{۲۱}بَابٌ فِیْ شُرْبِ الْخَمْرِ شراب نوشی کا بیان


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ اے ایمان والو ! بیشک شراب، جوا، بُت اورازلام شیطانی کام اور ناپاک ہیں،پس تم اس ناپاک عمل سے بچو تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔بے شک شیطان چاہتاہے کہ تم لوگوںکے آپس میںشراب اورجوے کے ذریعے دشمنی ڈال دے اور تمھیںاللہ کی یاد اورنماز سے غافل کردے ۔توکیا تم باز آنے والے ہیں‘‘۔
رسول اللہ ﷺکافرمان ہے کہ ہرنشہ آور چیز حرام ہے۔

نشہ آور اشیا ء حرام ہیں
جس چیز کی کثرت نشہ آورہواسکی قلیل مقدار حرام ہے کیونکہ یہ عقل کا دشمن ہے اور اسکی مخالف ہے اورعقل پر پردہ ہے اور کلیات کو سمجھنے والی عقل سے ہی انسان جانوروں سے ممتاز قرار پایا۔ پس جو شخص نشہ آورچیزکھانے کا ارتکاب کرے تو وہ انسان کے مرتبے سے گر کر جانور کے درجے پر آجاتاہےاگر وہ ساکن ہو اور اگر اسکے درندہ صفت اخلاق متحرک ہوں تو در ند ے جیسا ہوتا ہے۔

شراب نوشی کی حد

اسلئے اگر شراب خور آزاد ہو تو اس کو اصلاح کی غرض سے اسی (۸۰)کوڑے اور اگرغلام ہوتو چالیس کوڑے مارناواجب ہےتاکہ وہ باز آجائے اور پست مقام سے اعلیٰ رتبے کی طرف لوٹے۔بے شک اللہ جانتاہے تم نہیںجانتے۔

شراب نوشی کا ثبوت کیسے ہو؟

نشہ آور چیز کا کھانادوعادل گواہوں کی گواہی یاا س کے دو دفعہ اقرارسے ثابت ہوتا ہے۔بشرطیکہ وہ خودمختار اور ہوش و حواس میںہواور جب نشہ آورچیز کاکھاناثابت ہوجائے تو امام یاحاکم پراپنے طورپراسی (۸۰) کوڑے مارنا واجب ہے۔

علانیہ شراب نوشی کی سزاء
وہ لوگ جوعلانیہ شراب نوشی کرتے ہیں۔محفلیں آراستہ کرتے ہیںاور اس پر بضد رہتے ہیں تو وہ کافر لوگ ہیں جو اللہ اور اسکے رسول ﷺسے جنگ کرتے ہیں۔ حدود مسلمانوں پر جاری ہوتی ہے نہ کہ تارک صلوٰۃ ، گنہگار،کافروں پر۔پس جوخفیہ شراب پیتا ہو اور اس پر مصر نہ ہو، نماز پڑھتا ہو،روزے رکھتا ہو تو فاسق ہے،جو علانیہ شراب پئے ، مست ہو جائے، نماز پڑھتا ہو نہ ہی روزہ رکھتا ہو تو وہ کافر ہے ۔

حد کب ساقط ہوگی ؟

بچہ ،پاگل ،اور مجبور شخص پر کوئی حد نہیںہے تاہم بچے کو امام کی رائے کے مطابق تادیبی کارروائی کرے۔ نشہ اترنے تک حد کے قیام کو موخر کرنا مناسب ہے ۔اسکے سر،چہرہ اور شرم گاہ اور جوڑوں پر نہ مارے اوراس کو کپڑے سے خالی کرنا لاز م نہیںاگر شرابی کے خلاف گواہ قائم ہونے سے پہلے توبہ کرے تو اس سے حدچھوٹ جائیگی اور امام کو اپنے علم کے مطابق حد جاری کرنے کا حق حاصل ہے ۔