فقہ الاحوط کی روشنی میں اوقات نماز


تحریر حافظ زاہد علی حافظی


[پہلی قسط]

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لاهله والصلاة لاهلها.
اما بعد قال الله تعالي: اِنَّ الصَّلوةَ کَانَتْ عَلی المُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا.( سورہ نساء 103)
اس مختصر تحریر میں فقہ احوط کی روشنی میں نمازوں کے اوقات اور ان سے مربوط چند مسائل پہ گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا:
شاہ سید محمد نوربخش فرماتے ہیں : نمازوں کے اول وقت اور آخر وقت کا جاننا واجب ہے:
فَیَجِبُ اَنْ تَعْلَمَ اَنَّ اَوَّلَ وَقْتِ صَلوةِ الصُّبْحِ طُلُوْعُ الصُّبْحِ الصَّادِقِ۔۔الخ
لہذا فقہ احوط کو ماننے والوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مطابق نمازوں کے اوقات کو جان کر مقررہ وقت پر نماز ادا کریں ، کیونکہ خداوند متعال نے بھی ہمیں وقت پر ہی نماز کی ادائیگی کا حکم دیا ہے : اِنَّ الصَّلوةَ کَانَتْ عَلی المُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا.
پس کوئی بھی نماز کو اس کے مقررہ وقت سے ہٹ کر کسی اور وقت میں پڑھے یعنی اس کی نماز قبل از وقت ہوتو باطل اور بعد از وقت ہو توقضاء شمار ہوگی،اور یقینا اگر کوئی عمداً نماز کو قضا کرے توگنہگار شمار ہوگا جس کی عذاب کا ذکر احادیث و روایات میں نقل ہوئی ہے ۔
مختص اور مشترک وقت
عالم اسلام کے تمام فقہا کے ہاں یہ ایک متفقہ فقہی مسئلہ ہے کہ بعض نمازوں کے درمیان مختص وقت کے علاوہ مشترک وقت بھی پایا جاتاہے یعنی نماز ظہر اور نماز عصر کے اپنے اپنے مختص وقت کے علاوہ ان دونوں کا ایک مشترکہ وقت بھی ہے جیسا کہ فقہ احوط میں ظہر کا مختص وقت اس طرح بیان ہوا ہے :
وَ اَوَّلَ وَقْتِ الظُّهْرِ زَوَالُ الشَّمْسِ عَنْ وَسْطِ السَّمَائِ بِعَاشِرَةٍ وَ آخِرَ وَقْتِهَا صَیْرُوْرَةُ ظِلِّ کُلِّ شَبَحٍ مِثْلَیْهِ سِوی مَا تَجِدُهُ عِنْدَ الاِسْتِوَائِ فِی الاَفَاقِ الحَمَائِلِیَّةِ وَ فِی الاَفَاقِ الدُّوْلَابِیَّةِ مِثْلَیْهِ فَقَطْ لاَنَّ الظِّلَّ مَا یُوْجَدُ عِنْدَ الاِسْتِوَائِ فِیْهَا ۔
نماز ظہر کا اول وقت سورج کا آسمان کے وسط سے دس درجہ زائل ہونا ہے اور اس کا آخری وقت ہر چیز کے سایہ کا اس کا دوگنا ہونا ہے حمائلی علاقوں میں استواء کے وقت پائے جانے والے سایہ کے علاوہ اور دولابی علاقوں میں صرف دوگنا ہونا ہے کیونکہ وہاں استواء کے وقت کوئی سایہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح باقی نمازوں کےلئے بھی مختص اوقات بیان ہوئے ہیں ۔
آپ کو علم ہونا چاہیے کہ عالم اسلام کی فقہی کتابوں میں بلا اختلاف نماز ظہر اور عصر کے درمیان مشترک وقت اور مغرب اور عشاء کے درمیان مشترکہ وقت بھی بیان ہوا ہے۔لیکن اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ مشترک وقت ہر کسی کے لیے ہے یا اس شخص کے ساتھ خاص ہے جس کو کسی نا کسی طرح عذر شرعی درپیش ہو۔اس بارے میں شیعہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ کسی عذر کے بغیر بھی مختص وقت کو چھوڑ کر مشترک وقت میں پڑھنا جائز ہے اگرچہ ہر نماز کو اپنے مختص وقت میں پڑھنا بہتر ہے۔تا ہم اہل سنت فقہا کہتے ہیں کہ کسی عذر کے بغیر مختص وقت کو چھوڑ کر مشترک وقت میں نماز پڑھنا جائز نہیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت شاہ سید محمد نوربخش قدس سرہ اس حوالے سے کیا نظریہ ہے ۔ آپ فقہ احوط میں فرماتے ہیں :
