حضرت امام محمد مھدی علیہ سلام


حضرت امام محمد مہدی آخر الزمان علیہ السلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقال اﷲ فی القرآن العظیم و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین
– سورہ قصص پ ۲۰ آیت ۵
ترجمہ: ۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پر جن کو زمین میں کمزور سمجھا گیا ہے اور ہم ان کو امام بنائیں گے اور ان کے وارث قرار دیں گے ۔ تفسیر البیان میں حنفی عالم شیبانی سے ان کی کتاب کشف البیان میں مذکورہ روایت نقل کی گئی ہے جوانہوں نے حضرت امام محمد باقر ؑ اور ابو عبداﷲ امام محمد جعفر صادق ؑ سے روایت کی ہے ان دونوں نے فرمایا تحقیق کی یہ آیت جناب امام محمد مہدی ؑ کے ساتھ مخصوص ہے جو آخر زمانہ میں ظاہر ہونگے اور ظالموں جباروں فرعونوں ٗ سرکشوں متکبروں کو ہلاک کرڈالیں گے زمین کے شرقا غربا مالک ہو جائیں گے اور اس کو انصاف و عدل سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم جود سے بھری ہوگی ۔ البرہان فی تفسیر القرآن ج ۳ ص ۲۲
سر کار دو عالم حضرت محمد مصطفی ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ
قال رسول اﷲ ؐ لو لم یبق من الدنیا اِلاَّ یوم واحد لطول اﷲ تعالٰی ذالک الیوم لیخرج رجل من ولدی اسمہ امی و کنیتہ کنیتی یملاء الارض قسطا وعدلا کما مُلِئت جورًا و ظلماً۔
۳-جامع الاسرار ص ۲۴۰ ؍ ۲۳۹ ٗ نص النصوص ص ۲۸۶ ٗ شرح اصطلاحات تصوف ج ۲ ص ۱۴۶ ٗ العروہ لاھل الخلوہ و الجلوہ سمنانی ص ۲۸۹ ؍ ۲۸۸ ٗ مصنفات فارسی بین الاحسان لاھل العرفان سمنانی ص ۲۲۹ ریاض السیاحہ ص ۶۸۳ ٗ مکتوبات نور بخش ص ۶ ٗ سنن ترمذی ج ۳ ص ۳۴۳ ٗ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۷ ٗ المقالات و الفرق ص ۷۶ ٗ اصول کافی ج ۱ ص ۳۴۱ ٗ نوادر کاشانی ص ۱۵۳ ینابیع المودۃ ص ۷۵۱ ٗ فرائط السمطین
ترجمہ: رسول اﷲ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو اﷲ تعالیٰ اس دن کو لمبا کردے گا حتیٰ کہ اس میں اﷲ تعالیٰ میرے فرزند کی اولاد میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا ۔ جس کا نام میرے نام پر ہوگا اس کی کنیت میری کنیت جیسی ہوگی ۔ وہ زمین کو اس طرح انصاف اور عدل سے بھر دیں گے ۔ جس طرح وہ ظلم سے بھری ہوئی ہوگی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امامت ہی کس چیز کا نام ہے ؟
امامت کی تعریف
الامامت ہی الریاسۃ العامۃ الالہیۃ و خلافتہ عن رسول اﷲ فی الدین و الدنیا بحیث یجب علی کافۃ الخلق طاعتہ۔ فرہنگ نور بخش ڈاکٹر جواد ج ۳ ص ۵۰ٰ
ترجمہ:۔ امامت خدا تعالیٰ کی ریاست عامہ اور دینی و دنیوی امور میں خلافت رسول اﷲ ؐ کا نام ہے اسی وجہ سے اس کی اطاعت تام خلق خدا پر واجب ہے ۔
حضرت امام مہدی ؑ کے مصداق میں قرآن مجید کی دو سری آیت اس طرح آئی ہے کہ
ولقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون ان فی ھذا لبلاغاً لقوم عابدین۔ سورہ انبیاء پ ۱۷
ترجمہ: اور تحقیق کہ دیاہم نے زبور میں ذکر کے بعد کہ تحقیق زمین کے وارث (ہوں گے ) ہمارے نیک بندے ہوجائیں گے بے شک خدا پرست لوگوں کے لئے اسی میں کافی نصیحتیں موجود ہیں
حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق ع دونوں نے فرمایا کہ اس عبادی الصالحون سے مراد امام محمد مہدی ؑ اور ان کے اصحاب ہیں ۔ پہلے اس آیت کے چند الفاظ کے معنی پر غور کیجئے۔
۱ … ارض پورے کرہ ارض کو کہاجاتا ہے اور اگر کوئی قرینہ موجودنہ ہو تو اس میں پوری دنیا شامل ہوتی ہے ۔
