اذان کا ایک تحقیقی جائزہ


تحریر علامہ سید بشارت حسین تھگسوی


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذان کے لغوی و اصطلاحی معنی
اذان لغت میں “اعلان ” یا “اعلان کرنے ” کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ [لسان العرب ، ج ۱۳ ، ص ۹]
قرآن مجید اور احادیث و روایات میں بھی اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ٰ ہے : وَ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِ‏ يَأْتُوكَ.اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔[سورہ حج،آیت ۲۲۷]پرور دگار نے قرآن مجید میں دوسری جگہ فرمایا ہے:فَأَذَّنَ‏ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ. ان کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا۔[سورہ اعراف، آیت ۴۴]اسی طرح ایک اور جگہ فرمان پروردگار ہے : وَ أَذانٌ‏ مِنَ اللَّهِ وَ رَسُولِه‏. اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے ۔[سورہ توبہ ،آیت ۳]
اسی لئے عربی زبان میں اذان دینے کی جگہ کو “مئذنه ” اور “مناره ” کہتے ہیں ۔ [لسان العرب ، ج ۱۳ ، ص ۹] شرعی اصطلاح میں نماز کا وقت داخل ہونے کی خبر دینے کے ساتھ نماز کے لئے دعوت دینے کو اذان کہا جاتا ہے ۔ [ایضاً]
اذان کی تاریخ
شریعت اسلامیہ میں اذان کا حکم کب آیا ،یا کب سے نماز کے لئے باقاعدہ اذان دی جانے لگی ؟ یہ ایک اہم اور اختلافی بحث ہے جس کے بارے میں مورخین اور محققین نے گفتگو کی ہے ۔ اس مطلب کی تفصیلی وضاحت اور تاریخی حقیقت جاننے کے لئے ایک الگ مقالہ یا مضمون درکارہے۔ ہم یہاں پر اذان کی مختصر تاریخ بیان کرکے اصل بحث کی طرف جائیں گے ۔
اذان کی تاریخ کے حوالے سے مندرجہ ذیل نظریات موجود ہیں :
۱۔شب معراج اذان کا حکم ہوا ۔ وہاں پر حضرت جبرائیل نے اذان اور اقامت پڑھیں اور اس کے بعد انبیاء علیہم السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی ۔ [مجمع الزاوائد، ج ۱، ص ۳۲۸، /الاوسط للطبرانی، ج ۱۰، ص ۱۱۴]
۲۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں ہی اذان کا حکم نازل ہوا۔ [فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج ۲ ، ص ۹۴]
۳۔ مدینہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد اذان کا حکم رائج ہوا۔ یہی قول اہل سنت کے ہاں مشہور بھی ہے ۔ [السیرۃ الحلبیہ ، ج۲، ص ۹۳/شرح الزرقانی علیٰ موطامالک ، ج۱، ص ۱۳۵]
۴۔شریعت اسلامیہ میں اذان کا حکم ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوا۔ [فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج ۲، ص ۶۲]
۵۔ سب سے پہلے جبرئیل امین علیہ السلام نے آسمان میں اذان دی ۔ زمین پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ ہجرت کے بعد اذان رائج ہوئی۔ [عیون اخبار الرضا، ج۲، ص ۲۳۸/وسائل الشیعہ ، ج ۵، ص ۴۳۹]
پیغمبر کے زمانے کے مئوذن
تاریخ و حدیث کی کتابوں میں رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اذان دینے والے ان چار افراد کا نام موجود ہے :
۱۔ بلال بن رباح حبشی ، ۲۔ ابو محذرہ قرشی ، ۳۔ عبداللہ ابن مکتوم، ۴۔ سعد قرظ [الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ج۵، ص ۴۵۰/ تہذیب الاسماء للنووی،ج۱، ص ۵۵] رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موذن کے طور پر سب سے زیادہ مشہور حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ ہوئے۔
کلمات اذان
