مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ


مال غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ
مال غنیمت اور فئی (۱) کی تقسیم میں سب سے پہلے اس چیز کا نکالنا واجب ہے جسے اما م نے ان افراد کے لئے شرط رکھی ہو جن کو مال دینے میںفتح کی مصلحت وغیرہ دیکھے ۔ محافظ اور چرواہے اور ان لوگوں کا تھوڑا حصہ بھی نکال دینا واجب ہے جس کے لئے کوئی حصہ نہیں مثلاً بچے ،خواتین، پاگلوں اور تمہارے مددگارکافر ۔ پھر بقیہ ما ل سے خمس نکالے اور۴/۵ حصہ جنگ لڑنے والوں میں تقسیم کرے وہ شخص جو تمھاری پشت پنا ہ کی طرح کام کرے جبکہ وہ جنگ میں شریک نہ بھی ہو ںوہ بھی جنگ لڑنے والوں میں شامل ہیں پیدل جنگ کرنے والوں کو ایک حصہ ملے گا سوار مجاہد کو دو حصے ملیں گے بشرطیکہ وہ مجاہد گھوڑے کا مالک ہو اور اگر دو گھو ڑوں کا مالک ہو تو تین حصے ملیں گے۔ اگر تین سے زیادہ گھوڑوں کا مالک ہو تو مزید حصہ دینا جائز نہیں کیونکہ زیا دہ گھوڑے کسی سوار کے بغیر اسراف ہے تاہم اگر سوار ہو تو ہر سواری اپنا حصہ لے گا اور وہ دو حصے ہیں ۔
امام کے لئے مناسب ہے کہ ہر مقتول کا سامان مثلاً ملبوسات ، ہتھیار ،زین والاگھوڑا وغیرہ مال تقسیم کرنے سے پہلے اس کے قاتل کو دیدے پھر باقی ماندہ ما ل تقسیم کرے اگر تمام جنگجو کشتی میں سوار ہو کر جنگ لڑے تو تقسیم میں تما م برابر کے حصہ دار ہونگے اگر کوئی چھوٹا لشکر آگے نکل جا ئے اور مال غنیمت حاصل کرے تو بڑا لشکر بھی ان کے ساتھ مال غنیمت میں شریک ہو نگے ۔تاہم جو لشکر شہروں میں ہیں وہ شریک نہیں ہونگے ۔

اموال مسلمین اور مسلمان بچے غنیمت میں شامل نہیں
مسلمانوں سے لوٹا ہوا مال اور بچے مال غنیمت میں شامل نہیں ہو نگے اگر کوئی مسلمان انہیں پہچان لے یا پالے تو اسے واپس کرنا واجب ہے اگر یہ پہچان تقسیم سے قبل ہو تو یہ مال باقی تمام انعامات کی طرح ہونگے اور اگر تقسیم کے بعد ہو تو وہ مال غنیمت حاصل کرنیوالاامام سے اس چیز کی قیمت طلب کرے۔ اگر غنیمت حاصل کرنے والے تقسیم سے پہلے مال سے ایسی چیزیں خرچ کرلیں جن کے محتاج ہوں مثلاً کھانا، پینا ، میوہ، گھاس، جَواور ہر وہ چیز جو اس کی معاشی آسانی کیلئے ہو تومعاف ہےاور اس مال کو واپس کر نیکی ضرورت نہیں اور نہ ہی وہ اس کا ضامن ہے خمس کی تقسیم کا مسئلہ عشر سمیت باب زکوٰۃ میں بیا ن کر چکا ہوں۔