپ ؒ مجتہد اور مصلح بھی تھے اور محدث بھی، آپ ؒ شاعر، ادیب، مفسر، مورخ اور سیاست دان بھی تھے۔ آپ ؒ کی شان میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
اے نوربخش تو حکم خدا، حکم نبی، حکم علی است
ہر حکم شما حق الیقین علم الیقین عین الیقین است
غوث المتاخرین سید العارفین حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒ اللہ آپ ؒ کی قبر کو منور رکھے آپ ؒ ایک درخشندہ ستارہ تھے اور ہمیشہ سیاہ لباس میں ملبوس جو مشائخ اولیاء کا ایک دستور تھا جس کے کمال عرفان، جس کے نور سے تجلیاتی لمحات روشنی کی طرح متاع حق جیسے طور سے ظاہر ہوئے۔ جو کہ ان کی درس گاہ ولایت کے مشائخ کی سنت تھی ایسا لگتا ہے جیسے سیاہی نور میں لپٹی ہوئی ہے، آپ ؒ کی بلتستان آمد سے آفتاب اسلام کی شعاعیں یہاں کی تنگ و تاریک گھاٹیوں میں پھیل گئی اور بدھ مت کے پیرو کاروں میں سے بہت ساروں نے اسلام قبول کیا۔
سید محمد نوربخش ۷۹۵ ھ ہجری میں پیدا ہوئے اور آپ ؒ کا وطن مالوف قائن بتایا جاتا ہے آپ ؒ کا سلسلہ نسب سوانح نگاروں کے مطابق سترھویں پشت میں حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ اور انیسویں پشت میں حضور اکرم ؐ سے جاملتا ہے اور آپ ؒ کے والد ماجد عبد اللہ کی جائے پیدائش قطیف اور جد بزرگوار کا وطن لحصا ہے۔ آپ ؒ کا خاندان علم و معرفت، سلوک و طریقت کے سلسلے میں بہت مشہور رہا ہے۔ روایت کے مطابق آپ ؒ کے والد ترک وطن کرکے حضرت امام علی رضا ؑ کی زیارت کے ارادے سے خراسان تشریف لائے۔ آستانہ عالیہ کی زیارت سے شرف حاصل کرنے کے بعد قصبہ قائن میں شہریت اختیار کرلی۔ اور آپ کی شادی سید شہاب الدین کی دختر نیک اختر سے ہوئی جن کے بطن سے سید محمد نوربخش ؒ پیدا ہوئے۔
سید محمد نوربخش ؒ نے سات سال کی کمسنی میں قرآن مجید حفظ کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں عارف کامل اور عالم بن گئے۔ آپ ؒ خواجہ اسحاق ختلانی ؒ کے مرید تھے جو امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے خواجہ اسحاق ختلانی ؒ نے در عالم رویا خواب میں جو دیکھا تھا اسی مناسبت میں نوربخش کے لقب سے نوازا۔
اور جب فقر و سلوک میں ان کی ذاتی قابلیت اور استعداد پر پورے اترے تو خواجہ اسحاق نے اپنا خرقہ جو سید علی ہمدانیؒ سے ملا تھا ان کے حوالہ کیا جسے اپنے ہاتھ سے آپ ؒ کو پہنایا اور مسند ارشاد پر بٹھایا۔ خانقاہ کے تمام امور اور مریدوں کو ان کے سپرد کیا اور ہدایت کی کہ آئندہ طریقت کی راہ پر چلنے والے میر نوربخش ؒ کی طرف رجوع کریں اور فرمایا کہ ظاہراً وہ ہمارے مرید ہیں لیکن حقیقت میں وہ ہمارے پیر ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نوربخش ؒ نے فرمایا ہے۔
پیریم و مرید خواجہ اسحاق آں شیخ شہید قطب آفاق
گو بود مرید پیر فانی شاہ ہمدان علی ثانی ؒ
