ارکان نماز(قرات)


۴۔ قرأت
قرأ ت سورہ فاتحہ اور اس کیساتھ کسی ایک مکمل سورہ پڑھنے کا نام ہے یہ صبح کی دونوں رکعتوں اور دیگر فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں واجب ہے۔

قرأت کے واجبات و دیگر مسائل

قرأت میں درست مخارج کیساتھ ادائیگی ، ترتیب اور موالات واجب ہے۔یہ بات مخفی نہیں کہ قرأت بڑے ارکان میں سے ہے ۔پس اگر وقت کی وسعت کے باوجود قادر صحتمند شخص قرأت یا آدھی قرأ ت کو عمداًچھوڑ دے تو اسکی نماز باطل ہے اور اگر اسے جہالت کی بناء پر چھوڑا ہو تو اسکی ناقص نماز باطل نہیں ہوگی اور جو شخص بسم اللہ کو فاتحہ اور ماسوائے برأت کے ہر سورہ کا حصہ نہ سمجھتا ہو اور وہ اسے پڑھے تو اسکی نماز ناقص ہے اور آخروی مکمل ثمرہ نہیں ملےگا ۔ کسی مجبوری یاوقت کی تنگی میں اگر صرف فاتحہ پڑھے تو کافی ہے۔ یا اس کاکچھ حصہ یا کوئی اور سورہ یالمبی آیت یا تین چھوٹی آیتیں ، یاتسبیح یا حمد یا تہلیل یا تکبیر پڑھے یا قرأت کی مقدار توقف کرلیا جائے تو اس کیلئے کافی ہے۔
اگر کسی کو سیکھنے کا موقع ملے اوراس نے غفلت اور کاہلی کا مظاہرہ کیاتو وہ گنہگار ہے۔امام اور اسلام کے تمام حکام پر واجب ہے کہ اس کو تنبیہ اور سیاسی حربوں سے سکھائے ۔ گونگے کیلئے مناسب ہے کہ اپنی زبان ہلاتا رہے ۔ اگرممکن ہوتودل میںاس پر عقیدہ رکھےاگرایسا ممکن نہیں تو مکلف نہیں۔
فرض نماز میں ایسی سورہ نہ پڑھی جائے جس میں سجدہ واجب ہو مثلاً الم سجدہ؛حم سجدہ والنجم ، اقر أ باسم ربک الذی ۔نہ ہی ایسی (لمبی) سورہ پڑھے جس سے وقت نکل جائے اور نہ ہی ایک ہی رکعت میں الحمد کے بعددو سو رتیں پڑھے ۔ ماسوائے سو رۂ والضحی اور الم نشرح یا الم ترکیف اور لایلف قریش کے کیونکہ ان دونوں میں سے ہر دو سورتیں مربوط معانی کے باعث ایک ہی سورہ کی مانند ہیںاگر پڑھ لے تو نماز باطل نہیں ہوتی۔ دیگر رکعتوں میں فاتحہ کیساتھ کوئی اور چیز پڑھنا ضروری نہیں۔
صحت ،قدرت اوروقت کی کشادگی کے باوجود سورۂ فاتحہ کے بدلے سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبرایک یا کئی مرتبہ پڑھنا بھی جائز ہے صبح اور مغرب وعشاء کی دو رکعتوں میںقرأت کو آواز کیساتھ پڑھنامردوں کیلئے امامت اور انفرادی دونوں صورت میں واجب ہے اور خواتین کیلئے جہر یعنی آواز نکا ل کر قرأت جائز نہیں مگر امامت کر رہی ہو تو جائز ہے۔

