دیت کا مسئلہ


قتل عمد کی دیت
اگر فریقین دیت پر راضی ہوجائیں تو عمد کی دیت یہ ہے (۱)سواونٹ ہر ایک دو دو سال کا ہو (۲)یا دو سو گائے (۳)یا ایک ہزار بڑی بکریاں(۴)یا دو ہزار چھوٹی بکریاں (۵) یا دو سو کپڑے اور ہر کپڑے کی قیمت ایک گائے کے برابر ہو (۶) یا ہزار دینار ۔( ۷) یا دس ہزار درہم ‘مقام اور جگہ کے فرق کی وجہ سے ایک مثقال سونے کی قیمت دس درہم سے زیادہ ہو توبارہ ہزار درہم دیت ہو گی۔ دیت قاتل کے مال سے سال کے اندر ادا کی جائیگی‘ یہ اونٹ کی عمر،زمانہ اور اداکرنیوالے کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی سخت ہوتی ہے۔ مذکورہ چھے وجوہا ت دیت کے مستقل اصول ہیں یعنی اونٹ والو ں سے اونٹ ،گائے والوں سے گائے، بکری والوں سے بکری ،کپڑے والوں سے کپڑا ،دینار والوں سے دینار اور درہم والو ں سے درہم لینا ہے ان میںسے بعض نہ ہونے سے دوسرے بعض کا دینا شرط نہیں۔ قاتل کو اختیار ہے کہ ان میں سے جس کے بدلے جو چاہے دیدے ۔

قتل شبیہہ کی دیت
قتل شبیہ عمد و خطاء کی دیت کیلئے امام کو اختیار حاصل ہے کہ اگر مصلحت دیکھے تو قاتل سے تین سالہ تینتیس اونٹنیاں اور دو سالہ تیس اونٹنیاں اور چونتیس اونٹ ثنیہ کہ جن سے نرجفتی کر سکے یعنی وہ افزائش نسل کی عمر کو پہنچ چکے ہوں۔ اگر امام اقتضائے وقت دیکھے تو دو سالہ تیس اونٹنیاں اور تین سالہ تیس بچھڑیاں اور چالیس حاملہ اونٹ وصول کرے ۔ اس دیت کا ضامن بھی خود قاتل ہے اسکے خاندان والے نہیں ہے یہ دیت دو سالوں میں دینی ہوگی۔

قتل خطاء محض کی دیت
خطاء محض کی دیت میں امام کیلئے دو صورتیں ہیں۔ (۱)اونٹ کی ایک سالہ بیس بچھڑیاں ، دو سالہ بیس بچھڑے، دو سالہ تیس بچھڑیاں اور تین سال کی تیس اونٹیاں یا ۲۔ ایک سالہ پچیس بچھڑیاں اور دو سالہ پچیس بچھڑیاں‘ تین سالہ پچیس بچھڑیاں اور چار سالہ پچیس اونٹنیاں۔ یہ دیت تین سال میں ادا کی جائیگی۔ یہ دیت اونٹوں کی دیت اور اداکرنے والے کے لحاظ سے کسی حد تک نرم والی ہےکیونکہ یہ دیت قاتل کے خاندان والوں پر لازم ہے اور قاتل پر دیت میںسے کوئی چیز لازم نہیں اور اس پر صرف کفارہ ہے۔ دیت کے معاملے میںسختی اور نرمی کا معاملہ اونٹ اور دیگر اقسام میں برابر ہے ۔

سنگین قتل کا مسئلہ
اگر کوئی حرمت والے مہینوں یا حرم مکہ میںقتل کرے یا والد، والدہ یا کسی بھی محر م رشتہ دار کو ناحق قتل کرے تو اس پر جرم کی سنگینی پر ایک دیت اورایک تہائی دیت واجب ہے۔

مجرم حرم پاک میں پناہ لے تو؟
اگر مجرم حرم میںپناہ لے جبکہ وہ حرم میں مقیم نہ ہو تو حرم میں اس سے قصاص نہیںلیاجائیگا لیکن اس پر کھانے پینے کی تنگی پیدا کرنا چاہئے تاکہ وہ نکل آئے اور اگر کوئی حرم میں مقیم ہو یا حرم میں ہی جرم کرے تو اس سے حرم شریف میں ہی قصاص لینے میں کوئی حرج نہیں ۔