جہالت میں فتوی کیوں۔۔۔؟


تحریر محمد ابراہیم غزنوی کھرکوی


ارشاد خداوندی ہے:
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا۔(سورۂ احزاب:58)
ترجمہ:اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیف دے، (اس بات پے تہمت لگا دے جو انہوں نے کیا ہی نہیں) تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔
موضوع کے عنوان پر مجھ جیسے کم علم کے لئے کچھ لکھنا شاید سمندر میں ایک کوزہ پانی ڈالنے کے مترادف ہو۔ مگر اِس پر نہ لکھنا شاید ایک خیانت ہوگی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز مملکتِ پاکستان میں شِدت پسندی کی ایک لہر بہت سالوں سے چلے آرہی ہے اور اِس شدت پسندی میں جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ ہمارا نوجوان طبقہ ہے۔ شدت پسندی کا رجحان ہمیں کیوں ملا؟ کہاں سے ملا؟ اور اِس رجحان میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھو دیا؟ اِن سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ تاہم کچھ مخصوص باتوں پر اور مخصوص محرکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
آج وطن عزیز میں ہر طرف کورونا وائرس نے اپنی چھوٹی جسامت کے باوجود دنیا کو تباہی کے دہانے پہ لاکھڑا کیا ہے،دنیا تبدیل ہوکر رہ گئی ہے،رہن سہن میں تغیر واقع ہو چکا ہے،مسجدیں ویران ہے، ہر شخص کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے،گویا دنیا قیامت سے قبل قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے،ایسے میں جب عمومی حالات تبدیل ہوچکے ہوں ،تو ساتھ ساتھ اس کا اثر ، سیاسی سماجی،مذہبی امور میں بھی ظاہر ہوتاہے،الحمد اللہ دین اسلام اپنی جامعیت کی وجہ سے دیگر ادیان سے کامل بلکہ اکمل ہے،جب جب کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ایسے علماء کرام جو اپنے اندر علمی رسوخ رکھتے ہیں،اجتماعی اجتہاد سے لوگوں کو دین میں موجود اس مسئلہ کا جامع حل پیش کرتے ہیں،جس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر مثبت اثرات کے پھیلاؤ میں نمایاں اضافہ واقع ہوتا ہے،لیکن جب اس روش کو چھوڑ کر ہر کوئی (عام فہم افراد) اپنی من مانی کے فتوے دینا شروع ہوجاتاہے،تو نتیجے میں عام طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین ایک قسم کی بے چینی پھیلنا شروع ہو جاتی ہے،جو آگے چل کر مذہب اور خصوصا مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے منافرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ ایک انجینئر، ڈاکٹر کے نسخہ میں دخل انداز ہوجائے تو مریض کو اپنی خیر منانی چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر معلوم نہیں ہے تو”واللہ اعلم”کہہ کر بات ختم کردے اور اگر اس کے بس میں دوسرے سے معلوم کرنا ہے تو دوسرے سے پوچھ کے اس تک پہنچائے۔ ۔فتویٰ جیسی بھاری ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اور اس کا مجاز کون ہے ؟ یہ ایک وضاحت طلب مسئلہ ہے،اس کے لئے علم دین ہونے کے ساتھ ساتھ علمیت کے اندر رسوخ کا ہونا اور اس کے مطابق معیاری تقویٰ کا ہونالازمی جزء ہے،مسئلہ دیکھ کر فی الفور فتویٰ صادر نہیں کیا جاتا بلکہ ایک متقی و صاحب بصیرت عالم اس مسئلہ کی پوزیشن کو جانچتا ہے،اس کی گہرائی میں غوطہ زن ہوجاتا ہے ،پھر جاکر کسی نتیجے پہ پہنچ کراس مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے،آج کل سوشل میڈیا نے ہر کسی کو نام نہاد مفتی بنادیا ہے،ماسوائے کچھ صاحب علم افراد کے،کچھ افراد موجودہ کوروناوائرس کے بارے میں ہو یا دینی معاملات ان تمام ترصورتحال میں اپنی سرسری معلومات کے مطابق فتوے پہ فتوے لگا رہے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے عہد مبارک میں اس شخص پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا جس نے فتویٰ دینے میں عجلت کا مظاہرہ کیا۔قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صحابی زخموں سے بلکل چور تھا ساتھ ساتھ اس کو جنابت لاحق ہوچکی تھی،ایسے میں اس نے اس پر غسل کے وجوب کا حکم دیا یہ بھی خیال نہ رکھا کہ وہ زخموں سے بلکل چور ہے،نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شخص فوت ہوگیا،جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بابت علم ہوا تو آپ نے شدید غم و غصے کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
”قتلوه قتلهم الله! الا سالوا اذ لم یعلموا فانما شفاء العی السوال،انما یکفيه ان یتیمم.(صحیح الجامع الصغیر)
ترجمہ: اسے اپنے ہی ساتھیوں نے ہلاک کردیا،اللہ ان کو ہلاک کردے!ان کو علم نہیں تھا تو انہوں نے پوچھا کیوں نہیں،جہالت کا علاج صرف اور صرف پوچھنے میں ہے.
