فقہ احوط کی روشنی میں اوقات نماز [دوسری قسط]


تحریر حافظ زاہد علی حافظی


بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر؛ حافظ زاہد علی حافظی
الحمد لاهله والصلاة علي اهلها.
اما بعد قال الله تعالي: وَ الَّذينَ هُمْ عَلي‏ صَلاتِهِمْ يُحافِظُونَ
گزشته قسط ميں ہمارے مدعا پر ممکنہ طور پر وارد ہونے والے کچھ اشکالات کے جواب عرض کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اسی سلسلے میں مزید چند اشکالات اور ان کے جوابات اس قسط میں عرض کروں گا:
اشکال نمبر: 3
فَالمَجْنُوْنُ اِذَا بَرِیَ وَ المُغْمی عَلَیْهِ اِذَا اَفَاقَ وَ الحَائِضُ اِذَا طَهَّرَتْ وَبَقِیَ مِنَ الوَقْتِ مِقْدَارُ الصَّلوةِ الحَاضِرَة..الخ
وَ قَبْلَ طُلُوْعِ الصُّبْحِ مِقْدَارُ سَبْعِ رَکْعَاتٍ وَجَبَتِ المَغْرِبُ وَ العِشَائُ وَ مِقْدَارُ اَرْبَعِ رَکْعَاتٍ العِشَائُ وَحْدَهَا۔
اس عبارت سے آنے والا ممکنہ اشکال اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں: ہم نے کہا تھا کہ کوئی بھی نماز اس کے اول وقت سے پہلے پڑھے تو دوبارہ قضاء بجالانا ضروری ہے اور اگر آخر وقت کے بعد بجالاۓ تو وہی نماز قضاء شمار ہوگی یہاں یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ مثلا :ایک بندہ طلوع الشمس کے بعد بے ہوش ہوا اور نماز ظهر کا آخری وقت ختم ہونے کے بعد ہوش میں آگیا تو اس پر نماز ظهر ادا کرنا کیوں واجب ہے جب کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی بھی نماز اس کے آخری وقت گزرنے کے بعد اداء نہیں ہوتی ۔جواب یہ ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ یہ حکم عادی حالت میں ہے اور ضرورت کے موقع پر وقت مشترک آجاتا ہے یعنی یہ بندہ جب ہوش میں آجاۓ اور وقت مشترکہ باقی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز ظہر کو بجالاۓ اگر بجا نہ لاۓ تو بعد میں قضاء بجالانا واجب ہے ایسے ہی ہر وہ شخص جو کسی مشکل کی وجہ سے کسی بھی نماز کو اس کے مختص ٹائم پہ نہ پڑھ سکا تو مشکل رفع ہونے کے بعد مشترکہ وقت باقی ہو تو اس میں اس نماز کو بجالانا واجب ہے لہذا یہ اشکال بھی ہمارے مدعا پر وارد نہیں ہوتا ہے۔
اشکال:۴
وَ اِنْ وَقَعَ الحَیْضُ وَ الجُنُوْنُ وَ الاِغْمَاء وَ قَدْ مَضی مِنْ اَوَّلِ الوَقْتِ مِقْدَارُ اَدَائِهَا وَجَبَ القَضَاء یَعْنِی اِذَا مَضی مِنْ زَوَالِ الشَّمْسِ عَنْ وَسْطِ السَّمَاء مِقْدَارُ ثَمَانِیْ رَکْعَاتٍ قَضَاءُ الظُّهْرَیْنِ۔
اس عبارت سے یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ مثلا نماز عصر اپنے اول وقت سے پہلے واجب ہی نہیں تھی تو ان تین لوگوں پہ قضاء واجب کیوں صرف ظہر واجب ہونا چاہیے؟ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عصر کو اس کے اول وقت سے پہلے نماز ظہر کے وقت بھی پڑھنا جائز ہے۔