اذان اوراسلام میں اس کی اہمیت کے بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں تا ہم اختلاف اذان کے کلمات اور الفاظ میں ہے ،یہی وجہ ہےکہ عالم اسلام میں اذان کے مختلف طریقے رائج ہیں اور بعض مسلمانوں کے ہاں اذان کے کلمات دوسروں سے مختلف اور کمی یا بیشی کا شکار ہیں ۔ ہم سب سے پہلے یہاں تمام مسلمانوں کے درمیان رائج کلمات اذان کو نقل کرنے کے بعد اختلافی امور پر حدیث، تاریخ اور سیرت کی روشنی میں بحث کریں گے :
الله اکبر، اشهدان لا اله الا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي علي الصلوة، حي علي الفلاح ، الله اکبر ، لا اله الا الله
یہ وہ کلمات ہیں جو تمام مسلمانوں کی اذان میں موجود ہیں لیکن “اشهد ان عليا ولي الله، حی علی خیر العمل، محمد و علی خیر البشر ” پر بعض مسلمانوں کو نہ صرف تحفظات ہیں بلکہ بعض اسے بدعت اور حرام سمجھتے ہیں ۔ اس مختصر مضمون کا اصل موضوع یہی تین جملے ہیں ۔ موجودہ نوربخشی اذان میں رائج يه تين جملے کیا لوگوں کے خود ساختہ ہیں یا رسول خدا، ان کے اصحاب و تابعین اور دیگر علماء نے بھی ان جملوں کو اذان میں استعمال کیا ہے ؟
اشهد ان عليا ولي الله
اذان کے کلمات میں سے ایک اہم اور سب سے زیادہ اختلافی کلمہ ” اشهد ان عليا ولي الله” ہے ۔ مسلک نوربخشیہ کے بزرگان کی کتابوں میں موجود اذان کے کلمات میں بھی ” اشهد ان عليا ولي الله” شامل ہے ۔شهادت سے مراد ہے : علم رکھتے ہوئے کسی اعتقادکا بیان کرنا خواہ وہ اس علم تک حِس سے پہنچا ہو یا عقل و بصیرت سے۔ ولایت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت بھی یہی ہے ، یعنی انسان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت پر مکمل اعتقاد رکھنے کی گواہی دیتا ہے ۔ ہم اذان میں خداوند متعال کی توحید اور اس کی وحدانیت کی گواہی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔اس کے بعد امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دینا بھی عقل اور نقل دونوں سے ثابت شدہ بات ہے ، کیونکہ نوربخشی بزرگوں کی مختلف کتابوں میں وارد شدہ احادیث اور ان کے اقوال امامت و ولایت علی علیہ السلام کی گواہی پر مستحکم اور بہترین دلیل ہیں ، نیز مسلک نوربخشیہ کے پیروکار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد نظریہ امامت کے ہی قائل ہیں جس کی تفصیل امیر کبیر سید علی کی مودۃ القربیٰ، السبعین فی فضائل امیر المومنین،دعوات صوفیہ امامیہ، شیخ علاءالدولہ سمنانی کی المناظر المحاظر للمناظر الحاضر ، رسالہ فی الفتوۃ اور میر سید محمد نوربخش کی کتاب الاعتقادیہ، فقہ الاحوط، رسالہ معراجیہ اور دیگر کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔
الفقہ الاحوط کے ان تمام نسخوں(سوائے اہل حدیث عالم مولوی خلیل بلغاری کے نسخے کے جسے اس نےلکھ کر حضرت میر علی رضا قدس اللہ سرہ سے منسوب کیا ہے ) جن میں اذان کے کلمات درج ہیں ان سب میں بھی ” اشهد ان عليا ولي الله” موجود ہے ۔کتاب “دعوات صوفيه اماميه ” يا ” دعوات صوفيه ” کے تمام قلمی اور علامہ محمد بشیر مرحوم اور سید خورشید عالم کے اردو ترجمے سمیت تمام مطبوعہ نسخوں میں بھی یہی جملہ اذان کا حصہ ہے ۔الفقہ الاحوط کے وہ نسخے جن کی شروحات یا حواشی میں نوربخشیوں کے ہاں رائج مکمل اذان کے کلمات نقل ہوئے ہیں :
۱۔ قلمی نسخہ[ ۱۱۴۶ھ]، مملوکہ آخوند عبدالستار یولجک کریس۔
۲۔ قلمی نسخہ [۱۱۵۶ھ] مملوکہ مفتی اعظم سید محمد شاہ تھلوی۔
۳۔ قلمی نسخہ میر سید عبداللہ [۱۱۶۸ھ] مملوکہ پیر نوربخشیہ سیدمحمد شاہ نورانی کریس۔
۴۔ قلمی نسخہ سید عبداللہ، مملوکہ پروفیسر سید حسن شاہ شگری۔