تامین کا مسئلہ

امام،مامو م اورانفرادی نمازپڑھنے والے کے لئے فاتحہ کے بعد’’ آمین‘‘ کہنا مکروہ ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت لفظ ’’ آمین‘‘کو سورۂ فاتحہ کاحصہ خیال کرتی ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ اس گمان کو دورکرنے کیلئے اس کو ترک کرنا واجب ہے ایسا ترک کرنے میںکوئی گناہ نہیں۔ واضح رہے کہ وہ آمین جو امام کی مغفرت کا باعث ہو کہ امام امین بن جائے اور وہ نماز سے کوئی چیز نہ چرائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ نماز میںچوری کرنے والے کیلئے افسوس ہے۔
اگرماموم امام کی تابعداری کریں اوراسکی کسی نقل و حرکت سے سبقت نہ کریں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نمازوںکو قبول فر مائے لیکن ’’ آمین‘‘کے بارے میں فرقہ مرجیہ کا گمان واضح غلطی ہے کیونکہ فاتحہ پڑھنے پر مغفرت کا وعدہ نہیں تو صرف لفظ ’’آمین‘‘کہنے سے کیسے مغفرت وارد ہو سکتی ہے۔ حالانکہ لفظ ’’آمین‘‘کہنا فاتحہ سے افضل نہیں۔ اس لیے صاحب فہم جانتاہے کہ انکایہ نظریہ سستی کے شکار لو گوںکے دل بہلانے کیلئے غافل لوگوںکی باتوںکے سواکچھ نہیں۔

قرأت کی سنتیں

(۱)تکبیر احرام کے بعد دعائے استفتاح پڑھناسنت ہے۔ (روحانی ) طاقتور ا سطرح پڑھیں ’’میں خلوص کیساتھ اس ذات کی متوجہ ہوتا ہوں جس نے آسمانوں وزمین کو خلق کیا اور میں مشرکوں سے نہیں۔ کہہ دیجئے کہ میری نماز، قربانی، زندگی اور میری موت خالص پروردگار عالم کیلئے ہےاس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کاحکم دیاگیاہے اور میں پہلے مسلمان ہوں‘‘۔روحانی طورپرکمزور یوں پڑھے ’’پروردگار توپاک ہے ہم تیری حمد بجالاتے ہیں۔تیرا اسم بابرکت ہےاورتیر ی عظمت بہت بلند ہے اور تیرے سواکوئی معبود نہیں‘‘
(۲) ان الفاظ میں تعوذ پڑھے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ، دعا اورتعوذ دونوں ہمیشہ خاموشی سے پڑھے۔ اس کے بعد قرأت شروع کرے۔دونوں کو آہستگی سے پڑھنے کا مقام تکبیرۃ الاحرام اور قرأت کا درمیانی وقت ہے۔ جیسے نبیﷺ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا۔ اگردونوں کو تکبیرۂ احرام سے پہلے بھی پڑھ لیا جائے تو بھی روا ہے۔
(۳) صبح کی نما زمیںقدرے لمبی سورہ ظہر ،عصر اور مغرب میں چھوٹی اور عشاء میں درمیانی سورہ پڑھنا جبکہ جمعہ کی پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اوردوسری رکعت میںسورۂ منافقون پڑھنا سنت ہے۔ اگر اما م ہوتو ہلکی قرأت پڑھنا مسنون ہے۔ تاہم کسی مخصوص نماز میں ایک مخصوص سورہ اسطرح سے پڑ ھنا کہ اسے ترک ہی نہ کیا جائے تو مکروہ ہے۔ ہر نماز میں باری سے کبھی کوئی سورہ پڑھنا اور کبھی کوئی اور سورہ پڑھنا بہتر ہےتا کہ لوگ یہ گمان نہ کرے کہ یہی سورہ نماز میں واجب ہے جس طرح فاتحہ کے آخرمیں آمین سےمتعلق گمان کیا گیا۔ سری نمازوںمیں امام کیلئے اپنی قرأت اور شہادتین اپنے قریبی ماموم کو کسی آواز کے بغیر سنادینا جائز ہے جس طرح اپنے آپ کو آہستہ سے سنائے۔