جواب ملاحظہ فرمائیں ہم نے کئی بار فقہ احوط کی روشنی میں کہا ہے کہ کسی بھی ضرورت کے موقع پر نماز عصر کو نماز ظہر کے وقت اور نماز ظہر کو عصر کے وقت پڑھ سکتے ہیں اسی طرح نماز مغرب و عشاء کو بھی ضرورت کے موقع پر ایک دوسرے کے وقت میں پڑھ سکتے ہیں ہمارا مدعا یہ ہے کہ بلا ضرورت کسی بھی نماز کو اس کے اول وقت سے پہلے پڑھنا جائز نہیں، اگر کوئی اول وقت سے پہلے بلاضرورت پڑھے تو اس کو دوبارہ قضاء یا اداء کی صورت میں بجالانا واجب ہے اور یہاں مسئلہ واضح ہے کہ ان تین لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کونسی مشکل پیش آ سکتی ہے حیض ، جنون اور بے ہوشی ایسی چیز نہیں کی اچانک آجاۓ بلکہ ان سے پہلے ان کی طبیعت خراب رہتی ہے لہذا ان کے لیے وقت مشترکہ آجاتا ہے اور جب ان مشکلات کی وجہ جب مشترکہ وقت آجاۓ تو ان کو نماز بجالانا چاہیے اگر بجا نہ لائے تو بعد میں قضاء بجالانا واجب ہوگا لہذا اس سے بھی ہمارے مدعا نہیں ٹوٹتا ہے۔یہاں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شاہ سید علیہ الرحمہ نے ان تین لوگوں کو بطور مثال بیان کیا ہے ورنہ یہ مسئلہ صرف ان تینوں میں حصر نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو کسی مجبوری کا شکار ہو تو اس کے لیے بھی وقت مشترکہ آجاتا ہے اور اس میں اگر نماز نہ پڑھے تو مشکل رفع ہونے کے بعد قضاء واجب ہے لیکن اس معاملے میں وہ شخص جس کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو تو اس کے لیے وقت مشترکہ نہیں اور اس کو اس میں دوسری نماز پڑھنا جائز نہیں اور خدانخواستہ اچانک کوئی مسئلہ پیش آے تو اس پر قضاء بھی نہیں مثلا ایک بندہ جو بالکل تندرست ہے اور کسی بھی بیماری یا کسی بھی مشکل کا شکار نہ ہو اور نماز ظہر پڑھنے کے بعد عصر کے وقت سے پہلے کسی نے اس کو مار دیا یا کسی نے اس کو بے ہوش کردیا پھر مغرب کے وقت ہوش میں آجائے تو ایسی صورتحال میں اس پر نماز عصر کی قضا واجب نہیں کیونکہ یہ مسئلہ پیش آنے سے پہلے اس کے لیے وقت مشترکہ نہیں آیا تھا کیونکہ وقت مشترکہ ان کے لیے ہے جن کو امر ضروری پیش آجائےلہذا فقہ احوط میں مذکور تین افراد کو ان کی مجبوری کا علم ہوتا ہے لہذا ان کے لئے مشترکہ وقت آیا ہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قضاء واجب ہوجاتی ہےاور شاہ سید علیہ الرحمہ نے حائض ، مجنون اور مغمی علیہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہ تین الفاظ بیان گر علت ہیں جن کے لیے وقت مشترکہ بیان ہوا ہے لہذا سالم شخص کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں بلکہ ہر اس شخص کو ان تین پر قیاس کرنا درست ہے جس کو کسی عذر کا احتمال ہو واضح رہے فقہ احوط کے کسی بھی عبارت میں سالم شخص کے لیے ایسا حکم بیان نہیں ہوا ہے،پس یہ اشکال بھی سرے سے پیش نہیں آتا ہے۔
اشکال نمبر: 5
بعض حضرات نماز عصر کو نماز ظہر کے وقت پڑھنے اور نماز ظہر کو عصر کے وقت پڑھنے اور اسی طرح نماز مغرب اور عشاء کو ایک دوسرے کے ٹائم پر پڑھنے کو جائز کہتے ہیں اور دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ حج میں عرفات کے مقام پر ظہر اور عصر کو اور مزدلفہ کے مقام پر نماز مغرب اور عشاء کو جمع کرنے کا حکم فقہ احوط میں موجود ہے لہذا جب حج میں یہ جائز ہوا تو باقی ایام میں بھی جائز ہے۔
جواب : سب سے پہلی بات یہ کہ فقہ احوط میں حج کے موقع پر مقام عرفات میں نماز ظہر اور عصر کو جمع کرنے کا حکم ہوا ہے اور مزدلفہ کے مقام پر مغرب کو موخر کر کے نماز عشاء کے ساتھ جمع کرنے کا حکم موجود ہے جبکہ ہماری بات اصلاً جمع بین الصلواتین کے حوالے سے نہیں بلکہ عام حالت میں جمع بین الصلواتین کے بغیر کسی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں پڑھنے کے بارے میں ہے۔
