نوربخشیوں میں اسد کی مجالس


تحریر سید بشارت حسین الموسوی تھگسوی


سبط رسول ،فرزند علی و بتول ، خامس آل عباء، مظلوم کربلا، سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات آفاقی ہے، دنیا کے ہر باشعور قوم پکارتی ہے کہ حسین ہمارے ہیں، یہ ان محققین کے خیالات ہیں جنہوں نے تعصب کی عینک اتار کر حقیقت بینی سے کام لیا ہے۔ بعض مارکسی نظریات رکھنے والے مصنفین نے بھی امام عالی مقام کی عظیم قربانی کا اعتراف کیا ہے لیکن وہ عزاداری سے ڈرتے ہیں۔ جبکہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کربلا کے اس واقعہ کو عشق کا سفر قرار دیتے ہوئے اس کاروان کے سالاروں کے بارے میں کہا ہے:
حديث عشق دو باب است کربلا و دمشق
يکي حسين رقم کرد و ديگري زينب
اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو سمجھیں تو اسلام اور قرآن کے رموز سیکھ سکتے ہیں، استعماری اور طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ عزاداری ہمارا بڑا ہتھیار ہے، کربلا ہماری سب سے بڑی درسگاہ ہے، عزاداری ہماری شہ رگ ہے، انہی مجالس عزاداری سے ہمیں مکتب اہل بیت علیہم السلام ، ان کی سیرت، طرز زندگی، ان کے تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کے رموز، زہد و تقویٰ اور خالق حقیقی کو یاد کرنے کے طریقوں کی شناسائی ہوتی ہے۔ ایام عزاداری قرآن، اخلاق، عبادات، درس نظریات اور امام حسین کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے رہنے کے لئے تجدید عہد کرنے کے دن ہیں۔ عزاداری سے متعلق عالم اسلام کے تمام مکاتب فکر میں کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ صرف منانے کے طور طریقے مختلف ہیں۔
عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک ایسی عبادت ہے جسے بجالانے کے لیے کسی بھی قسم کے زمان و مکان کی قید نہیں ۔اس بات کی دلیل ہمیں بزرگان کی ان سیرتوں میں ملتی ہے جو کہ ہمارے معاشرے کے اندر مختلف صورتوں میں مرسوم ہے ۔انہی نیک سیرت اور سنت حسنہ میں سے ایک اسد عاشورا ہے جو کہ بلتستان کے دیندار اور غیور مومنین جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ ہر سال مناتے ہیں ۔لیکن اس کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے مورخین اور لکھاری حضرات خاموش ہیں ۔اس مقالے میں اسد عاشوارا کی تاریخی حیثیت پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس مقالے میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ نوربخشی براردری کے اندر اس کے منانے کا انداز اور رسم و رواج کی کیفیت کیسی ہے ۔
نوربخشی عقائد اور تعلیمات کی روشنی میں عزاداری کی حیثیت کو “سفیر روحانیت ” کے پہلے شمارہ میں صفحہ قرطاس پر لانے کی کوشش کی تھی۔اور زیر نظر مقالے کے لیے راقم نے حالیہ محرم الحرام میں مختلف نوربخشی علماء سے حضوری اور ٹیلی فون پر ان کے نظریات جاننے کی کوشش کی ہے جو کہ قارئین کے پیش خدمت ہے ۔
اسد عاشورا منانے کا مقصد
