سید حمایت علی الموسوی کی مختصر حالات زندگی


تحریر


اعجاز حسین غریبی

میر واعظ خانقاہ معلی صوفیہ امامیہ نوربخشیہ خپلو بالا سید حمایت علی الموسوی
کی مختصر حالات زندگی

آپ کا نام حمایت علی والد سید مختار حسین ہیں ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سید مختار حسین ؒ کے چھٹے فرزند ارجمند تھے اور 1949 میں خپلو میں پیدا ہوئے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی ۔ ساتھ ہی اپنے ہم عصر جید علماء کرام سید عون علی المومنین ، علامہ سید علی شاہ پروا کے علاوہ دیگر علمائے کرام سے بھی کسب فیض کیا۔

خانقاہ معلی کی خطابت و امامت
آپ کےکندھوں پر میر واعظ کی ذمہ داریاںنومبر ۱۹۹۱ء میں اپنے برادربزرگوار کی رحلت کے بعد آئیں ۔اس سے قبل آپ نائب پیر اور نائب خطیب کے طور پر ذمہ داریاں اداکرتے رہے ۔آپ نے کم و بیش 50سال خانقاہ معلی میں خطابت کے فرائض سرانجام دئیے۔
سید حمایت علی الموسوی رحمتہ اللہ علیہ نے پچاس سالہ خطابت اور امامت کے دوران کوئی معاوضہ نہیں لیا ۔ وہ عوام الناس سے نہ کسی قسم کا نذر لیتے تھے اور نہ خانقاہ انتظامیہ سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ وصول کرتے تھے۔ خانقاہ معلیٰ کے لیے جمع ہونے والے چندہ کئی دیگر گواہوں کے سامنے گنتی کرتے اور ان ہی کے ہاتھوں بینک میں متعلقہ اکاؤنٹ میں جمع کراتے تھے ۔ وہ ایک طرح سے انتہائی سادہ، صوفی منش اور قناعت پسند شخصیات میں سے تھے تاہم ان کے دولت سرا پر مثالی مہمان داری کا سماں ہوتا تھا۔

