{۴۵} بَابُ الْوِکَالَۃِ نیابت کابیان


رسول اللہ ﷺسے منقول ہے کہ آپ ﷺنے ایک بکری کی خریداری کیلئے حضرت عروہ بارقی ؓ اورحضرت ام حبیبہ ؓ کا نکا ح قبول کرنے کیلئے عمروبن امیہ ؓ کو اپنا وکیل بنا یا ۔

ارکان وکالت
وکالت کے چار ارکان ہیں ۔

۱۔ معاہدہ
پہلا رکن معاہدہ ہےیعنی ایسا لفظجو کسی کو تصرف میں نیابت پر دلالت کرے مثلاًکہے کہ میں نے تجھے وکیل بنایا‘ اپنا نائب بنایا، تمھارے حوالے کیا یا فروخت کرو،خریدلے، آزاد کر ،نکاح کر، طلاق دے یا ایسے الفاظ جو کسی خاص کام یا ایسے امور میں وکالت پر دلالت کریںجس میں وکیل بنانا اور بننا دونوں جائز ہوں۔ اگر کوئی کہے تو نے مجھے وکیل بنایا جس پر مؤکل کہے کہ ہاں یا اس کی تصدیق پر دلالت کرنے والاکوئی اشارہ کرے تواس کے ایجاب کیلئے یہی کافی ہے۔قبول کرنا قولی طور پر بھی درست ہے۔ مثلاً وکیل کہے کہ میں نے قبول کیا یا میں راضی ہوا یا کوئی ایسی بات کرے جو قبول کرنے پر دلالت کرے۔ قبول عملاً بھی درست ہے۔ مثلاً مؤکل کہے کہ میں نے تجھے خرید وفروخت کیلئے وکیل بنایا اور اس نے فروخت کیا تو قبول ثابت ہوگا۔

وکالت میں ایجاب وقبول کا ایک ساتھ ہونا شرط نہیں بلکہ اگر ایجاب کو رد کرنےپر دلالت کرنیوالی کوئی چیز نہ ہوتو قبول کو ایجاب سے تاخیر کرنا درست ہے ۔ وکالت کا فوری نفاذ بھی جائز ہے ۔ لہٰذا اگر کہے میرا تمہیں دوماہ یا اتنی مدت بعد وکیل بنانے کا ارادہ ہے تو یہ وکالت کا معاہدہ نہیں ہے لیکن وہ کہے کہ میں نے تمہیں ابھی وکیل بنایا اور وکالت کے عمل میں ایک ماہ یا خاص مدت کے بعد ہی تصرف کی شرط عائد کرے تو معاہدہ درست ہوگا۔

معلق وکالت درست نہیں
وکالت کوکسی شرط کیساتھ مشروط کر دیناجائز نہیں، اسی لئے توکیل دوری یعنی مؤکل کہے کہ میں جب بھی تمہیں معزول کردوں توتم وکیل ہے ۔ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں اسکا مقصد وکالت کے احکا م کی بجاآوری کیلئے تاکیداور مبالغہ آرائی ہے نہ کہ وکالت کے لئے معزولی کوشرط بنایا ہو۔

۲۔ موکل اور اس کی شرائط
دوسرارکن موکل ہے اسکیلئے شرط ہے کہ بالغ ،عاقل اور آزاد ہو یا کسی آزاد شخص سے اجازت یافتہ ہو ،وکالت کیلئے ممنوع صفات سے پاک ہو مثلاً بچہ ،پاگل پنی ،غلامی اور پابندی کاشکار ہونا۔ ما سوائے ان امور کے جن میں پابندی بھی تصرف سے نہیں روکتی مثلاًطلاق ‘ خلع اور قصاص کی وصولی وغیرہ لہٰذا کسی احرام والے کوعقد نکا ح کیلئے کسی احرام والے یا غیر مُحرم کو وکیل بنانا جائز نہیں نہ اسے کسی شکار کی خرید وفروخت کیلئے وکیل بنانا جائز ہے‘ تجارت کیلئے اجاز ت یافتہ غلام کو اس کا م میں کسی کو وکیل بنا نا جائز ہے جس کی عادت موجود ہو۔ باپ اور داداکم سن بچے،پاگل کی جانب سے کسی کو اور موجود شخص طلاق کے معاملے میں کسی کو وکیل بناسکتے ہیں اسی طرح امام یاحاکم بیوقوفوں کی طرف سے کسی کو وکیل بناسکتے ہیں جو واجبی اخراجات عقد طے اورفسخ کرنے میں انکے مفادات کو مدنظر رکھے ۔

