نوربخشیوں کو ہوش میں آنے کی ضرورت – موجودہ حالات کا مختصر جائیزہ


ارشاد خدا وندی ہے۔
قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ۔(سورۃ الزمر الایہ 9)
’’کہہ دیجئے ! کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟۔‘‘
انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء ۔(سورۃ فاطر الایہ ۔28)
’’بیشک اﷲ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ۔ النحل ٤٣)۔
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو
یرفع اللّٰہ الذین اٰمنو منکم والذین اوتو العلم درجات۔ ‘(سورۃ المجادلۃ )
’’اﷲ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں کے درجات کو رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا ۔‘
وتلک الامثال نضربھا للناس و ما یعقلھا الا العالمون۔ (العنکبوت:43
اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں ۔‘‘
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
’’اﷲ تعالیٰ جس شخص کیساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسکو دین کی فقاہت اور سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے اور اسے رشد و راہنمائی الہام کرتا ہے ۔‘‘(متفق علیہ)
العلماء ورثۃ الانبیاء۔ (متفق علیہ)
’علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہیں۔
یستغفرللعالم مافی السمٰوٰات والارض۔ (متفق علیہ)
زمین و آسمان کی تمام مخلوق ایک عالم دین کے لئے بخشش کی دعا مانگتی ہے
فضل العالم علی عابد کفضلی علی ادنی رجل من اصحابی۔’
ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسی میری فضیلت میرے اصحاب میں سے کسی ادنیٰ صحابی پر۔
اطلبو العلم ولو بالصین ۔
علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں چین جانا پڑے
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔
علم کی تلاش و جستجو ہر مسلمان پہ فرض ہے ۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں : ’’علماء کا مرتبہ عام مؤمنین کے مقابلے میں سات درجے زیادہ بڑا ہے ۔اس طرح کہ ہر درجوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: فَقِيْةٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک فقیہ، شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا عُبِدَ اﷲُ بِشَيئٍ أَفْضَلَ مِنْ فِقْهٍ فِي دِيْنٍ. وَلَفَقِيْةٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ. وَلِکُلِّ شَيئٍ عِمَادٌ وَعِمَادُ هَذَا الدِّيْنِ الْفِقْهُ. فَقَالَ أَبُوْهُرَيْرَةَ رضی الله عنه: لَأَنْ أَجْلِسَ سَاعَةً فَأَفْقَهَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُحْيِيَ لَيْلَةً إِلَی الْغَدَاةِ.

ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دین میں تفقُّہ کے ساتھ کی گئی اللہ تعاليٰ کی عبادت سے افضل کوئی چیز نہیں اور ایک فقیہ ایک ہزار عابدوں سے بڑھ کر شیطان پر بھاری ہے۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ (دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنا) ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دینی مسائل سمجھنے کے لئے ایک گھڑی بیٹھنا مجھے پوری رات اللہ تعاليٰ کی عبادت کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: فَضْلُ الْعِلْمِ خَيْرٌ مِنْ فَضْلِ الْعِبَادَةِ وَخَيْرُ دِيْنِکُمُ الْوَرَعُ.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم کی کثرت عبادت کی کثرت سے بہترہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقويٰ (میں مضمر) ہے۔
وَفِي رِوَايَةِ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ: فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ وَذَلِکَ الْعِلْمُ النَّافِعُ، وَعِلْمٌ عَلَی اللِّسَانِ وَتِلْکَ حُجَّةُ اﷲِ عَلَی ابْنِ آدَمَ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم دو (طرح کے) ہیں: ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے۔ یہ ابن آدم پر اﷲتعاليٰ کی حجت ہے۔
تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا، تعلیم قوم اور معاشرے کےلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تعمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور قتدار کا خیال رکھ سکے۔تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گےا ہے تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گےا ہے آج کے اس پر آشوب اور تےز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔
آیات اور احادیث کی روشنی میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس نعمت کے حصول کے بعد انسان علما کہلاتا ہے جن کے بارے میں یہاں تک فضیلت بیان کی گئی کہ علماء ہی وارثین انبیا ہیں۔
ہماری دینی قیادت جن میں پیرطریقت، علماء و مشائخ اور دیگر شامل ہیں، قوموں کے عروج وزوال میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔ اخلاقیات کو فروغ دے کر یہ نہ صرف معاشرے میں استحکام پیدا کرتی ہے، بلکہ اجتماعی قومی زندگی کی مشکلات و مصائب میں یہ سب سے بڑھ کر افراد کا حوصلہ بلند رکھتی ہے۔اسی طرح قومی مفادات کے حصول کے لیے جس اجتماعی تحریک وتوانائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی مذہبی قیادت ہی فراہم کرتی ہے۔ اس اعتبار سے قوموں کی زندگی کے کٹھن لمحات میں مذہبی قیادت غیر معمولی کردار ادا کرکے قوم کو عروج کی طرف لے جا سکتی ہے۔
چنانچہ علما اور دینی قیادت کی اہمیت سے انکار قطعا ممکن نہیں۔
واقعہ خپلو، علم دشمنوں کی کارروائی
گزشتہ جمعہ کو خانقاہ معلی صوفیہ امامیہ نوربخشیہ خپلو بالا میں جناب نائب و جانشین پیر طریقت علامہ سید شمس الدین پیرزادہ کو دوران خطبہ چند شرپسند عناصر نے رکاوٹیں ڈالنے اور فساد پھیلانے کی کوشش کی۔ حالات کو سنگین کردیا گیا اور سنگینی کا یہ عالم تھا کہ سید الایام کی عبادت (جمعہ) کی نماز کی ادائیگی نہیں ہوئی۔
اگرچہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کئی گروہوں نے جنم لیا ہے اور جو اپنے تئیں اچھا کام کر رہے ہیں۔ کوئی عبادت کو فروغ دے رہا ہے تو کوئی علم کو اور کوئی دونوں کو۔ ان امور کی درست یا غلط ہونے سے قطع نظر اب تک کوئی بھی نوربخشی فرد علم دشمن سامنے نہیں آیا۔ لیکن یہ واقعہ ایک علم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یقینا اس معاملے میں صوفیہ نوربخشیہ کا نعرے لگانے والے تمام لوگ شریک نہیں ہیں کیونکہ وہاں بھی علم دوست افراد موجود ہیں وہٓاں صلح پسند بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ مسلک میں مصالحت ہونی چاہئے۔ یہ ان تمام کاموں میں یہی علم دشمن مٹھی بھر ٹولہ آڑے آیا ہوا ہے۔ یہ کارروائی ان چند شرپسند عناصر کی ہی ہوسکتی ہے جو واقعی میں نوربخشیت میں علم کا فروغ نہیں چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ عالم نوربخشیہ میں کوئی عالم آگے آئے۔ وہ علم کو ترقی دے۔ پیار و محبت و پروان چڑھائے۔ نفرتیں مٹائے۔ یہ کارروائی
اس واقعے کے پیچھے وہ لوگ کھڑے ہیں جنہیں اپنی دکانیں بند ہوتی نظر آرہی ہیں۔ انہیں معلوم ہو رہاہے کہ آنیوالا دور علم و عمل کا دور ہے اور پیر طریقت کے جان نشین کے طور پر علامہ سید شمس الدین دونوں میدانوں میں ان کیلئے بہت گراں ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لئے فرعونی اور یزیدی چال چلتے ہوئے انہوں نے ان علمی شخصیات کو محراب و منبر سے دور رکھا جائے۔ یہ کام آسانی سے ہونے والا نہیں تھا۔
فرعون نے اپنے دور کے علما کیلئے جینا تنگ کرکے جہالت کا راستہ صاف کیا تھا اور ایک وقت گزرنے کے بعد لوگوں کو علم سے اتنا دور رکھا اور اتنے جاہل بن گئے کہ فرعوں کی خدائی کے قائل ہو گئے۔ یہ جہالت ہی تھی جس کی بنیاد پر یہ کام ہوسکا۔ اسی طرح یزید اور اس کے ہمنوائوں نے امام حسین علیہ السلام کو نیچا دکھانے اور اہل بیت نبوت کا درجہ کم کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا۔ ائمہ اہل بیت تو درکنار ان کے چاہنے والوں کیلئے بھی محراب و منبر بند کر دئیے چنانچہ اس کا نتیجہ کربلا کے اندوہناک واقعہ کی شکل میں پیش آیا۔
اسی طرح کی ایک جھلک خپلو میں پیش آیا ہے جہاں مٹھی بھر شرپسند اور علم دشمن عناصر نے بلا وجہ اور بلااشتعال ایک علمی و روحانی شخصیت کو خطبہ دینے سے روکا اور حتی کہ جمعہ المبارک کا عظیم ترین عمل بھی نہ ہو سکا۔ واقعے کے بعد خانقاہ معلی پر پولیس کا پہرہ ہے۔ معاملات سیل ہو گئے ہیں اور اب معاملہ تھانہ کچہری تک چلا گیا لیکن کیا ہوگا۔ پھر صلح ہوگی اور لینے دینے پر بات ختم ہوگی۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے ۔ پہلے جھگڑا کرو اور پھر کچھ لے کر صلح کرو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب تک ’’جھگڑا کرو اور کچھ لے کر صلح کرو‘‘ کے فارمولے کو سہتے رہینگے۔ کب ہمارے دانشور اور دین کا درد رکھنے والی شخصیات ان واقعات سے منہ چرائے رہینگے۔ انتظامیہ کب ہوش میں آئے گی اور کب تک جاہلوں کا ایک ٹولہ علما کو چلینج کرتا رہے گا۔ خدا کا خوف کرو۔ ان جاہلوں کو لگام جو ایک گروہ کا لبادہ اوڑھ کو شر پھیلا رہا ہے۔
خپلو کی انتظامیہ کوئی اندھی، بہری اور گونگی نہیں ہے اسے سب معلوم ہے لیکن وہ خود نہیں چاہتی کہ علاقے میں امن ہو اس لئے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے ۔ اس کا یہ بھی معلوم ہے کہ اس خانقاہ کا اصل ذمہ دار جناب پیر طریقت سید عون علی عون المومنین خاندان ہے اور سید حمایت علی الموسوی اس کے مجاور ہیں۔ لیکن انتظامیہ نے ہر بات غیر متعلقہ افراد کو مداخلت کا موقع دیا ہے ۔ انتظامیہ کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس خانقاہ پر ہر بار شرپسندی غیر متعلقہ لوگوں نے پھیلائی ہے لیکن انتظامیہ نے آج تک کو قانون کے مطابق کارروائی نہیں کی۔ اتنظامیہ کے ریکارڈ پر بہت سارے معاہدوں کی کاپیاں موجود ہیں جن پر غیر متعلقہ افراد کے دستخط موجود ہیں جن کا اس خانقاہ سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں پھر اس انتظامیہ نے انہیں شرپسندوں کا ساتھ دینا ہے ۔ اس لئے جب تک ہمیں انتظامیہ اور شرپسندوں کی گٹھ جوڑ کو توڑنے میں کامیابی نہیں ملے گی ہم اسی طرح مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں امن کو تباہ ہوتے دیکھتے رہیں گے۔
اس لئے خپلو کی انتظامیہ کو ہوش میں آنے شرپسندوں کی پشت پناہی بند کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے ورنہ پورے خطے میں علما کو دوران خطبہ ٹوکنے اور عبادت میں خلل ڈالنے کا ایک سلسلہ چل پڑے گا اور یہ پھر کٹھ پتلی انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ اس لئے اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنائی جائے کہ آئندہ سے خانقاہ معلی کی خطابت کا واحد ذمہ دار سید حمایت علی الموسوی ہیں وہی کسٹوڈین ہیں۔ ان کی اجازت سے ہی سارے امور نمٹا دیئے جائیں۔ ان کے کاموں میں غیرمتعلقہ شخص کی مداخلت کو ہرگز قبول نہ کیا جائے۔

ساتھ ہی نوربخشیوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کیونکہ علم اور عالم ہیں تو آپ کا مسلک قائم و دائم ہے۔ مسلک جاہلوں نے عالموں نے قائم رکھا ہوا ہے ۔ علم سے دنیا میں مسلک کی تعلیمات پہنچائی جاسکتی ہیں۔ جہالت سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اگر علم دشمنی کی اس کارروائی کی ہر جگہ مذمت کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند نہ کی گئی تو وقت کے فرعونی چال چلنے والے ہمیں اتنے جاہل بنا دیں گے کہ ان کے ان کی خدائی کو تسلیم کرنے والے بھی پیدا ہونگے۔
اللہ ہمیں علم، علما، سچ اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

 

 اختلافات کا خاتمہ کرنا