۵۔ قلمی نسخہ، مملوکہ سید خورشید عالم گلشن کبیر۔
۶۔ قلمی نسخہ میر سلطان علی [۱۲۱۰ھ] مملوکہ سید علی کورو۔
۷۔ قلمی نسخہ مملوکہ سید حبیب اللہ مرحوم سلینگ۔
۸۔ قلمی نسخہ مملوکہ سید علی کاظمی چھوربٹ ۔
۹۔ سراج الاسلام شرح فقہ الاحوط ،میر مختار اخیار۔
یہ تھے وہ اہم نسخے جن میں کلمات اذان مکمل نقل ہوئے ہیں اور مندرجہ بالا تمام نسخوں میں “اشهد ان عليا ولي الله” اذان میں شامل ہے ۔
ایک اہم نکتہ
میر علی رضا رحمۃ اللہ علیہ سے منسوب فقہ الاحوط کا ایک قلمی نسخہ مولانا علی محمد ہادی شگر کے پاس ہے ۔یہ و ہ واحد نسخہ ہے جس میں اذان کے کلمات وہی درج ہیں جو آج کل مسلک اہل سنت اور اہل حدیث کے ہاں رائج ہے ۔ موجودہ دور کے محقق سید علی الموسوی [مرچھا چھوربٹ ] کی تحقیق کے مطابق یہ نسخہ حقیقت میں مشہور اہل حدیث عالم مولوی خلیل بلغاری کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے ۔ ان کے مطابق دو ایسی باتیں ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہےکہ اس کو لکھ کر میر علی رضا سے منسوب کیا گیا ہے ۔
پہلی بات: اس نسخے کے کاغذ کو روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھا گیا تو اس کے اندر [Made in Pakistan] لکھا ہوا ہے جبکہ میر علی رضا کے زمانے میں پاکستان نامی کوئی ملک معرض وجود میں ہی نہیں تھا۔
دوسری بات : اس فقہ کے اندر ایک جگہ بلغار یونپوا کے کسی فریقین کے درمیان نزاع کے بعد ہونے والا صلح نامہ بھی موجود ہے اور یہ واضح بات ہے کہ مولوی خلیل بلغار ی کا تعلق بلغار کے موضع یونپوا سے ہی تھا اور اس زمانے میں صاحب تمیز حضرات اپنے گاوں اور علاقے کے فیصلہ نامے اپنی کتابوں کے حاشیے پر تحریر کیا کرتے تھے ۔ اس کی کئی مثالیں بلتستان میں پائے جانے والے نسخوں میں ملتی ہیں ۔ مولوی خلیل بلغاری کی ایک پہچان بھی یہی تھی وہ نوربخشی بزرگوں کی کتانوں میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ اہل حدیث نظریات شامل کیا کرتے تھے ۔
لہذا یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مسلک اہل حدیث کے ہاں مروجہ اذان نوربخشی الفقہ الاحوط کے کسی قلمی نسخے میں مندرج کرکے اسے کسی نوربخشی بزرگ کے ساتھ منسوب کرنا محض ایک اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے ۔ اگر واقعی اس دور میں مسلک اہل حدیث کے ہاں مروجہ اذان نوربخشیوں میں رائج تھی تو کسی اور نوربخشی کتاب میں یہ اذان مندرج کیوں نہیں ؟
حدیث سے “اشهد ان عليا ولي الله ” کا ثبوت
پہلےہم اس حوالے سے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا ” اشهد ان عليا ولي الله” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی رائج ہوا یا نہیں ؟ کیا آنحضرت نے مسلمانوں کو اذان میں اس جملے کو پڑھنے کا حکم دیاتھا ؟ اگر واضح حکم نہیں تو کسی کے کہنے پر آپ نےاس کی تائید کی یا نہیں؟ کیونکہ تائید جسے اصطلاح میں “تقریر رسول “کہتے ہیں ، یہ بھی حجت ہے ۔ اس حوالے سے بہت ساری احادیث و روایات عالم اسلام کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں تا ہم یہاں پر طوالت سے اجتناب کرتے ہوئے صرف ایک دو روایتوں پر اکتفا کرتے ہیں :
1.ان سلمان الفارسي ذکر في الاذان والاقامة الشهادة بالولاية لعلي بعد الشهادة بالرسالة في زمن النبي، فدخل رجل علي رسول الله فقال: يا رسول الله ، سمعت امرا لم اسمع به قبل هذا، فقال رسول الله : ماهو؟ قال: سلمان شهد في اذانه بعد الشهادة بالرسالة بالشهادة بالولاية لعلي، فقال: سمعتم خيرا.
