سہو کا مسئلہ


سہو کا مسئلہ
سہو یہ ہے کہ کسی واجب کو چھوڑ دے تو جب بھی نماز میں یاد آجائے تو اس کی طرف لوٹنا اور اس کا تدارک جائز ہےاور پھر اسی واجب سے ترتیب کیساتھ نما ز پوری کرے پھر سجدۂ سہو کرے۔ لیکن اگر نمازی سے کسی واجب کا اضافہ ہوا ہو اور پھر یادآجائے تو اس پر سجدہ سہو کے علاوہ کوئی واجب نہیں۔ اگر رکعات کی تعداد بھول جائے اور نماز میں یاد آجائے تو اس پر لازم ہے کہ یقینی تعداد کو شمار کرے اور نماز پوری کرے اور پھر سجدہ سہو کرے۔ سنت افعال کی بھول کی صورت میںچاہے کم ہو یا زیادہ اگر سجدہ سہو بجالائے تومستحب ہے اگر سجدہ نہ کرے تو حرج نہیں۔ اگر سجدہ سہو میں بھی بھول چوک ہو جائے تو اس کی تلافی کی ضرورت نہیں۔ اکثربھول کا شکار ہونیوالے کا حکم بھی یہی ہے۔
ان تمام میں بہترین صورت یہ ہے کہ کسی بھی واجب نماز میں ذراسابھی خلل پیدا ہوجائے تواس نماز کو صحیح طریقے سے دوبارہ بجا لایا جائے اور خلل شدہ نمازکو سنن راتبہ وغیرہ میں شمار کرے۔ کیونکہ اکثر نوافل میںمشغول رہنے والے نمازیوں کیلئےزیادہ سے زیادہ چار رکعت کی نماز دہرانا باعث تکلیف نہیں ۔ اسلام کی ابتدا میں ایسی صورتحال نہیںتھی ۔ رسول ﷺان کیساتھ مدارت فرماتے تھے تاکہ وہ حلقہ آپﷺ سے الگ نہ ہومگر موجودہ دور میں انکے اسلام مضبوط ہونے کے باعث سہو کے ٹکڑوں سے نماز کی پیوند کاری پر تعجب کرینگے۔ اس طرح کے حیلوں کی بجائے نماز کودھرانا زیادہ آسان ہے۔