محمد سمرقندی جو کہ آپ ؒ کے مریدوں میں سے تھے تذکرہ احوال مقامات نوربخش ؒ میں تحریر کی ہے کہ جب خواجہ اسحاق کو آپ ؒ کی قابلیت ، صلاحیت اور منزلت کا بذریعہ کشف علم ہوا تو آپؒ کے ہاتھ بیعت کرلی۔ سید العارفین کے دور تبلیغ اسلام میں مرزا شاہ رخ جیسا بادشاہ ایران توازن عرب و ہند پر مسلط تھا اور سلطان ابن یزید مرزا شاہ رخ کی طرف سے ختلان کا گورنر تھا اور ان کو چند ظالم مفسدوں کے ذریعے خبر ملی کہ سید محمد نوربخش ؒ اور خواجہ اسحاق کوہ تیرہ پر لوگوں کو منظم کررہے ہیں تو اس نے آپ ؒ کو گرفتار کر کے ہرات بھیجدیا اور صورت حال سے مرزا کو آگاہ کردیا۔ مرزا شاہ کو جب یہ خبر ملی تو حکم کردیا کہ سید محمد سمیت خواجہ اور ان مریدوں کو قتل کردیا جائے لیکن خدا اپنے بندوں کی حفاظت کا بندوبست کرتا ہے اتفاق ایسا ہوا مرزا درد شکم کی مرض میں مبتلا ہوگیا اور اس کے معالج خصوصی طبیب صادق مولانا حکیم الدین نے مشورہ دیا کہ تم نے ایک ایسے سید زادے کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو دنیا میں زہد وتقویٰ علم ریاضت اور کمالات میں بے مثال ہے اور اس حکم کی واپسی ہی اس مرض کی دوا ہے اس پر دوبارہ حکم دیا گیا کہ سید محمد ؒ کو قید کرکے ہرات لایا جائے باقیوں کو قتل کردیا جائے اس طرح سے سید العارفین ؒ بحالت اسیری ہرایت لائے گئے وہاں پہنچ کر آپ ؒ سے حال دریافت کیا گیا آپ ؒ نے فرمایا کہ ہم نے کسی مسلمان کا بال تک بیکا کرنے کا ارادہ نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے کسی بے گناہ کی طرف تیر چلایا ہے اس وضاحت سے باوجود اٹھارہ دن تک بھوکے پیاسے عظیم مبلغ اسلام کو ایک کنویں میں بند رکھا گیا پھر وہاں سے شیراز لایا گیا یہاں سے رہائی کے بعد آپ ؒ نوسرہ اور بصرہ سے ہوتے ہوئے حلہ چلے آئے جہاں مدت تک آپ ؒ کے نام کا سکہ جاری رہا۔ اس کے بعد آپ کردستان وارد ہوئے اس وقت مرزا شاہ رخ آذربائیجان میں تھا جہاں آپ ؒ کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور مرزا شاہ رخ کے ارادوں پر آپ ؒ وہاں سے برف پوش پہاڑوں سے گزرتے ہوئے خلخال پہنچے ہی تھے کہ وہاں کے گورنر نے پھر سے گرفتار کرلیا۔ اور وہاں سات ہفتے تک قید و بند رکھنے کے بعد پابہ زنجیر ہرات روانہ کیا ہرات پہنچ کر مرزا نے آپ ؒ سے کہا کہ جمعہ کے روز منبر سے اپنی خلافت سے دستبرداری کا اعلان کریں۔ آپ ؒ نے منبر پر آتے ہی ایک قرآنی آیت کی تلاوت کی اور کچھ کہے بغیر منبر سے اترے اس کے بعد آپ کے پاؤں سے ظلم کی بیڑیاں کھول دی گئی اور حکم دیا کہ آپ ؒ کو تبریز لے جاکر روم بھیجدیا جائے تبریز سے روم کی طرف جانے آپ ؒ کو اشارہ نہیں ملا تھا اور غیبی اجازت بھی نہیں تھی اس لئے آپ ؒ شیرواں کی طرف تشریف لے گئے جہاں سے گیلان وہاں پر کچھ مدت عبادت الٰہی اور تبلیغ اسلام میں مشغول رہے ان حالات مساعد سے سینہ سپر رکھتے ہوئے یہ مرد حق وعارفوں کا سردار ۷۳ سال نو ماہ عمر پاکر اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور مسجد ماتاب کے قرب وجوار میں دفن کئے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ سید محمد نوربخش ؒ اپنے دور کے غرور و فرعون ثانی مرزا شاہ رخ کی قید وبند ابتلا آزمائش سے رہائی ملی تو ۸۴۵ تا ۸۶۸ کے درمیانی عرصے میں آپؒ کو تبلیغ و ارشاد کا سنہری موقع ملا اور آپ ؒ ایسے وقت میں بلتستان یعنی تبت خورد میں تشریف لائے تھے جب کہ اس سے قبل ان وادیوں میں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ؒ تشریف لائے تھے۔
