بنجر کی دوسری قسم : نفع مند مقامات


بنجر کی دوسری قسم : نفع مند مقامات
بنجروں میں پہلی قسم زمینوں کی ہے دوسری قسم نفع مند مقامات ہے، وہ یہ ہیں ، راستے ، مساجد ، عام وقف شدہ املاک مثلاً مدارس، مسافر خانے،درگاہیں۔

راستے کی منفعت

راستوں کی منفعت ان پرچلنا ہے۔ معاملات طے کرنے،تھکاوٹ دور کرنے یاساتھیوں کے انتظار کیلئے یہاںبیٹھناجائز ہے بشرطیکہ بیٹھنے سے راہگیروں کوکوئی تکلیف نہ ہو ۔راستوں میں کاروبار کرنیوالوں کیلئے اپنے سر کے اوپر بوری یاکپڑے کا سایہ کرنا جائز ہےبشرطیکہ اس سے راستہ تنگ نہ ہو۔ کسی کیلئے راستے کی اطراف میں دکان بنا ناجائز نہیں اگر راستے میں کام کی جگہ کیلئے دوافرا دمسابقت کریں توکسی کو بھی امام کی اجازت یا قرعہ سے ترجیح دی جائےگی۔

مسجد کی منفعت
مساجد میں اگرکوئی کسی جگہ بیٹھ جائے تووہ اسکازیادہ حقدار ہے اگر اٹھ جائے اور اسکا سامان موجود ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ اگر اس جگہ کوئی چیز موجودنہ ہو۔تو جو شخص وہاں بیٹھے اسکا زیادہ حق ہے ۔ اسی طرح جو شخص علم کی تدریس‘ تلاوت قرآن میں مشغول رہتاہو اور ایک معین جگہ بیٹھتا ہو۔ اس جگہ بیٹھنے کی عادت ہوتو اگر وہ اپنی جگہ سے اٹھ جائے اوراس کی جگہ کوئی چیز باقی نہ رہے تو وہ جگہ اس شخص کی ہوگی جو یہاں بیٹھے گا چاہے وہ عالم ہو یاان پڑھ۔

مدارس اور مسافر خانوں کی منفعت
مدارس اور مسافر خانے: اگر کوئی کسی کمر ے میں ٹھہر جائے اور وہ اسکااہل ہوتواسکی بے دخلی جائز نہیں چاہے طویل زمانہ کیوں نہ ہو۔
اگر وقف کنندہ کسی معین مدت کی شرط عائد کرے تومدت گزرجانے کے بعد اس کو بے دخل کرنا لازم ہے۔اگر بانی اپنی عمارت میں رہنے والوںپر حصول علم،تدریس، قرأت قرآن، روزہ رکھنے،ریاضت میںمشغول رہنے کی شرط لگا دے اور وہ مشغول نہ رہے ہو تو اسکو بے دخل کرنا واجب ہے۔ شرط کے مطابق مشغول رہنے والے کو رہائش میں کسی اور کو شرکت سے روکنا جائز ہے۔ جب کوئی رہائش پذیر وہاں سے چلا جائے تو اسکا اختصاص ختم ہوجاتا ہے‘ تاہم اگر وہ ضروری کام سے گیا ہو جبکہ اسکا بچھونہ یاکپڑا وغیرہ میں سے کوئی چیز وہاں موجود ہواور اس نے واپسی کی نیت سے جگہ چھوڑی ہو تو اسکا اختصاص باطل نہیں ۔

۳۔ تیسری قسم : ذخائر
تیسری قسم ذخائر یعنی ا۔ظاہری کانیں ۔۲۔پوشیدہ کانیں

۱۔ ظاہری ذخائر
ظاہری معدن وہ کانیںہیں جن کے حصول کیلئے زیادہ اسباب کی ضرورت نہیں۔ مثلاً نمک، تیل،گندھک،تارکول، مومیا سرمہ، گھراٹ کے پتھر اور برمہ۔ یہ کانیںآباد کرنے سے ملکیت میںنہیں آتیں نہ ہی چار دیواری لگانے والے کیساتھ مختص ہوسکتی ہیں نہ ہی محفوظ قرار دینا جائز ہے ۔ اگر کوئی ان میں کسی مقام پر پہلے پہنچے تو اسکی حاجت پوری ہونے سے پہلے اسے بے دخل کرنا جائز نہیں‘ اگر دوسبقت کر جائیںجبکہ دونوں کیلئے اس جگہ بیک وقت کام کی گنجائش نہ ہو تو کسی ایک کو قرعہ کے ذریعے یا زیادہ محتاج مند کو ترجیح دینا لازم ہے۔ اگرنمک کی کان کے پاس بنجر زمین ہو،کوئی وہاں کنواں کھودے یا اس طرف پانی چلا جائے اور منجمدہوکر نمک بن جائے تووہ بلاشرکت غیرے کھودنے والے کی ملکیت ہے۔ اگر امام نے کھدائی کاحکم دیاہو اورپھر محفوظ قرار دے تو جائزہے۔