خانقاہ معلی کی تعمیر
خانقاہ معلی کی جدید تعمیر آپ کی قیادت کی مرہون منت ہے۔ یہ خانقاہ ایشیا میں لکڑی سےبنی سب سے بڑی خانقاہ ہے۔ یہ خانقاہ اپنے طرز تعمیر، خوبصورتی اور انفرادیت کے باعث ملت کی پہچان بن چکی ہے ۔
خانقاہ معلی کی تعمیر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک تاریخی کارنامہ ہے جسے آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور آغا مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی کیونکہ بیس کروڑ سے زائد تخمینہ کے ساتھ تعمیر ہونے والی یہ خانقاہ نہ صرف پوری دنیا میں لکڑی سے بننے والے بڑی مسجد ہے بلکہ یہ خانقاہ مسلک نوربخشیہ کا ایک چہرہ ہے۔ یہ خانقاہ پیر نوربخشیہ میر مختار اخیار رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں تعمیر ہوئی تھی متعدد بار توسیع ہوئی ۔ تاہم نوربخشیوں کی بڑھتی آبادی اور مسجد میں جگہ کم پڑنے کے باعث وسیع پیمانے پر اس خانقاہ معاملہ کی تعمیر و توسیع کا فیصلہ کیا گیا ۔اس اہم ترین منصوبے کی مکمل سرپرستی سید حمایت علی الموسوی کے ہاتھ میں تھی ۔ آپ کے ساتھ خپلو بالا کی مختلف معروف شخصیات نے آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کردار ادا کیا جن میں سے کچھ بقید حیات ہیں اور کچھ خداوند متعال کے درگاہ میں رحلت فرما گئے ہیں۔
خانقاہ معلی خپلو تعمیر کی مختصر تاریخ
امیر کبیر سید علی ہمدانی ، شاہ سید محمد نوربخشؒ اور میرشمس الدین محمد عراقی بت شکن کے بلتستان میں تبلیغ کے بعد ان کی اولاد میں پیر طریقت میر دانیال شہید کو ایک انقلاب کے دوران شہیدکیا گیا۔ پھر میر حسن رہنما، میر شمس الدین رشید، میر دانیال دانا، میر ابوسعید سعدایہ تمام پیران طریقت کشمیر سے بلتستان تشریف لاتے تھے اور تبلیغ کے بعد واپس تشریف لے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مزارات کشمیر ، جموں اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔ سب سے زیادہ بلتستان میں انقلابی تبلیغات میں سرگرم رہنے والی ہستی میر مختار اخیار تھے ۔ وہ بلتستان آنے کے بعد پہلے اپنے بھائی میر یحییٰکے ساتھ شگر میں مقیم ہوگئے بعد میں میر یحییٰ کو شگر اور خود کریس میں آکر سکونت پذیر ہو گئے ۔
حضرت میر مختار اخیار ؒ نے تبلیغ کے سلسلے میں لداخ تک دورہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے رجلہ سے آگے تبت خورد میں پچاس جامع مساجد کی بنیاد رکھی۔ ان سب میں لکڑی سے بنی خانقاہوں میں خپلو بالا کی خانقاہ ہے۔ تعمیر خانقاہ کے سلسلے میں آپ خپلو تشریف لائے۔ تمام عمائدین سے ملے۔ جگہ کا انتخاب کرتے کرتے موجودہ مقام پر پہنچے ۔ مرکزی مقام ہونے کی وجہ سے یہاں خانقاہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ یہاں مرکز بنا کر وہ بلتستان کے گوشہ گوشہ میں زیر تعمیر خانقاہوں کی نگرانی فرماتے رہے۔ باقی خانقاہوں کی تعمیر دو تین سال میں مکمل ہو گئی۔ لیکن خپلو خانقاہ کی تعمیر اس کے وسیع ہونے اور خاصی بڑی ہونے کی وجہ سے دس سال میں مکمل ہوئی۔ لمبائی 90 فٹ اور چوڑائی 70فٹ تھی۔ عام نوربخشی لوگوں نے اس مشکل کو بھی خندہ پیشانی سے حل کرلیا۔ 1112ھ بمطابق 1701ء میں تعمیر شروع ہوئی اور 1124ھ بمطابق 1713ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ہجری کی تاریخ دروازے پر لکھی ہوئی ہے۔ تعمیر اول کا موقع نوربخشیوں کیلئے یہ وقت ایسا تھا کہ جب وسائل بہت ہی محدود تھے جبکہ مسائل کی بہتات تھی۔ جب میر مختار اخیار ؒ نے یہ صورتحال دیکھی تو قرب و جوار جس میں بلغار، کھرفق، ڈغونی سلینگ، یوچنگ، سرمو و دیگر علاقوں کے غیور لوگوں اور تعمیرات میں مہارت رکھنے والوں کو بلایا۔ انہوں نے اس پر کام کیا اور نہایت ہی جانفشانی، خلوص اور ایمانداری سے بھرپور طریقے سے کام کیا۔
اس خانقاہ کی تعمیر سے لے کر اب مختلف ادوار میں مرمت ہوتی رہی ، کبھی پچاس سال بعد اور کچھ بیس تیس سال مرمت ہوتی تھی۔ ٹوٹی ہوئی اور بوسیدہ لکڑیوں کو تبدیل کیا جاتا رہا۔ چونکہ خانقاہ کافی وسیع تھی اس لئے ایک عرصہ تک نماز و اجتماعات میں جگہ کی تنگی محسوس نہیں ہوئی۔
مرمت اول: 1908ء میں مرمت ہوئی۔اس کے بارے میں مشہور شاعر ظفر نے کہا ہے کہ
ایں مرمت ظفر عجیب شدہ شکر اللہ تر نصیب شدہ
سرکشیدہ فلک بگفت تاریخ مسجد جامع غریب شدہ (1326ھ)
دوسری مرمت کی تکمیل 1352ھ بمطابق 1933ء میں میر محمد اکبر ؒکے زمانے میں ہوئی اس تعمیر میں برآمدہ کا اضافہ کیا گیا۔اس کی تاریخ مظفر علی خان مظفر نے یوں لکھی ہے۔
بیت خدا بود رفیع المکان کرد مرمت ظفر وفاچو آں
کردہ سفیدی تو سیاہ رنگ را گوی سعادت بربود رائیگان
گاہ بدیدی ملک وقدسیاں از سررغبت بگرفت احتضان
صوت جزاک اللہ واحسنت را ورد زبان کردہ بیامدمدفغان
اعتراض اوگفت کہ تاریخ را بیت اللہ شد چو زلیخا جوان (1341ھ)
میر سید عون علی عون المومنین کے بعد میر واعظ سید حمایت علی الموسوی نے جب دیکھا کہ خانقاہ عبادات و دیگر مذہبی رسومات کیلئے چھوٹی پڑتی جارہی ہے اور بڑھتی آبادی کے باعث خانقاہ کی توسیع بہت ضروری ہوگئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس عظیم منصوبے پر 2002کام شروع کیا ۔ عمائدین خپلو نے آپ کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ ابتداء میں تعمیر ثانی کے اعلان کے بعد چند عمائدین نوربخشیہ خپلو نے سید حمایت ؒ کے پاس جاکر عرض کی کہ آپ کام شروع کریں ہم انشاء اللہ تکمیل تعمیر تک آپ کے ساتھ شانہ بشانہ ہونگے۔ چونکہ اکثر خواندہ نہیں تھے جبکہ خانقاہ کی تعمیر میں خواندہ افراد کا ہونا بہت ضروری تھا ۔ چنانچہ ان افراد کے جوش و جذبے کو سراہتے ہوئے میر واعظ و نائب پیر طریقت سید حمایت علی الموسوی نے پورے خپلو کے عمائدین کا اجلاس طلب کیا ۔ سب کو اس اہم کام کیلئے آمادہ کیا ۔ چنانچہ خانقاہ کی تعمیر کیلئے نقشہ جات کی تیاری کا کام ٹھیکیدار ابراہیم (مچونگپہ) کو دی گئی۔ تعمیرات کے سلسلے میں ایکسین ، آر ایز کو بلا کر مشورے لئے گئے۔ ٹھیکیدار ابراہیم صاحب اس کام کی نگرانی کرتے رہے۔
اس اہم ترین منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ایک کمیٹی بنام خانقاہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس حاجی محمد ابراہیم مچونگپہ، حاجی محمد اقبال، حاجی محمد جعفر ، حاجی احمد علی علی بوا، اخوند غلام علی ،اسحاق شاکر ، ماسٹر محمد سلیم ، عبد الخالق ، ماسٹر شکور علی ملدومر، محمد یوسف سرکردہ کھانسر، سلمان کھانسر، فاچو علی ہچھی ، اخوند قربان، صوبیدار (ر) محمدبلال، حاجی علی (مرحوم ) خسیر گرونگ ، محمد رضا بگتی، چیئرمین یوسف مرحوم، منشی محمد موسیٰ ہنڈیلی، اخوند حسن ڈنس غلام رسول انصاف اور غلام نبی سوشل ویلفیئر وغیرہ شامل ہیں۔
پہلے خانقاہ معلی کے جنوب کی طرف کے دس مکانات و گلیوں اور باغات کو اہلیان محلہ خانقاہ سے خریدلیا اور اتنی ہی جگہ حاصل کرلی جتنی جگہ پر پرانی خانقاہ موجود تھی۔ ان دس مکانات کے بدلے مالکان کو مکانات بنا کردئیے گئے۔ ان مکانات، گلیوں اور باغات کی جگہ کو خانقاہ میں شامل کیا گیا۔ اب خانقاہ کی چوڑائی 170فٹ اور لمبائی 120فٹ ہے۔ صحن کا رقبہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے بعد مشرق کی جانب سے موجود مکانات و جگہوں کو خریدنے کا پروگرام بنایا گیا ۔ وہاں سے تیرہ یا چودہ مکانات کو بھی خانقاہ میں شامل کرنے کا پروگرام طے ہوا۔ کاچو خاندان کے افراد سے بات چیت کی گئی ۔ ا ب تک پہلے دس اور دوسرے مرحلے پر پانچ مکانات بنا کر اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر معزز شخصیات کو بلا کر مکانات کی چابیاں ان کے حوالے کی جاچکی ہیں۔ تمام مکانات عالیشان طریقے سے بنائے گئے ہیں۔ مزید آٹھ مکانات بنانا باقی ہیں ۔ اس کیلئے زمینیں کافی پڑی ہیں قرب و جوار میں بھی زمین موجود ہے۔ ساری زمین خریدی گئی ہیں۔ میرپی نہر تک ساری زمین خانقاہ کی ملکیت کی آگئی ہے۔ مکانات کی تعمیر کیلئے ساڑھے تین کنال زمین لی گئی تھیں۔ 2002سے 2019تک پانچ بار خپلو میں چندہ جمع کیا گیا۔ آس پاس کی وادیوں میں وفود گئے تھے۔ وہاں سے بھی کھلے دل سے لوگوں نے مدد کی۔ تمام رقوم کو بینک میں رکھا گیا ہے اور تمام اخراجات انتہائی شفاف طریقے سے کئے جارہے ہیں۔ ایک ایک پائی کا حساب رکھا جاتا ہے ۔ کوئی بھی رقم کسی کی جیب میں یا کسی کے ذاتی اکائونٹ میں نہیں رکھا گیا۔ ایک جوائنٹ اکائونٹ کھولا گیا ہے۔ صرف ذمہ داران ہی اس اکائونٹ کو استعمال کرسکتے ہیں۔ تمام تفصیلات کا ریکارڈ رجسٹر میں درج کیا جارہا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک اٹھارہ سے بیس کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ان میں مزدوروں کی مزدوری، لکڑیوں کی کٹائی، منتقلی کے اخراجات شامل ہیں۔