۲ … ارث ٗ لغت میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی معاملہ اور تجارت کے بغیر ہاتھ لگ جائے لیکن قرآن مجید میں قرینہ کے لحاظ کے اور بھی معنی لئے ہیں ۔
۳ … زبور اصل میں ہر قسم کی کتاب اور تحریر کو کہاجاتا ہے لیکن معمولا حضرت داؤد ؑ کی کتاب کے لئے استعمال کیاجاتاہے ۔
۴ … ذکر اصل میں ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جو یاد آوری اور تذکرہ کا سبب بنے مگر قرینہ کی روشنی میں حضرت موسیٰ کی آسمانی کتاب توریت بتائی گئی ہے ۔
۵… صالح کے معنی لائق ٗ شائستہ اور با صلاحیت کے ہیں ۔
تفسیر مجمع البیان میں حضرت امام محمد باقر ؑ سے منقول ہے کہ فرمایا ھم اصحاب المہدی فی آخر الزمان یہی وہ لوگ ہیں جو آخری زمانہ مں حضرت امام محمد مہدی ؑ کے اصحاب اور ساتھی ہونگے ’’صالحون‘‘ جو قرآن میں ذکر ہوا ہے ایک ایسا جامع کلمہ ہے جس میں حکیم ٗ صدیق ٗ متوکل اور متبرک سب کے سب شامل ہیں ۔
۷ …ان فی ھذا البلاغاً لقوم عابدین ۔
سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ روئے زمین پر حکومت صالحین کا آخری مقصد نہیں ہے بلکہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آخری مقصد یعنی ہر میدان میں انسان کے ارتقاء کو حاصل کریں گے ۔
حضور دو عالم ؐ کا ارشاد گرامی ہے۔
عن جابر بن عبداﷲ و عن عامربن و اثلہ قال قال رسول اﷲ ؐ لعلی یا علی انت وصی حربک حربی و سلمک سلمی و انت الامام و ابو الائمۃ الاحدی عشر الذین ھم المعصومون و منھم المہدی الذی یملاء الارض قسطا وعدلا۔ینابیع المودۃ ص ۸۵
حضرت جابر بن عبدا ﷲ اور ان سے عامربن واسلہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا اے علی ؑ تم میرے وصی ہو تمہاری جنگ میری جنگ ہے اور تمہاری صلح میری صلح ہے تم امام ٗ گیارہ اماموں کے باپ ہویہ سارے کے سارے امام معصوم و طاہر ہیں اور ان کے آخر میں مہدی ؑ ہیں جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
ایضا قال النبی ؐ خیار ائمتکم الذین تحبو نھم و یحبونکم و تصلون علیھم و یصلون علیکم و شرار ائمتکم الذین تلعنو نھم و یلعنو نکم قالوا یا رسول اﷲ ؐ افلا ننابذھم بالسیف فقال لاما اقاموا فیکم الصلوۃ۔ صحیح مسلم بن ۶ ص ۲۴ باب خیار الائمہ و شرارھم
فرمایا تمہارے اماموں میں سب سے بہتر وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں تم ان کے لئے دعا کرو وہ تمہارے لئے دعا کریں اور بدترین آئمہ وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں صحابہ کرام نے پوچھا تو کیا ہم تلوار سے ان کا مقابلہ نہ کریں ۔ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں ۔
شیخ سلمان قندوزی حنفی ؒنے یہ حدیث اپنی کتاب ینابیع المودۃ میں عبداﷲ بن عباس ؓ سے نقل کی ہے یہ حدیث پہلی حدیث سے متصل بھی ملتی ہے کہ
و ان الثانی عشر من ولدی یغیب حتی لایری ویاتی علی امتی بزمن لا یبقی من الاسلام الا اسمہ ولا یبقی من القرآن الا اسمہ فحینئذٍ یاذن اﷲ تعالیٰ بالخروج فینظہر اﷲ الاسلام بہ و یجددہ۔صواعق محرقہ ینابیع المودۃ ص ۴۴۰
اورمیرا بار ہواں فرزند غائب ہو جائے گا اور دکھائی نہ دے گا پھر ہماری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام کا فقط نام اور قرآن کی فقط تحریر رہ جائے گی ایسے وقت میں خداوند عالم ان کو قیام اور ظہور کی اجازت دے گا اسلام کو ان کے ذریعے آشکار اور احیاء کرے گاوہی امام منتظر ہے ۔
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر اقبال حضرت امام مہدی ؑ کے بارے میں کہتے ہیںکہ ؎
سب اپنے بنائے ہوئے زندان میں ہیں محبوس