اہل فضیلت اور ظاہری کمالات مثلاً علم اور پرہیزگاری یا معنوی کمالات مثلاً ولایت یا مقامات معنویہ کے حامل لوگوں کیلئے مقدمات کی پیروی کیلئے کسی شخص کو وکیل مقررکرنا مستحب ہے کیونکہ مقدمات کی پیروی ان کیلئے بُرا سمجھا جاتا ہے۔ عورت نکاح کیلئے کسی کو اپنا وکیل مقررکرنا درست ہے۔ فاسق کوچاہئے کہ وہ اپنی اولادلڑکا ہو یا لڑکی، کے نکاح کیلئے کسی کو وکیل بنائے ۔ وکیل کسی اور کووکیل بناسکتا ہےتا ہم پہلے مؤکل کی اجازت ہو تو مؤکل کا وکیل ہوگا اگر اس کی اجازت سے نہ ہو تو وہ وکیل کا وکیل ہوگا۔ دونوں وکیل موکل اول کے معزول کرنے یا موت سے معزول ہو جاتے ہیں نہ کہ دوسرے وکیل کے معزول کرنے یا موت سے ۔

۳۔ وکیل اور اس کی شرائط
۳۔تیسرا رکن وکیل ہے، اس کا بالغ اور عاقل ہوناشرط ہے آزاد ہونا نہیں کیونکہ غلام اپنے آقا کیلئے جائز امور میں  وکالت کرسکتا ہے۔ اگر کوئی دوآدمیوں کو ایک ہی کام کیلئے وکیل بنائے اور اس بات کی شرط لگائے کہ تصرف میں دونوں حاضر ہونگے تو کسی ایک کا انفرادی طور پر اس کام میں تصرف درست نہیں ‘ چاہے وہ جھگڑے کا مقدمہ ہی کیوں نہ ہو اگر ایک مر جائے تو دوسرے کی وکالت باطل ہوگی ‘ اگر دونوں کو کسی چیز کی حفاظت کیلئے وکیل بنائے اور ایک ساتھ یا الگ الگ حفاظت کی اجازت دی ہو تو ایک ساتھ یا الگ الگ اسکی حفاظت جائز ہے۔

مسلمان کیلئے دو عقد کرنےوالوں اورجھگڑنے والوں کی وکالت جائز ہے ۔اگر کوئی اسے غلام فروخت کرنے اور دوسرا خریدنے کیلئے وکیل بنا دے تو دونوں کی وکالت جائز ہے اگر بیوی یا غلام کو وکیل بنا ئے اور بیوی کو طلاق دید ے یا غلا م کو آزاد کردےتو دونوں کی وکالت باطل نہیں ہوگی، اگر کوئی غلام کو مال میں تصرف کی اجازت دے‘ پھر اسکو آزاد یا فروخت کردے تو اجازت باطل ہوگیکیونکہ اجازت وکالت کی طرح نہیں بلکہ یہ ملکیت کی تابع ہے۔ اگر کسی اور کے غلام کو وکیل بنائے پھر اس کو خریدلے تو اسکی وکالت باطل نہیں بلکہ مزیدتاکیدپیدا ہوجاتی ہے۔

۴۔ جس کام کیلئے وکیل مقرر کیا جائے

چوتھا رکن : جس کیلئے وکیل مقر ر کیا جائے۔ اسکی شرائط میں سے ہے کہ اس میں تصرف کرنا مؤکل کیلئے جائز ہو۔اس طرح کہ وہ چیز اسکی ملکیت ہو یا وہ اس کی ملکیت بننے کی قابل ہو مثلاًخرید وفروخت کی اقسام،حوالہ کرنا، ضمانت دینا، شراکت کرنا، مضاربہ کا معاملہ کرنا، مزدوری دینا، آبپاشی کرنا، نکاح کرنا، طلاق دینا،خلع لینا، صلح کرنا،رہن رکھوانا‘قیمتوں کو قبضہ میںلینا،وکالت کرنا، عاریت پر دینا، حق شفعہ کا حصول ،بری کرنا، امانت رکھوانا، صدقات تقسیم کرنا، حدود کا ثبوت دینا جن کا تعلق انسان سے ہو،سبق ورمایہ کا معاملہ کرنا اور قصاص لینا ، مستحق کی موجودگی یا غیر موجودگی میں حدود کا قیام،دیات پر قبضہ، بعض مواقع پر جہاد کرنا، غلام کیساتھ مکاتبہ کرنا، آزاد کرنا ،تدبیر کرنا، دعویٰ کرنا، اتمام حجت کرنا، حقوق، جھگڑے وغیر ہ اگر چہ مقابل اس کو تسلیم نہ بھی کریں۔ اسی طرح تما م معاملات طے کرنے اور فسخ کرنے کی صورتیں وغیر ہ ۔
قاعدہ کلیہ اس میں یہ ہے کہ شریعت میں ہروہ کام جس کے کرنے کا انسان خودمکلف ہو تواس کیلئے کسی اور کو وکیل بنانا صحیح نہیں ہے۔ مثلاً قادر ہو تو طہارت کرنا‘اگروہ عاجز ہوتو کسی کو اس کے ظاہر ی اعضاء دھونے میں وکیل بناسکتا ہے۔اور اگر وہ محرم ہوتو استنجا بھی کرایا جاسکتا ہے ۔آدمی جب تک زندہ ہے اس کی نماز کیلئے وکیل بنانا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح روزہ،اعتکاف اورقدرت کیساتھ واجبی حج اور بیویوں کی شبانہ ذمہ داریاں وغیرہ کیلئے وکیل بنانا جائز نہیں، گواہی دینے میں کسی کو وکیل بنا نا درست نہیں لیکن گواہی پر گواہی کیلئے وکیل بنانا درست ہے ۔کیونکہ کسی گواہی پر گواہی قائم کرنا اس کے وکیل کے قائم مقام ہوتاہے ۔
اگر کوئی کہے کہ میں نے تمہیں اپنے تمام امور میں اور قلیل وکثیر کا وکیل بنا یااور اپنے تمام امور کو تمھارے حوالے کیا تو بہت زیادہ نقصان کے پیش نظر وکالت درست نہیں،لیکن خلافت میں تمام امور کوخلیفہ کے سپرد کرنا درست ہے اور یہ بات کسی کیلئے بھی کہنامناسب نہیںہے سوائے نبی مرسل اور ولی مرشد کے کہ وہ اپنے اس خلیفہ کو کہہ سکتے ہیں جس نے ان کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ اور بیعت کی ہو‘پس وہ اپنے مرشد کا خلیفہ بنا جس نے اسکے نفس کو ناپسندیدہ اخلاق مثلاً دنیا کی محبت جو تمام گناہوں کی جڑ ہے،بزدلی، کنجوسی، گناہ،ظلم، لالچ،جہالت اور دیگر مذموم صفات سے پاک کردیا ہواور اسکے دل کو بشری کدورتوں سے چمکدار آئینہ کی طرح کردیا ہوپھر اس میں تجلیات حق کے نور کا عکس نظر آئے اورخلیفہ کو عالم ملکوت پھر عالم جبروت پھر عالم لاہوت کی طرف کھینچ لے جائے اور اسے عالم لاہوت میں فنا کردے اور پھر اسے اسی میں اعلیٰ صفات کا متصف بنا کر باقی رکھا ہو پھر اسے خلیفہ مقر رکیا ہو۔
پس اسکے حال کے مناسب ہے کہ وہ اپنے تمام امور کو اس کے حوالے کردے یہ مقام خلافت ہے وکالت نہیں۔
اگر اسے غلام خریدنے کیلئے وکیل بنائے تو اسکی نوعیت معین کرنا لازمی ہے ترکی ہو،ہندی ہویاکوئی اور۔ اگر گھر خریدنے کیلئے ہو تو محلہ اورگلی معین کرے‘ ہر خاص کام کو اسی طرح واضح اور معین کرنا لازمی ہے۔ اگر وکیل کو مختار بنائے کہ وہ جو چاہیں کریں تو وکیل کو مرضی سے کام کا اختیار ہے اور وہ امین کی طرح ہوگا ۔ اگر وہ حد سے بڑھے یا واضح کاہلی دکھائے تو ذمہ دار ہوگا ۔وکا لت جائز معاملہ ہے جو مؤکل یاوکیل میں سے کسی کے فسخ کرنے سے ختم ہوجاتاہے۔ وکیل اپنی دستبرداری یا مؤکل کے ہٹانے سے معزول ہوجاتاہے اگر کوئی ایک جنون، موت، بے ہوشی یا وکالت کی چیز قبضے سے نکل جانے کی وجہ سے معاملات میں تصرف کی اہلیت سے نکل جائے مثلاً سامان ،گھر وغیرہ تومعزول ہونا لازم ہے ۔
اگر وکیل کسی مصلحت کی خاطر اپنی وکالت کو مخفی رکھے اور انکار کرے تو وہ وکالت کو رد کرنا نہیں۔ اگر وہ حقیقتاً انکار کرے تو وکالت کو رد کرناہے۔ کسی وکیل اورامانتدار کومال کی واپسی کے مطالبے پر یہ نہیں کہناچاہیے کہ میں واپس نہیں کرونگا۔ غاصب کیلئے غصب کردہ چیز کو مالک کو واپسی کے وقت کسی کو گواہ بنانا جائزہے۔ اگر مؤکل وکیل کو ہٹانا چاہے تو یوں کہے کہ میں نے وکالت کو فسخ کردیا یاوکالت کو توڑدیایا اسے باطل قراردیایا تمہیں ہٹادیا یاتم سے تصرف واپس لیا یا وہ وکیل کو اس کام سے منع کرےجسے کرنے کا کہا گیا تھا۔