نوربخشی دنیا کی عظیم عبادتگاہ
خانقاہ نوربخشیہ نوربخشی عالم کی ایک عظیم خانقاہ ہے۔ نوربخشیوں کا بلکہ ناردرن ایریا بلکہ پاکستان کا ایک خوبصورت چہرہ ہے لکڑیوں سے بنی دنیا بھر میں سب سے بڑی خانقاہ ہے۔ اب خانقاہ کی چوڑائی 170فٹ اور لمبائی 120فٹ ہے۔ خانقاہ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں صرف ستون (Pillor) چالیس ہیں۔ تمام ستون قیمتی اور مضبوط لکڑی اخروٹ کے ہیں۔ پرانی خانقاہ میں چھ بڑے ستون جبکہ سولہ چھوٹی ستون تھے۔ یہ چھوٹے ستون بعد میں بڑے ستونوں کے سہارے کیلئے قیام اول کے ایک سو سال بعد لگائے گئے تھے۔ ستونوں کے درمیان فاصلہ وہی رکھا گیا ہے جو پرانی خانقاہ کے ستونوں کے درمیان تھا جبکہ اور پرانے تمام چھوٹے ستونوں کی جگہ بڑا ستون قائم کیا گیا ہے ۔ خانقاہوں اور مساجد کی تعمیر میں ستونوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس لئے اس کی مضبوطی اور نقش و نگاری پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ چنانچہ ستون کیلئے خپلو شہر میں بالا اور پائین میں ستون کے لائق جہاں بھی درخت دیکھا انہیں کاٹا گیا۔ پچھلے ستونوں میں سے ایک ٹوٹ گیا تھا اس لئے موجودہ خانقاہ میں پینتیس نئے ستون جبکہ پانچ پرانے ہیں۔
خانقاہ کمیٹی کے ممبرانکہتے ہیں کے اگر سید حمایت علی الموسوی کی مخلصانہ اور مدبرانہ قیادت حاصل نہ ہوتی تو خانقاہ معلی کی تعمیر بہتر انداز سے ممکن نہیں تھی یہ انہیں کی قیادت کا نتیجہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور نازک مواقع آنے کے باوجود خانقاہ کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے ۔
آئندہ آنے والی نسلیں میرمختار اخیارؒ کو مسجد کے بانی معمار کے طور پر یاد رکھیں گی تو جدید تعمیر کے محرک کے طور پر سید حمایت علی الموسوی کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائےگا۔