اس سے بے علمی میں فتویٰ دینے کی کراہت کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان الفاظ سے کیا جا سکتا ہے ”قتلھم اللہ”(اللہ ان کو ہلاک کردے)اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ فتویٰ جب علمیت کی بنیاد پر دی جائے تو وہ خیر لاتی ہے،لیکن جب وہ جہالت میں دی جائے تو وہ ہلاکت اور تخریب کا باعث بنتی ہے،مفتی حضرات کے پاس فتویٰ کی اہلیت کے لئے علمیت اور احتیاطی رویہ کا ہونا لازمی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک اور حدیث اس ضمن میں ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے:
“حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جِس شخص نے جان بوجھ کر کسی دوسرے کو بات بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جِس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اُس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اُس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جِس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اُسی پر لوٹ آئے گا۔(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )
اسی وجہ سے شاہ سید محمد نوربخش رح نے کسی کلمہ گو مسلمان پر کفر و شرک کا فتوٰی صادر کرنے کو جہالت قرار دے کر اس سے سختی سے منع فرمایا ہے چنانچہ الفقہ الاحوط کے باب الصلٰوة میں فرماتے ہیں:
“جو شخص اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور آخرت کےدن پر ایمان رکھتا ہو اور وہ کہتا ہو کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں اور شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلى الله عليه والہ و سلم اللہ کے رسول ہیں وہ نماز قائم کرتا ہو،مالدار اور صاحب نصاب ہونے کی صورت میں زکوٰة دیتا ہو،ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہو اور استطاعت رکھنے کی صورت میں بیت اللہ کا حج کرتا ہو تو کسی بھی مسلمان شحض کیلۓ یہ جائز نہیں کہ وہ ایسے شخص کو کسی ایسی چیز کی بناء پر کفر سے منسوب کرے جسکا وہ عقیدہ نہ رکھتا ہو جبکہ وہ خود معاملے کی حقیقت کو نہ جانتا ہو اور یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ شخص اسکا عقیدہ نہ رکھے وہ کافر ہے تو یہ جہالت کے شکار حضرات کا عقیدہ ہے”[کتاب میر سید محمد نوربخش اور مسلک نوربخشیہ از غازی نعیم ،صفحہ نمبر446]
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا ، دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہو گا یا کہنے والا ، یا جس کے بارے میں کہا گیا۔(مشکوۃ)

مذکورہ دلائل نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فتویٰ دینا ایک حساس معاملہ ہے جس کے لئے علم و تقویٰ کے اسلحے کا ہونا لازمی ہے، خیر یہ تو ہوئی جہالت پر مبنی فتویٰ کی بات لیکن اس سے بڑھ کر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ غرور کی بیماری ہمارے علوم شریعت کے نووارد حضرات میں اتنی سرایت کر گئی ہے جو”هم رجال و نحن رجال” کے لبادہ اوڑھے اس میدان میں کوسوں دورنکل چکے ہیں۔ اور مفتیان دین اور طفل مکتب بھی اس چمن میں غوطہ زن ہے۔