وَ فِیْ السَّفَرِ وَ المَطَرِ وَ المَرَضِ اَوْ اَمْرٍ آخَرَ یُشَاکِلُهَا فِیْ العُسْرِ اِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عَنْ وَسْطِ السَّمَائِ بِعَاشِرَةٍ یَخْتَصُّ الوَقْتُ بِالظُّهْرِ بِمِقْدَارِ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ فَیَشْتَرِکُ بَیْنَ الظُّهْرِ وَ العَصْرِ۔۔الخ
سفر، بارش ، بیماری یا اس طرح کی کسی اور مشکل کی صورت میں سورج کا دس درجہ وسط آسمان سے ڈھل جانے کے بعد چار رکعت کی مقدار نماز ظہر کے لیے مختص ہوگی اور اس کے بعد کا وقت ظہر اور عصر کے درمیان مشترک ہوجائے گا ۔
فقہ احوط کی روشنی میں یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی عذر ہو تو مختص وقت معدود رکعت کے برابر محدود ہو جاتا ہے اور باقی اوقات ان دو نماز کے لیے مشترک ہوں گے یہاں تک دوسری نماز کا وقت مختص محدود نہ آجاۓ۔
یعنی ظہر کا جب اول وقت ہو جائےتو چار رکعت کی مقدار نماز ظہر کے لیے مختص ہوگی یہاں تک کہ نماز عصر کا آخری وقت آنے میں چار رکعت کی مقدار باقی ہو کہ یہ چار رکعت پڑھنے کا وقت عصر کے لئے مختص وقت ہوگا جو کہ عذر کی وجہ سے معدود رکعت کے برابر ہوا ہے اگرچہ عادی حالت میں نماز عصر کا مختص وقت اس سے کہیں زیادہ ہے۔اسی طرح نماز مغرب و عشاء کے مختص وقت اور مشترک وقت بھی فقہ احوط میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ امر ضروری کے موقع پر ایک دوسرے کے وقت میں پڑھی جا سکتی ہے۔
اس مسئلے کو بہتر انداز میں سمجھنے کی خاطر دو سوالات اوران کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
پہلا سوال: کیا کسی مشکل کے بغیر نماز ظہر کے وقت عصر کی نماز کو بجا لانا جائز ہے ؟
جواب: نماز عصر کو بلاضرورت ظہر کے وقت پڑھنا جائز نہیں کیونکہ فقہ احوط میں مشترک وقت کے لیے عذر کا ہونا ضروری قرار دیا ہے: اَوْ اَمْرٍ آخَرَ یُشَاکِلُهَا فِیْ العُسْرِ۔مکمل عبارت اوپر ملاحظہ فرمائیں۔
دوسرا سوال: بلا ضرورت عشاء کی نماز کب تک پڑھی جا سکتی ہے ؟
جواب: کسی مجبوری کے بغیر نماز عشاء آدھی رات بلکہ ایک تہائی رات تک پڑھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اَمَّا التَّاخِیْرِ بِلَا ضَرُوْرَةٍ فَکَانَ اِلی نِصْفِ اللَّیْلِ بَلْ اِلی ثُلُثِهِ۔
لیکن ضروری موقعوں میں نماز صبح کے قریب بھی عشاء کی نماز بجا لائی جاسکتی ہے کیونکہ ضرورت کے موقع پر یہ وقت مشترک وقت ہے لیکن بلا ضرورت پڑھے تو نمازقضار شمار ہوگی: فَاِنْ وَقَعَ تَاخِیْر اِلی قَرِیْبِ الصُّبْحِ ضَرُوْرَةً کَانَتْ اَدَاءً لَا قَضَاءً۔
واضح رہے عشاء کے آخری وقت میں فقہ احوط نے “قبیل طلوع الصبح “کہا ہے اور ضرورت کے موقع پر “قریب الصبح” کہا ہے۔ قبیل طلوع الصبح سے مراد ثلث اللیل ہے کیونکہ بلاضرورة تاخیر کرنے کو ثلث لیل تک جائز قرار دیا ہے ۔جبکہ ضروری کام ہوتو قریب الصبح یعنی نماز صبح کے اول وقت آنے تک عشاء پڑھ سکتے ہیں۔
لہذا دوسرے سوال کی روشنی میں بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بلاضرورت کسی بھی نماز کو اس کے اپنے مقررہ وقت میں ہی ادا کرنا ہوگا ورنہ اول وقت سے پہلے پڑھیں تو نماز باطل اور آخر وقت کے بعد پڑھے تو نماز قضاء ہوجاۓ گی ۔
لہذا اگر کوئی بندہ وقت آنے سے پہلے نماز پڑھے تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزرنے کے بعد پڑھے تو اس کو دوبارہ بجا لانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی پڑھی ہوئی نماز قضاء شمار ہوجاتی ہے۔جیسا حضرت میر سید محمد نوربخش نے فرمایا: وَ لَوْ اشْتَبَهَ الوَقْتُ وَ صَلَّیْتَ فِیْهِ ثُمَّ تَبَیَّنَ اَنْ وَقَعَتْ فِیْ الوَقْتِ اَوْ بَعْدَهُ فَلاَ قَضَائَ عَلَیْکَ وَ اِنْ وَقَعَتْ قَبْلَ الوَقْتِ وَجَبَتِ الاِعَادَةُ اَدَاء اَوْ قَضَاء۔
جب فقہ احوط کی ان عبارات سے یہ باتیں ثابت ہوگئیں تو اب فقہ احوط کی روشنی میں ان باتوں پر آنے والے ممکنہ اشکالات اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
اشکال نمبر 1:
وَ فِیْ الاَوْقَاتِ المَشْکُوْکَةِ بِالغَیْمِ تَاخِیْرُ الصُّبْحِ وَ الظُّهْرِ وَ المَغْرِبِ وَ تَقْدِیْمُ العِشَاءِ وَ العَصْرِ صَوَاب۔
بادل کی وجہ سے نمازوں کے اوقات مشکوک ہوجائیں تو نماز صبح ،نماز ظہر اور نماز مغرب کو دیر سے اور نماز عشاء اور نماز عصر کو جلدی پڑھنا بہتر ہے ۔
جواب:
واضح رہے اس عبارت میں شاہ سید علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ بادل ہونے کی صورت میں نماز صبح ،ظہر اور مغرب کو دیر سے پڑھنا بہتر ہے یعنی آخر وقت کے قریب نہ آخر وقت کے بعد۔ مثلا: آسمان پہ بادل آیا ہوا ہے اور آپ کو پتا نہیں رہا کہ نماز ظہر کا وقت آیا ہے کہ نہیں تو اس وقت آپ کے لیے بہتر ہے کہ نماز ظہر کو دیر سے پڑھیں اور نماز عصر کے وقت ایسا مسئلہ پیش آۓ تو تھوڑا جلدی پڑھیں یعنی اول وقت کے نزدیک ۔ لیکن خدانخواستہ آپ کو بعد میں پتا چلے کہ نماز ظہر کو آخر وقت کے بعد یعنی عصر کے وقت میں پڑھا ہے یا معلوم ہوجاۓ کہ عصر کی نماز کو ظہر کی نماز کے ٹائم پہ پڑھا ہے تو اس صورت میں آپ پر کوئی قضا واجب نہیں بلکہ آپ کی پڑھی ہوئی نماز ادا کی صورت میں صحیح ہے کیونکہ یہ ضرورت کا موقع ہے اور ضرورت کے موقع پہ تو فقہ احوط نے مشترکہ وقت بیان کیا ہے اور اگر ایسی حالت میں ان تینوں کو جلدی پڑھنے کا حکم ہوتا تو ممکن تھا اول وقت سے پہلے نماز واقع ہو جاتی اور نماز باطل ہوجاتی کیونکہ ان تین نمازں کے لیے اول وقت سے پہلے مشترکہ وقت نہیں ایسے ہی عشاء اور عصر کو دیر سے پڑھنے کا حکم ہوتا تو اشتباہاً اگر آخر وقت کے بعد واقع ہوجاۓ تو نماز قضاء ہوجاتی کیونکہ ان کا مشترکہ وقت اول وقت سے پہلے ہے ۔
اشکال نمبر 2:
وَ فِیْ الاَزْمِنَةِ وَ الاَمْکِنَةِ الحَارَّةِ الاِبْرَادُ بِالظُّهْرِ وَ اِنْ لَّمْ یَکُنْ کَذَالِکَ فَاَصْوَبُ الاَوْقَاتِ اَوْسَطُهَا۔
اور گرم موسم اور گرم علاقوں میں ظہر کو ٹھنڈ پڑنے پر پڑھنا بہتر ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو بہترین وقت نمازوں کا وہی اوسط وقت ہے۔
اس عبارت سے اگر کوئی اشکال کرے کہ یہاں نماز ظہر کو ٹھنڈ پڑنے پر پڑھنے کا ذکر کیا اور اس کے بعد اصوب الاوقات اوسطھا کہا ہے لہذا ظہر کو اپنے آخر وقت کے بعد بھی پڑھنا جائز ہے۔
جواب :
شاہ سید علیہ الرحمہ اس عبارت میں یہ نہیں فرمارہے کہ نماز ظہر کو گرمی میں عصر کے ٹائم پڑھنا بہتر ہے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ ظہر کو ٹھنڈ پڑنے تک دیر کریں لہذا یہاں سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نماز ظہر کو عصر کے وقت پڑھنا بہتر ہے بلکہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز ظہر کو گرمی میں اول وقت اور اوسط وقت کے بجاۓ آخر وقت میں پڑھنا بہتر ہے۔