خاورکے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نہ جدت کردار
دنیاکو ہے اس مہدیؑ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگہہ زلزلہ عالم افکار
ضرب کلیم
غوث المتافرین سید محمد نور بخش ؒجنہوں نے اپنی کتاب ’’ چہل حدیث‘‘ کو امام زمانہ ؑ کے نام منسو ب کیا حضرت امام مہدی ؑ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ؎
اگر ھاد ییم و اگر مہدییم
بہ جنب قدمٗ طفلکی مہد ییم
یکی قطرہ ایم از محیط وجود
اگر چند داریم کشف و شہود
من از قطر گی گشتہ ام بس نفوذ
خدایا رسانم بہ دریای نور
غزلیات نور بخش ص ۱۶۶
سید محمد نوربخش ؒاپنی ایک دو سری کتاب میں امام زمانہ ؑ کے بارے میںرقمطراز ہیں۔
بازگویم کسیت انسان میشنو
آنکہ ہست اندر دو عالم پیش رو
اندرین دور او امام عالم است
قطب اقطاب است غوث اعظم است
صاحب امر و زمان گویند اذان
کامراللسھی ذوئے گردد عیان
امرا و امر خداوند جہاں است
ہم خداوند جہاں ازوی عیاں است
کی زمان بے او بماندی بر قرار
گر زو دادی قرارش کردگار
کشف الحقیقت ج ۱ ص ۷۹
امام بخاری ؓ نے اپنی کتاب میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا اس وقت تم کیسے ہوں گے تمہارا کیا حال ہوگا جب کہ حضرت عیسیٰ تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا یعنی امام محمد مہدی ؑ جو امامت کریں گے ۔ (صحیح بخاری ج ۲ ص ۱۵۸)
مفسرین قرآن کے نزدیک حضرت امام مہدی صاحب العصر و الزمان ؑ کی شان میں ۴۶ آیتیں ہیں ان میں سے ۴۶ ویں آیت یہ ہے کہ والسماء ذات البروج ۔ سورہ بروج
مجھے قسم ہے آسمان کی جو برجوں والا ہے شیخ سلیمان قندوزی لکھتے ہیں کہ اصبغ بن نباتہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول ا ﷲ ؐ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ انا السماء (میں آسمان ہوں) اور بروج میں میرے اہل بیت ؑ اور میری عترت میں سے امام ہیں ۔ جن کے پہلے علی ؑ اور آخری مہدی ؑ ہیں اور وہ تعداد میں بارہ ہیں ۔ جس طرح بروج بھی بارہ ٗ حضرت موسی ؑ کے نقیب بارہ اور بارہ چشمے ہیں ۔(صواعق محرقہ، ینابیع المودۃ)
ولادت با سعادت حضرت امام مہدی علیہ السلام
مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت ۱۵ شعبان ۵۵ ھ یا ۲۵۶ ھ جمعہ کے دن بوقت طلوع فجر ہوئی ۔ ( روضتہ الاحباب ٗ ینابیع المودۃ ٗ تاریخ کامل ٗ تاریخ ابن الوردی ٗ روضات الجنان و غیرہ ) حضرت امام حسن العسکری ؑ کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن العسکری ؑ کے پاس گئی تو آپ نے فرمایا اے پھوپھی آپ آج ہمارے گھر ہی رہے کیونکہ خداوند عالم آج مجھے ایک وارث عطا فرمائے گامیں نے کہا کہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا آپ نے فرمایا کہ یہ نرجس سے متولد ہوگا ۔ کہا بیٹے میں تو نرجس میں کچھ بھی حمل کے آثار نہیں پاتی ۔ امام نے فرمایا اے پھوپھی نرجس کی مثال مادر موسی ؑ جیسی ہے جس طرح اس کا حمل پہلے ظاہر نہیں ہوا اسی طرح اس فرزند کا حمل بھی بر وقت ظاہر ہوگا ۔ غرض کہ میں اس رات و ہیں رہی جب آدھی رات گزر گئی تو میں اٹھی اور نماز تہجد میں مشغول ہوگئی ۔ اور نرجس بھی اٹھ کر نماز تہجد پڑھنے لگی میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ صبح قریب ہے امام ؑ نے جو کہا تھا وہ ابھی تک ظاہر نہیں ہوا اتنے میں حضرت امام حسن العسکری ع نے اپنے حجرے سے آواز دی پھوپھی اماں جلدی کیجئے حجت خدا کے ظہور کا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرے کی طرف پلٹی نرجس لرزہ براندام تھیں اور ان کاسارا جسم کانپ رہاتھا میں نے یہ دیکھ کر ان اپنے سینے سے لپٹا لیا اس وقت امام ؑ نے آواز دی کہ اے پھوپھی سورہ ان انزلنا اور قل ھو اﷲ پڑھ لیں میں نے پڑھ کر ان پر دم کیا پس بطن مادر سے بچے کی آواز آنے لگی یعنی میں جو کچھ پڑھتی تھی وہ یہ بچہ بھی بطن مادر میں پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن و منور ہوگیا اور مولود مسعود سجدہ ریز تھا آغوش نرجس میں گل امامت قیامت کی خوشبو لے کر آیا قیام عالم کو قائم آل محمد ؐ آیا ۔ عدل مسکرایا اور باطل گھبرایا آخری نبی کا آخری جانشین و نجعلھم الوارثین کی تلاوت کرتاہوا آیا جناب حکیمہ ؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ جب نور صاحب الزمان عالم وجود میں آیا تو زبان پر کلمہ شہادتیں جاری تھا شانہ منور پر
جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان ذھو قا۔
کا مہر امامت تھا زمانے نے یا صاحب الزمان کہہ کر سلام کیا قرآن نے یا شریک القرآن کہہ کر احترام کیا ٗ کائنات نے یا امام الانس و الجان کہہ کر آداب بجالاتے ٗ ایمان نے یا مظہر الایمان کہہ کر گردن جھکائی ۔ حضرت امام حسن عسکری ؑ نے فرزند دلبر کو اپنی گودمیں بٹھالیا اور اپنی زبان بچے کے منہ میں دے دی اور فرمایا اے فرزند خدا کے حکم سے کچھ بات کربچے نے اس آیت و نرید ان نمن الخ کی تلاوت کی ابھی یہ نور عمر کی پانچویں منزل ہی میں پہنچا تھا اسے بجھانے کی پھر کوشش شروع ہوئی ۔ شیخ حاجب کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت امام حسن العسکری ؑ کی شہادت کے بعد معتضد باﷲ خلیفہ نبی عباسی نے مجھے طلب کیا ا اور حکم دیا کہ بارہ سواروں کے ہمراہ ابھی جاکر خانہ امام عسکریؑ کا محاصرہ کرو اس میں جس بچہ یا بوڑھے کو پاؤا سے قتل کرڈالومیں حسب الحکم گیا اور اندر کسی کونہ پایا ۔ ایک دروازے پر پردہ پڑا ہوا تھا میں اندر داخل ہوا تو ایک سرداب تھا اور ایک طرف دریا نظر آیا جس پر چٹائی بچھائے ہوئے ایک بچہ مصروف عبادت تھا میرا ایک سپاہی پانی میں اترا تا کہ بچہ تک پہنچے مگر ڈوبنے لگا ہم نے بڑی مشکل سے اس کی جان بچائی پھر دو سرا پانی میں کودا اس کا بھی یہی حشر ہوا آخر میں میں نے کنارہ پر کھڑے ہو کرمعافی چاہی کہ خدا را ہماری اس نادانستہ جرائت کو معاف فرمائے مگر وہ مطلق ملتفت نہ ہوئے یہیں سے امام بحکم خدا تعالیٰ ۲۳ ماہ رمضان المبارک ۲۵۹ ھ یا ۸ ماہ ربیع الاول ۲۶۰ ھ پانچ سال کی عمر میں بمقام سر من رائے عراق سے غیبت صغریٰ مین چلے گئے ان ایام میں امام ؑ کے اضافی جانشین جس میں حضرت رود باری قدس اﷲ سرہ اور اس کے بعد اولیاء اﷲ شامل ہیں امام زمانہ ؑکی زیارت سے مشرف ہوتے رہے ۔ غیبت صغریٰ کے سترہ سال بعد غیبت کبریٰ شروع ہوئی ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ بار ہویں امام ؑ ٗ ہی کے ساتھ کیوں مخصوص ہوئی اور امام بارہ ہی کیوں ہوئے ؟ یہ سلسلہ تا قیامت یکے بعد دیگرے جاری بھی رہ سکتا تھا یہ مسئلہ ذرا تفصیل طلب ہے پہلے ہم یہ دیکھیں کہ سنت الٰہی کیا ہے ؟ نظام عالم کی بقاء اور قیام کے لئے قدرت نے اسی بارہ کے عدد ہی سے کام لیا ہے نظام شمسی کی بقاء اور قیام کے لئے گیارہ یا تیرہ نہیں بلکہ بارہ برج قرار دیئے ۔ جن پر بقاء عالم کو موقوف رکھا نظام ارض کے لئے شب و روز خلق فرمائے جن کا مدار بارہ گھٹوں پر رکھا ٗ سال کو بارہ مہینوں پر تقسیم کر کے زمانہ کی پیمائش سے روشناس کرایا یہ عدد کس قدر قدرت کو پسند آیا ا کہ اپنے کلمے لا الہ الا اﷲ میں بارہ ہی حرف رکھے اور اپنے حبیب کانام آیا محمد رسول اﷲ کہہ کربارہ ہی حرف کا مجموعہ بنایا نیز علی الاعلی نے جب علی ع کو نوزا تو علی خلیفہ اﷲ کہہ کربارہ ہی حرف عطا کئے ٗ جب آدم صفی اﷲ کو وصی عطا ہوئے تو بارہ ہی وصی دیئے نوح نجی اﷲ کو بارہ خلیفہ اور وصی دیئے ابراہیم خلیل اﷲ کو بھی بارہ وصی دیئے موسیٰ کلیم اﷲ کے بھی بارہ ہی نقیب و وصی تھے عیسیٰ روح اﷲ ؑ کو بھی بارہ وصی دیئے ٗ پھر خاتم النبین ؐ کو کیوں نہ بارہ وصی ملتے۔ )جامع الاسرار ص ۲۳۹ تا ۲۴۲ ٗ نص النصوص ص ۲۸۶ ٗ شرح اصطلاحات تصوف ج ۲ ص ۱۴۶
اس لئے قرآن شاہد ہے ۔ { ولن تجد لسنت اﷲ تبدیلا} اﷲ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوئی ۔ ( سورہ فتح رکوع ۳()
خود رسول اﷲ ؐ نے ارشاد فرمایا ۔
یقول لا یزال الاسلام عزیز ا الی اثنی عشر خلیفۃ کلھم من قریش– اولھم علی و آخر ھم القائم المہدی ؑ
یہ سلسلہ بارہ خلفاء تک قوی و عزیز ( غالب) رہے گا اور یہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے ۔ ( ان میں پہلا علی اور آخری مہدی ہوں گے)(مسلم ج ۵ ص ۱۰۹ ٗ مشکواۃ شریف ج ۳ ص ۲۳۹ ٗ بخاری شریف ج ۴ ص ۱۷۵ ٗ کنز العمال ج ۶ ص ۱۵۶ ٗ تذکرۃ النعیم ص ۱۳۶ ٗ صواعق محرقہ ص ۱۸۷ ٗ ینابیع المودۃ ص ۴۴۵ ٗ مودۃ القربٰی ص ۸۳ ٗ صحیح ترمذی ج ۲ ص ۴۵ ٗ الفرق بین الفرق ص ۳۴۰ ٗ مروج الذھب مسعودی ج ۲ ص ۱۹۲ ، اعلل و لنحل ج ۱ ص ۱۰۶ ٗ مجالس المومنین شوستری ص ۶ ٗ نور المومنین ص ۴۱۳ ۔ ۴۱۴ ٗ کتاب نور بخشیہ ص ۵ ٗ نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۲ ٗ فرقہ ناجیہ مولوی حسن نوری ص ۴۸ خلافت و ملوکیت مودودی ص ۲۵۵)
صاحب کتاب تشیع و تصوف ڈاکٹر مصطفی الشیبی نے بھی اس ضمن میں ایک خوبصورت بحث کی ہے کہ ہر امام کے اسم گرامی کے بارہ بارہ حروف ہیں جو کہ اسرار ولایت میں سے ایک سرہے۔
لا الہ الا اﷲ ٗ محمد رسول اﷲ ٗ النبی المصطفیٰ ٗ الصادق الامین ٗ علی باب الہدیٰ ٗ امین اﷲ حقا امیرالمومنین ٗ فاطمۃ امۃ اﷲ ٗ البتول الزہراء ٗ وارثت النبین ٗ الامام الثانی ٗ الحسن المجتبعی وراث المرسلین ٗ الامام الثالث ٗ الحسین بن علی ٗ خلیفتہ النبین و والد الحسین ٗ الامام الرابع ٗ الامام السجاد ٗ علی بن الحسین وارث المرسلین سید العابدین ٗ الامام الخامس ٗ الامام باقر ٗ ھو محمد بن علی ٗ امام المومنین ٗ الامام السادس ٗ الامام الصادق ھو جعفر بن محمد ٗ قدوۃ الصدقین ٗ المام السابع ٗ الامام الکاظم ھو موسیٰ بن جعفر ٗ خلیفتہ النبین ٗ الامام الثامن ٗ الامام الرضا و ھو علی ٗ علی بن موسیٰ امام المومنین ٗ الامام التاسع ٗ الامام الجواد ھو محمد بن علی ننجل المنتجبین ٗ الامام العاشر ٗ الامام الھادی ھو علی بن محمد ٗ وارث و حین الحسن العسکری ٗ امام المسلمین الامام الخاتم ٗ القائم المہدی محمد بن الحسن خلیفتہ النبین و خاتم الوحین ھو لاء العنزہ ٗ اغر المیامین ھو عبدالمطلب ٗ سادۃ اھل الجنۃ مجھم مومن تقی فی الجنۃ مخلد ۔
تشیع و تصوف ص ۲۴۰ ۔ ۲۴۲
سنت خداوندی کے راہی ٗ علی و آل علی ؑ کے سچے محب سید محمد نور بخش ؒ نے بھی جب بیعت لیا تو ائمہ طاہرین کی تعداد کے برابر پہلے دن صرف اور صرف بارہ کی تعداد پر اکتفاء کیا ۔ (محفل الاوصیاء ص ۵۵۴)
اب یہ بات راضح ہوجاتی ہے کہ بارہویں امام غائب کیوں ہیں یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ آنحضرت ؐ کے وصی بارہ ہی تھے اگر بارہویں وصی بھی اس خونخوار دنیا میں گیارہ اوصیاء ؑ کی طرح ظلم و ستم سے غریب الوطنی میں شہید کردیئے جائیں تو دنیا ختم ہوچکی ہوتی کیونکہ دنیا بغیر ہادی کے کسی بھی وقت قائم نہیں رہ سکتی تھی ۔ ولکل قوم ھاد ( القرآن)
اور امام نے فرمایا اگر دنیا میں صرف دو آدمی رہ جائیں ان میں ایک ضرور ہادی یا امام ہوگا قدرت کو یہ سلسلہ جاری رکھنا مقصود تھا اس لئے آپ غیبت کبریٰ میں تا حال زندہ ہیں المتاخرین
سید محمد نور بخش قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ؎
ہیچ دانی کہ بود ان سلطان غیب
کہ خدا کردش پنہا از اھل ریب
فاش گویم کسیت ان جانان من
کہ بود ہم دین و ہم ایمان من
حضرت انسان و ختم اولیاء است
اقدم اعظم در فیض خدا است
مہدی ھادی ؑ ویست و ؟؟ وے
ذوست جاری فیض ہو بر کل شے
اوست امراﷲ و امرش برھمہ
ساریست امرش زاﷲ در ھمہ
صاحب در ان ست و ھادی سبل
زیر فرمانش بوند از جز و کل
غیبت از غیر است نزیاران بود
آنکہ دیدش بے شکی یاران بود
پایہ پایہ ہر کسی ھستش مقام
بر امام ان ختم چوں شدشد تمام
کشف الحقیقت ج ۳ ص ۸
سید العارفین سید محمد نور بخش ؒ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ
واﷲ العظیم میں محمد نور بخش نائب امام آخر ازمان و مہدی موعود ؑ ہوں۔
مکتوبات ص ۸ مقدمہ رسالہ نفس شناسی ص ۸۵
ایک عام آدمی پر بالعموم اور شاہ سید محمد نور بخش جیسے عالم ربانی کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دینا اور مسلمانوں میں بدعات کے خاتمے کے لئے کام کرنا فرض ہے لہٰذا ان کے فرمان ان اﷲ امرنی الخ کی بنیاد پر ان کے او پریہ بہتان عظیم لگانا کہ انہوں نے نعوذ باﷲ امام مہدی ؑ کا دعویٰ کیا ہے اسلام فہمی سے کوسوں دوری کی علامت ہے ۔ انسان کی عقل سلیم نہیں مانتی کہ ایک امام حقیقی کا دعویٰ کرنے والا کسی غیر معصوم کی تقلید میں رہا ہو ٗ اور اپنے بعد کسی عالم ربانی کو اپنا جانشین مقرر کرتاہو ۔
یہ سب معرفت امام حقیقی نہیں ہونے کی بین دلیل ہے ۔ ان سب فاسد عقیدوں کے سد باب امام شناسی سے ہی ممکن ہے ۔ قرآن مجید میں حق تعالیٰ ارشاد فرما تا ہے۔
من یھداﷲ فھوالمھتدو من یضلل فلن تجدلہ ولیا مرشدا– سورہ کہف یت ۱۷ پ ۱۵
جس کو ہدایت دے وہ ہدایت لیتا ہے اور جس کو گمراہی میں چھوڑ دے تو ہرگز نہ پاؤ گے اس کے لئے دوست ارشاد کرنے والا ۔ ( ولی مرشد)
اس آیت کی تفسیر میں حضور دو عالم حضرت محمد مصطفی ؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ
من مات و لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ ۔
ینابیع المودۃ ص ۷۴۴ ٗ رسالہ در بیان آیت نوربخش ص ۱۰ مسند احمد حنبل ج ۴ ص ۹۶ ٗ میراث عارفانہ جاودانہ ص ۱۱۹ ۔ ۱۲۰ ،روضہ کافی ص ۱۴۶ ٗ مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۸ ٗ بحار الانوار ج ۷ ص ۱۶ ٗ صحیح مسلم ج ۶ ص ۲۲ ٗ تذکرۃ النعیم ص ۱۶۸ ٗ مسند ابو داؤد ص ۲۵۹ ٗ سنن بھیقی ج ۸ ص ۱۹ ٗ تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۵۱۷ ٗ معراجیہ نور بخش ص ۱۹۸، کشف الحقیقت ج ۱ ص ۶۸ ازالتہ الخفا شاہ نعمت اﷲ ج ۱ ص ۳ ٗ شرح مقاصد تفتازانی ج ۲ ص ۶۷۵ ٗ طرایق الحقایق ج ۱ ص ۵۴ ٗ تخفہ قاسمی ص ۳۷۳ ٗ نور بخشیہ ص ۷ ٗ زندگانی امام حسین ص ۸۴ ٗ چہل حدیث سید حبیب اﷲ ص ۳۴ ، رسالہ امامیہ شاہ قاسم ص ۵۴ ٗ منصب امامت ص ۷۶ ٗ روضات الجنان ج ۲ ص ۵۱۴ ٗ مواعظ ص ۹۰ ٗ خواص الائمہ علامہ جوزی ص ۲۰۴ ٗ فرقہ ناجیہ حسن نوری ص ۱۰۱ ،فرہنگ نور بخش ڈاکٹر جواد نور بخش ج ۳ ص ۵۰ ٗ رسائل شاہ نعمت اﷲ ولی ج ۱ ص ۱۹
جو شخص اپنے زمانے کے امام کو جانے بغیر مرگیا یقینا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
امام کی معرفت اس لئے ضروری ہے کہ
الشیخ فی قومہ کالنبی فی امتہ– الحدیث