ترجمہ: پیغمبر کے زمانے میں ایک دن سلمان فارسی نے اذان اور اقامت میں رسالت کی گواہی کے بعد علی کی ولایت کی گواہی دی تو ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے ایسی چیز سنی ہے جو اس سےپہلے کبھی نہیں سنی تھی ۔ پیغمبر نے پوچھا: وہ کیا ہے ؟ اس شخص نے کہا: سلمان نے اذان میں رسالت کی گواہی کے بعد علی کی ولایت کی گواہی دی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تم نے خیر سنا ہے یعنی اچھی چیز سنی ہے ۔ [الشہادۃ بالولایۃ فی الاذان ، ص ۲۰]
2.ان رجلا دخل علي رسول الله فقال :يا رسول الله، ان اباذر يذکر في الاذان بعد الشهادة بالرسالة الشهادة بالولاية لعلي و يقول: اشهدا ان عليا ولي الله ، فقال: کذالک، او نسيتم قولي يوم غدير خم : من کنت مولاه فعلي مولاه؟ فمن نکث فانما ينکث علي نفسه .
ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ! ابوذر اذان میں رسالت کی گواہی کے بعد علی کی گواہی کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے : ” اشهد ان عليا ولي الله” آپ نے فرمایا :ایسا ہی ہے ۔ کیا تم لوگ بھول گئے کہ میں نے غدیر خم کے دن کہا تھا: جس کسی کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے ۔ ؟ جس کسی نے عہد کو توڑا حقیقت میں اس نے اپنے عہد کو توڑا ہے ۔ [الشہادۃ بالولایۃ فی الاذان ، ص ۲۵/ شہادۃ الثالثہ ، مکتب وحی ، ص ۱۷۵]
نوٹ:ان دونوں روایات کو ساتویں صدی ہجری کے مشہور اہل سنت عالم دین شیخ عبداللہ مراغی نے اپنی کتاب “السلافۃ فی امر الخلافۃ ” میں نقل کیا ہے ۔اس کتاب کا قلمی نسخہ کتابخانہ ظاہریہ دمشق میں محفوظ ہے ۔ بعد کے اکثر علماء و محققین نے بھی اسی کتاب سے ہی یہ احادیث نقل کی ہیں ۔
مندرجہ بالا دو روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اذان میں “علی ولی اللہ” کی گواہی دینا خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں شروع ہوا تھا نہ صرف آپ اس پر خاموش رہے بلکہ آپ نے اس بات کی تائید کرنے کے ساتھ فرمایا کہ غدیر خم کا پیغام ہی ولایت علی علیہ السلام کا اعلان ہے ۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جو غدیر خم کے دن ہونے والے اعلان پر مکمل اعتقاد رکھتے ہوئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان پر عمل کرتے ہیں یعنی ولایت و امامت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے قائل ہیں اور اسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں وہ اذان میں علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دیتے ہیں جبکہ جو غدیر کا منکر ہو یا ولایت علی کا منکر ہو تو اسے پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ۔ لیکن نوربخشی بزرگوں خصوصاً شیخ علاء الدولہ سمنانی، میر سید علی ہمدانی اور شاہ سید محمد نوربخش کی تعلیمات کی روشنی میں غدیر اور ولایت علی علیہ السلام ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ لہذا جب واقعہ غدیر کی روشنی میں ولایت و امامت علی علیہ السلام کا قائل ہو اس کو اذان میں بھی امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دینی چاہیے۔
اعتراض
ہمارے بعض برادران سادہ لوح عوام اور جوانوں کے ذہن میں یہ شک پیدا کرتے ہیں کہ اگر ولایت علی علیہ السلام پر اعتقاد رکھنے پر اذان میں کہنا اور اعلان کرنا ضروری ہے تو ہم باقی ائمہ طاہرین کی ولایت پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں لہذا ان سب کے ناموں کے ساتھ ان کی ولایت کی گواہی بھی اذان میں دینا ضروری ہے جبکہ ایسا تو نہیں کیا جاتا ۔
جواب
