جزیہ کا مسئلہ جزیہ وہ چیز جو اہل ذمی سے لی جاتی ہے یہ وہ کافر ہیں جو اہل کتاب ہیں اور وہ بھی کہ جن کے پاس کتاب جیسی کوئی چیز ہومثلاًیہود،نصاریٰ، ستارہ پرست ،آتش پرست اوران کے وہ فرقے جنہیں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے آٹھ سوشمسی سال تک مہلت دی تھی، یہ مہلت گزر گئی یہ مہلت ان کو بعض شرائط کیساتھ دی گئی تھیں۔وہ شرائط یہ تھیں۔
مہلت کی شرائط کیاتھیں؟ (۱)یہ کہ کفار اپنی عبادتگاہوں، چرچوں اور مندروںکے خراب ہونےکی صورت میںدوبارہ تعمیر نہیں کرائینگے۔ (۲) یہ کہ وہ اپنے مکانوں کی دیواریں مسلمانوں کے مکانوں سے اونچی نہیںکرینگے۔ (۳)یہ کہ زین پرسوار نہیں ہونگے اور اگر گھوڑے پر سوار ہوں تو برذعہ یاپالان پر سوار ہونگے اور اپنے دونوں پیروں کو ایک طرف لٹکاکر سوارہونگے۔ (۴)یہ کہ وہ مسلمانوںسے امتیاز کرنے والی کوئی علامت زوردار آوازوالی گھنٹیاں وغیرہ اپنے کپڑوںپر حماموں میں استعمال کرینگے مثلاًگلے اور پیروںمیں ۔ (۵)یہ کہ وہ میدان جنگ میں کوئی جاسوس ، خط یا کوئی خبر نہیں بھیجیں گے۔ (۶)یہ کہ اگر وہ دیگرکافروں کومسلمانوں سے برسرپیکار دیکھیںتووہ مسلمانوںسے نہیںلڑینگے ۔ (۷)یہ کہ وہ سرعام شراب نہیں پئیں گے۔ (۸ )یہ کہ وہ سر عام سور کا گوشت نہیں کھائیں گے۔ (۹)یہ کہ وہ لوگوںکے جم غفیر کے سامنے اپنی کتابیں اورصحیفے بلند آوازکیساتھ نہیں پڑھیں گے۔ (۱۰) یہ کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اپنے عقائد کااظہار نہیں کرینگے۔(۱۱)یہ کہ وہ مسلمانوںکو گالی نہیں دینگے۔ (۱۲) یہ کہ وہ توہین کے باوجود کسی مسلمان کونہیں ماریںگے ۔
جزیہ کی اقسام جوجزیہ ان کافروں سے لیا جاتاہے اس کی دوقسم ہیں۔ (1) ایک وہ جوان کے ہرفرد سے لیا جائے ۔ یہ اس طرح کہ ہر مالدار کافر سے اڑتالیس درہم ، متوسط مالداروں سے چوبیس درہم اور غربت کے شکار کافروںسے بارہ درہم لئے جائیں۔ کافروں سے جزیہ کی مقدار کو اسلام کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے امام کی رائے سے کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ جزیہ بچوں، پاگلوں، غلاموں، بوڑھوں اور اپاہج افراد سے نہیں لیا جائیگا۔ جزیہ سال کی ابتدا، درمیان یا آخر تینوں وقتوں میں لینا جائز ہے تاہم ایک سال میںایک دفعہ سے زیادہ جزیہ کی وصولی جائز نہیں۔اگر کوئی کافر سال کے کسی بھی وقت میںاسلام قبول کرلے تو اس سے اسی سا ل کاجزیہ بھی ساقط ہوجائیگا اگرچہ سال کے آخر میں ہی اسلام قبول کیو ں نہ کیا ہو ۔ (2) اور جو جزیہ ان کے اموال سے لیاجاتا ہے ۔اس میں امام کو اختیار ہے کہ عام مسلمانوںکی طرح وصول کرےیا کسی اور مصلحت سے تاہم موجودہ زمانے میںان کو دی جانیوالی مدّت آٹھ سو ہجری شمسی سال ختم ہوجانے کے باعث حکم ایسا نہیں ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کیساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ یہ مدت گزر جانے کے بعدیا اسلام قبول کیا جا ئے یا جنگ ہوگی۔ پس اب ان کا حکم بھی کافر حربی کی طرح ہے اور ان کا خون اور مال مسلمانوںکےلئے اسلام کی طرف دوبارہ دعوت دینے اور قتل و غارت سے ڈرانے کے بعد حلال ہے۔ اگرانہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو انہیں قتل کرنا واجب ہے کوئی اور صورت نہیں۔