خانقاہ معلی کے میر واعظین
میر مختار اخیارؒ نے خانقاہ کی تعمیر کے بعد اپنے فرزند ارجمند سید محمد فہیم المعروف سید محمد صاحب ( جو ابھی خانقاہ کی مغرب میں آسودہ خاک ہیں) کو میر واعظ مقرر کیا۔ اس کے بعد ان کی اولاد مسلسل اس خانقاہ معلی کے کرسی نشین رہی۔ میر محمد کی اولاد میں کئی نسلوں کے بعد بعض کی جانب سے تبدیلی مسلک کے باعث عمائدین خپلو کا ایک اٹھارہ رکنی وفد کریس پہنچا اور اس وقت کے بزرگان دین سے گزارش کی کہ سید مختار حسین ؒ کو میر واعظ خانقاہ معلی خپلو مقرر کرکے خپلو بھیجا جائے۔ پیر طریقت نے ان کی اس گزارش کو منظور فرما کر سید مختار حسین ؒکو میر واعظ مقرر کیا ۔ سید مختار حسین ؒ بیس سال کی عمر میں یہاں آئے۔ 63 سال کی عمر تک میر واعظ رہے۔ اس عمر میں سفر عقبیٰ فرمایا اوران کی اولاد یکے بعد دیگرے اس خانقاہ کے کرسی نشین رہے۔
کافی عرصہ پیر نوربخشیہ سید عون علی ؒ خانقاہ کے میر واعظ رہے۔ ان کی نگرانی میں تمام امور سرانجام پاتے رہے۔ آبادی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ جگہ کی تنگی کی محسوس ہو رہی تھی۔ میر عون علی ؒ کے وفات کے بعد ان کے بھائی اور سید مختار حسین ؒ کے فرزند سید حمایت علی نے محراب و منبر سنبھالا۔