پہلی بات ان تمام چیزوں کا ذکر نہیں کیا جاتا جن پر ہم اعتقاد رکھتے ہیں جیسے قیامت، کتاب خدا اور فرشتوں پر اعتقاد بھی ہمارے بنیادی عقائد میں شامل ہے مگرضروری نہیں کہ ان تمام اعتقادات کا اعلان اذان میں ہواور یہ اعتراض سرے سے ہی وارد ہی نہیں ہوتا کیونکہ علی علیہ السلام کی ولایت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا جزء اور اس کا فرع ہے اسی بات کو معروف عالم علامہ محمد بشیر مرحوم نے ترجمہ کتاب الاعتقادیہ کے مقدمے میں واضح بھی کیا ہے جیسے کے وہ لکھتے ہیں :
امامت ہماری اصل رابع [نبوت] کے ضمن میں خود بخود متحقق ہوجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امامت در اصل نبوت کے لئے لازم بین کا درجہ رکھتی ہے ۔ [کتاب الاعتقادیہ ، مقدمہ، ص ۱۴]
مسلمانوں کے درمیان اصل اختلاف امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کے حوالے سے ہے جب ان کی ولایت و امامت اور خلیفہ ہونے کو تسلیم کرکے اعلان کیا جائے تو باقی ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت وامامت کا اعلان اذان میں کرنا ضروری بھی نہیں کیونکہ جب علی علیہ السلام کی امامت کا قائل ہو کر اس کا اعلان کردیا جائے تو گویا باقی ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے ۔
حی علی خیر العمل
پیغمبر اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی “حی علی خیر العمل” جزء اذان ہونا ایک امر مسلم اور ناقابل انکار بات ہے ۔ کیونکہ اذان میں اس جملے کے ہونے کےبارے میں اہل تشیع ، اہل سنت ،زیدیہ اور اسماعیلیہ کے مختلف علما و اکابرین نے روایات نقل کی ہیں ۔ ذیل میں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
۱۔ ابو محذورہ کہتے ہیں : میں اونچی آواز والا تھا ، ایک دن پیغمبر کے سامنے نماز صبح کے لئے میں نے اذان دی جب “حی علی الفلاح ” پر پہنچا تو پیغمبر نے فرمایا: اس کے ساتھ ” حی علی خیر العمل ” بھی کہو ۔ [الاذان بحی علی خیر العمل ، ص ۱۵۔۱۶]
زیدیہ کے مشہور عالم امام المئوید باللہ نے اپنی کتاب شرح التجرید میں عباد بن یعقوب، انہوں نے عیسیٰ ابن عبداللہ انہوں نے اپنے باپ اور انہوں نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے سنا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے بہترین عمل نماز ہے اور بلال کو حکم دیا : اذان میں ” حی علی خیر العمل ” کہو۔ [جواہر الاخبار و الآثار، ج ۲، ص ۱۹۱]
کتاب ” الاعتصام بحبل اللہ ” میں آیا ہے کہ فقیہ صالح بن صدیق نمازی اپنی شرح “الانہار علی اثمار الازہار” میں نقل کرتے ہیں کہ شافعی مسلک کے عالم دین ابن رفعہ ، قاضی حسین کی بات کے حاشیے میں کہتے ہیں : علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ وہ اذان میں “حی علی خیر العمل ” کہتے تھے ۔ [الاعتصام بحبل اللہ ، ج۱، ص ۳۰۸]
اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب احادیث میں کئی روایات اس باب میں موجود ہیں طوالت سے بچننے کے لئے ہم ان کو نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ۔ ان رویات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ “حی علی خیر العمل ” پیغمبر کے زمانے میں آپ کے حکم سے ہی اذان میں شامل ہوا تھا اور اصحاب و تابعین اس پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے بزرگان نوربخشیہ کے ہاتھوں مکتوب الفقہ الاحوط اور دعوات صوفیہ امامیہ کے نسخوں میں اذان کے کلمات میں ” حی علی خیر العمل ” شامل ہے ۔
محمد و علي خيرالبشر