اس حوالے سے مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے معروف عالم دین اور جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹرسٹ رجسٹرڈ کراچی کے مدیر و مہتمم علامہ شیخ سکندر حسین انیس کہتے ہیں :اس خاص ایام کو منانے کے دو بنیادی مقاصد ہیں ۔پہلا یہ ہے کہ گرمی کے ان ایام میں ذکر سید الشہدا ء علیہ السلام سے لوگوں کے اندر اس عظیم قربانی کا زیادہ سے زیادہ قدر ہو گا کیونکہ گرمی کے ایام میں ابا عبداللہ سید الشہدا اور ان کے جانثاران نے کربلا کی تپتی ہو ئی سرزمین پر دفاع اسلام کے لیے کیسے قربانی پیش کی ۔دوسرا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بزرگان نوربخشیہ نے غدیر کے دن کو اہمیت سے منانے اور مخصوص اعمال بجالانے کے حکم کے ساتھ موسم غدیر کی اہمیت بھی واضح کرنے کے لیے نوروز کے دن بھی خاص عمل کا حکم دیا ہے ۔اسی طرح جب واقعہ کربلا رونما ہوا تو مہینہ محرم الحرام کا تھا جب کہ وقت کے لحاظ سے اسد کا موسم تھااسی مناسبت سے ہم اسد کا عاشورا بھی اسی عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں ۔
اسد عاشورا کی تاریخ
نوربخشی برادری کے اندر ان خاص ایام کو منانے کا رواج کب سے شروع ہو ا ؟یہ سوال جب مسلک نوربخشیہ کے موجودہ پیرحضرت سید محمد شاہ نورنی مدظلہ سے کیا تو انہوں نے کچھ اس طرح جواب دیا :اس کی اصل تاریخ تب سے ہے جب میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی۷۱۴ ھ )نے اہل بلتستان کے دلوں کو دین اسلام کے نور سے منور کر کے عاشقان ولایت و امامت بنایا مگر میرے پاس موجود دقیق معلومات کے مطابق ضلع گنگچھے جہاں پر پچانوے فیصد نوربخشی برادری آباد ہیں وہاں کے صدر مقام خپلو میں گرمیوں کے موسم میں پیٹ درد کی بیماری عام ہو گئی جسے مقامی زبان میں “ہلتو چھو ” کہتے ہیں تو خپلو کے راجہ نے اس وقت کے پیر نوربخشیہ میر محمد شاہ مخدوم الفقرا(متوفی۱۲۱۸ھ )سے درخواست کی کہ آپ اس بیماری سے لوگوں کو شفایابی کے لیے خصوصی دعا کریں تو انہوں نے حکم جاری کیا کہ اس بیماری سے خلاصی کے لیے خپلو خاص میں جہاں یہ بیماری پھیلی تھی وہاں پر دس روز اور باقی آپ کے تحت نظر علاقوں میں پانچ روز عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کا انعقاد کریں انشاء اللہ اس وبا سے لوگ خلاصی پائیں گے تو راجہ نے آپ کے حکم پر فوری عمل کا حکم نامہ جاری کیا اور واقعاً لوگ صحت یاب ہو گئے ۔اس کے بعد ہر سال ان ایام کو منانے لگے ۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ ضلع گانچھے کے دیگر دور و دراز علاقوں مثلاً سلترو وغیرہ میں نوربخشی سلسلے کے پیر و عارف حضرت میر مختار اخیار (متوفی ۱۱۳۱)کے دور سے یہ عزاداری شروع ہوئی ۔ وہ کچھ اس طرح سے کہ جب سردیوں کے موسم میں محرم کا مہینہ آتا تو میر مختار ان دور و دراز علاقوں میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تبلیغ پر نہیں پہنچ سکتے تھے ۔تو آپ جب گرمی کے موسم میں ان علاقوں کا جب تبلیغی دورہ فرماتے تو ہر گاوں میں ایک یا دو روز مجلس عزا ء منعقد کیا کرتے تھے ۔اسی لیے وہاں پراس کے بعددوسرے بزرگان نے بھی اس رسم کو جاری رکھا جو اب تک جاری ہے اور خپلو کے ان تمام علاقوں میں جہاں نوربخشی آباد ہیں اسد عاشورا بڑے عقیدت و احترام اور جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔
ایام اسد
ایک اہم مسئلہ اس حوالے سے یہ ہے کہ ان ایام کی ابتدا اور انتہا کیا ہے یعنی کس تاریخ سے اسد کاموسم شروع ہوتا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں کچھ ممالک کے اندر رائج کلینڈر کو دیکھنے سے تقریباً حل ہو تا ہے ۔جس طرح ایران کے اندر شمسی سال اور کچھ خاص مہینوں کا رواج ہے اسی طرح افغانستان کے اندر بھی اپنے لحاظ سے مہینے موجود ہیں ان کے کلینڈر کے مطابق “اسد” کا دورانیہ عیسوی تاریخ کے ۲۱ جولائی سے ۲۱ اگست تک کے عرصے کو کہا جاتا ہے اور بلتستان کے ان علاقوں میں بھی جہاں مجالس اسد کا انعقاد ہوتا ہے وہاں بھی انہی ایام میں منایا جاتا ہے ۔
نوربخشیوں میں ایام اسد کی اہمیت
ان ایام میں عزاداران ابا عبداللہ حسین علیہ السلام اسی انداز سے غم مناتے ہیں جس طرح ایام محرم میں ان کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر نہیں آتے اور ان ایام میں شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے رسومات بجالانا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔خصوصاً عاشورا کے دن ہر کو ئی سیاہ لباس میں ملبوس ہو کر صبح سے ہی اس دن کو ایک خاص اہمیت دیتے ہیں اور مجالس میں بھی عاشورائے محرم کی طرح تابوت ،علم ،زمپان (آماری )برآمد ہوتے ہیں اور ذاکرین اور علماء بھی اس دن شہادت خامس آل عبا کا خصوصی تذکرہ کرتے ہیں ۔
اسی لیے راقم کی معلومات کے مطابق اس وقت خپلو کے مندرجہ ذیل علاقوں میں کچھ اس طرح سے ایام اسد منایا جاتا ہے ۔
علاقہ سلترو میں اس وقت نوربخشی برادری کی تین جامع مساجد موجود ہیں جہاں پر ان ایام میں ہر مسجد میں ایک روزہ مجلس برپاہوتی ہے ۔علاقہ گلشن کبیر میں دس دن ، تھگس میں سات دن ، مچلو میں دس دن ، سرموں میں پانچ دن ، خانقاہ چقچن خپلو میں پانچ دن ،غورسے میں تین دن ، ہلدی ، میں پانچ دن اور اسی طرح اکثر مقامات پر پانچ روزہ مجالس کا اہتما م کیا جاتا ہے ۔
جبکہ بعض مقامات پر ان مجالس کا رواج موجود نہیں ہے :سینو ،دم سم ،مرضی گون، بلے گون ،کاندے ،ہوشے ،کھانے، کریس ،غواڑِی ،کورو، ڈغونی بلغار ،تھلے ،کھرکواور کونیس وغیرہ ۔
مندرجہ بالا مطالب کو اگر خلاصہ کرکے پیش کریں تو :
۱۔ نوربخشی مکتب کے پیرو کاران بھی اسد عاشورا کو اسی طرح سے مناتے ہیں جس طرح دیگر عزاداران مناتے ہیں ۔
۲۔ نوربخشی برادری میں یہ رواج میر سید علی ہمدانی کے دور سے شروع ہوا مگر اس کو عروج قرن دوازدہم میں ملا ۔
۳ ۔ ان ایام کو منانے کا اصل مقصد اس گرم موسم میں امام حسین علیہ السلام کے مصائب کو یاد کرنا ہے جس میں اہلبیت علیہم السلام نے بھوک و پیاس کو برداشت کرتے ہوئے اسلام کی سر بلندی کے لیے قربانیاں پیش کیے ۔
۴ ۔ نوربخشی پیروکاروں میں اکثر مقامات پر پانچ روزہ مجالس کا اہتمام ہوتا ہے ۔
۵ ۔ ان ایام کو منانے کی اصل تاریخ ۲۱ جولائی سے ۲۱ اگست ہے ۔
۶ ۔ ان ایام کو اسی طرح شان و شوکت سے مناتے ہیں جس طرح عاشورائے حسینی محرم کے مہینے میں مناتے ہیں ۔
دعا ہے کہ ہم سب کو بزرگان کی سیرت پر چلتے ان نیک سنتوں کو معاشرے میں جاری و ساری رکھنےاور بہتر سے بہتر انداز میں منعقد کرنے کی توفیق عنایت فرما ۔