{۳۶} بَابُ رَدِّالْمَظَالِمِ مال مغصوب کی واپسی کا بیان


غصبی مال کی واپسی کا حکم
اگر مالک زندہ ہوتو غاصب کوغصبی مال اس کو واپس کردینا اگر مالک مرچکا ہو اور وارث موجود ہو ں تو ورثاء کو دینا اور اگر وارث موجود نہ ہوںتو فقراء کودینا واجب ہے ۔

ظالموں کے دیئے گئے انعامات کا مسئلہ
ظالموں کا مال ومتاع غصبی مال وغیرہ سے مخلوط ہوتا ہے پس انکے انعامات تین اقسام سےخالی نہیں۔
(۱)یاحرام ہیں،پس جس کے حرام ہونیکا علم ہو اس کی خیرات دینا واجب ہے بشرطیکہ اصل مالک کاعلم نہ ہو اگرعلم ہو تو اس کو واپس کردینا واجب ہے۔
( ۲)یا حلال ہیں توایسی صورت میں انعام یافتہ شخص کا اس میں اپنے اور اپنے عیال کے نفقے میں خرچ کرنا اور دینی مصلحت اور شرعی امور میںاپنی مرضی سے صرف کرنا جائز ہے ۔
(۳)یامشکوک ہیں ان کے حلال یا حرام کا کوئی یقین نہ ہوتو اس مال کو فقراءمیں خرچ کرنا مستحب ہے ۔اور اگر وہ مالدار نہ ہو تو اسے اس مال میں تصر ف جائز ہے۔ تینوں صورتوں میں صاحب قدرت پر اس مال کو ظالم کو واپس کرنا حرام ہے کیونکہ اگر وہ مالک کو پہچانتا ہو تو اس تک پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اگرمالک کا علم نہ ہو تو فقر اء کو دے ۔
کیونکہ فقر اء اسکے مصارف میں سے ہیں۔اگر وہ اسے ظالم کو دے تو گنہگار ہوگا کیونکہ اس نے مسلمان کا مال ظالم کو دیا اور اس وجہ سے بھی وہ گنہگار ہوگا کہ اس نے بعض فقیروں کا حق روکا پس ایسا انعام ظالم کو دینےسے دہرا گناہ لازم آتا ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور بڑا گناہ یعنی دکھاوا بھی سرزد ہوجاتا ہے اور رسول اللہ ﷺنے اہل ریا کے بارے میں فرمایا کہ ان کے چہروں پر نور ہوگا نہ رونق اورنہ ان کے رزق میں برکت ہوگی اور وہ اللہ کے ہاں مردار سے بھی زیادہ بدبودار ہوں گے اورجہنم میں دکھاواکرنے والوں سے بڑھ کر کوئی قوم عذاب میں مبتلا نہیں ہوگی۔