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس کائنات عالم میں پروردگار لم یزل کے بعد سب سے افضل اور کامل و مکمل ہستی حضرت رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے “بعد از خدا بزرگ تویی قصہ مختصر”۔ احادیث متواترہ اور مستند تواریخ کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد اس جہاں میں افضل ترین ہستی اگر کوئی ہے تو امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات مبارکہ ہے جس کی دلیل نوربخشی بزرگوں کی کتابوں جیسے مودۃ القربیٰ ، سادات نامہ، روضۃ الفردوس، السبعین فی فضائل امیر المومنین ، کتاب الاعتقادیہ اور دیگر کتب میں صحیح السند احادیث ہیں ۔ صرف ایک حدیث جو ہمارے موضوع سے انتہائی نزدیک اور مرتبط ہے، بعنوان مثال نقل کرتا ہوں : حضرت حذیفہ سے مروی اس حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: عَنْ حُذَیْفَةَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ: عَلِیّ خَیْرُالْبَشَرِ مَنْ اَبی فَقَدْ کَفَرَ۔علی علیہ السلام خیرالبشر ہیں جس نے انکار کیا گویا اس نے کفر کیا۔[مودۃ القربیٰ، مودت نمبر ۳، حدیث نمبر ۳] اسی مطلب سے مربوط تین احادیث امیر کبیر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں نقل کی ہیں ۔ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے علاوہ اہل سنت کے مشہور علماء و محدثین میں سے ابو شجاع شیرویہ بن شہردار دیلمی نے الفردوس بماثور الخطاب، ج۳، ص ۶۲/ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق ، ج۴، ص ۶۷ اور خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد ج ۷، ص ۴۳۳ پر یہ حدیث نقل کیا ہے ۔ پس صحیح السند احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات میں پروردگار لم یزل کے بعد سب سے بہترین و افضل ترین ہستیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں ۔ اب رہی بات اذان کے کلمات میں “محمد و علی خیر البشر ” کے جملے کی ۔ موجودہ دور میں عالم اسلام کے تمام فرقوں اور مسالک میں سے مسلک نوربخشیہ اور داوددیہ اسماعیلیہ [بوہرہ] کے پیروکار اذان میں یہ جملہ پڑھتے ہیں ۔[بہرہ ہا در بستر تاریخ و اندیشہ ، ص ۱۸۳] مسلک نوربخشیہ کے کسی بھی فرد کو اس پر کسی قسم کے اعتراض یا انکار کا حق ہی نہیں کیونکہ جس نوربخشی بزرگ نے جہاں پر اذان کاذکر کیا ہے وہاں یہ جملہ بھی اذان کا حصہ ہے ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیے ہوئے الفقہ الاحوط کے تمام قلمی نسخوں اور دعوات کے قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں جہاں اذان موجود ہے وہاں “محمد و علی خیر البشر” اذان کا حصہ ہے ۔ جبکہ تاریخی اعتبار سے “محمد و علی خیر البشر” اذان میں پڑھنے کے ثبوت موجود ہے جیسا کہ ابن عدیم لکھتے ہیں : مورخ کہتے ہیں : ذی الحجہ ۵۶۵ھ میں ملک ناصر [یعنی صلاح الدین ایوبی] نے حکم دیا کہ کہ اذان سے “حی علی خیر العمل ” اور “محمد و علی خیر البشر” کو حذف کیا جائے ۔ [زبدۃ الحلب من تاریخ الحلب ، ج۲، ص ۴۸۶]یعنی اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ان کے منع کرنے سے پہلے اذان میں یہ جملہ کہا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ دیگر مسالک کے بعض قدیم علماء بھی “محمد و علی و خیر البشر” یا ” محمد و علی خیر البریہ ” اذان میں پڑھنے کو سنت اورصحیح سمجھتے تھے ۔جیسا کہ سید مرتضیٰ [متوفی ۴۳۶ھ] لکھتے ہیں : اگر “محمد و علی خیر البشر” اذان میں کہا جائے تو کوئی حرج نہیں ، یہ جائز ہے اور شہادت صحیح ہے ۔ [رسائل سید مرتضیٰ، ج۱، ص ۲۷۹، مسئلہ ۱۵]
بحث کا خلاصہ