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کے مظاہر اور کرشمے ہیں اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹانہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اسی بابت اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل سطور میں کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔
اختلافات کے مذموم اسباب
قبیح اسباب کی بنا پر جو اختلافات رونما ہوتے ہیں وہ مذموم ہوجاتے ہیں۔ ایسے اسباب تو متعدد ہیں؛ مگر ان کو دو میں منحصر کیا جاسکتا ہے:
ا۔ وہ اختلافات جو جہالت کی بناء پر ہو۔
2۔ وہ اختلافات جو محض تعصب اور نفس پرستی کی بناء پر ہو۔
1۔ جہل کی بنا پر اختلاف
اختلاف کی وجوہات پر غور کیاجائے تو ”جہالت“ ایک اہم سبب ہے جس کی بنا پر اختلافات رونما ہوتے ہیں، مذہبیات سے ناواقفیت، احکام کے مابین درجات اور ان کے حدود سے عدم معرفت، جس امر میں گفتگو ہورہی ہے اس میں مہارت کافقدان اوراس کے لوازم ومقتضیات سے جہل ایسا سنگین وخطرناک مرض ہے جس نے امت کو اختلاف وانتشار کا شکار بناکر رکھ دیا ہے، دینی مسائل میں محض عقل سے دریافت نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ دین کے اصول کی دریافت کے بعد صحیح راہ ملتی ہے، ہر شخص کی رائے زنی، ہر کس وناکس کی مداخلت، ہمہ وشما کی فتویٰ بازی نے امت کا شیرازہ پارہ پارہ کیاہے۔ حدیث میں اس کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
ان الله لا یقبض العلم انتزاعًا ینتزعه من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس روٴوسًا جهالاً، فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا وأضلّوا․ (بخاری جلد 1حدیث نمبر20، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم)
اللہ تعالیٰ بندوں سے یک لخت علم کو سلب نہیں کرے گا؛ بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو بنالیں گے، پس ان سے سوال کیا جائے گا وہ بھی بلا علم فتویٰ دیں گے، نتیجتاً خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
2۔ تعصب ونفس پرستی کی بنا پر اختلاف
تعصب بھی اختلاف کے باب میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، انسان جانتا ہے، پہچانتا ہے، مگر قومی ہمدردی، لسانی وزبانی ہم آہنگی،مسلکی اتحاد واتفاق، اور سیاسی اشتراک کی وجہ سے اختلاف کرتا ہے، یا پھر ان سب سے قطع نظر محض نفسانی خواہش کی تکمیل کے لیے اور جذبات کی تسکین کے لیے اختلاف کرتا ہے.یہود ونصاریٰ کا اپنے نبیوں سے، اور کفار مکہ کا اسلام ومسلمانوں سے اختلاف وعناد کا بنیادی داعیہ وکلیدی محرک یہی تعصب ہی تو تھا۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں اس قبیح داعیہ کی طرف واضح اشارہ موجود ہے:
ما ضلّ قوم بعد هُدی کانوا عليه الا أوتوا الجدل، ثم قرأ رسول الله صلی الله عليه و آله وسلم هذه الآیة: ما ضربوه لک الا جدلاً، بل ہم قوم خصمون. (ترمذی: ، کتاب التفسیر، )
کہا گیا ہے: مراد یہاں عناد اور قرآن میں بعض کا بعض سے تعارض پیدا کرکے شک پیدا کرنا ہے کہ اپنے مذہب و مشرب اور اپنے مشایخ کے آراء کی ترویج ہو، ان کا مقصود حق کی نصرت کرنا نہیں ہے، اور یہ صورت حرام ہے۔
یہ دو اسباب بہت ہی اہم ہیں جو اختلاف کو جنم دیتے ہیں۔
اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کریم نے تو بہت ہی واضح انداز میں کہا ہے:-
ولا یجرمنکم شنآن قوم أن صدوکم عن المسجد الحرام أن تعتدوا.
ترجمہ : ایسانہ ہو کہ کسی قوم سے اس سبب سے کہ انھوں نے مسجد حرام سے روک دیا ہے وہ بغض تمہارے لیے باعث بن جائے حد سے تجاوز کرنے کا۔
آیت میں معاملہ کفار کا ہے ان کی مخالفت میں بھی حد سے تجاوز کو روکا جارہا ہے، تو ان اختلافات کی بابت کیا کہا جائے گا جو کافروں ومسلمانوں کے مابین نہیں؛ بلکہ بظاہر کلمہ گو حضرات کے مابین ہےجو ایک دوسرے کو کافر قرار دینے میں تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔اور نت نئے فتوی مخالفین کے خلاف پیش کرتے ہیں۔
اس وقت وطن عزیز میں شدت پسند عنصر نوجوان نسل کی نشونما میں پیوست ہوکر رہ گئی ہے اور اِس خطرناک ترین ماحول میں نوجوان ذہن نے وہ تمام نظریئے قبول کرلئے جو اُس کے سامنے آئے اور جن کو اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ، سنا ، اور سمجھا۔
ہمارے تعلیمی ادارے اِس حد تک اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ وہ نوجوان ذہن کے خیالات کو اُس انداز سے سنوارے کہ وہ موجودہ ماحول کو ایک مدبرانہ انداز سے دیکھنے کے قابل ہوسکے اور اِس ماحول میں چھپی شدت پسندی کو جان لیں۔ اس کا نقصان ہمیں اِس حال میں اٹھانا پڑ رہا ہے کہ آج کا نوجوان حد سے زیادہ انتہا پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔
ہمارے آج کے نوجوان میں زندگی کے ہر ایک شعبے کی انتہاء پسندی رچ بس گئی ہے۔ خواہ اُس کا تعلق دینی ہو یا دنیاوی، معاشی ہو یا معاشرتی، ماحولیاتی ہو یا رسم و رواج، غرض ہر ایک جذبے میں ہماری نوجوان نسل اِس حد تک انتہاء پسند ہو گئی کہ جس کے آگے وہ کچھ دیکھنے کا قابل ہی نہیں۔ مسائل کو علمی معیار سے پرکھنا ، سمجھنا اور اُن کا حل پیش کرنا چھوٹ گیا۔
مذہبی احکامات اور اُس میں لچک کو جاننا اور اُن احکامات کو حقیقی معنوں میں عین قرآن و سنت کی رو سے جانچ کر دلائل کے ساتھ سمجھ پانا ہمارے لئے مشکل ترین شے بن گئی۔ جس کی وجہ سے ہم سُنی سنائی باتوں پر اور کسی ایسے شخص کی پیش کردہ احکامات کو سچ جاننا جس کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا دیکھائی نہیں دیتا ہو اُن احکامات پر پورے اعتماد کے ساتھ عمل پیرا ہو رہے ہیں۔
مخصوص شدت پسندانہ سوچ رکھنے والے لوگ ہماری اِس نواجوان نسل کی ذہن سازی میں اِس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب نہ ہی اُن کو کسی حکومتی مذمت کا خوف ہے اور نہ ہی وہ روزِ قیامت اللہ تعالی کے دربار میں سزا سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اُن کو اگر کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ یہی کہ اُن کے بنائے گئے ” شدت پسند انسانی بم ” ہمیشہ اُن کی ایک صدا پر ہر وقت لبیک کہے خواہ اُس لبیک کی صدا ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی طوفان کیوں نہ کھڑا کر دے۔
اِن ” شدت پسندانہ انسانی بموں ” میں جو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ہیں وہ ” بغیر تحقیق کے اور بغیر دلائل و ثبوتوں کے کسی پر بھی کفر و الحاد کے فتوے لگانے والی سوچ کے “انسانی بم” ہیں۔
ذرا سوچیں:
کیا کوئی ایسا شخص یا ایسا نوجوان جس کی علمی تحقیق انتہائی ناقص اور تجربہ زندگی کے کچھ سالوں کا ہو وہ کسی پر کفر اور الحاد کا فتوی لگانے کا حقدار ہوسکتا ہے؟
کیا ایک ایسا نوجوان جس کی علمی پرواز انتہائی محدود ہو اور اُس نے ابھی تک زندگی کی وہ حقیقت ہی نہ جانی ہو جس میں اللہ تعالی اپنی ذات کو واحد اور لاشریک فرماتا ہو کیا وہ کسی کے ایمان کا پیمانہ بن سکتا ہے؟
کبھی نہیں۔ اور ہرگز نہیں۔
بلکہ ایسے لوگ ہی معاشرے کے لئے وہ بدنما داغ ہیں جِن کی وجہ سے ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر ضرب لگائی جاتی ہے اور غیر مسلم ہمیں شدت پسند اور دہشت گرد کہتے رہتے ہیں۔