مکتوبات سید نور بخش ص ۱۲ ٗ تلویحات سید نور بخش قلمی ص ۲ ٗ فقہ منظوم قلمی ص ۲ ٗ سفینۃ الجار ج ۱ ص ۷۲۸ ٗ العروہ لاہل الخلوہ و الجلوہ ص ۵۷۱ ٗ احادیث مثنوی ص ۸۲ ٗ مصنفات فارسی سمنانی ص ۲۳۵ ٗ مناہج الطالبین ص ۳۶۲ ٗ آداب المریدین ص ۳۴۰ سرو ردی { کاشف الاسرار السفرانی} ص ۷۹ ٗ اللولو المرصوع ص ۴۵ ٗ جامع الصغیر ج ۱ ص ۹۰ ٗ مرصاد العباد نجم الدین رازی ص ۹۱ ٗ مناقب صوفیہ ص ۶۰ ٗ احیاء العلوم ج ۱ ص ۲۴۰ ٗ نور المومنین ص ۲۰۰ ٗ رسالہ امامیہ شاہ قاسم فیض بخش ص ۵۴ ٗ کشف المحجوب ص ۹ ٗ ۶۲ ٗ ۵۸۵ ۔
کسی قوم میں شیخ ٗ رہبر مرشد امام کسی امت میں نبی کے مانند ہے اور جس قوم کا کوئی رہبر ٗ امام ہی نہ ہو ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ۔
من لا شیخ لہ فشیخہ الشیطان ۔ الحدیث
جس کاکوئی شیخ ٗ رہبر ٗ امام نہیں اس کا رہبر شیطان ہے لہٰذا اپنے زمانے کے امام کی معرفت ضروری ہے کیونکہ انہی کے ساتھ ہم نے محشور بھی ہونا ہے۔
۲-رسالہ در بیان آیت سید محمد نور بخش ص ۱ ٗ معراجیہ نور بخش ص ۱۰ ٗ چہل حدیث ٗ سید حبیب اﷲ ص ۴۱ ٗ لطائف معنوی ص ۶۰ ٗ تمہیدات عین القضاۃ ص ۱۱ ٗ ۲۸ ٗ منہاج الطالبین ص ۳۶۸ ٗ آثار احمد غزالی ؒ۔ مکتوبات ص ۲۴۹ ٗ معاش السالکین سید محمد نور بخش ص ۲ ۲
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہو تا ہے ۔
یوم ندعو کل اناس بامامھم– القرآن ۔
قیامت کے روز ہر قوم اپنے اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی کوئی امام داعی الی النار کے ساتھ اور کوئی امام ہادی الی الحق کے ساتھ محشور ہوگا ۔ لہٰذا ہمارے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہی دعا ہے کہ خدایا ہمیں ان ائمہ طاہرین ؑ جن کے اول علی ؑ اور خاتم مہدی ؑ ہیں ٗ کے ساتھ محشور فرما ! یہی ہمارے پیران طریقت ٗ مرشد ان حقیقت اور عالمان شریعت کی تعلیمات بھی ہیں ۔
حضور اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے۔
عن مقداد بن الاسود قال قال رسول اﷲ معرفۃ ال محمد براۃ من النار الخ س – 1
یعنی آل محمد ؑکی معرفت آتش دوزخ سے نجات پانے کا ذریعہ ہے ۔
مودۃ القربیٰ
آپ ؐ کی دو سری حدیث کا ترجمہ ہے کہ کوئی آل محمد کی محبت پر مرے گا وہ شہید مرے گا (المودۃ القربیٰ) اسی لئے امام المتقین علی ؑ نے فرمایا کہ (اپنے نبی کی زریت یعنی اہل بیت کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو وہ تمہیں کبھی ہدایت سے با ہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی وہلاکت کی طرف جانے دیں گے اگر وہ کہیں ٹہریں توتم بھی ٹہرجاؤ اگر وہ اٹھیں توتم بھی اٹھ کھڑے ہو ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ انہیں چھوڑ کر پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے
نہج البلاغۃ
لہٰذا حضور اکرم ؐکی حدیث کی روسے طاہر الو لادۃ کی طینت میں محبت اہلبیت ہوگی ۔
مودۃ القربیٰ
ہمارے اسی سلسلہ ذہب کے ایک صوفی بزرگ ٗ عارف بزرگ حضرت شیخ سر سقطی قدس اﷲ سرہ { م ۔ ۲۵۱ ھ} حضرت امام علی رضا ؑ { م ۔ ۱۵۳ ۔ ۲۰۳ } حضرت امام محمد تقی ؑ { ۱۹۵ ۔ ۲۲۰ ھ } اور حضرت امام علی النقی ؑ{ ۲۱۴ ۔ ۲۵۴ ھ} کے ادوار امامت میں زندہ تھے اور مکتب اہلبیت ٗ اطہار ائمہ طاہرین ؑ سے فیض یاب ہو کراپنے مریدوں کو شریعت محمدیہ ؐ اور طریقت مرتضویہ ؑ کی تعلیم دیتے رہے سر سقطی ؒنے اپنی حسین حیات میں حضرت جنید بغدادی { م ۔ ۲۹۸} کو حضرت امام علی النقی ؑ کی اجازت سے اپنا خلیفہ باطن مقرر کیا اور سید الطائفہ جنید بغدادی قدس اﷲ سرہ حضرت امام علی التقی ؑ حضرت امام حسن عسکری { ۲۳۲ ھ ۔ ۲۶۰ ھ } اور حضرت امام محمد مہدی ؑ (ولادت ۔ ۲۵۵ ھ ) کے ازمنہ غیبت صغریٰ (۲۶۰ ھ ) اور غیبت کبریٰ (۳۲۹ ھ ) تک ان ائمہ طاہرین ؑ کے احکامات اپنے مریدوں تک پہنچاتے رہے ۔
جنید بغدادی ؒ (م ۔ ۲۹۸ ھ) نے اپنی رحلت سے قبل امام زمانہ حضرت مہدی ؑ کی اجازت سے عارف بزرگ بو علی رود باری قدس اﷲ سرہ (م ۔ ۳۲۱) کو اپنا خلیفہ بنایا اپنے مریدوں کے لئے پیر مقرر کئے اس سلسلے کو سلسلہ ذہب کہا جاتا ہے جو کہ تا حال جاری و ساری ہے۔
ان تاریخی حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکتب نور بخشیہ کے ماننے والے کسی بھی صورت میں ہشت امامی نہیں ہیں بلکہ بارہ امام کے صحیح ماننے والے حقیقی صوفی ہیں ۔ جس طرح حضرت امام جعفر صادق ؑ کے مذہب پر چلنے پر مکتب تشیع کسی بھی صورت میں شش امامی نہیں ہیںاسی طرح حضرت امام علی الرضا ؑ کا سلسلۂ طریقت معروف کرخی قدس اﷲ سرہ کی طرف آنے پر اس سلسلے کے ماننے والے ہشت امامی اور ان کے بعد کے ائمہ طاہرین ؑ کے منحرف نہیں ہیں کیونکہ جنید ٗ سری اور معروف قدس اﷲ سرہ ہم اپنے اپنے ائمہ زماں کے اجازت یافتہ خلیفہ باطن تھے ۔
۱- نابغہ علم و عرفان ص ۶۰ ۔ ۶۱ ٗ طرایق الحقائق ج ۲ ص ۳۷۳ ۔ ۳۸۹
امام حقیقی تو ہمارے بارہ ہی ہیں جس میں پہلا حضرت علی ؑ اور آخری حضرت مہدی ؑ ہیں جبکہ امام اضافی جو کو معروف کرخی ؒ سے شروع ہو تا ہے وہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور پیر حاضر سید محمد شاہ نورانی مدظلہ ہمارا ۳۸ واں پیر طریقت ہیں ۔
دعائے تشفع میں ہم پڑھتے ہیں کہ۔
اللھم انی اسئلک بقائم ال محمد ن المہدی ع واجازتہ ان تقضی حاجاتنا یا قاضی الحاجات یا کاشف المھمات یا رافع الدرجات و دافع البلیات برحمتک یا ارحم الرحمین ۔
دعوات صوفیہ امامیہ
اے اﷲ میں تجھ سے مدد چاہتار چاہتی ہوں حضرت قائم آل محمد حضرت امام محمد مہدی ؑ اور پردہ غیب میں ان کے ایام گزارنے کا واسطہ ٗ ہماری حاجتوں کو پوری فرما ٗ اے حاجتوں کا پورا کرنے والے ٗ اے اندوہناک حالتون کو دور کرنے والے ٗ اے درجات کابلند کرنے والے ٗ اے بلاؤں کو دور کرنے والے ٗ اے سب سے زیادہ رحم والے ہمیں تیری رحمت کاسہارا ہے ۔ اور کلمہ تہلیل و تلقین میت میں ہے کہ ۔
لا الہ الا اﷲ اﷲ ربی و الاسلام دینی و القرآن کتابی و الکعبۃ قبلتی و محمد ؐ نبی ؐ و العلی ؑ امامی– تین بار
دعوات صوفیہ امامیہ
ترجمہ : ۔ اﷲ کے سواکوئی بھی لائق عبادت نہیں ٗ اﷲ میرا رب ہے ٗ اسلام میرا دین ہے ٗ قرآن میری کتاب ہے ٗ کعبہ میرا قبلہ ہے حضرت محمد ؐ میرے نبی ہیں حضرت علی ؑ میرے امام ہیں ۔ اس کے بعد باقی گیارہ امام یکے بعد دیگرے حضرت امام محمد مہدی ؑ تک گنتے ہیں بعد ازاں ہم خدائے متعال سے عہد کرتے ہیں کہ ۔
ھم سادتی و قادتی و ائمتی و امامی بھم اتولی و من اعدائھم اتبرء۔
دعوات صوفیہ امامیہ
یہی ہستیاں میرے روحانی سردار ان ہیں ٗ میرے قائدین ہیں اور دین حق کے ائمہ طاہرین ؑ ہیں اور یہ سب میرے امام ہیں ۔ میں ان سے حقیقی تولیٰ { محبت} رکھتار رکھتی ہوں اور ان کے دشمنوں سے تبرا دشمنی ٗ بیزاری} رہا کرتار کرتی ہوں ۔
اور ہم ۲۵ دیں ماہ رمضان کی دعامیں پڑھتے ہیں کہ ۔
اللھم اجعلنی محبالا ولیائک و معادیا لا عدائک و متمسکا بحبل خاتم انبیائک یا عاصم قلوب النبین برحمتک یا ارحم الرحمین۔
دعوات صوفیہ امامیہ
پروردگار ! مجھے اپنے دوستوں کا محبت گزار بنائے رکھ ٗ اپنے دشمنوں کا عداوت رکھنے والا بنائے رکھ ٗ اپنے خاتم الانبیاء ؑ کی رسی یعنی( اہل بیت)کو تھا منے والا بنائے رکھ اے پیغمبروں کے دلوں کو عصمت بخشنے والے اے سب سے زیادہ رحم والے ہمیں تیری رحمت کا سہارا ہے۔