دعوتِ غور و فکر


تحریر


دعوتِ غورو فکر
تحریر: سیّدلیاقت علی شاہ الموسوی براہ
“مُجھے ہے حکمِ اَذاں لا الہٰ الا اللہ ”
قبلِ ازیں راقم نے ” ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ” کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ جس میں سند یافتہ مُستند علماء کرام، غیر جانبدار علم و دانش اور فہمیدہ حلقوں سے اپیل کی تھی کہ وہ میدانِ عمل میں آکر مذہبِ حقّہ کے اندر اِنتشار و افتراق و نفاق کی بیج بونے والوں کے مذموم عمل و ارادوں کے سدباب کے لئے اپنا کردار مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کریں کیونکہ یہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور ہمارا دینی و مذہبی فریضہ بھی ہے تو دوسری جانب راقم نے اہل علم حضرات سے جو یقیناپڑھے لکھے ضرور ہیں لیکن وہ دینی علوم سے پُوری طرح آراستہ نہیں ہیں یا وہ سند یافتہ علماء کرام کے حلقے میں شامل نہیں ہیں، سے گزارش کی تھی کہ وہ دینی، مذہبی، شرعی، فقہی مسائل پر مضمون نگاری اور لب کُشائی سے گریز کریں۔ چنانچہ سابقہ عنوان کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے اِسی تناظر میں مزید چند گزارشات کرنے کی امکانی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ایک ہی مضمون میں تمام چیزوں کا احاطہ کرنا ممکن نہ ہو سکا۔
کچھ مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں لکھاری اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست کے مطابق عوام الناس کواپنی ذہنی و تصوّراتی عقائد کے تابع کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اوردین و مذہب میں موجود اعتقادات کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر فراموش کر جاتے ہیں اور من گھڑت نظریات کو دین و مذہب کے عقائد میں شامل کر کے اُس کی بلا خوف و خطر تشہیر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اس طرح مذہبِ حقّہ میں نِت نئے نظریات جنم لینے کا قوی امکان موجود رہتا ہے۔ ان مضامین میں موجود مواد کی وجہ سے عوام میں اضطراب و ہیجانیت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے جس سے شکوک و شبہات اور تجسس بڑھ جاتا ہے اور عوام کے گروہوں میں بٹنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
کچھ قلم کار حضرات کسی کی ٹوپی اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور بڑی ڈٹائی سے لکھ دیتے ہیں کہ” فلان ایسا ہے تو فلان ویسا ہے۔ یہ اِس سے مل رہا تھا وہ اُس سے مل رہا تھا ۔یہ اِ س کے گھر میں کھانا کھاتا ہے وہ اُس کے گھر میں کھانا کھاتا ہے۔ یہ آج اِس کی محفل میں گیا ہوا تھا تو وہ اُس کی محفل میں تقریر کر رہا تھا۔”ایسی باتیں کر کے اور تحریریں لکھ کر ایسے لوگ اپنے آپ کو کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا مذہب کے ساتھ خلوص کا مظاہرہ ایسے کیا جاتا ہے، کیا مذہب و ملت کی ترقی ایسے ممکن ہے یا کیا دین حقّہ کی آبیاری ایسے کی جاتی ہے یا ایسے طور طریقوں کو اختیار کرنا مناسب ہے؟اخلاص کا معیار کیا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنا ، کیا اسی طرح دین و مذہب کی خدمت کی جاتی ہے ؟
“ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا اور دلوں میں وہی زندہ رہتے ہیں جو خیر بانٹتے ہیں اور آسانیاں بانٹتے ہیں”
بحیثیت نوربخشی چہاردہ معصومین علیہم السلام کو دل و جان سے ماننا اور اُن کی سیرتِ پاک پر عمل کرنا عین عبادت سمجھے جاتے ہیں اور ہمارے نزدیک اُن کی شہادت و ولادت کے ایّام کو جوش و خروش سے منانا بھی عین عبادت اورتبلیغِ دین کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی اِن ایّام کے منانے کو بدعت یا خرافات کے زمرے میں ڈالتا ہے تو اُس کی کم عقلی اور کم فہمی اور لاعلمی کے سوا کچھ نہیں۔ ان ایّام کوہمارے نزدیک بہت عظیم درجہ حاصل ہے – ہم ان ایّام کو بطوررواج نہیں مناتے ہیں، یہ ہمارے عقیدے میں شامل ہیں اور ان کو عقیدت کے ساتھ منانا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔
قارئینِ کرام! آپ کو دعوتِ غوروفکر دیتا چلوں تو عرض ہے کہ:
بعض نادان حضرات جانے انجانے میں اپنے ذہن کے کسی بھی خانے میں موجود تصوراتی و فرضی سوچ و فکر و نظر کو حقیقی رُوپ دینے کے خواب و خیال میں دوسروں کے ایمان و عقیدے کو بھی شک و تذبذُب کا شکار بنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے “نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن” کے مصداق وہ بیچارے نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے۔ اِس طرح وہ نادان حضرات خود بھی سیدھی راہ سے بھٹک جاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہر کرگناہِ بے لذت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اِ س طرح اپنے قریہ و معاشرے میں اور مذہب و ملّت میں اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے حضرات سے التماس ہے کہ آپ وہ کام کریں جس کے آپ اہل ہیں اور جس کام کے آپ اہل نہیں ہیں وہ کام اہل لوگوں کے لیے چھوڑ دیں۔مذہبی، شرعی و فقہی معاملات میں غیر اہل لوگوں کی مداخلتِ بیجا مذہب و ملّت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے کیے پر نادم و تائب ہو کر آئندہ کے لیے محتاط رویہ اختیار کریں، اسی میں ہم سب کی خیر وبھلائی ہے۔ہر کس و ناکس کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ فیصلہ صادر فرمائے کہ کونسا عمل رسمی اور دکھاوا ہے اور کونسا عمل حقیقی اور مذہبی ہے اور کون سا عمل شرعی ہے یا غیر شرعی ہے۔
رسولِ اکرم صلّٰی اللہ عَلَیہِ وَ آلِہِ وَ سَلَّم کا ارشادِ گرامی ہے کہ “ذِکْرُ عَلِیٍ عِباَدَةُ”علی کا ذکر عبادت ہے۔ علی علیہ السلام کا ذکرعبادت ہے تو حسین علیہ السلام کا ذکر بھی لا محالہ عبادت کے زُمرے میں آتا ہے۔ اگر کسی شخص کی کم علمی اور مخصوص ذہنیت کی بنا پر وہ کسی مذہبی عمل کو درست نہیں سمجھتا ہے تو پھربھی اس عمل کوخرافات سے تعبیر کرنا سنجیدہ و ذمہ دار فرد کاشیوہ نہیں ہے کیونکہ نوربخشی مسلمان اس بنیاد پر ذکرِحسین علیہ السلام کی مجلسیں برپا کرتے ہیں کیونکہ وہ ذکر ِ حسین و ماتمِ حسین کو عبادت سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے حضرات سے راقم عرض گزار ہے کہ” فَکِّرْمِرَاراًََ ثُمَّ قُل “پہلے بات کو تولو پھرمنہ سے بولو۔ راقم کا یہ بھی مشورہ ہے کہ ” اِحْتَرِسْ مَرَّةًَ اُخْریٰ “آئندہ احتیاط رکھو۔ کیونکہ” جُرُحُ اللِساَنِ اَصْعَبُ مِنْ جُرْح السَّانِ”م زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ ہے۔راقم کا مخلصانہ مشورہ یہ بھی ہے کہ” یَنْبَغِی لِلْمَرئِ اَن یُّلَا حِظَ نَفْسَہُ ” انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھے۔
مندرجہ بالا نصیحتیں اس لئے ضروری تھیں کیونکہ” اَلْجَمَالُ فِی اللِّسَانِ ” انسان کا حسن اس کی گفتار میں ہے۔
قارئین کرام میں آپ کو دعوت غور و فکر دیتا چلوں تو عرض ہے کہ چودھویں صدی کے اس نازک ترین دور میں یہ ہمارا بہت بڑا قومی المیہ ہے کہ جو کام علمائے حق نے کرنا تھا وہ پس منظر چلے گئے ہیں اور اس طرح وہ اپنا مذہبی فریضہ تقریباً بھول چکے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑا المیہ اور اہل نوربخشیہ کی بدنصیبی ہے کہ اسی دوران علمائے کرام کے صف اول میں شمار کئے جانے والے چوٹی کے نامور و ممتاز علمائے کرام بھی بڑی سرعت کے ساتھ ایک ایک کرکے آخرت کو سدھار گئے ہیں۔ (اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ)۔اب صورت احوال یہ ہے کہ جب نا اہل و غیر اہل دنیا داروں نے دیکھا کہ سر کردہ علمائے کرام کا منصب خالی ہو چکا ہے۔ تو بے روزگاری کے اس پر آشوب دور میں موقعِ غنیمت جان کر خالی شدہ علمائے کرام کے منصبوں پر وہ برا جمان ہوگئے ہیں اور انہوں نے دینی و شرعی فیصلے بھی صادر کرنا شروع کر دئیے ہیں اور ان نیم ملّاوں ، نادانوں اور کما حقّہ دینی علوم کی گہرائیوں سے نا آشنا حضرات نے ‘لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ “کے برخلاف جبر و تشدد کو مذہب میں شامل کردیا ہے اور انہوں نے ایک سرخ لکیر کھینچ کر اہالیان مذہب کو اس لکیر کا پابند بنایا ہے اور حکم صادر فرمایا ہے کہ صرف ہماری کھینچی ہوئی لکیر پر ہوبہو چلنے والے ہی صحیح ہیں باقی سب غلط ہیں۔ لہٰذا ہماری کھینچی ہوئی اس لکیر پر نہ چلنے والوں کو نشان عبرت بنادیا جائے گا۔ دینی علوم کی گہرائیوں سے نا آشنا نیم ملّاوں ، ا ل م پڑھ نہ سکنے والے نادان علم دانوں نے” لا اِکْرَاہَ فِی الدّیْن “کے برخلاف جبرو تشدد کو اپنی پہچان و شعار بنا کر مذہب کے نصاب میں شامل کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مساجد و خانقاہوں میں بھی گتھم گتھائی و خون ریزی کے المناک واقعات گاہے بگاہے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جو کہ مذہب کا دکھ درد رکھنے والے مخلص اہالیان مذہب کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے اور یہ صورت احوال ہم سب کے لئے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ ہم اپنی ذہنی ، عقلی، فکری صلاحیتوں کو یکجا کر کے اس بگاڑ میں اصلاح کے لئے باہم مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ یا صُمّ ، بُکْمُ ، عُمْیُ ہو کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے خطرات سے چشم پوشی کرتے رہیں گے یا اصلاح احوال کے لئے میدان عمل میں آکر اپنا دینی ، مذہبی فریضہ ادا کرنے کی اجتماعی مساعی کرنے کی جانب تدابیر اختیار کریں گے یا نہیں؟وقت بڑی سرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور خرابیاں اور تباہیاں بھی بڑی تیزی کے ساتھ ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہیں۔ لہذا اگر ہم خواب خرگوش سے بیدار نہ ہوئے تو خاکم بدہن مذہب حقہ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ جس کے ہم سب ذمہ دار ہونگے۔ تو لہذا راقم ایک بار پھر علمائے حق ، صاحبان ِ علم و دانش اور فہمیدہ حلقوں سے اپیل کرتا ہے کہ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لئے اور اصلاح دین و مذہب کے لئے درکار ہر نوع کی قربانی دینے کے جذبے سے سرشار ہوکر میدان عمل میں آئیں اور درپیش خرابیوں کی اصلاح کے لئے اپنافریضہ ادا کریں۔ مفتی میر سید جمالدین الموسوی (مرحوم) اسی مشن پر تھے ان کی رحلت کے بعد اب اس مشن کو ہم سب نے مل کر من حیث القوم جاری و ساری رکھنا ہے۔ انشاء اللہ۔
سربکف میدان میں آ جوشِ ایمانی کے ساتھ قوم کی حالت بدل دے اپنی قربانی کے ساتھ
مذکورہ بالا مندرجات کو کھول کھول کر بیان کرنے کے باوجود بھی مضمون نگارحضرات میری عرضی کو سمجھنے سے قاصر رہیں تو میں ان کی توجہ ترجمان حقیقت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے ایک نہایت ہی خوبصورت شہرہ آفاق کلام کی جانب مبذول کر اتے ہوئے اپنے بیان کو اختتام پذیر کرتا ہوں۔ ترجمان حقیقت علامہ محمد اقبال نے ذکر علی و ذکر حسین کی مجالس و محافل کے انعقاد پر دلبرداشتہ ، لب پُر شکوہ ، خِرد پراکندہ ہو نے والے عناصر کو سمجھانے کے لئے نیز ان کے ڈولتے ایمان کو بچانے کے لئے آئینہ حقیقت دکھا کر ان بد نصیبوں کی ناوکو غرقاب ہونے سے بچانے کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ صاحبِ بصیرت ہواور انہیں باور کرایا ہے کہ ان دونوں ہستیوں کی لازوال قربانیوں کی بدولت دین اسلام قیامت تک کے لئے محفوظ ہو گیا ہے اوران پاک اماموں کے پاک خون کی برکت سے اسلام کادامن ہرا بھرا اور پر مہک ہے۔اگر ضرب یدالّہٰی کو اور سجدئہ شبیری کو نکال دیا جائے تو اسلام کا دامن خالی ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے :
اِسلام کے دامن میں بس اِس کے سوا کیا ہے؟ اِک ضربِ یدالّہٰی، اِک سجدئہ شبیری
یداللہ بھی امام ہیں، شبیر بھی امام ہیں۔ اب آپ بتائیں، ہم نوربخشی مسلمان ذِکر علی وذکرِ حسین نہ کریں تو کیا کریں؟ بقولِ اقبال اسلام کے دامن کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے ہمیں اس عمل کو تا قیامت جاری رکھنا ہو گا اس کے سوا کسی دوسرے راستے کا وجود سِرے سے ہے ہی نہیں ہے ۔پھر حسین کے ساتھ اللہ کا وعدہ بھی ہے کہ اے حسین ! میں تیرے ذِ کر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سر بلند رکھوں گا۔تو یاد رکھنا جو طاقت ذِکرِ حسین کو جتنا بھی دبانے کی جتن کرے گا۔ اللہ اُتنا ہی ذِکرِ حسین کو قوت و سر بلندی عطا کرتا رہے گا کیونکہ اللہ کا ہر وعدہ سچّا اور اَٹل ہوتاہے۔اِسی پر ہر کلمہ گو کا پختہ ایمان ہے اور ہونابھی چاہئیے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ مضمون نِگاران سمیت ہم سب کو راہِ ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے ایمان و عقیدے کو ہمیشہ قائم و دائم اور محفوظ و مامون رکھے۔ آمین، یا ربّ العالمین۔
وَآخِرُدَعوانااَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