آزاد کرنے کا بیان


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !اگر کوئی کسی مومن کو آزاد کر دے تو اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنےوالے شخص کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتاہے ۔ غلام آزاد کرنے کی فضیلت پر کسی کو اختلاف نہیں ہے۔

آزاد کرنے والے کیلئے شرائط

غلام آزاد کرنے والے کیلئے شرط ہے کہ (۱)آزاد ہو۔ (۲)بالغ ہو۔(۳) عقلمند ہو۔ (۴)بااختیار ہو۔ اگر ان صفات کا حامل شخص اپنے غلام کو آزاد کر دے اور اسکی نیت رحمت الٰہی کی قربت ہو تو اس کو بہت زیادہ ثواب ملے گا اور اگر غلا م آزاد کرنیکا مقصد لوگوں کو دکھانا ہو اور کسی دنیوی مقصد کیلئے ہو تو نتیجہ اس کے خلاف ہو گا ۔

غلام کیلئے شرائط
غلام کیلئے شرط ہے کہ (۱)مسلمان ہو،(۲)کسی کی ملکیت ہو۔ اس غلام کا آزاد کر نا مکروہ ہے جو اہل و عیال کیساتھ زندگی کیلئے کسب معاش کی قدرت نہ رکھتا ہو۔

آزادی کیلئے نیت ضروری ہے

جو اپنے غلام کو آزاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ کسی بھی لفظ یازبان میں بولے آزادی ثابت ہو جائیگی۔ ا گرآزادی کی نیت نہ ہو تو اس سے صادر ہونیوالی عبارت سے آزادی ثابت نہیں ہو گی۔

میرے مولاؑنے جناب قنبرؓ کی رہائی کے وقت جو فرمایا وہ میری بات کی گواہی دیتا ہے۔ اے قنبر ؓ کل تم میرا تھا اور آج میرے جیسے ہو گئے ہو اور میں نے تجھے اس ذات کیلئے ہبہ کر دیا جس نے تمہیں مجھے عطا کیا تھا۔جناب علیؑنے اسے لکھا اور اس عبارت میں تحریر، اعتاق ،عتق ،عتاق ،عتاقہ اور انعتاق میں سے کوئی لفظ استعمال نہیں فرمایا ، پھر بھی قنبر ؓ آزاد ہو گئے ۔ پس ثابت ہو ا کہ اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے نہ کہ عبارت پر کیونکہ زبان سے لغو ہوسکتا ہے لیکن نیت میں بھول نہیں ہوتی۔ اگر کوئی لفظ کہے اور گمان کرے کہ یہی اسکی نیت ہے لیکن اسکا دل اس سے غافل ہو تو یہ اسکی نیت نہیں بلکہ زبان کی لغزش ہے ۔

آزادی کی مختلف صورتیں

اگر کوئی شخص کسی محرم رشتہ دار کا مالک بن جائے مثلاً باپ ،دادا ،نانا ،مائیں ،دادیا ں ،بیٹے ،بیٹیاں ،پھوپھیاں، خالائیں اور دیگر محرمات میں سے ہو تو وہ آزاد کئے بغیر آزاد ہو جائینگے ۔ اگر کوئی غلام کو آزاد کرے اور شرط عائد کر ے کہ وہ ایک مخصوص مدت کیلئے اس کی خد مت کریگا مثلاً مہینہ ، سال یا کم یا زیا دہ تو درست ہے۔ اگر کسی مشترکہ غلام کو ایک مالک نے آزاد کر دیا تو صرف اس کا حصہ آ زاد ہو جائیگا اور دوسرے شریک کیلئے اسے آزاد کرنا سنت ہے بشرطیکہ وہ مالدار ہو۔ اگر وہ تنگدست ہو تو وہ غلام اپنے باقی حصے کو بھی آزاد کرانے کی کوشش کرے کمائی سے یا مال صدقہ سےکیونکہ گردن چھڑانے میں اس کا بھی حصہ ہے ۔اگر شریک آقا اسے آزاد نہ کرے اور غلام خود اپنے بقیہ حصے کو آزاد کرانے کی وسعت نہ رکھتا ہو تو آزاد کرنیوالے کا حصہ آزاد اور شریک کا حصہ مملوک ہی رہے گا ۔
ہر وہ چیز جو شراکت کو قبول کرتا ہے وہ آزاد اور مملوک دونوں حیثیتوں کو قبول کرے گا اور صاحب اجزاء ہوتے ہوئے بھی اس کی جز بندی لازم نہیں ۔ حاملہ عورت کو آزاد کرنا اور پیٹ کے بچے کو آزاد نہ کرنا ، اور پیٹ کے بچے کو آزاد کرنا اور عورت کو آزاد نہ کرنا جائز ہے ۔ غلام اگر دیوانگی ، کوڑ ھ ،سفید کوڑھ یا کسی ایسے موذی مرض میں مبتلا ہو جا ئے جس سے چھٹکارے کا امکان کم ہو تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گا ۔