ثُمَّ اَفَاضَ الی عَرَفَاتٍ وَهیَ کُلُّها مَوْقِف اِلاَّ بَطْنَ عُرْنَةَ وَصَلَّی الظُّهرَ وَالعَصْرَ بِها جَمْعًا وَ وَقَفَ بِها الی غُرُوْبِ الشَّمْسِ ذَاکِرًا مُهلِّلاً وَاِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ لَمْ یُصَلِیّ المَغْرِبَ وَاَخَّرَها لِلجَمْعِ مَعَ العِشَاءِ وَمَشی الی مُزْدَلِفَةَ وَالمُزْدَلِفَةُ کُلُّها مُوْقِف اِلاَّ بَطْنَ مُحَسَّرٍ فَاِذَا وَصَلَ اِلَیْها صَلَّی المَغْرِبَ وَالعِشَاءَ جَمْعًا بِاَذَانٍ وَاِقَامَتَیْنِ۔
پس باقی ایام کو حج کے ساتھ قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ جمع بین الصلوتین کا حج میں حکم ہوا ہے اور باقی ایام میں جمع بین صلواتین بالضرورہ جائز قرار دیا ہے ۔بغیر ضرورت کے عام حالت میں جمع بین الصلواتین جائز نہیں آپ کے استدلال کے مطابق تو عام حالت میں بھی جمع الصلواتین کا حکم نکلتا ہے جو کہ اصلا درست نہیں ہے ۔
ہم نے بتایا کہ باقی ایام کو حج پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ باقی ایام میں جمع بین الصلواتین کو فقہ احوط میں ضرورت کے موقع پر جائز قرار دیا ہے بلاضرورت نہیں جمع بین الصلواتین کے حوالے سے کچھ مطالب ملاحظہ فرمائیں جمع بین الصلواتین کیا ہے؟
جمع بین الصلواتین یعنی دو نماز کو جمع کر کے پڑھنا ،یعنی نماز ظہر پڑھنے کے فوراً بعد نماز عصر پڑھنا کسی وقفے کے بغی،ر چاہے نماز ظہر کے وقت ایسا کرے یا نماز عصر کے وقت ایسا کرے اور نماز مغرب پڑھنے کے فوراً بعد بلا وقفہ نماز عشاء کو بجالانا چاہے نماز مغرب کے وقت ہو یا نماز عشاء کے وقت کوئی فرق نہیں۔
وَ فِی الجَمْعِ لاَ یَجُوْزُ اَنْ یُّفَرِّقُ بَیْنَهمَا بِصَلوةٍ اَوْ دُعَائٍ کَثِیْرٍ اَوْ تِلاَوَةٍ کَثِیْرَةٍ وَ لاَ یَجُوْزُالتَّکَلُّمُ بَیْنَهمَا اِلاَّ اِذَا اضْطُرَّ فِیْمَا یَفُوْتُ اَنْ لَمْ یَتَکَلَّمْ فَبِقَلِیْلٍ ضَرُوْرِیٍّ مِنَ الکَلاَمِ بِکَلِمَةٍ اَوْ کَلِمَتَیْنِ مِنَ الاَدْعِیَةِ لاَ بَاسَ بِه.
لیکن یہ ضرورت کے موقع پر جائز ہے یا ضرورت کے بغیر بھی جائز ہے اس میں عالم اسلام کے دو بڑے فرقے اهل تشیع اور اهل تسنن کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. اهل تشیع عذر ہو یا نہ ہو جمع بین الصلواتین کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ اهل تسنن کے ہاں بلا عذر جائز نہیں ۔ البتہ عذر ہونے کی صورت میں بھی ان کے بعض علماءجمع بین الصلواتین کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ جمع بین الصلواتین صرف عرفات اور مزدلفہ کے مقام پر جائز سمجھتے ہیں یہ امام ابو حنیفہ کا نظریہ ہے جبکہ مذهب حنبلی باقی ایام میں بارش وغیرہ کی صورت میں صرف مغرب اور عشاء کو جمع کرنے کو جائز سمجھتا ہے اور امام شافعی بارش یا کسی عذر کی صورت میں باقی حج کے علاوہ باقی ایام میں بھی نماز ظهر اور عصر کو جمع کرنے اور نماز مغرب اور عشاء کو جمع کرنے کے قائل ہیں اب آئیے فقہ احوط کی طرف کہ شاہ سید نے جمع بین الصلواتین کے بارے میں کیا حکم بیان فرمایا ہے:
وَ اَمَّا الجَمْعُ بِلاَ قَصْرٍ فَیَجُوْزُ فِیْ مَوَاضِعَ کَثِیْرَةٍ کَالمَرَضِ وَ المَطَرِ وَ الوْحْلِ وَ الشَّوَاغِلِ الضَّرُوْرِیَّةِ وَ السَّفَرِ البَعِیْدِ وَ القَرِیْبِ وَ غَیْرِه.
پس واضح ہوا کہ جمع بین الصلواتین شاہ سید کے نزدیک ضرورت کے موقع پر جائز ہیں بلا ضرورت جمع بین الصلواتین کا حکم فقہ احوط میں نہیں ملتا لہذا باقی ایام کو حج پر مقایسہ کرنا درست نہیں ۔
اشکال نمبر:6
وَ تَیَّقَّنْتَ بِاَنْ لَّاتَصِلَ اِلی المَاء وَقْتَ الصَّلوةِ فَلَمْ تَحْتَجْ اِلی طَلَبِ المَاءِ فَتَیَمَّمْ وَ صَلِّ فِیْ اَوَّلِ الوَقْتِ اَوْ غَیْرِهِ.
اس بارت سے یہ اشکال کرے کہ اس میں شاہ سید علیہ الرحمہ نے اول وقت او غیرہ لایا ہے اور غیرہ سے مراد قبل الوقت اور آخر وقت ہے کیونکہ یہ دونوں لفظ اس عبارت سے پہلے بھی اس طرح آئے ہوئے ہیں.
وَ التَّیَمُّمُ یَجُوْزُ فِیْ اَوَّلِ الوَقْتِ وَ قَبْلَ الوَقْتِ وَ آخِرِ الوَقْتِ وَ لکِنْ فِیْ تَأخِیْرِه زِیَادَةُ اِحْتَیَاطٍ.
اس اشکال کا جواب ملاحظہ فرمائیں :اوپر جس عبارت سے استدالال کیا ہے وہ ہمارے خلاف نہیں بلکہ اس سے بھی ہمارا مدعا ہی ثابت ہوتا ہے کہ اس میں کہا اگر پانی نہ ملے تو اس کے اول وقت وغیرہ میں پڑھو اور وغیرہ سے مراد قبل الوقت لینا درست نہیں، اگر ایسا لیں تو نماز ظهر ،نماز مغرب اور نماز صبح کے وقت ایسا مسئلہ پیش آۓ تو کیا کہیں گے بلکہ یہاں وغیرہ سے مراد اوسط اور آخر وقت ہے کہ شاہ سید فرمانا چاہتے ہیں کہ اگر نماز کے وقت پانی نہ ملنے کا یقین ہو تو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس نماز کے اول وقت میں یا اوسط وقت میں اور یاآخر وقت میں نماز پڑھ سکتے ہیں ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگر کسی سفر میں یا کسی ضرورت کے موقع پر ایسا مسئلہ پیش آئے تو عصر اور عشاء کو اپنے اول وقت سے پہلے پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ضرورت کے موقع پر مشترکہ وقت آجاتا ہے اما تیمم والی عبارت کو اس کے لیے دلیل قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس عبارت میں تیمم کرنے کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اول وقت سے پہلے بھی جائز ہے اور نماز ایسا نہیں مثلا پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں نماز ظهر کے اول وقت سے پہلے تیمم کرنا جائز ہے لیکن نماز ظهر کو بجالانا قبل از وقت درست نہیں اسی طرح باقی نمازیں بھی کہ جن کے اول وقت سے پہلے تیمم کرنا تو جائز ہے لیکن ان نمازوں کو اول وقت سے پہلے بجالانا جائز نہیں مگر یہ کہ عذر ہو تو عصر اور عشاء کو اول وقت سے پہلے مشترکہ وقت میں بجالانا جائز ہے دوسرے الفاظ میں یہ کہہ دیا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا کہ جب مشترکہ وقت آجاۓ تو بعد والی نماز کے لیے اول وقت اور پہلی نماز کے لیے آخروقت کا معنی ہی نہیں رہتا مثلا ضرورت کے موقع نماز ظهر اور نماز عصر کے درمیان مشترکہ وقت آجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ظهر کے اول وقت سے چار رکعت کی مقدار ظهر کے ساتھ اور عصر کے آخری وقت میں چار رکعت کی مقدار نماز عصر کے ساتھ مختص ہے اور باقی اوقات ان دونوں کے ساتھ مشترک ہے اور نماز ظهر کا آخری وقت اور نماز عصر کا اول وقت کا مفهوم نہیں رہتا ہے یعنی فقہ احوط میں جس وقت کو نماز ظهر کا آخری وقت قرار دیا ہے اور جس وقت کو نماز عصر کا اول وقت قرار دیا ہے وہ عادی حالت میں ہے اور مشترکہ وقت آجانے کی صورت میں یہ مقررہ اوقات کا معنی باقی نہیں رہتا ۔