۲۔ زیر زمین ذخائر
باطنی کانیں وہ ہیں جن کا حصول ظاہری کانوں کی نسبت زیادہ اسباب کا محتاج ہو۔ مثلاً سونا‘ چاندی‘ لوہا‘تانبااور سیسہ اگر کوئی مسلمان اسے کھودے اور ذخیرہ مل جائے تو بیشک اس نے اسے آباد کیا ۔ اگر وہ کان کسی بنجر زمین میں ہویا اس کی ملکیتی زمین میں تو وہ اس کان کا مالک ہوگا۔ زمین کھودکرکانوں تک نہ پہنچے توچار دیواریہے آبادکاری نہیں۔
پس اگر کوئی نشان لگا کر ادھورا چھوڑ دے تو امام مکمل کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کرے ۔ اگر وہ چھوڑ دے تو وہ حریم سمیت اسکو مکمل آباد کرنیوالے کا ہوگا ۔ اگر کوئی کسی بنجر کو آباد کرے اور اس میں سے کوئی ظاہری یا پوشیدہ ذخیرہ دریافت ہوجائے تو اسکی ملکیت ہوگا۔ اگر ملکیتی زمین میں کان دریافت ہوجائےتو اسکی ملکیت ہے۔ کسی اورکیلئے اس کیساتھ جھگڑا جائز نہیں۔ اگر کوئی اور شخص کھدائی کی زمین اور حریم سے باہر کسی اور جانب کھدائی کرے تواسے روکنے کا حق نہیں‘ چاہے یہ کھدائی اسکے حریم کے پیچھے کان کی رگوں تک کیوں نہ پہنچے ۔

۴۔ بنجروں کی چو تھی قسم پانی اور اس کی اقسام
چوتھی قسم پانی ہیں۔اسکی سات اقسام ہیں

۱۔ وہ پانی جسے کسی برتن ‘تالاب یا مخصوص جگہ میںمحفوظ کیا گیا ہو۔اگر اسے مباح جگہ سے اٹھایاگیا ہوتو یہ محفوظ کرتے ہی ملکیت میں آجاتا ہے چنانچہ اسکا خریدنا اور بیچنادرست ہے۔

۲۔ غیر آبادیا ملکیتی زمین پرکھودا گیا کنواں جوپانی تک پہنچتاہو ۔جب تک یہ پانی تک نہ پہنچے وہ ملکیت میں نہیں آتا بلکہ نشان لگانے کی طرح اس کیساتھ مخصوصہوجاتا ہے ‘ کسی کو اسکی اجازت کے بغیر اس میں تصرف جائز نہیں ۔اس کنواں اور اسکا پانی فروخت کرنا جائز ہے ۔مباح کنواں خراب ہو جائے اور اسکا پانی ختم ہوجائے اور کوئی مسلمان اسے نکال لے تو وہ اسکی ملکیت ہوگا۔ اگر کوئی مسلمانوں کے استفادے کیلئے کھودے اور خود کچھ عرصہ مقیم رہے تو وہ وقف کنندہ کی طرح ہے۔ اسے نگہبانی کاحق ہوگا اور ضرورت کی مقدار سے زائد لوگوں پر خرچ کرنا واجب ہے۔ جب وہ کنواں چھوڑ دے تو وہ کسی کیساتھ مختص نہیں۔ اگر کوئی ملکیتی زمین پرکنواں کھودے اور ا سکا پڑوسی بھی اس سے زیادہ گہرا کنواں کھودے توپانی اس کنویں میں چلا بھی جائے وہ اسے نہیںروک سکتا ۔
نہروں میں کا م اور اخراجات میںتفاوت کے باعث اسکے شرکا ء میں بھی فرق ہوتا ہے ۔لیکن قدیمی نہروں میںیہ تفاوت دوسر ے اسباب کے باعث ہوتا ہے۔مثلاً خریداری،وراثت ،ہبہ اوراختصاص وغیر ہ۔

۳۔ تیسری قسم: مباح زمین پر چشموں ،بارش اور کنویں کا پانی۔ یہ بھی کسی سے مختص نہیں ۔کوئی یہاں سے پیالہ یاچلو بھر پانی اٹھائے تو اسکی ملکیت ہوگا۔ اگر وسعت کے باعث لوگوں کا ہجوم ہوجائے توباری لگانیکی ضرورت نہیں ‘ پانی اٹھانے والے اختصاص میں سب برابر ہیں اگرپانی اٹھانے والوں کیلئے جگہ تنگ ہو جائےتو قرعہ کے ذریعےایک دوسرے پر پہل کرے۔

۴۔ چوتھی قسم: بڑی وادیوں کا پانی مثلاً فرات،دجلہ‘ جیحون ( بلخ) ،سیحون(ہندوستان)، اور نہررأس (آزربائیجان) ان نہروں پرتمام لوگ برابر کے حقوق رکھتے ہیں ۔

۵۔ پانچویں قسم: چھوٹی نہروں کاپانی جوکسی کی ملکیت نہ ہو یا کبھی پانی بہنے کی جگہ ہو جہاں لوگوں کاہجوم ہوتاہو اوروہ آپس میں پانی کیلئے لڑتے ہوں جبکہ وہ پانی بیک وقت تمام زمینوں کی سیرابی کیلئے کافی نہ ہو تو سب سے اوپر والی زمین سے آبپاشی کاآغاز کیا جائے۔ یہ وہ زمین ہے جوپانی کے دہانے پر ہو اور دیگر کو اس وقت تک پانی نہیں دیاجائیگا جب تک کھیتی کیلئے تسمہ تک ‘ درختوں کیلئے قدم تک اورکھجور کے درخت کیلئے پنڈلی تک سیراب نہ ہو۔ اس کے بعد والے شخص کو پانی دیا جائیگا ۔ مذکورہ مقدار کی سیرابی تک پانی چھوڑنا واجب نہیں چاہے نیچے والی فصل ضائع ہوجائے۔ اگر پہلی زمین سے پانی نہ بچے تودوسری کیلئے کچھ نہیں۔ دوسری زمین کیلئے پانی پورا ہو اور باقی نہ بچے تو باقیوں کیلئے کچھ نہیں ۔ اگر زمین اونچی اور نیچی شکل میں مختلف الاجزا ء ہو تو دونوں کو الگ الگ سیراب کیاجائے گا۔
اگر دو یا زائد افراد دہانے کے قریب برابر ہوں توپانی کو انکےدرمیان تقسیم کیاجائیگا۔ اگرپانی کی تقسیم مشکل ہوتو قرعہ اندازی سے ا س شخص کو پہلے پانی دیا جائیگا۔جس کاقرعہ نکل آئے تاکہ وہ اپنے حصے کے تحت زمین کو سیراب کرسکے تاہم اسے بھی پورے پانی میںتصرف جائز نہیں کیونکہ دوسرا بھی استحقاق میں اسکے ساتھ شریک ہے۔ قرعہ سے دو افراد کے پانی کے دہانے کے نزدیک ہونے میں برابری کی وجہ سے کسی کو دوسرے پرمقد م کرنیکافائدہ ملتاہے۔ یہ حکم اونچی زمین اور نیچی زمین کیلئے نہیں کیونکہ اوپر والی زمین کو اپنی پوری کھیتی کو سیراب کرنیکا حق ہے چاہے پانی نہ بچے۔ قریب ہونے میں برابر دونوں نصف پانی حاصل کرے،نصف چھوڑدےچاہے پانی اس کی تمام کھیتی تک پہنچے یانہ پہنچے ۔
اگر دونوں برابر میں سے ایک کی زمین زیادہ قریب ہو تواس کو نصف سے بھی زائد پانی کا تصرف حاصل کرنیکا حق ہے کیونکہ زائد ہونا بھی قرب میں شریک ہے اس لئے وہ مستحق ہے۔
اگر کوئی مسلمان ان کے بعد کسی نہر پر زمین کو آباد کر ے تووہ ان سبقت کرنیوالوں کیساتھ شریک نہیں ہوگا ۔ اگر پانی ان کی ضرورت سے بچ جائے تو اس کیلئے اس پانی سے سیرابی جائز ہے ۔اگر نہر کے دہانے آباد کاروں کے بعد کوئی زمین آباد کرے تووہ ان سے قبل پانی میں تصرف کا مجاز نہیں کیونکہ سبقت اس طرح نہیں بلکہ آبادکاری سے ثابت ہوتی ہے ۔

۶۔ چھٹی قسم کسی بڑی نہر سے حاصل شدہ مملوکہ نہر کا پانی ہے جب یہ پانی اس کی زمین تک پہنچے تو وہ آباد کاری کی وجہ سے اس کی ملکیت بن جاتا ہے ۔اگر ایسی نہر کسی گروہ کی مشترکہ ہوتو اس میں ان کاعمل اور ان پر اخراجات کی مقدار کے مطابق ان کو شرکت حاصل ہوگی ۔ اگروہ سب اس نہر کے مشترکہ رکھنے پر راضی ہوںتو درست ہے ۔ورنہ پانی کی تقسیم ان کے حصوں کے اندازے سے ہوگی ۔لہذا مناسب یہ ہے کہ پانی کے دہانے پرکسی سخت لکڑی کو رکھاجائے جس پر برابر برابر سوراخ ہوں۔ پھر اس لکڑی سے ہر ایک شریک اپنے حصے کے سوراخ سے چھوٹی نہر نکالے‘ مثلاً اگر ان میں کسی کا نصف حصہ ہو، کسی کا ایک تہائی اور کسی کا چھٹا حصہ ہو تو صاحب نصف کو تین سوراخ ملیںگے جنہیں ایک نہر میں بہایا جائیگا ۔ ایک تہائی والے کودوسوراخ ‘جنہیں ایک نہر میں بہایا جائیگا‘ چھٹے حصے والاایک سوراخ کا حقدار ہوگا جسے کسی اور نالی میںبہایا جائیگا۔
اگر وہ راضی ہوں تو ایک دوسرے کو بخش دینا درست ہے ۔ جب کسی کا حصہ نہر کے ذریعے محفوظ ہو جائے تو اس کو اختیار ہے کہ جسے چاہے سیرا ب کرے،چاہے اس کیلئے اس نہر میں حصہ ہونا یا نہ ہونا برابر ہیں ۔اس طرح اس نہر میں کسی دوسرے پانی کا بہانا بھی جائز ہے،اگر وہ اس چھوٹی نہر پر کسی تعمیر کاارادہ کرے مثلاًگھاٹ اور چرخہ وغیرہ تو بھی جائز ہے مشترک نہر میں ایسا جائز نہیں۔ اگرنہر کا پانی کسی اورکی ملکیت میں بہا دے تو کسی انسان کی ملکیت میں گھونسلہ بنانیوالے پرندہ کی طرح مباح بن جائیگا؎۔

۷۔ ساتویںقسم کاریز کا پانی ہے ، یہ زیر زمین نکالی جانیوالی نہر ہے اور ایک سے دوسرے کنویں تک کھود کر بنا ئی جائے تاکہ یہ پانی سطح زمین پرظاہر ہو ۔ ایسی نہر بنانے والے کے بنانے اورسطح زمین پر جاری کرنے سے ملکیت میں آجاتی ہے ۔
عام لوگکسی بھی مملوکہ مقام میں جمع پانی کا پینا‘ وضو ‘غسل کرنا اور برتنوں میں اٹھانا سب جا ئز ہے۔اسی طرح جانوروں ‘ چوپایوں اور دیگر حیوانوں کیلئے اس پانی کا پینا جائز ہے اور اس پانی کے مالک کیلئے یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی انسان یا حیوان کو پانی پینے اوراستعمال کرنے سے یا چلو بھر پانی سے منع کر ے۔
اگرایسی نہر کسی مرمت ،کھدائی یااسے مضبوط بنانے کیلئے کسی سہارے کی ضرورت ہوتو اس کے مالک کے ذمے ہوگا ۔بشرطیکہ وہ ایک آدمی ہو اور اگر وہ کوئی گروہ ہو تو اس نہر میں انکی شرکت کی مقدار کے مطابق ان پر اخراجات ہونگے ۔ بنجر زمینوں وغیرہ کی آبادکاری کا دارو مدار رسم ورواج پرہے پس اگر کوئی مقیم ہونا چاہے تو پتھر،اینٹ،لکڑی،بانس یا چھت لگاکرچار دیواری سے آبادکاری حاصل ہوجاتی ہے۔
باڑے کیلئے چاردیواری کا فی ہے کھیتی پر نشان لگانے،نالی بنانے اورپانی جاری کرنے سے آباد کاری ثابت ہوجاتی ہے اور اس پرکاشت شرط نہیں ‘ اگر درخت اور گھنی گھاس وغیرہ ہوتو درخت کے کاٹنے اور اس پر موجود پانی سے زمین کو خالی کرنے سے آباد کاری ثابت ہو جاتی ہے کسی بنجر جگہ پر خیمہ یا فسطاط نصب کرنے سے آبادکاری ثابت نہیں ہوجاتی بنجر کو آباد کرنے کیلئے امام کی اجازت ضروری نہیں۔ معدنیات کی اصل تک پہنچنا ہی اسکی آبادکاری ہے۔