(ذات باری تعالی ٰ پراعتقاد )


وَھُوَ اَنْ تَعْتََقِدَ اَنَّ اللّٰہَ وَاجِبُ الْوُجُوْدِ حَیٌّ عَلَیْمٌ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ قَدِیْرٌ ذُوْ اِرَادَۃٍ وَکَلاَمٍ وَھُوَ بِالْعِلْمِ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ مِّنَ الْعَرْ شِ وَالْکُرْسِیِّ وَالسَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَالْاَرْضِیْنَ وَمَافَیْھِمَا وَ فَوْقَ الْعَرْشِ لَاشَیْئَ غَیْرَہُ عُلُوًّا بِالشَّانِ لَابِالْمَکَانِِ وَلَانِھَایَۃَ لَہُ وَھُوَنُوْرُ الْاَنْوَارِ وَلَیْسََ لَہُ جِسْمٌ وَلاَ کَثَافَۃٌ وَ لَالَوْنٌ وَھُوَ مُنَزَّہٌ عَنْھَا وَکَانَ مَعْبُوَدَ الْاَنْبِیَائِ وَ الْاَوَلِیْائِ وَفِیْ ھِذَا الْمَقَامِ الْاَنْبِیَا ئُ یُسَمُّوْنَہُ اَلْحَیَّ الْعَلِیْمَ وَالْاَوْلِیَائُ الْحَضَرَۃَ الْعِلْمِیَۃَ وَالْحُکُمَائُ عَقْلَ الْکُلِّ وَنَفْسَ الْکُلِّ وَلَایُرِیْدُ اَحَدٌمِنَ الطَّوَائِفِ بِعِبَارَاتِھِمُ الْمُخْتَلِفَۃِ اِلاَّ اللّٰہَ وَھُوَفِیْ ھَذَھِ الْحَضَرَۃِ الْجَبْرُوْتِیَّۃِ مُنَزَّہٌ عَنِ الْاَشْیَا ئِ وَغَنِیٌ عَنْھَا وَ نُوْرُہُ یُفِیْضُ عَلٰی السَّمٰواتِ وَ فِیْ ھَذَا الْمَقَامِ الْاَنْبِیَائُ یُسَمُّوْنَہُ الرَّبَ وَالْخَا لِقَ وَ الرَّازِقَ وَالْاَوْلِیَائُ بِالصِّفَّاتِ الْاَفْعَالِیْۃَ وَالْمَلٰئِکَتَہُ السَّمَاوِیَۃَ۔ وَالْحُکْمَائُ بِالْعُقُوْلِ وَ النُّفُوْسِ الْفَلْکِیَّۃَ وَالْقُوَیٰ وَ الْمَلَکَاتِ وَرُوْحَانِیَاتِ الْکَوَاکِبَ وَھَذَالرُّوْحَانِیَاتِ تُفِیْضُ عَلٰی الْعَنَاصِرِ وَ الْمَوَالِیْدِ وَ فِیْ ھَذَا الْمَقَامَ الْاَنْبِیَائُ یُسَمُّوْنَہٗ بِالْمَخْلُوْقَاتِ وَ الْاَوْلِیَائُ بِالصِّفَاتِ الْاَثَارِیَّۃَ وَالْاَرْوَاحِ الْمُنْطَبِعَۃَ وَ الْحُکَمَائُ بِالْقُوٰی الْمُنْطَبِعَۃَ وَالْمُرَادُ بِعِبَارَاتِھِمْ ذَاتُہٗ وَصِفَاتُہٗ وَاَفْعَالُہٗ وَاٰثَارُہٗ ۔

یہ اعتقادرکھنا واجب ہے کہ ذات باری تعالیٰ اللہ واجب الوجود ہے۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ سب سے زیادہ جاننے والا وسننے والا اور دیکھنے والا قدرت والا ہے صاحب ارادہ اور کلام ہے وہ علمیت کے لحاظ سے عرش، کرسی، ساتواں آسمان اور ساتواں زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے اورجو کچھ عرش کے اوپر ہے سب پر محیط ہے مکان کے اعتبار سے نہیں بلکہ بلند رتبہ کے اعتبار سے کوئی بھی چیز اس سے بلند نہیں ہے اس کی کوئی انتہا نہیں وہ تمام انوار کا نور ہے اس کا کوئی جسم نہیں نہ ہی کوئی کثافت ہے وہ ان تمام سے پاک وپاکیزہ ہے وہ تمام انبیاء اور اولیاء کا معبود ہے۔ اس مقام پر انبیاء اسے حیی اور علیم کا نام دیتے ہیں اوراولیاء حضرات علمیہ اور حکماء عقل کل اور نفس کل کا نام دیتے ہیں. مذکورہ گروہوں میں ہر ایک کی مختلف عبارتوں سے مراد صرف اللہ ہی ہے وہ بذات عالم جبروت میں ہر چیز سے پاک ہے اور ان سے بے نیاز ہے اوراس کا نور تمام آسمانوں پر متجلی ہوتا ہے۔ اس مقام پرانبیاء اسے رب خالق کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ اولیاء اسے اسکے افعال صفات اورملائکہ سماویہ سے جانتے ہیں اورحکما عقول، نفوس ملکیہ قوی، ملکات، کواکب کی روحانیات جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں اوریہ وہ روحانیات ہیں جو عناصر اورموالید پر ضوفشاں ہوتی ہیں۔ اس مقام پر انبیاء اسے مخلوقات کے ذریعے اولیاء صفات آثاریہ اور ارواح منطبعہ کے ذریعے اور حکماء قوٰئی منطبعہ کے ذریعے نام دیتے ہیں تاہم ان سب کی عبارتوں سے مراد اس کی ذات اس کی صفات اس کی افعال اور اس کی آثار ہیں۔