عاشقِ اہلبیت آخوند محمد تقی الحسینی مرحوم


تحریر سید بشارت حسین تھگسوی


تحریر:
سید بشارت حسین تھگسوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم: مَن أحبَّ قَوماً حَشَرَهُ اللّه‏ فِى زُمرَتِهِم.(مقدمه مودة القربي، از سيد علي همداني)
فرمان ِرسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں یہ بات طے ہے کہ جو شخص جس قوم یا قبیلے سے محبت کرتا ہے خدا قیامت کے دن اسے اسی قوم کے ساتھ محشور کرے گا۔ دنیا میں بہت ساری قومیں آباد ہیں اور مختلف نظریات اور عقائد کے لوگ بستے ہیں ۔ ان تمام گروہوں میں ایک ایسا گروہ بھی ہے جس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کا جینا مرنا اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے لئے ہو اور ان کی زندگی کا مقصد محب اہلبیت طاہرین ہے ، یہ لوگ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں مگر ان کو عشق محمد و آل محمد پر سودا بازی کسی صورت قبول نہیں ۔ یہ ایک ایسا عشق ہے جس کے لئے مذہب و ملت کا بھی کوئی قید نہیں ۔ ہم مسلمان اگر محبت و مودت اہلبیت کو اپنی پہچان کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو اس دلیل کی بنیاد پر ہے کہ ہم پر خداوند متعال نے آیۃ مودۃ کی شکل میں ان ہستیوں کی محبت و مودت کو واجب قرار دیا ہے ۔ دنیا کے باقی ساری محبت کی اقسام میں سے اس محبت کی الگ خصوصیت یہ ہے کہ یہ محبت معرفت کے بغیر ثمرہ نہیں دیتی، کیونکہ معرفت محبت کی پہلی سیڑھی ہے ۔
زمانہ حاضر میں جن نوربخشی شخصیات کو ہم نے عشق محمد و آل محمد میں سرشار پایا اور محبت اہلبیت کو جنہوں نے اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا ان میں سے ایک اہم نام “الحاج آخوند محمد تقی الحسینی کھرکوی ” ہے ۔ آخوند مرحوم کا تعلق دین کے ان خادموںمیں سے تھا جن کو دین کی تعلیم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع تو نصیب نہیں ہوا لیکن جو کچھ انہوں نے اہل بیت علیہم السلام کے در سے حاصل کیا تھا اسی کو اپنا مقصد حیات بنایا ۔ راقم نے کئی بار آخوند محمد تقی الحسینی کو قریب سے دیکھا اور ان کی غیر رسمی بامعرفت گفتگو سے بھی مستفیض بھی ہونے کا موقعہ ملا ، تا ہم ان کی کسی تقریر سننے کی توفیق کبھی نصیب نہیں ہوئی ۔ جب میں نے ان کی تالیف “سفینہ نوریہ ” کا مطالعہ کیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ انہوں نے حضرت میثم تمار کی سیرت پر چلنے کی کافی کوشش کی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر بیان کروں تو آخوند محمد تقی نے اپنی زندگی میں عشق علی کو آخری سرمایہ سمجھا تھا ۔
امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کی رات جب ہمیں ان کی وفات کی خبر کی ملی تو میرے ذہن میں وہ ساری باتیں پھر سے تازہ ہوگئیں جو ان کے سب سے بڑے بیٹے ڈاکٹر عاشق حسین نے ان کے حوالے سے مجھ سے کی تھی۔ آخوند مرحوم نے انتہائی مشکلات میں نہ صرف اپنے بیٹوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا تھا بلکہ اپنے ایک بیٹے کو دینی علوم اور تحقیق کی طرف مکمل رغبت دلایا تھا جسے ہم ڈاکٹر انجنیئر نذیر حسین کے نام سے جانتے ہیں ۔ نذیر صاحب کا اہم علمی کارنامہ ثبوت عزاداری پر ان کی کتاب “زندہ جاوید کا ماتم کیوں ؟” ہے ۔
آخوند محمد تقی الحسینی جہاں اپنے علاقے میں امام جمعہ والجماعت کے فرائض انجام دیتے تھے وہاں وہ مختلف موضوعات پر قلم فرسائی کی بھی کوشش کرتے رہتے تھے۔ تبیان نوربخشیہ میں ان کے کئی مضامین شائع ہوچکے ہیں اور رسالہ سفینہ نوریہ کی تالیف کے ساتھ حضرت شاہ قاسم فیض بخش قدس سرہ کی کتاب “رسالہ امامیہ ” اور حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی علیہ الرحمہ کی کتاب ” مودۃ القربیٰ” کا اردو ترجمہ کرکے شائع کیا ۔ علاقہ کھرکوہ کے قریبی دوستوں کے بقول آخوند مرحوم ایسے ذاکر تھے کہ جب وہ حضرت خامس آل عباء امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار ساتھیوں کے مصائب کا تذکرہ کرتے تھے سنگ دل شخص بھی گریہ و زاری پر مجبور ہوتے تھے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی اپنی موت بھی مولائے کائنات کی شہادت کے ایام میں ہوئی ۔آخوند محمد تقی مرحوم کی تربیت کا اثر ہے کے ان کے نورچشمان جناب ڈاکٹر عاشق حسین، ڈاکٹر انجنئیر نذیر حسین، سیاسی رہنما جناب مشتاق حسین، جناب فیاض حسین اور جناب اجلال حسین بھی ہر وقت مذہب و ملت کے کاموں میں سرگرم عمل رہتے ہیں ۔
میری دعا ہے کہ الحاج آخوند محمد تقی الحسینی مرحوم کو خدا جوار آل محمد میں جگہ عنایت کرے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین