ترویج تعلیمات محمد ؐوآل محمد ؑ میں جامعہ کا کردار


محمد حسن نوری
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘
الحمد للہ علی انعامہ والشکر علی احسانہ والصلوٰۃ والسلام علی محمد اشرف انبیائہ والہ الذین ا صطفی من عبادہ اما بعد۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم ، ائمہ طاہرین ؑ کے وسیلے، بزرگان دین کے طفیل پیر طریقت سید عون علی مرحوم کی خواہش، موجودہ پیر سید محمد شاہ نورانی کی قیادت اور نوربخشی غیور عوام کی جدوجہد خصوصا کراچی کے نوربخشی غلامان حیدر کرار اور کنیزان زہرا ؑ کے تعاون اور سب سے بڑھ کر انجمن فلاح وبہودیٔ نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی کے فقید المثال اور بلند حوصلے کے نتیجے میں قائم شدہ جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ جو گیارہ اکتوبر 1990ء معرض وجود میں آیا تھا۔ الحمد للہ پچیس سال کی مدت پوری کرکے سلور جوبلی بعنوان کاروان نوربخش کا نفرنس منارہی ہے۔ حسن اتفاق سے جس انجمن فلاح وبہودیٔ نوربخشی کے سعی بلیغ سے یہ جامعہ اپنے اہداف کی طرف رواں دواں ہے اس انجمن کی بھی مدت قیام پچاس سال (گولڈن جوبلی) مکمل ہورہی ہے۔ اس حسن اتفاق پر شکر الٰہی بجالاتے ہوئے دونوں کے خوش قسمت منتظمین کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک پیش کرتا ہوں۔ چونکہ مجھے مقالے کا موضوع ’’ترویج تعلیمات محمد ؐوآل محمد ؑ میں جامعہ کا کردار‘‘دیا گیا ہے۔ تو اپنی قسمت پر نازاں وفرحان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں درج ذیل حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
یقیناً جامعہ ہٰذا قرآن وسنت کی تعلیمات کو فروغ دینے، دین متین اسلام کی سر بلندی اور ملک خداداد پاکستان کی بقاء کے لئے قولًا فعلًا اور نیک دعاؤں کے ذریعے گراں قدر خدمات انجام دیئے ہیں۔ جامعہ ہٰذا کی اصل منزل اتحاد بین المسلمین ہے۔ جس کے لئے انتہائی نامساعد حالات میں بھی کوششیں جاری رکھی ہے۔ ابتداء میں محترم شیخ سکندر حسین صاحب نے اس بار گراں کو اکیلا قبول کیا اور نوربخشیوں کی اس دیرینہ خواہش، آرزو اور حسرت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ بحیثیت پرنسپل تقرر ہوئے تھے، لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جامعہ کے انتظامی امور سمیت دیگر جملہ معاملات میں بھی دلچسپی اور لگن کے ساتھ دن رات کام کیا۔ اور نام نہاد جامعہ کو حقیقی جامعہ میں تبدیل کیا ہے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں شروع کیا ہوا یہ ادارہ صرف شیخ صاحب کے عزم واستقلال سے قائم تھی۔ بعد میں خدا کے فضل وکرم سے جناب شیخ محمد محسن اشراقی جیسے عالم باعمل مخلص رفیق بھی شامل ہوا جو کہ سونے پر سہاگہ ثابت ہوا۔ اور اب تو انہیں کے شاگردان رشید اعجاز حسین غریبی ، علامہ غلام عباس، مولانا اسحاق ثاقب، اور محمد حسن شاد وغیرہ انہی جامعہ کے فارغ التحصیل علماء بھی تدریسی امور وغیرہ میں معاون بن گئے ہیں۔ اس طرح اساتذہ کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔
یہ فیضان نظر ہے یاکی مکتب کی کرامت ہے
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ؟
آمدم بر سر مطلب جامعہ ہٰذا قائم ودائم رکھنے کے سلسلے میں شیخ الجامعہ اور ان کے رفقائے کار اور مخلص کارکنوں کو گوناگوں مصائب جھیلنی پڑی۔ سخت سے سخت تکالیف برداشت کرنی پڑی، اذیتیں سہنا پڑیں، ناجائز نازیبا کلمات سننے پڑے لیکن شیخ صاحبان اور ان کے مخلص رفقائے کار صدہا مبارکباد کے مستحق ہے کہ ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ چونکہ جامعہ اللہ تعالیٰ کا روشن کردہ چراغ ہے جسے بجھانا آسان کام نہیں۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کا واضح اعلان ہے۔
یریدون لیطفوا نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔
چراغے راکہ ایزد بسر فروزد
اگر کس پف زندہ ریش بسوزد
یعنی جس نور کو خدا روشن کرے اگر کوئی بجھانے کیلئے پھونک مارے تو اسی کی داڑھی جل سکتی ہے مگر وہ چراغ بجھ نہیں سکتا۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
جامعہ ہٰذا کے قیام سے قبل تشنہ گان علوم اسلامیہ گوناگوں مصائب وآلام کا سامنا تھا۔ ملت نوربخشیہ میں کوئی دینی درسگاہ نہ ہونے کی وجہ سے تشنہ گان علوم اسلامیہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے اغیار کے مختلف مدارس کا رخ کرنے پر مجبور تھے جہاںہر وقت خوف وہراس اور بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہوتے تھے۔ آزادی کے ساتھ عقائد واعمال کی بجا آوری ناممکن تھی۔ جس کی وجہ سے متعدد نوربخشی مسلک کو خیر باد کہہ گئے اور ذیاب فی ثیاب کے مصداق یعنی نوربخشی بھیس میں گندم نما جو فروش بن کر رہ گئے ہیں اور نوربخشی عقائد و اعمال کی راہ میں روڑے اٹکار ہے ہیں جن کے بھیانک نتائج سے سب آگاہ ہیں۔ جو نوربخشی دنیاکو شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نوربخشی اتفاق واتحاد کو سبوتاژ کررہے ہیں اور صحیح العقائد نوربخشیوں کو بگاڑ رہے ہیں۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بعض نوربخشی احباب انہی لوگوں کے افعال و کردار کی حمایت کرتے ہوئے اعتدال پسند نوربخشیوں کے عقائد کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جامعہ ہذا کا کردار تعلیمات محمد ؐ وآل محمد ؑ کے فروغ میں سب پر عیاں ہے۔ ترویج تعلیمات آل محمد میں جامعہ کے کردار کو کئی جہتوں سے پیش کیا جاسکتا ہے ۔
۱۔بذریعہ تبلیغ
تقریر ،خطابت اور سخنرانی ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے کسی بھی قسم کے عقائد اور تعلیمات کو لوگوں کے اذہان میں محفوظ کراسکتا ہے ۔جامعہ ہذا کے قیام کے بعد اس اہم فریضے کی ابتدائی ہوئی ،یہاں سے فارغ التحصیل طلاب کرام نے خطابت کے ذریعے ان عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو نوربخشی تعلیمات سے آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات کو ختم کرنے کے مشن پر مصروف عمل تھے ان طلاب نے نہ صرف ان کے ناپاک مقاصد کو خاک میں ملایا بلکہ نوربخشی عوام کو بزرگان نوربخشیہ کی اصل تعلیمات جو کہ حقیقت میں آل محمد ؑ کی تعلیمات سے ماخوز ہیں اس سے آشنا کرایا ۔آج بھی بلتستان کے اندر پچاس سے زائد خانقاہوں اور جامع مسجدوں میں جامعہ ہذا سے فارغ التحصیل علمائے کرام خطابت کے ذریعے علوم آل محمد سے نوربخشی عوام کے دلوں کو منور کررہے ہیں ۔ان علماء میں علامہ شیخ محمد یونس سلتروی ، مولانا غلام مہدی انجم ڈغونی ، مولانامحمد یعقوب شگری ، مولانا موسیٰ علی صدیقی خپلوی ، مولانا اعجاز حسین غریبی، الحاج سید اکبر شاہ تھگسوی ، الحاج سید منیر کاظمی مچلوی ، آغا سید حنیف شاہ شگر، آغا سید خلیل اللہ شگری ، علامہ غلام عباس کوری ، مولانا محمد الیاس نوری ، آغاسید بشارت حسین تھگسوی، مولانا عبدالسلام سرموی ، سید مختار الموسوی براہ اور دیگر علمائے کرام کے نام سر فہرست ہیں ۔اس کے علاوہ مولانا اعجاز حسین غریبی، آغا سید منیر کاظمی، سید بشارت تھگسوی ، مولانا محمد یونس سلتروی وغیرہ کراچی ، علی پور ، واہ کینٹ اور راولپنڈی میں محرم الحرام کے مکمل عشرہ پڑھ چکے ہیں ۔
۲۔ بذریعہ تحریر
ترویج تعلیمات آل محمد علیہم السلام کے لئے جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کراچی کے طلاب کرام نے تحریری میدان میں بھی شاندار خدمات انجام دی ہیں ۔ فرامین معصومین ؑ اور تعلیمات اہل بیت ؑ پر مشتمل بہت سے طلاب کرام کے مقالے ملکی و غیر ملکی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں ۔اس کے علاوہ احادیث رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور فرامین ائمہ معصومین علیہم السلام پر مشتمل مختلف کتابیں جامعہ ہذا سے فارغ علمائے کرام مولانا اعجاز حسین غریبی ، علامہ شیخ محمد یونس سلتروی ، مولانا محمد حسن شاد کریسی اور سید بشارت حسین تھگسوی وغیرہ کے ترجمے کے ساتھ منظر عام پر آچکی ہیں ۔اس سلسلے میں ایک ضخیم کتاب ’’سیرہ معصومین‘‘ شائع ہوئی تھی جو کہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت طیبہ پر مشتمل تھی، تا ہم یہ اہم اور نایاب کتاب اپنے اور اغیار کے سازشوں کا شکار ہوگئی ۔ سیرت و فرامین آل محمد ؑ کے حوالے سے جامعہ کے طلاب کرام کی محنت کا نتیجہ درج ذیل کتابوں کی صورت میں موجود ہیں ۔ السبعین فی فضائل امیر المومنین ، کا ترجمہ مولانا غلام عباس کوروی نے کی جبکہ چہل حدیث ، جواہر الایمان کا ترجمہ مولانا اعجاز حسین غریبی کی محنت کا نتیجہ ہے ، مولانا حسن شاد نے منہاج السالکین و معراج الطالبین کا ترجمہ کیا ہے اور روضہ فردوس ، سادات نامہ ، رسالہ فی الفتوۃ ، اسناد حلیہ رسول ، خواص اہل باطن وغیرہ جن کا ترجمہ اسی جامعہ سے فارغ التحصیل نوجوان عالم سید بشارت حسین تھگسوی کے ترجمے کے ساتھ چھپ چکی ہے ۔
اس کے علاوہ کراچی سے لے کر سلترو سیاچن تک کے کئی ایسے مقامات ہیں جہاں پر اس جامعہ کے طلاب کرام نے مجالس اباعبداللہ الحسین علیہ السلام رروایتی عقیدت و احترام سے منانے میں اہم کردار ادا کیا اور لوگوں کو فلسفہ شہادت حسین بن علی سے آگاہ کیا ۔
کراچی سے لیکر سیاچن کے دامن تک تمام علاقوں ، مساجد اور خانقاہوں میں گلستان تصوف کے عند لیب چہچہا رہے ہیں۔ اور چمنستان ائمہ طاہرین ؑ سے محمدؐ وآل محمد ؑ کی تعلیمات کی بھینی بھینی خوشبو عاشقان ومحبان محمد ؐ وآل محمد ؑ کے ذہنوں کو معطر کررہی ہے۔ جو دلوں کو اطمینان ، سکون اور فرحت بخش رہی ہے۔ آخر میں من لم یشکر الناس لم یشکراللہ کے تحت جناب شیخ سکندر حسین انیس، شیخ محمد محسن اشراقی اور اعجاز حسین غریبی وغیرہ تمام محسنین ملت کا شکریہ ادا کر تے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان محسنین اور مخلصین کی عمر دراز کرے اورانہیں سدا صحت وسلامتی عطاکرے۔ آمین
والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