آیات قرآن مجید، احادیث رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، روایات ائمہ معصومین علیہم السلام اور اقوال بزرگان کی روشنی میں جو باتیں ہم نے آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مسلک نوربخشیہ کی تعلیمات میں اذان و اقامت کے جو کلمات شامل ہیں ، یہ کلمات شریعت محمدی کے عین مطابق اور قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہیں ۔ اذان کا ایک ایک کلمہ شریعت محمدی کی تعلیمات سے ماخوذ اور اس شریعت کے عین مطابق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلک نوربخشیہ کی تمام تعلیمات حضرت شاہ سید محمد نوربخش رح نے شریعت محمدی کی جو نفاذ اور تبیین کے دعوے کا بہترین مظہر ہیں ، لہذا ہم سے اگر کسی کو اپنی تعلیمات اور روز مرہ بجالانے والے اعمال پر یقین کامل نہ ہو تو میرے خیال میں یا اس کی نظر میں یہ مسلک مشکوک ہے یا وہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت اپنے کام میں مصروف عمل ہے ۔ یہ ہمارے اعتقاد کا حصہ ہے کہ ہمارے بزرگان دین نے بڑی مشکلات اور سختیوں کو جھیلتے ہوئے یہ تعلیمات ہم تک پہنچائی ہیں لہذا نوربخشی مسلک کے ایک پیروکار ہونے کے ناطے ان تعلیمات کا تحفظ اور دفاع ہم سب پر فرض ہے ۔ اگر ہم اپنے مسلک کے عقائد، تعلیمات اور عملیات کا دفاع نہیں کرتے تو تاریخ ہمیں خائن کے نام سے یاد کرے گی ۔
پروردگار ہمیں بزرگان نوربخشیہ کی تعلیمات کی روشنی میں سیرت محمد و آل محمد علیہم السلام پر چلنے کی توفیق دے۔آمین
منابع
قرآن مجید، اردو ترجمہ : علامہ سید علی الموسوی۔
1. ابن حجر عسقلانی ، فتح الباری شرح صحیح بخاری، تحقیق :محب الدین خطیب، درالمعرفہ ، بیروت لبنان۔
2. ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، دار صادر، بیروت لبنان۔
3. ابن عدیم ،محمد بن علی ،زبدۃ الحلب من تاریخ الحلب، دارالکتب العربی، قاہرہ مصر، ۱۴۱۸ھ۔س
4. ابن منظور،لسان العرب ، دارالاحیا ء التراث العربی بیروت لبنان ، ١٤٠٨ھ.
5. براہوی ، علامہ محمد بشیر ، ترجمہ کتاب الاعتقادیہ از میر سید محمد نوربخش، ندوہ اسلامیہ پاکستان۔
6. حلبی ، علی بن برہان الدین، السیرۃ الحلبیہ ، دارالمعرفہ ،بیروت لبنان، ۱۴۰۰ھ۔
7. راجانی، کمیل، بہرہ ہا در بستر تاریخ و اندیشہ ، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، قم ایران، ۱۳۹۴شمسی۔
8. زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح الزرقانی علیٰ موطامالک، دارالکتب العلمیہ ، بیروت لبنان، ۱۴۱۱ھ۔
9. سید مرتضیٰ، رسائل سید مرتضیٰ،تحقیق :سید احمد حسینی ، دارالقرآن ، قم ایران، ۱۴۰۵ھ۔
10. صدوق، محمد بن علی ، عیون اخبار الرضا،تحقیق: حسین اعلمی، موسسہ اعلمی، بیروت لبنان، ۱۴۰۴ھ۔
11. صعدی، محمد بن یحیی ، جواہر الاخبار و الآثار، موسسہ الرسالہ، بیروت لبنان، ۱۳۷۹ھ۔
12. طبرانی ، سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط ، تحقیق: طارق بن عوض اللہ ، دارالحرمین ، قاہرہ مصر، ۱۴۱۵ھ۔
13. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعہ ،آل البیت لاحیاء التثراث قم ایران، ۱۴۱۴ھ۔
14. علوی ، محمد بن علی ، الاذان بحیی علی خیر العمل ،تحقیق : یحیی سالم عزان، مرکز النور، یمن ۱۴۱۶ھ۔
15. قاسم بن محمد، الاعتصام بحبل اللہ ،مطابع الجمعیہ الملکیہ ، عمان، ۱۴۰۳ھ۔
16. میر نور الہیٰ ، سید حسین ، الشہادۃ الثالثہ، مجلہ مکتب وحی ، شمارہ ۱۲، ۱۳۹۰شمسی۔
17. نووی، محی الدین بن شرف، تہذیب الاسما ء و اللغات ،دارلکتب العلمیہ ، بیروت لبنان، ۲۰۱۰ء۔
18. ہمدانی، میرسید علی ، مودة القربیٰ،اردو ترجمہ،آخوند محمد تقی حسینی ، جامعہ باب العلم سکردوپاکستان ، ۲۰۱۲ء۔
19. ہیثمی ، علی بن ابی بکر، مجمع الزاوائد و منبع الفوائد، دارالکتاب العربی، بیروت لبنان، ۱۴۰۲ھ۔