شہادت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام


تحریر


حضرت امام علی مرتضی علیہ السلام پہلے امام، رسول خدا کے داماد ، کاتب وحی، حضرت فاطمہ(س) کے شریک حیات اور گیارہ آئمہ معصومین کے والد اور جد امجد ہیں ۔ تمام مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی اور شہادت مسجد کوفہ میں. رسول اللہؐ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو ان پر سب سے پہلے آپ نے اپنے ایمان کا اظہار کیا. قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ مواخات مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوئی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ آپ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار تھے اور جنگ تبوک کے سوا پیغمبر اکرم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول اللہؐ کے فرمان پر مدینے میں رہے۔

کلام، تفسیر اور فقہ سمیت بہت سے علوم کا سلسلہ آپؑ تک پہنچتا ہے اور مختلف مکاتب فکر اپنا سلسلہ آپ ہی سے ملا دیتے ہیں۔ آپ غیر معمولی جسمانی قوت کے مالک، بہت زیادہ بہادر اور ساتھ ساتھ حلیم و بردبار، درگذر کرنے والے، مہربان اور حسن سلوک رکھنے والے اور صاحب ہیبت تھے۔ آپ چاپلوسوں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے تھے اور لوگوں کو حکومت اور رعایا کے دوطرفہ حقوق کی یادآوری کرتے تھے اور ہمیشہ کے لئے نہایت سختی سے نفاذ عدل پر قائم رہے۔

حسب و نسب
آپ کا نسب علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قُصَی بن کلاب، ہاشمی قرشی ہیں۔
والد ماجد: آپ کے والد ماجد حضرت ابوطالب ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ رسول اللہؐ کے چچا اور حامی اور قریش کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔ حضرت ابوطالبؑ سالہا سال رسول خداؐ کی حمایت و سرپرستی کے بعد بعثت کے 10ویں سال ایمان کامل کے ساتھ انتقال کرگئے۔
والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔
بھائی: طالب، عقیل اور جعفر۔
بہنیں: ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء
کنیت:ابوالحسن، ابوالحسین، ابوالسبطین، ابوالریحانتین، ابوتراب اور ابوالآئمہ
القاب: امیرالمؤمنین، یعسوب الدین والمسلمین، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، زوج البتول، سیف اللّہ‏ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، الصدّیق الأکبر، ذوالقرنین، الہادی، الفاروق، الداعی، الشاہد، باب المدینة، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ‏، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین
لقب امیر المؤمنین
اصل مضمون: امیرالمؤمنین (لقب)
امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔

فضائل و مناقب
قرآن کے ظاہر و باطن،تنزیل و تاویل کی شناخت میں رسول اللہ کے بعد حضرت علی سب سے زیادہ آگاہ تھے نیز ابن عباس اور مجاہد جیسے بڑے مفسر قرآن حضرت علی کے مکتب کے ہی پروردہ تھے۔ رسول اللہ کے بعد سب سے پہلے قرآن تدوین کرنے والی شخصیت حضرت علی ہی تھے۔اہل بیت اور اصحاب میں سے کوئی شخص شرف و فضیلت میں انکی ہمسری نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن پاک کی 300 ایسی آیات ہیں جن میں انکی ذات گرامی کی طرف اشارہ ہواہے۔

خطیب بغدادی اسماعیل بن جعفر سے اورابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ300 آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔

ابن حجر ہیتمی اور شبلنجی، نے ابن عساکر اور ابن عباس سے 300 آیات کی حضرت علی کے بارے میں نازل ہونے کی تائید کی ہے۔

ان آیات میں سے تبلیغ، اکمال، مودت، مباہلہ،شب ہجرت آیت اشترائے نفس ، آیت نجوا، سورہ ہل اتی اور آیت اولو الامر خاص طور پر قابل ذکر ہیں. نیز شیعہ مفسرین ، شیعہ متکلمین اور بعض اہل سنت مفسرین کی تصریح کے مطابق (تحریم، آیت ۴) میں صالح المؤمنین سے مراد حضرت علی ہیں نیز (حاقہ، آیت ۱۲) میں اذن واعیہ، (بینہ، ۷) خیر البریہ میں یہی مراد ہیں۔ بعض شیعہ و سنی علما نے حضرت علی اور اہل بیت کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں جیسے تأویل الآیات الظاہرة فی فضائل العترة الطاہرة، اثر سید شرف الدین استرآبادی، شواہد التنزیل، ینابیع المودة ہیں.

حضرت علی ؑ رسول اللہ کے نزدیکترین ،ہمدم اور ہمسخن ساتھی تھے نیز کاتب وحی ،ناظر وحی و محافظ وحی اور مفسر قرآن بھی تھے ۔حضرت خود اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ کوئی ایسی آیات نہیں جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ کب اور کیسے نازل ہوئی،دن کو نازل ہوئی یا رات کو نازل ہوئی، دشت میں یا پہاڑ پر نازل ہوئی۔ عیون اخبار الرضا میں ا امام رضاؑ امام حسینؑ سے نقل کرتے ہیں :

امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا کہ قرآن کے بارے میں جو چاہو مجھ سے پوچھو یہانتک کہ میں ہر آیت کے کے متعلق تمہیں بتاؤں گا کہ یہ آیت کس کے بارے میں اور کہاں اور کس وقت نازل ہوئی ہے۔
جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ بہت سی آیات حضرت علی کے فضائل اور مناقب میں نازل ہوئیں یہانتک ک ابن عباس نے ان آیات کی تعداد 300 تک بیان کی ہے یہاں ہم بعض آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

آیت مباہلہ
فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَہ ِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّہ ِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔
تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو۔ پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
سنہ 10 ہجری کو روز مباہلہ، طے یہ پایا تھا کہ مسلمان اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔

آیت تطہیر
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ ُ لِيُذْہبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَہ ْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہ ِّرَكُمْ تَطْہ ِيراً
اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر پلیدی کو دور رکھے اے اہل بیت! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔
شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہؐ کے علاوہ، علیؑ،فاطمہ(س) اور حسنینؑ بھی موجود تھے۔ یہ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خداؐ نے اس چادر کساء کو ـ جس پر آپ بیٹھے تھے ـ اٹھا کر اصحاب کساء یعنی اپنے آپ، علی، فاطمہ اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کرنے لگے: “خداوندا! میرے اہل بیت یہ چار افراد ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ”۔

آیت مودت
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہ ِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ”۔
کہئے کہ میں تم سے صاحبان قرابت کی محبت کے سوا اس رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا”۔
ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: “علی، فاطمہ، حسن اور حسین؛ اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔

مسلمِ اول
حضرت علی کا مسلم اول ہونا مشہور ہے بلکہ یہ روایت تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ علیؑ اولین مسلمان تھے۔ چنانچہ رسول خداؐ کہتے ہیں: “سب سے پہلا فرد جو تم میں سے، روز قیامت، حوض کوثر پر مجھ سے آملے گا وہ اسلام میں سب پر سبقت لینے والے علی ہیں”۔ نیز رسول اللہؐ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “کیا آپ نہیں چاہتی کہ میں تمہیں ایسے فرد سے بیاہ دوں جو میری امت میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا ہے اور ان میں دانا ترین ، عالم ترین اور سب سے زيادہ صابر و بردبار ہے”۔
اکیس ۲١ رمضان المبارک حضرت علی ع کا یومِ شہادت ہے، اسی مناسبت سے علامہ اقبال کے کچھ اشعار انکی کتاب اسرارِ خودی سے۔

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
پہلے مسلمان علی ع ہیں، مردوں کے سردار علی ہیں۔ عشق کیلیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔

از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔

زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست
مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست
اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی علی ہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ انہی علی ہی سے ہے۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
انکے چہرۂ مبارک سے پیغمبر (ص) فال لیا کرتے تھے، ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔

قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپکے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔

مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب
اللہ کے سچے رسول (ص) نے آپ کو ابو تُراب کا نام (لقب) دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو ید اللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا۔

ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرّ اسمائے علی داند کہ چیست
ہر وہ کہ جو زندگی کے رموز جانتا ہے، جانتا ہے کہ علی کے ناموں کے اسرار کیا ہیں۔

شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد
ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
اللہ کے شیر نے اس خاک کو تسخیر کیا اور اس تاریک مٹی کو اکسیر کر دیا۔

مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است
بوتراب از فتح اقلیمِ تن است
مرتضیٰ کہ انکی تلوار سے حق روشن اور آشکار ہوا اور وہ بوتراب یعنی مٹی کے باپ ہیں کہ انہوں نے تن کی سلطنت کو فتح کیا۔

زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است
دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است
اس جگہ یعنی اس دنیا میں خیبر کی شان و شکوت و شکوہ انکے پاؤں کے نیچے ہے اور اُس جہاں میں انکا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔

ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
انکی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور انکے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔

(علامہ اقبال، اسرارِ خودی، در شرحِ اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰ)

شب ہجرت (لیلۃ المبیت)
قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔

دارالندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خدا کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپؐ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: “آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں”۔ پیغمبرؐ نے علیؑ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں” ۔

آیت اور اس کا شان نزول
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ
اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔
مفسرین کے مطابق یہ آیت کریمہ لیلۃ المبیت سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

رسول خداؐ کے ساتھ مؤاخات
رسول خداؐ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علیؑ سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علیؑ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔

ردّ الشمس
یہ سنہ 7 ہجری کا واقعہ ہے جب رسول خداؐ اور علیؑ نے نماز ظہر ادا کی اور رسول خداؐ نے علیؑ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علیؑ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علیؑ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبرؐ نے اپنا سر علیؑ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج غروب ہوگیا۔ جب رسول خداؐ جاگ اٹھے بارگاہ الہی میں دعا کی: “خدایا! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسولؐ کے لئے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے”۔ پس علیؑ اٹھے، وضو تازہ کیا اور نماز عصر ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔

سورہ برائت ( توبہ) کا ابلاغ
سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور توحید کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ پیغمبرؐ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو رسول اللہؐ خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپؐ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا” ، ـ حضرت محمدؐ نے علیؑ کو بلوایا اور حکم دیا کہ مکہ۔ تشریف لے جائے اور عید الاضحیٰ کے دن مِنیٰ کے مقام پر سورہ برائت کو مشرکین تک پہنچا دیں۔

حدیث حق
پیغمبرؐ نے فرمایا: عَلىٌّ مَعَ الحقِّ والحقُّ مَعَ عَلىٍّ۔ (ترجمہ: على ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ ہے)”۔
سد الابواب (دروازوں کا بند کرنا)
اصل مضمون: حدیث سد الابواب
صدر اسلام میں مسجد النبی کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو رسول خدا نے فرمایا:
“مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔

شہادت
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ و لادت بہ مسجد شہادت
(علامہ اقبال)
تاریخ انسانیت میں کسی کو یہ سعادت نصیب نہیں‌ہوئی کہ مسجد میں ولادت ہو اور خانہ خدا میں ہی شہادت کی سرفرازی.

جنگ نہروان کے بعد امامؑ نے عراق میں ایک بار پھر شام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن تھوڑے سے لوگوں نے ساتھ دیا۔ دوسری طرف سے معاویہ نے عراق کے حالات اور عراقیوں کی سستیوں کے پیش نظر جزیرة العرب (جزیرہ نمائے عرب) اور حتی کہ عراق میں امامؑ کی عملداری کے اندر بعض علاقوں کو جارحیت اور افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ ان کی قوت کو ضعف میں بدل دے اور عراق کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کر دے۔

بہرحال امامؑ ایک بڑالشکر تیار کرکے صفین جانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ اسی دوران 19 رمضان سنہ 40 ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقت عبدالرحمن بن ملجم مرادی نامی خارجی کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو جام شہادت نوش کرگئے۔ بعض تاریخی ذرائع نے کہا ہے کہ خوارج کے تین افراد نے امیرالمؤمنینؑ، معاویہ اور عمرو بن عاص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ بھی کہا ہے کہ قطام نامی عورت نے بھی امامؑ کے قتل میں کردار ادا کیا ہے لیکن یہ باتیں کسی حد تک افسانے سے مشابہت رکھتی ہیں۔
امام علیؑ نے مسجد کوفہ میں زخمی ہوتے وقت فرمایا:
فُزتُ وَرَبِّ الكعبةِ؛ (ترجمہ: رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا)۔

امیرالمؤمنین کے بیٹوں امام حسن، امام حسین اور محمد بن حنفیہ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر کے تعاون سے رات کے وقت آپؑ کو غریین (موجودہ نجف) کے مقام پر سپرد خاک کیا. کیونکہ بنی امیہ اور خوارج اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بےحرمتی کرتے۔

امیرالمؤمنینؑ سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے غسل، کفن، نماز اور تدفین کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ آپ نے اپنے فرزندوں کو اپنا مدفن خفیہ رکھنے کی ہدایت کی ۔

جب محراب مسجد میں ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں حسن اور حسین ؑ کو یوں وصیت فرمائی:

میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، دنیا کے خواہشمند نہ ہونا، اگرچہ وہ تمہارے پيچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے جو کہنا حق کے لئے کہنا اور جو کرنا ثواب کے لئے کرنا، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ تمہیں اور اپنے تمام فرزندوں اور اعزاز و اقارب اور ہر اس شخص کو ـ جس تک میرا یہ نوشتہ پہنچے ـ وصیت کرتا ہوں خوف خدا قا‏ئم رکھنا، اپنے امور و معاملات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہؐ کو فرماتے سنا ہے کہ: “لوگوں کے درمیان مصالحت کرانا برسوں کی نماز اور روزے سے افضل ہے”۔ دیکھو یتیموں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، انہیں کبھی پیٹ بھر کر کھلانے اور کبھی فاقے کرانے سے پرہیز کرنا، (اور ان کی ضرورت پوری کرنا)، اور انہیں اپنی موجودگی میں ضائع اور تباہ مت ہونے دینا۔ کیونکہ تمہارے پیغمبرؐ نے مسلسل ہدایات دی ہیں؛ اور آپ اس حد تک پڑوسیوں کی سفارش کرتے تھے کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ انہیں بھی وراثت سے ترکہ دلائیں گے۔ قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ دوسرے قرآن پر عمل کرنے میں تم سے سبقت لیں۔

نماز کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا جو تمہارے دین کا ستون ہے۔ اپنے رب کے گھر کعبہ کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا،جب تک اس دنیا میں ہو کبھی اسے جیتے جی خالی مت چھوڑنا کیونکہ اگر تم نے اسے خالی چھوڑا اور اس کی خدمت و پاسداری نہ کی تو خدا کے عذاب سے چھٹکارا نہ پا سکوگے۔ راہ خدا میں جہاد کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔ اپنے اموال اور اپنی جانوں اور زبانوں کے ساتھ! تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھو اور ایک دوسرے کی مدد کرو۔ خبردار! ایک دوسرے سے منہ مت موڑنا، اور باہمی تعلق توڑنے اور اپنے رشتوں کو توڑنے سے پرہیز کرنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو کبھی ترک مت کرنا (اگر تم نے ایسا کیا تو) تمہارے بدکردار ترین افراد تم پر مسلط ہو کر حکمرانی کریں گے! پھر تم دعا مانگوگے تو قبول نہ ہوگی۔ ( پھر ارشاد فرمایا ) اے عبدالطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہونے پائے کہ امیرالمؤمنین کو قتل کیا گیا، امیرالمؤمنین کو قتل کیا گیا کے نعرے لگاکر لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کرو۔ سوائے میرے قاتل کے، کسی کو میرے خون کے بدلے قتل نہیں ہونا چاہئے۔ نیکی کاحکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ بدکردار تم پر مسلط ہو جائیں گے .پھر دعا مانگو گے تو قبول نہیں ہو گی۔

دیکھ لینا! اگر میں اس ایک ضرب سے مرگیا تو ایک ضرب لگا کر اسے مار دینا اور اس کے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح مت کاٹنا کیونکہ میں نے رسول خداؐ سے سنا ہے کہ “مردے کے اعضا کاٹنے سے پرہیز کرو خواہ وہ پاگل کتا ہی ہو”۔
قبر کا خفیہ رہنا
امیرالمؤمنینؑ نے وصیت کی کہ آپ کی قبر خفیہ رکھی جائے جس کی وجہ یہ تھی کہ خوارج اور منافقین سے خوف تھا کہ وہ کہیں قبرکھول کر آپ کے جسم کی بے حرمتی نہ کریں۔

امام علیؑ کے مدفن سے صرف آپ کے فرزند اور اصحاب خاص آگہی رکھتے تھے حتی کہ امام صادقؑ نے منصور عباسی کے زمانے (سنہ 135 ہجری) میں پہلی بار نجف میں آپ کے مقام تدفین کو آشکار کردیا۔