نماز خوف کافروں اور ظالموں جنگجو دشمنوں،رہزنوں، درندوں سے خوف، جلنے ، غرق ہونیکا خطرہ یا ان خوفناکیوں سے فرار کی ضرورت درپیش ہوتو اگر خوف کی شدت ہو تو نماز اشارے سےپڑھی جائے چاہے سوار ہو یا پیدل اور خوف کی شدت کی وجہ سے اشارے کی استطاعت نہ ہو تو ہر رکعت کے بدلے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلٰہِ وَ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ لے تو بھی کافی ہے اور اگر ادا یا قضاء کے طور پر اعادہ کرے تو بہتر صورت ہے۔ اگر خوف شدت کی حد تک نہ ہو اور امام موجود ہو اور وہ امام تک پہنچا ہوا ہو اور فضائل امامت مثلاً علم، عمل، ولایت، کمالات ،کشف اور کرامات اس میں واضح موجود ہوں تو اس کیلئے جائز ہے کہ ایک گروہ کی امامت کرے پھر وہ گروہ دشمنوں کے مقابلے میںچلاجائے اور دوسر ا گروہ آئے اور اپنی نماز مکمل کرے پھر دوسرا گروہ اپنی نماز پوری کرے۔ چار رکعتی نمازوں میں دو رکعت ایک گروہ اور دورکعت دوسرے کیلئے ہے۔ اگر نماز مغرب کی ہوتو پہلے گروہ کیلئے دو رکعت اور دوسرے کیلئے ایک رکعت یا برعکس ادا کرے ۔ اگر وہ ایسے صاحب فضیلت امام کے حضور میں نہ ہو یا موجود تو ہو لیکن وہ کسی ایک گروہ کو اپنے کسی نیکوکار ساتھی کے پیچھے اور دوسرے گروہ کو اپنے پیچھے یا اپنے قائم مقام کے پیچھے پوری نماز پڑھنے کا حکم دےتو یہ صورت بہتر ہے۔ اسلام کی ابتداء میںلوگو ں کے ذہنوں میں جاہلیت کا تعصب مضبوط تھاجس کے باعث ان کے دلوں کی تسلی کیلئے ایسی تکلفات کی ضرورت تھی ۔ موجودہ زمانے میں اسکی ضرورت نہیں۔ پس ہمارے زمانے میں بہترطریقہ یہ ہے کہ ہر چھوٹے گروہ کے لوگ ایک ہی باری یا دو اور کئی باریوں میں ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز پڑھے تاکہ دشمن کے غلبے کے خوف سے دل میں تشویش پیدا نہ ہو اور یہ خیال باقی رہے کہ ان کی اکثریت ان کو درپیشخطرات کے روکنے میں مشغول ہے۔