ہمارے ایسے ہی کچھ بندے موجودہ دور کے مشہور سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر اپنی اسی جہالت کی وجہ سے دین اسلام کا غلط پرچار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جِن کی وجہ سے وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت کبھی پروان چڑھنی تھی وہ بھی معدُوم ہو کر رہ جاتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی ذہن میں اشکالات و شبہات کا جنم لینا عین ممکن بات ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہوگا جو اپنے عقیدے کے بارے میں سوچتا نہ ہو۔ وہی لوگ تو کامیاب ہیں جو اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے اِن سوالات کے جواب علمی دلائل اور ثبوتوں سے پیش کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایسے ہزاروں لوگوں کی آمجگاہ بن چکا ہے جس میں ہر طرز کا انسان سوچنے پر مجبور ہے۔ وہ اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک ہر ایک زاویے پر اعتراض کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ اپنی دینی قیود کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اُس پر سوالات بھی اٹھاتا ہے۔
کیوں؟ کس لئے وہ ایسا کرتا ہے؟
یہی وہ سوالات ہیں جن کے جواب میں کچھ لوگ علمی اور تحقیقی مواد پیش کرنے کی بجائے شدت پسند اور انتہاء پسندی سے کام لینا اپنا دینی فریضہ سمجھ لیتے ہیں۔ اور جب وہ اِن اشکالات و سوالات کے جواب اپنی اپنی محدود عقل و شعور میں موجود نہیں پاتے تب سوال کرنے والے پر الحاد و کفر کا الزام لگانے میں دیر نہیں کرتے۔
آخر کیوں؟
کیا ہمارا علم اتنا کامل ہے کہ ہم کسی بھی سوال کرنے والے پر بغیر دلیل و تحقیق کے کفر کا فتوی دے سکیں؟
کیا ہمارا ضمیر اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ کسی بھی ذی روح کو اُس اذیت تک پہنچا دیں جہاں پر وہ دینی احکامات کو ماننے سے صریحاً انکاری ہی ہو جائے؟
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں ہمارے آس پاس جن کی وجہ سے انگلی سب پر اٹھتی ہے۔ اسلام مذہب ہے امن و امان کا۔ اِس مذہب میں کوئی تشدد یا جبر نہیں۔ اِس مذہب میں کہیں یہ بات نہیں کہ بغیر تحقیق کے کسی کو بھی کفر کا تاج پہنایا جاسکتا ہے۔ آج جو لوگ دوسروں کو اپنی علمی کمتری کی بدولت دین سے مُنکر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ تو لیں۔ وہ خود کتنے اسلام پسند ہیں؟ اور کیا اُن کے دن رات کے شب و روز عین اسلامی ہیں؟ کیا اُن کی اپنی زندگی اِس قابل ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بارگاہ میں شرمسار نہیں ہوں گے؟
دینی نقطہ نگاہ سے کسی کے سوال کا کسی دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بننا اور اُس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا تب ممکن ہے جب اُس کے پاس اُس سوال کے توڑ کی صورت میں دلائل کی کمی اور علمی لحاظ سے کمتری موجود ہو۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ جس سوال کا جواب آپ کے پاس نہ ہو تو آپ سوال کرنے والے پر کفر کا فتوی لگانے میں دیر نہ لگاؤ۔ ہوسکتا ہے کوئی صاحبِ علم و دانش عین شرعی اور قرآن و سنت کی روشنی میں اُس سوال کا ایسا جواب پیش کردے جس کو دیکھ کر سوال کرنے والے کا ایمان اور مضبوط ہو جائے۔
جس طرح ایک جاہل اور ایک عالم برابر نہیں ہو سکتے عین اُسی طرح کسی کے سوال کا غلط مطلب نکال کر اُس پر اپنی کم علمی سے وار کرنا بھی آپ کو دینی لحاظ سے عین حقیقی مسلمان ثابت نہیں کردیتا۔
مضمون لکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم اپنے آپ کا محاسبہ کریں اور اپنے دین و مذہب کا باشعور انداز سے مطالعہ کرکے اِس کی حقیقی روح کو سمجھیں اور اِس بات کے پابند بنیں کہ اسلام میں بغیر تحقیق کے کسی پر شک و شبہ کی بالکل گنجائش نہیں۔ نہ ہی اسلام ہمیں اِس کا حکم دیتا ہے کہ کسی کے سوالات و اشکالات کے بدلے میں واضح اور مستند دلائل و ثبوت کے بجائے اس پر اپنی کم علمی کی آڑ میں کفر و الحاد کا لیبل لگائیں۔
اللہ ہم سب کو حق بات کہنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرما۔