خطہ بلتستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ نوربخش ؒ جیسے اللہ کے برگزیدہ بندے نے اس سرزمین کو اپنے مبارک قدموں سے سرفراز فرمایا اور بلتستان اسلامی ادب تہذیب کا مرکز بن گیا سید محمد نوربخش ؒ کی شخصیت میں مقناطیسی کشش تھی۔ آپ ؒ کی تقریروں اور انداز تعلیم میں اس قدر جاذبیت تھی کہ تھوڑی مدت میں دوسروں کے دل و دماغ پر اسلام کی حاکمیت کا سکہ بٹھا دیتے۔
وادی بلتستان میں آپ ؒ نے تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز علاق شگر سے کیا۔ کہا جاتا ہے اس وقت چو غازی تھم شگر کا حکمران تھا اور سید صاحب ؒ کی جامع تقریروں سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا اور پوری رعایا بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔ اس وقت علاقہ خپلو میں شاہ اعظم اور سکردو میں مقپون غوطے چو سنگے بادشاہ تھا سید محمد نوربخش ؒ نے پورے بلتستان میں دعوت اسلام دی اور شاہ ہمدان امیر کبیر ؒ کے نام پر بیعت کی۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخش ؒ کی تحریک کا خدوخال صوفیانہ تھے اور آپ ؒ صوفیاء کے فلسفہ اور دنیا کے تمام شان وشوکت سے کنارہ کشی پر یقین رکھتے تھے لیکن تاریخ کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ عارف کامل بزرگ تھے آپ ؒ نے صرف اور صرف اسلام کی تبلیغ کی اور آپ ؒ کے پیروکاروں نے اپنے آپ کو آپ ؒ سے نسبت کرکے نوربخشی کہلایا۔ بلتستان میں وارد ہونے والے درویشوں، فقیروں اور صوفیاء نے پرامن جدوجہد کی ایک مثال قائم کی۔ ان میں سید محمد نوربخش ؒ کو اہم مقام حاصل ہیں آپ ؒ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اسلام کے شمع فروزاں کو پرسکون انداز میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ایک خانقاہ سے دوسرے خانقاہ تک نیز قریہ قریہ پہنچادیا جس میں آپس کی بھائی چارے معاشرے کی یکجہتی اور خدا کے حضور سر بسجود ہونا اور انسانی زندگی کو پرامن حکمت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کے تحت بسر کرنے پر مبنی پیغام تھا۔ اسی طرح سے بلتی ادب و ثقافت کو صوفیانہ ادب سے زندگی ملتی ہے جو اسلام کے آفاقی اصولوں پر مبنی ہے صوفیاء اسلام کی تبلیغ کی وجہ سے بلتستان کے علوم وفنون ادب سب پر گہرا اثر پڑا اور آج بلتستان کے سو فیصد عوام اللہ کے فضل سے مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سید العارفین کے بتائے ہوئے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین