عقائد و تعلیمات کا تحفظ – قسط 1


تحریر مولانا محمد اسحاق ثاقب


بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الله تعالي: يا ايها الذين آمنو قو انفسکم و اهليکم نارا.
خدواند متعال نے فرمایا:اے مومنو! خود کو اور اپنے اہل وعيال کو جہنم کی آگ سے بچاو ۔
اس آیت کریمہ میں رب متعال نے کلی طور پر مومنین کو حکم دیا کہ خود بھی اور اپنے اہل و عيال کو بھی دوزخ کی آگ سے بچاو۔
تو ہمیں اس سے یہی سمجھ آتاہےکہ صرف ظاہری مومن ہونا نجات کے لئے کافی نہیں اور نہ کسی کے مومن ہونے سے اس کے اہل کو آخرت میں کچھ فائدہ ہوگا،بلکہ سچے ،کامل اور کھرے مومن ہی کامیاب و کامران اور ناجی ہیں۔
آیت مبارکہ کے لفظ “اهليکم” کے بارے میں مفسرین کی مختلف تفاسیر موجود ہیں:
کوئی کہتے ہیں: اس سے مراد اپنے گھر والے اور رشتہ دار ہیں، تو کوئی کہتے ہیں: ہم عقیدہ مومن گر وہ ہیں، کسی کے نزدیک بستی والے ہیں تو کسی کے ہاں تمام برادران ایمانی اور اپنی آنے والی نسل۔بہرحال تمام تفاسیر و تشریح اپنی اپنی جگہ پہ صحیح اور درست ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک تفسیر بھی دوسری سے متصادم ومتفرق نہیں ہیں، بلکہ سب ایک دوسرے کے بہت قریب اور موزوں ہیں ۔لہذا ہمیں چاہیے کہ تقاضاے عقائد و اعمال کی مکمل پاسداری کرے اور:
1.سب سے پہلے خود کی اصلاح کرے،2.گھر والوں کی بھی تعلیم و تربیت کرے،3.ہم عقائد مومنین مومنات کی بھی فکرکریں،3.بستی والوں کے اعمال و عقیدے کو بھی نظر میں رکھیں، 4.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیمات محمد و آل محمد کو جوکہ ایک عظیم امانت ہیں بلا کم وکاس اگلی نسل تک منتقل کرے۔
لہذا اب ہم میں سے ہر ایک اس کے محافظ و ذمہ دار ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جواب دہ اور مسئول بھی۔
ہم مندرجہ بالا تمام نکات پرکیسے عمل کرکے اپنی ذمہ دار یوں سے عہدہ برا ہو سکتے ہیں؟ بستی بستی ہر مومن کے پاس جاکے عقائد و اعمال کی تعلیم و تربیت کرنا محال نہ بھی ہو تو بھی اس مصروف ترین دور میں مشکل و ناممکن ضرور ہے۔ چلو جائے تو بھی تقریر و مواعظہ حسنہ صرف اس محفل میں موجود حضرات کے لئے باعث رحمت و برکت و ہدایت ہوگی اور وہ تقاریر ہوا میں تحلیل ہوجائیگی یوں اگلی نسل کے لیے آپ کے اس چل کے جانے کا ثمر اور آثار پھر بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔اس دور میں ماشاءاللہ سوشل میڈیا کے ذریعے ابلاغ دین بہت بہترین انداز میں ہورہے اور اور مومنین و مومنات مستفیض ومستفید ہورہے ہیں ۔ہاں یہ ایک انقلاب سے کم ہرگز نہیں ۔مگر یہ سب بھی میری رائے میں وقتی اور عارضی ہیں، اگر موبائل اور کمپیوٹر خراب ہو جائے اور ہارڈ ڈسک میں نقص پیدا ہو تو ساری محنت رائیگاں اور ساری امیدیں یکدم ختم ہو جاتی ہیں ۔اس سلسلے میں سب سے اہم اور سب سے معتبر اور یقینی طور پر صدیوں تک تحریر و تقریر اور دیگر درس و تدریس وغیرہ محفوظ و مامون رکھنے اور رہنے کا واحد ذریعہ شعبہ نشر و اشاعت ہے۔
اگر دنیا میں کوئی بھی مثالی چیزیں، اشیاء اور شے خواہ وہ مذہب ہو یا تہذیب، ثقافت ہو یا رسم و رواج، اب تک زندہ اور کامیاب ہیں تو اس کے پیچھے صرف ایک ہی چیز مضمر ہے وہ ہے:نشر و اشاعت۔اس لیے تمام احباب سے عرض ہے کہ ہم اپنے علمائے کرام، سادات عظام اور دیگر دین کے خدام حضرات کی پرسوز دلنشین اور سنہری پیاری میٹھی کلام، تقریر، عید و ماتمی مجالس کی ریکارڈنگ کو تحریری شکل میں لانے تاکہ:
1.تادیر محفوظ رہ سکے،۲.ہر اہل علم اس سے مستفیض ہوجائے ،3.ہم بھی زندہ قوموں کی فہرست میں شامل ہو سکے،4.علماء کی محنت و جدو جہد اور سعی و کوشش ہوا میں تحلیل ہو کر ختم ہونے کی بجاے تحریر بن کر تاریخ کا حصہ بن جائے ،5.جب پڑھنا چاہیے پڑھ سکے کیونکہ اس کے لیے چارجنگ اور بیٹری کی ضرورت نہیں ہوتی،جبکہ کمپیوٹر اور موبائل سے ہم صرف اس وقت استفادہ حاصل کرسکتے ہیں جب بجلی، چارج ہو تو۔
مقصد نشر و اشاعت کی اہمت بہت ہی زیادہ ہیں، یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے، یہ تاریخ میں زندہ رہنے کا وسیلہ ہے، یہ ہر دور اور ہر طبقہ علم کے لیے سرمایہ ہے، یہ تنہائی کا بہترین ساتھی اور خزانہ معلومات ہیں، یہ سنت انبیاء علیہم السلام ہیں، یہ سنت او لیاء و ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہیں ۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرے اور تھوڑی سی تحقیق و تجسس کرے تو یہی چیز واضح اور مشخص ہوتی ہے کہ دنیا اور اگلی دنیا میں قابل عمل،قابل قبول، شہادت کے لئے موثر، یقین کے لئے کافی کوئی شواہد ہوتی ہیں تو وہ تحریری چیزیں ہی ہیں: مثلا:
1.ہمارے ساتھ جو دو فرشتے بطور نگہبان اللہ پاک نے مقرر کیے ہیں انکا نام ہی کرام کاتبین یعنی معزز لکھنے والے ہیں جیسا کہ رب لم یزل کا ارشاد ہے :وان علیکم لحافظین کراما کاتبین [اور بے شک تمہارے اوپر نگہبان ہیں انتہائی معزز لکھنے والے]یہی وجہ ہے کہ کل قیامت کے دن ہمارے نامہ اعمال کتاب اور تحریری شکل میں ہمیں دی جائے گی جس کی دلیل قرآن میں بھی اور ہماری وضو کی دائیں، بایں ہاتھ دھونے کی دعائیں ہیں ۔
2.دنیا میں کسی کی نوکری کسی کی برطرفی وغیرہ بھی صرف اس وقت حتمی ہو جاتی ہے جب وہ آرڈر تحریری شکل میں شایع ہو جائے۔
3.تحریر ہی کے ذریعے ساری دنیا کی معاملات اور انتظامات جاری و ساری ہیں ۔
4.شعبہ نشر و اشاعت ہی کی بدولت ہمیں انبیاء کی سیرت اور تعلیمات میسر ہیں ۔
5.پرنٹ شدہ نشریات ہی کی وجہ سے واقعہ کربلا اور دیگر عظیم تاریخ ہم تک پہنچی ہیں ۔
6.نشر و اشاعت ہی کے ذریعے دنیا میں علمی و عملی انقلاب ممکن ہوے ۔
7.البتہ دنیا میں جس شعبہ میں بھی ترقی و تحریک بپا ہے وہ سب نشرو اشاعت ہی کی مرہون منت ہے۔
7.ہم ابھی اپنے الگ نام “صوفیہ امامیہ نوربخشیہ “سے معروف و مشہور ہیں تو یہ بھی ہمارے اسلاف کی تحریری کاوشوں سے ہیں ۔
7.ہمارے اکثر پیران پیر نے بھی ہمیں نشر و اشاعت ہی کی طرف ترغیب دے کے اشاروں میں سمجھایا کہ اصل دین کی خدمات نشرو اشاعت کرکے اگلی نسل تک پیغام محمدی ص پہنچانے میں ہیں ۔
یہی وجہ ہے اللہ پاک نے بھی اس عظیم طاقت یعنی نشرو اشاعت کی قسم سورۃ قلم میں یوں کھائی ۔والقلم وما یسطرون[اور قلم کی قسم اور ان تحریروں اور سطروں کی قسم جو قلم سے لکھی جاتی ہیں ]اللہ پاک نے تو لوح محفوظ پر لکھی ہوئی چیزوں کی قسم کھا کر بتایا کہ تحریر کی بنیاد گزار اور بانی خود پروردگار ہیں ۔
لہذا میرے بزرگوں ہم اپنے عقیدے اور اعمال کی تحفظ صرف اور صرف نشرواشاعت کے ذریعے ہی بہتر انداز میں کر سکتے ہیں، اس کے لئے ہم سب کو سوچنا ہوگا اور سوچنا ہوگا اور بار بار سوچنا ہوگا ،کیونکہ ہماری اور ہماری تعلیمات طاہرہ کی بقا صرف اور صرف نشریات میں مضمر ہیں ۔
[جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔]