{۴۲} بَابُ الْاِجَارَۃِ اجارہ کا بیان


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کہ اگروہ تمہارے لئے (بچوں کو) دودھ پلائیں تو انھیں اجرت دیا کرو‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مزدورکو اسکاپسینہ سوکھنے سے پہلے مزدوری دیا کرو ‘‘۔

اجارہ کیا ہے ؟
اجارہ ایسا معاہدہ ہے جس کا نتیجہ اصلی ملکیت برقرار رکھ کر کسی معین چیز کے عوض مال کا فائدہ منتقل کیا جائے ۔

اجارہ کے ارکان
اجارہ کے پانچ ارکان ہیں۔

۱۔ اجر ت پر دینے والا
پہلا رکن موجر ہے اجرت پر دینے والے کیلئے شرائط یہ ہیں کہ عاقل ہو، بالغ ہو،معاملات کرنے اور فسخ کرنے میں تصرف کامجاز ہو۔

۲۔ اجرت پر کام کرنےو الا
دوسرارکن مستاجر(یعنی اجرت پر لینے والے) کے لئے شرائط وہی ہیں جوموجر کیلئے ہیں۔

۳۔ معاہدہ
تیسرارکن معاہدہ ہے ۔ اسکاصیغہ یہ ہے کہ موجر کہے کہ میں نے گھر تمھیں اجرت، کرایہ پر دیا یا اسکے منافع کو تمھاری
ملکیت میں اتنی مدت کیلئے اتنی اجرت پر دیا ۔جس پرمستاجر کہے کہ میں نے قبول کیا یا اجرت پرلے لیا یاکرایہ پرلے لیا ۔

اجارہ کہاں جائز ہے ؟
اجارہ ایسالازم معاہدہ ہے جو اقالہ یا فسخ کا متقاضی سبب کے بغیر باطل نہیں ہوتا نہ ہی فروخت سے ختم ہو جاتا ہے جن چیزوں کی عاریت جائز ہوان کا اجارہ بھی جائز ہے۔ غیرمنقسم اشیاء کو بھی اجارہ پردیناجائزہے اجارہ پر دی گئی چیزیں مستاجرکے پاس امانت ہیں۔ لہٰذا وہ کسی کو تا ہی یا تجاوز کے بغیر کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ہے مگر یہ کہ موجر اس پر ضمانت کی شرط لگائے اور مستاجر ہر حال میں اُسے قبول کرے۔

۴۔ اجرت اور اس کی مختلف
چوتھارکن اجرت ہے اسکی شرط یہ ہے کہ مشاہدہ یا کسی صفت سے اس کا علم ہو ۔ معاہدہ کیساتھ ہی اجرت پرملکیت ثابت ہوجاتی ہے۔جلدی دینے کی شرط ہو تو اجرت کی جلد ادائیگی واجب ہے اورتاخیر سے ادائیگی کی شر ط بھی درست ہے بشرطیکہ مستاجر کو اس تاخیر کا علم ہو۔ اگرقسطوں میں ادائیگی کی شرط لگائی جائے توبھی درست ہے۔ کام جہاں بھی ہو اصل کام شروع ہوتے ہی مزدور اجرت کا مستحق بن جاتاہے بشرطیکہ موجر مزدورپرکسی مخصوص جگہ پرکام کی شرط نہ لگائے۔ اور دونوں میں ایک کا حوالہ کرنا دوسرے پرموقوف نہیں ۔ جوچیز فروخت میں قیمت بن سکتی ہے وہ اجارہ میں مزدوری بن سکتی ہے۔ اگرکسی اجرت میں قبضہ کے وقت سے پراناعیب ظاہر ہوجائے توموجر کو فسخ کرنے یا بدل یا تاوان کا مطالبہ کرنے کا اختیار ہے۔ اگرمستاجر تنگدست بن جائے توموجر کو اسی طرح معاملہ منسوخ کرنے کا اختیارحاصل ہے۔
اگر کوئی جانورکو معین مقام تک سامان لادنے کیلئے اجرت مقرر پر حاصل کرے لیکن وہ سامان نہ پہنچائے تو اسکی اجرت میں مسافت کے اندازے سے کمی کی جائے گی۔ اگر کہے میں نے یہ مکان ہر ماہ اجارہ پر دیدیا تو ایک ماہ کیلئے درست ہے۔ زیادہ قیام پر اجرت مثل ملا کریگی ۔
اگرکوئی درزی سے کہے کہ اگر کپڑے کو فارسی طرزپر سی لو تو ایک درہم،رومی طرزپر دودرہم ملیں گے تویہ درست ہے۔ اجارہ باطل ہونےوالی صورتوں میں مستاجراگرپورا فائدہ اٹھائے ہو تو اجرت مثل دینا واجب ہے۔مزدورسے اجرت طے کرنے سے پہلے کام لینا اور بغیر الزام ضامن بنانا مکروہ ہیں۔

۵۔ منفعت
پانچواںرکن منفعت ہے۔یہ اجرت کی طرح معاہدہ کیساتھ ملکیت میں آجاتی ہے ۔اسکی شرط یہ ہے کہ وہ عمل کے انداز ے سے معلوم ہو مثلاً معلوم کپڑے کی سلائی یا مدت کے اندازے سے ،مثلاً گھر میں سکونت اختیار کرنا اور یاجانور پر ایک دن یا ایک ماہ یا کسی اور معین مدت کیلئے بوجھ لادنا۔ اگر مستاجر اجرت والی چیز میں کوئی نقص پائے تو اس کو اس معاملہ کے فسخ کرنے یا کسی کمی کے بغیر معین اجرت پر رضامندی کا اختیار ہے۔

اجارہ پر لینے والے کی ذمہ داریاں
مستاجرپرجانور کوپانی پلاناگھاس کھلانااورحفاظت واجب ہے اگر وہ کوتاہی کرے تو ضائع یا نقصان پر ضامن ہوگا۔دھوبی اگر کپڑےجلاکریاپھاڑکر خراب کردے تو ضامن ہو گا چاہے ماہر ہی ہو۔ ختنہ کرنے والابھی اسی طرح ہے اگراس کے استرے سے بچہ کے حشفہ کونقصان پہنچے یا ختنہ کی حدسے تجاوز کرے تو ضامن ہوگا۔ اسی طرح ہر ماہر اپنے پیشے میں کوتاہی کرے تو ضامن ہوگا۔

اجارہ سے متعلق دیگر احکام
حمام کامالک اسکے پاس رکھوائی گئی امانت کی حفاظت میں کوتاہی یا حد سے تجاوز کئے بغیر ضامن نہیں۔ اگر کوئی کسی کو مکان کی تعمیرکے عوض مکان کرایہ پر دیدے تودرست نہیں۔ جس چیز کاحصول مزدورکے عمل پر موقوف ہو اس کو اجرت قراردینا درست نہیں مثلاًکھال اتارنے والےکے اسکی اتاری ہوئی کھال اور چکی والے کو اسکی پسی ہوئی چیز یاکچھ آٹے کا بھوسا اجرت پردینا۔ اسی لئےاسےکچھ گندم اجرت میں دینا جائز ہے کیونکہ گندم میںاس کا کوئی عمل دخل نہیں‘ ماسوائے اس خاتون کے جو کسی شیر خوار غلام کو دودھ پلائے اور وہ غلام کے ایک حصے کو اپنی اجرت قرار دیدے ۔

اگر کوئی کسی کسان کو کچھ کٹی فصل کے عوض اجرت پرلے لے تو جائز ہے۔ اجارہ کی چیز مدت گزرجانے سے قبل فروخت کرنااس شرط پرجائز ہے کہ مستاجر اجارہ کی مدت کو پورا کریگا ۔ اگر خریدار کو اس کے اجارے کا علم نہ ہو توخریدار کو فسخ کا اختیار ہے۔ اگرکوئی کسی اجیر کو اس طرح اجرت پرلے کہ وہ اس کی تمام ضروریات پورا کریگا تو اجیر کا نفقہ بھی مستاجر پر واجب ہوگا۔ اگرسرپرست بچے کواس وقت اجرت پر دیدے جب اس کی بلوغت کا علم نہ ہو ، اتفاق سے وہ بالغ ہو جائے تو بلوغت تک اجرت لازم ہے۔ پھر بچے کو اجارہ کا عمل فسخ کرنے یا جاری رکھنے کا اختیارہے۔اگر کوئی غلام کو اجارہ پردیدے پھراجارہ کے دوران اسکو آزاد کردے تواجارہ باطل نہیں ہو گا اور غلام پر معینہ مدت پوری کرنا واجب ہے اور اسکی آزاد ی کے بعد اسکا نفقہ مستاجر کے ذمے ہوگا بشرطیکہ اس کی شرط ہو اگر شرط نہ ہو تو آزاد کرنےوالے پر ہو گاکیونکہ اسکی منفعت کی ملکیت کی وجہ سے وہ اسکی ملکیت کی طرح ہے ۔

مستاجراول کی دی گئی اجرت کی چیز معاہدہ کی معینہ مدت گزرنے کے بعد اسی کو یا کسی اور کو زیادہ اجرت کے عوض اجارہ پر دینا جائز ہے،چاہے اس اصل چیز میں اضافہ نہ بھی کیا گیا ہو کیونکہ اجرت کی چیز کے طلبگار وں میںاضافہ ہونے کی وجہ سے اس کی اجرت بھی مختلف ہوجاتی ہے۔
اگرکوئی گھر کا ایک کمرہ کسی کومعین اجرت پر اور دوسرا اس کے مقابلے میں زیادہ اجرت پر دیدے توجائز ہے چاہے دونوں خوبیوں میں ایک جیسے ہی کیوں نہ ہو ں۔ اگرکوئی کسی گھر کو حرام چیز مثلاً شراب، سور کو محفوظ کرے یاکسی کاتب کو کفریہ کلمات لکھنے کیلئے یا کافر کسی مسلمان کو اپنی خدمت کیلئے اجرت پرلے لے تودرست نہیں۔ حرام اشیاءکو اجارہ پر دینا جائز ہے نہ ہی لینامثلاً غصب شدہ اشیا وغیرہ ۔ ایام حیض میں خاتون کو مسجد کی خدمت کیلئے اجرت پرلینا جائز نہیں۔ ان اشیاء کا اجارہ جائز نہیں جن کی قیمت نہیں اور جنکے حصول میں تکلیف نہ ہو مثلاًخوشبو سونگھنے کیلئے پھول یا چھائوں کیلئے درخت کا اجارہ۔

خاتون کو رضاعت کیلئے اجارہ پر لینا
دائی کوبچے کو دودھ پلانے یاپرورش کیلئے یا کسی ایک کام کیلئے اجارہ پرلینا جائزہے مستاجر کیلئے اس کے شوہر کو وطی سے روکنا جائز نہیں تاہم اگر حاملہ ہوجائے تو مستاجر کیلئے اجارہ فسخ کرنے یاجاری رکھنے کا اختیار ہے ۔ اس خاتون کو کسی معین اجرت یا رضاعت کے دوران ماکولات اورملبوسات کے بدلے اجارہ پرحاصل کرنا دونوں جائز ہیں۔

مکان کرایہ پر لینا
اگر کوئی مکان رہائش کیلئے اجارہ پر لے لے تو اس مکان میں جسے چاہے ٹھہرانا جائز ہے مگر لوہار ،دھوبی اورچکی والے کو مُوجر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر ٹھہرانا جائز نہیں۔ کرایہ دار کیلئے اس مکان میںشرعاً جائز ہر کام کرنا جائز ہے ۔

مزدورکی اقسام
مزدور یاخاص ہوگا مثلاًکسی کو معین مدت کیلئے خدمت کیلئے اجارہ پر لینا،یا مشترکہ ہوگا،مثلاً رنگنے والااور درزی وغیرہ پس مزدور خاص اسکے ہاتھ سے کسی چیز کے ضیاع کا ضامن نہیں اور مزدورمشترک ضامن ہوگا بشرطیکہ وہ ضیاع اس کی کوتاہی یازیادتی کے باعث ہواہو ۔

کاریگرکی غفلت کا مسئلہ
اگر کپڑے کامالک اور درزی میں اختلاف پیدا ہوجائے مالک کہے کہ میں نے تمہیںقبابنانے کوکہا تھااور درزی کہے ، قمیض بنانے کو کہا تھا تو کپڑے کے مالک کی بات قسم کیساتھ معتبر ہوگی ۔اگر وہ قسم کھائے تو درزی کپڑے کا ضامن ہوگا ۔ اسی طرح کاریگری کی ہر قسم میں کاریگر ضامن ہوگا بشرطیکہ وہ مالک کی خواہش کے مطابق کام نہ کرے ۔

اجارہ کی دیگر عام صورتیں
اگر کوئی کسی جانورکودس پیمانے گندم کابوجھ لادنے کیلئے اجارہ پر حاصل کرے تو اس کیلئے اس جانور پرگندم ،جووغیرہ لادناجائزہے بشرطیکہ زیادہ نقصان دہ نہ ہو جبکہ ساتھ ہی وزن بھی برابر ہو مثلاً نمک اورلوہا وغیرہ
تعلیم قرآن کیلئے کسی کو مدت معین کرکے یا سورہ معین کر کے اجارہ پر لے لینا جائز ہے۔ کسی گھر کو آئندہ سال کیلئے کرایہ پردیناجائز نہیں اگر پہلے سال کی مدت کے ختم ہونے سے قبل ہی اگلے سال کیلئے اجارہ پر دیدے توجائز ہے۔ کسی جانور کو ہمیشہ کیلئے نہیں، بعض راستے میںسواری کرنے یادوآدمی باری باری سے یادونوں ایک ساتھ سواری کرنے کیلئے اجارہ پر لینا جائز ہے بشرطیکہ وہ دونوں کو اٹھا سکتا ہو۔

اجارہ کی چیز کی زمانی و مکانی مقدار کا تعین
اجارہ والی اصل چیز کی زمان کی مقدار کا تقرر ضروری ہےمثلاً کسی گھر کو ایک سال کیلئے اجارہ پرلینا، یا جگہ تقرر ہو مثلاً کسی جانور کو معین مقام تک سواری یا بوجھ لادنے کیلئے اجارہ پر لینا۔ مقدار کے تقرر میں سوا ر کا ذکر بلکہ اسکودیکھنے اور بوجھ لادنے کی صورت میں وزن یاناپ بلکہ اسکے جنس تک معین کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ مختلف جنس کی اشیاء وزن میں برابر ہوتے ہوئے بھی نقصا ن میں مختلف ہوتی ہیں ۔

اجارہ کی چیز کی حفاظت
اجارہ کی اصل چیز کی تکلیفات اور اسکی حفاظت کی جو ذمہ داری کرایہ پردینے اور لینے والے پر عائد ہوتی ہے وہ شہر یا گائوں اور مضافات میں رائج رواج اور دونوں کی رضامندی کے مطابق ہوگی۔

اجارہ کی اقسام
اجارہ کی دوقسمیںہیں:(۱)اجارہ بالعین (۲)اجارہ فی الذمہ۔ اگر زمانی مقدار ہو تو فی الذمہ ہے مثلاً ایک دن میں سی لینا اور اگر مقدار مکانی ہو تواجارہ بالعین ہے مثلاً صرف کپڑے کا سی لینا۔ اس صورت میں فی الذمہ اور بالعین دونوں جائز ہے، اجارہ بالعین میں اجارے کی چیز کے ضیاع سے معاہدہ فسخ ہوسکتاہے اوراجارہ فی الذمہ میں اسکے ضیاع سے معاہدہ فسخ نہیں ہوگا بلکہ موجر پر اسکا بدل دینا اور بدل دینے پر قادر نہ ہو تو اقالہ واجب ہے ۔ زمین کاشت کرنے،پودا لگانے اور عمارتیں بنانے کیلئے اجارہ پر دیدینا جائز ہے ۔معین مدت کے بعد موجر کو تاوان دینا قبول کرکے انکو خراب کرنے یا باقی رکھنے کا اختیار ہے۔ اس طرح زمین اصل مالک کی ہوگی اور اس پرجو کچھ بنا یاگیا وہ عامل کاہوگا یوں ایک ملکیت پر دونوں کی شرکت ثابت ہوجائیگی۔

اگر سو من (۱) وزن اٹھانےوالاجانورکوئی اجارہ پر لے لے پھر اس پر ایک سو دس من وزن لادے تو اس پر معاہدہ سے زائد وزن کی اضافی اجرت واجب ہے۔ اگروہضائع ہوجائے اور مالک ساتھ نہ ہوتو وہ ضامن ہوگا۔اجرت کی چیز پر مالک کا قبضہ نہ ہونےتک مستاجر کے پاس امانت ہے۔
اگرکوئی مکان اجارہ پرلے لے پھر اس میں نہ خود رہے نہ ہی کسی اور کورکھے‘یا کوئی جانور لے لے پھر اس پر نہ خود سوار ہو نہ کسی اورکو سوار کرائے ،اس کو استعمال ہی نہ کرے اورایک مدت روک رکھے تو فائدہ حاصل کیا ہو نہ کیا ہو ‘اس مدت کی اجرت واجب ہے۔
اگر کوئی درزی سے کہے کہ اگر تم یہ کپڑے آج سلا لے تو تجھے دو درہم اور اگر کل سلالے تو ایک درہم ملیں گے ۔ درزی اسے قبول کرے تواسی دن کام کرنے پر دو اور اگلے دن کام کرنے پر ایک درہم ملے گا یہ بلاشبہ صحیح معاہدہ ہے ۔
اگرکوئی کسی جانور کو ایک مقا م تک معین وقت میںوزن لادنے کیلئے اجارہ پر لے لے ۔ اگر وہ اس دورانئے میں کمی کرے اور مالک قبول کرے تووقت میں کمی کی مناسبت سے اجرت میں کمی کرنا جائز ہے کیونکہ زمان بھی اندازے میں مکان جیساہے۔
اگر اجارہ کی مدت گزر جائے اوراجارے پر لینے والا اجرت پر لی گئی چیز کو مالک کے مطالبے کے باوجود روکے رکھے تومطالبہ کے دوران روکے رکھنے کے باعث وہ غاصب شمار ہوگا ۔

جانوروں و درختوں کو اجارہ پر لینا
افزائش نسل کیلئے جانور کا اجارہ مکروہ ہے۔ جس چیز کی حفاظت دیکھنے سے ہوتی ہواس کی حفاظت کیلئے کسی اندھے کو اجارہ پر حاصل کرنا باطل ہے، انگور کا درخت پھل کیلئے اورجانور کو دودھ کیلئے اجارہ پرلینا جائز نہیں، لیکن اگرجانور حفاظت کیلئے حاصل کرے اور دودھ کا وقت ختم ہونے تک دودھ وغیر ہ مالک کی اجازت سے تصرف میں لائے اور مالک کو نقد یا دیگر سامان دودھ کی قیمت میں واپس کردے تو صحیح ہے۔

کنواں یا چشمہ اجارہ پر لینا
اگر مملوکہ کنواں پانی کیلئے اجارہ پرحاصل کرے مثلاًمملوکہ چشمے اورتالاب وغیر ہ تو بھی درست ہے۔

شیر خوار بچے کیلئے ماں کو اجارہ پر لینا
اگر کوئی اپنی بیوی کو اسی سے ہی جنم لینے والے بچے کودودھ پلانے کیلئے اجارہ پر لے لے تودرست ہے۔

میت کے اعمال کی بجاآوری کیلئے کسی کو اجارہ پر لینا
میت کی فوت شدہ عبادات کی ادائیگی کیلئے کسی کو اجارہ پر لینا درست ہے مثلاً حج،روزہ، نماز وغیر ہ۔ اجیر پروہ اعمال اسی طرح بجالانا واجب ہے جس طرح اس شخص سے فوت ہوئے ہوںاور ہر عبادت جو اجیر میت کی نیت سے بجالائے اور ان کی اجرت وصول کرے وہ میت سے ادا ہونگی اورثواب میت تک پہنچ جائیگا جس طرح احادیث نبویؐ میں وارد ہے اور صاحب کشف اولیاء الٰہی جو خیرات،صدقات اور اداکی جانےوالی عبادتوںکے ثواب کس طرح سے میتوں کی ارواح تک پہنچتے ہیں انہیں خوب دیکھتے ہیں۔