اسی لیے آگے فرمایا اگر ایسا مسئلہ نہ ہو تو بہتر وقت وہی اوسط وقت ہے یعنی اول وقت اور آخر وقت میں پڑھنے سے اوسط وقت میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔
اسی عبارت کے بعد فرماتے ہیں : فَاِنْ کُنْتَ تُصَلِّیْ الفَرَائِضَ فِیْ اَوْسَاطِ الاَوْقَاتِ بِلَا تَعْجِیْلٍ مُخِلٍّ وَ لَا تَطْوِیْلٍ مُّمِلٍّ اَصَبْتَ الصَّلوةَ الوُسْطی بِلَارَیْبٍ وَ لَاعَیْبٍ۔
اگر تم نے فرض نمازوں کو ان کے درمیانی وقتوں میں کسی خلل انداز عجلت اور سست آور طوالت کے بغیر پڑھ لیا تو کسی شک و شبہ کے بغیر نماز وسطی کو پایا ہے۔
اس عبارت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ سید علیہ الرحمہ کے ہاں صلوة وسطی ہر وہ نماز ہے جس کو اس کے اوسط وقت میں بجالایا گیا ہو
جیسا کہ قرآنی آیت کو باب الصلوة کا سر نامہ کلام قرار دیا ہے : حَافِظُوْا عَلی الصَّلَوتِ وَ الصَّلوةِ الوُسْطَی۔نمازوں کی بالخصوص درمیانی نماز کی محافظت کرو ۔
مذکورہ آیت میں صلوة الوسطی کا ذکر کرنا علم بیان کے اصطلاح میں ذکر الاخص بعد الاعم کہا جاتا ہے جس کا مقصد تاکید اور اس کی اہمیت کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔
بعض مفسرین نے صلوة وسطی سے نماز صبح اور بعض نے نماز عصر اور بھی اس حوالے سے مختلف تفسیریں مل جاتی ہیں لیکن شاہ سید علیہ الرحمہ کے ہاں صلوة وسطی کسی ایک نماز میں حصر نہیں بلکہ ہر وہ نماز جسے اس کے اوسط وقت میں اداء کی جاے تو وہ صلوة وسطی ہے ۔
مثلا نماز ظہر کو اول وقت اور آخر وقت میں پڑھنے کے بجاۓ ان دونوں کے درمیان میں پڑھے تو یہی نماز ظہر صلوة وسطی شمار ہوگی۔ایسے ہی باقی نمازیں بھی اول وقت اور آخر وقت کے بجاۓ اوسط وقت میں پڑھ لیں تو وہ بھی صلوة وسطی شمار ہوں گی۔
اب شاہ سید کے اس نظریے کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں نمازوں کی حفاظت بالخصوص ان کو درمیانی وقت میں پڑھ کر صلوة وسطی کی حافظت کرنے کا حکم ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر نماز کی اول وقت اور آخر وقت کو مشخص کر کے بتا دیا ہے تاکہ اوسط وقت سمجھنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔
پس اشکال نمبر 2 سے ہماری بات نہیں ٹوٹتی
بالفرض اگر” ان لم کذالک واصوب ۔۔الخ” والی بات سے بلا ضرورت کسی نماز کو دوسری نماز کے وقت پڑھنا جائز قرار دیں تو فقہ احوط کی وہ عبارتیں لغو ہوجاتی ہیں جن کا شروع میں ذکر کیا اور ان دونوں باتوں کے آپس میں تعارض و تناقض ہوگا ۔
مثلا: عشاء کی نماز کو ایک تہائی رات تک بلاضرورة پڑھنا جائز ہےاور ضرورت کے موقع پر ایک تہائی رات کے بعد میں بھی نماز صبح سے پہلے پڑھی جاسکتی ہے ۔یعنی بلاضرورت ایک تہائی رات کے بعد پڑھی ہوئی نماز اداء نہیں بلکہ قضاء شمار ہوتی ہے۔
فَاِنْ وَقَعَ تَاخِیْر اِلی قَرِیْبِ الصُّبْحِ ضَرُوْرَةً کَانَتْ اَدَاءً لَا قَضَاءً۔
جبکہ اوپر کی عبارت سے اگر اشکال کرنے والے کی بات مان لیں تو بلا ضرورت بھی نماز کو اس کے باقی مشترکہ وقت میں پڑھنا جائز ہوجاے گا
لہذا یہ بات قابل قبول نہیں بلکہ وہی بات قابل قبول ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس سے نا صرف کسی دوسری عبارت کے ساتھ تعارض و تناقض پیش نہیں آتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے مبین ثابت ہوتی ہے۔
[جاری ہے۔۔۔۔۔]