سید حمایت ایک حلیم شخصیت
نہایت حلیم الطبع، صابر، کم گو،مجسمہ اخلاق،منکسرالمزاج شخصیت کے مالک سیدحمایت علی اپنی گوناگوں خصوصیات ، صلح جو ہونے اور امن پسندی کی وجہ سے مسلک نوربخشیہ کےعوام کےعلاوہ دیگر مکاتب فکرکے ہاں ایک اہم مقام رکھتے تھے۔ کبھی کسی سے تلخ لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ علمی محافل ہوں یا نجی اجتماعات آپ سید عون علی عون المومنین کی طرح کم گو اور حلیم شخصیت کے مالک تھے۔ مسلکی اختلافات کے باعث خانقاہ میں خطبات، محرم اور عید کے مواقع پر سینکڑوں پر شدید تنائو دیکھنے میں آیا لیکن سید حمایت ؒ نے ہمیشہ جھگڑا فساد اور بدامنی کی حوصلہ شکنی کی اور امن اور مصالحت سے کام کرنے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں انہیں گالم گلوچ، بدتمیزی اور ہاتھا پائی تک کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے بردباری اور تحمل مزاجی سے کام لیا اور خانقاہ پر نازک ترین مواقع پر بھی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی راہ اپنائی۔

صبر و تحمل کا پیکر
آپ نے مصالحت خصوصا ڈسٹرکٹ گانچھے میں امن و امان اتفاق اور اتحاد اور بین المسالک رواداری کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا میر سید عون علی المومنین جب بھی کہیں تشریف لے جاتے تو اپنی جگہ آپ کو خانقاہ کی ذمہ داریاں تحفیظ کر دیتے اور جب ۱۹۹۱میں پیر محترم کا انتقال ہوا تب سے آپ مکمل میرواعظ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ علاقے میں مذہبی رواداری کو قائم رکھنے کے لیے آپ ہمہ تن مشغول رہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کیا۔ لیکن مسلک کے اندر اتفاق اور اتحاد اور بالعموم ضلع میں مذہبی فضا کو ہمیشہ پرامن رکھا ۔ آپ نے نائب میر واعظ اور میرواعظ کی حیثیت سے ہمیشہ اپنی تقریروں میں امن و امان باہمی احترام اور رواداری کا درس دیا ہمیشہ علاقے کے امن کو سامنے رکھا اور کسی بھی مرحلے پر مذلہبی انتشار اور علاقائی بدامنی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے ۔

سید حمایت ؒ اور عشق اہل بیت
میرسید عون علی عون المومنینؒ کی طرح سید حمایت علی الموسوی بھی عشق اہل بیت سے معمور شخصیت تھی۔ اپنی تقریروں، خطبات اور گفتگو میں عشق اہل بیت کا برملا اظہار فرماتے۔ امامت ، ولایت اور خلافت اہل بیت پر بہت ہی زبردست مدلل گفتگو فرماتے تھے۔ آپ کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے چاشنی رکھی تھی اور آپ حضرت میر سید عون علی عون المومنین کا شان حیدر کرار میں لکھا گیا قصیدہ ’’سونگنارے سوچکلا سنینینگ عرفان مولانا علی ، گوید معرفت حق نہ نبی ؐ پہچان مولانا علی ‘ کام خلوص کے ساتھ پڑھتے تھے۔
آپ نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ پیر نور بخشیہ حضرت سید عون علی ان المومنین کی رفاقت میں گزارا۔ آپ نے ایک شفیق معاون اور ہمدرد بن کر دینی معاملات میں پیرنور بخشیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔

سید حمایت ایک سماجی رہنما
آپ رحمتہ اللہ علیہ ایک سادات اور دینی گھرانے سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی رہنما بھی تھے ضرورت مندوں کی مدد کرنا آپ کی ترجیح ہوتی تھی ۔ خپلو میں جب پیر ہاؤس کی تعمیر کا آغاز ہوا تو آپ نے چندہ جمع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور ایک خطیر رقم ، زمین ، درخت اور دیگر عطیات حاصل کی ۔ یہی وجہ ہے کہ خپلو میں پیر طریقت کے لیے ایک مرکز کا قیام ممکن ہو سکا جو اس وقت مرکز کا کردار ادا کر رہا ہے۔
چندہ جمع کرنے کے دوران خپلو کی ایک مسجد میں آپ اپنے وفد کے ہمراہ پہنچے تو کسی بات پر تنازعہ پیدا ہوا معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا ہاتھا پائی کے دوران بجلی چلی گئی اور ایک شخص نے آپ پر حملہ کیا اور پیشانی اور ناک پر مکا مارا، جس کے باعث آپ کی پیشانی پر نشان جب کہ ناک سے خون بہنے لگا ۔ ساتھ موجود لوگوں نے بچ بچا ئو کر کے آپ کو وہاں سے نکالا واقعہ کی خبر سن کر لوگ جمع ہو گئے خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ۔ گئی جب معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا نظر آیا تو آپ نے کہا کہ کسی کا ہاتھ غلطی سے مجھے لگا ہے مجھے کسی نے نہیں مارا اور حملہ آور کی بجائے کسی نامعلوم شخص کا نام لیا جس کے باعث لوگوں میں غم و غصہ ٹھنڈا ہوا۔ تاہم جس شخص نے آپ پر ہاتھ اٹھایا تھا وہ دوبارہ مسجد نہیں پہنچ سکا اور ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہو کر انتقال کر گیا کہتے ہیں کہ جسم کا ایک حصہ بیماری سے کافی متاثر ہو گیا تھا جس کے باعث اسے غسل نہیں دیا جا سکا اور تیمم کرکے ہی تدفین کر دی گئی۔

ْ

انتقال پرملال
آپ کچھ عرصے علیل رہنے لگے تھے۔ چند سال قبل خپلو میں گھر کے قریب پائوں پھسلنے سے آپ کا آپریشن ہوا تھاجو اگر چہ کامیاب رہا تاہم وہ بیمار رہنے لگے۔ راولپنڈی میں آپ کے پتے کا دو بار آپریشن ہوا تاہم پائوں اور ٹانگوں میں سوجن کے باعث آپ کو قائد اعظم انٹرنیشنل اسپتال میں بغرض علاج داخل کیا گیا۔ کچھ ایام علاج کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ 29 شعبان 1444ہجری بمطابق 22 مارچ 2023 بوقت صبح نو بجے راولپنڈی کے علاقے چکری میں واقع اپنی رہائش گاہ پر خالق حقیقی سے جا ملے ۔
اِنَّالِلّٰہ ِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَo
آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو خانقاہ معلیٰ خپلو بالا کے نزدیک پیر نوربخشیہ سید عون علی عون المومنین کے مزار کے پہلو میں ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ کےجسد خاکی کو بذریعہ روڈ بلتستان منتقل کیا گیا اور کئی مقامات راولپنڈی ، سکردو ، کریس ، کونیس، ڈغونی ، براہ اور مرکزی خانقاہ خپلو بالا میں نماز جنازہ ادا کی گئیں جن میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام ، سادات عظام ، سیاسی رہنما ، زعما، اکابرین اور عوام الناس کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
گزشتہ سال حقیر نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے خصوصی گزارش کر کے اپنے غریب خانے پر پیر نوربخشیہ سید عون علی عون المومنین ؒ اور خانقاہ معلیکی تعمیر اور توسیع کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو کیا ۔ ہے دونوں انٹرویوز کو حتمی شکل دے کر بہت جلد کتابی شکل میں شائع کیا جائے گا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی تفصیلات شیئر کی جائینگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امن و امان باہمی رواداری اور مصالحت پسندی کو فروغ دے کر بھائی جاری اور اتفاق و اتحاد کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور یہ سید مرحوم کا اولین مقصد تھا ہمیں بھی ان کے اس مشین کو آگے بڑھاتے ہوئے باہمی اتفاق اور اتفاق کو یقینی بنانے اور آپس کی رنجشوں کو ختم کرنے اور علاقے کے ملی سماجی معاشرتی یکجہتی کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اللہ ہم سب کو اس نیک مقصد میں کامیابی عطا فرمائے آمین