تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب


غلام حیدر جاوید
سابق جنرل سیکریٹری، انجمن فلاح و بہبودی نوربخشی بلتستانیاں رجسٹرڈ کراچی

اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم؈ کو تخلیق کیا تو تمام جنس و انس کو حکم دیا کہ حضرت آدمؑکو سجدہ کرے۔ رب ذوالجلال کے حکم کی تعمیل میں تمام جنس و انس نے بلاعذر و تکرار حضرت آدمؑکو سجدہ کیا مگر ابلیس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ آدمؑسے میں بہتر ہے۔ یہاں سے نافرمانی کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ تخلیق انسانیت کے بعدپہلا ترک اولیٰ حضرت آدمؑنے کیا اور جس چیز کو کھانے سے منع فرمایا شیطان کے بہکاوے میں آکر کھایا سو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑاور حضرت حواعلیہا السلام دونوں کو جنت سے زمین کے مختلف جگہوں پر نکال دیا ۔ اسی طرح دنیا میں پہلا فساد وفتنہ حضرت آدمؑکے بیٹوں ہابیل اور قابیل سے شروع ہوا تھا جس میںقابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کو قتل کیا۔
یوں تو اسلامی تاریخ کئی عشروں تک غیر یقینی کیفیت اور اختلافی مسائل کا شکار رہی جن میں سے کئی پر شیعہ اور سنی اختلافات رکھتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ کئی تاریخی شواہد اموی دور خلافت میں ایک مذموم ایجنڈے کے تحت صفحۂ قرطاس سے ختم کردیئے گئے ہیں۔
حضرت محمد ﷺ نے آخری حج 10 ہجری میں ادا کیا جب حج سے فارغ ہوکر آپ صحابہ کرام ؇کے ساتھ واپس تشریف لا رہے تھے۔ جب ایک ایسا مقام آیا جہاں سے صحابہ کرام ؇نے الگ الگ ہونا تھا یعنی اپنے اپنے علاقوں کو جانا تھاکوئی مشرق کی طرف کوئی مغرب کی طرف کوئی شمال کی طرف تو کوئی جنوب کی طرف جانا تھا ۔ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین ؈کو بھیجا اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ اس موقع پر حضرت محمدﷺ نے اعلان کروایا کہ جو جا رہے ہیں وہ رک جائیں اور جو جا چکے ہیں اُن کو واپس بلائیں اور جو پیچھے ہے ان کو جلد بلائیں۔ جب تمام صحابہ ؇جمع ہوئے جس کی تعداد تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار بتائی جاتی ہے اورمجمع سے آپ ﷺ نے ایک جامع اور فصیح خطاب فرمایا اور گھوڑوں اور اونٹوں کے پالان کے ذریعے ایک اونچا مقام (اسٹیج) بنا کر حضرت علیؑکو اس پر بٹھایا اور ان کا ہاتھ تھام کر لوگوں کو دکھایا اور کہا کہ آج سے حضرت علیؑتمہارا خلیفہ ہے، میرا وصی ہے، میرا ولی ہے، امت کا امام ہے۔ یہ مقام تاریخ اسلام میں غدیر خم سے مشہور ہے۔اسی مقام پر قرآن پاک کا آخری آیت نازل ہوئی۔ تاہم حضرت محمد ﷺ کی جیسے ہی روح قبض ہوئی اور مسلمانوں کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت محمد وصال فرماچکے ہیں ، امتی حضرت محمد ؐ کی تجہیز و تکفین چھوڑکربنی سقیفہ میں جمع ہوئی اور خلافت پر بحث شروع کی۔ دوسری طرف حضرت علی ؑ اور آپ ؈کی آل؊ نے حضرت محمد ﷺ کی تجہیز و تکفین کی۔ اس طرح سقیفہ کی بیٹھک میں حضرت ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا یوں حضرت محمدؐ کی وفات کے بعد اسلام میں جمہوریت کا آغاز ہوا اور حضرت محمدﷺ کے فرمان کو پس و پشت ڈال دیا گیا۔ غدیر خم کو لوگ بھول گئے یوں مسلمانوں میں اختلافات کا آغاز ہوا۔
حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عمراور پھر حضرت عشمان کو خلیفہ بنایا گیا ۔جب حضرت عشمان کو قتل کیا گیااور تین دن تک مسندِ خلافت خالی رہی۔ تب مسلمانوں کو حضرت علیؑنظرآئے ۔ اُس وقت مدینہ منورہ میں ہر طرف باغیوں کا زور تھا۔ خلافتِ اُمورسنبھالنا بھی ضروری تھا۔ صحابہ ؇کی جماعت میں اس وقت حضرت علیؑکی ذات گرامی ہی ایسی تھی جنہیں خلیفہ منتحب کیا جاسکتا تھا چنانچہ مہاجرین و انصار صحابہ؇ میں سے چند حضرت علیؑکی خدمت میں پہنچے اور خلافت کی پیشکش کی۔ حضرت علیؑنے جواب دیا مجھے خلافت کی حاجت نہیں۔ تمہارا دل جسے چاہے خلیفہ بنا لو میں بھی اسے قبول کرلوں گا۔ جماعتِ صحابہ ؇نے پھر عرض کی کہ آپ ؈کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس منصب کا مستحق نہیں ہے آپؑ کے ہوتے ہوئے ہم کسی دوسرے کو خلیفہ نہیں بنا سکتے۔ حضرت علیؑنے پھر معذرت کی اور فرمایا کہ امیر ہونے کے بجائے مجھے مشیر ہونا زیادہ پسند ہے۔ آخرلوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ ہم آپ ؈ہی کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بے حد اصرار پر اور ملت ِاسلامیہ کے مفاد میں آپ ؑ نے یہ پیشکش قبول فرمالی اور مسلمانوں نے آپ ؑ کے ہاتھ پر بیعت کرکے آپ ؑ کو چوتھا خلیفہ تسلیم کرلیا۔
اس دور میںحضرت عائشہ کے ساتھ جنگ جمل ہوئی۔امیر معاویہ کے ساتھ جنگ صفین واقع ہوئی جس میںتقریباً 45 ہزار شامی اور 25 ہزار عراقی باہم کام آئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئیں اور لاکھوں بچے یتیم ہوگئے۔
حضرت عشمان کے قتل کا معاملہ چلتا رہا جس کی آڑ میں عبدالرحمن بن ملجم، یرک بن عبداللہ اور عمرہ بن بکیر خارجیوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ تینوں مکہ مکرمہ میں بیٹھ کر اہل اسلام کے خلاف سازشیں کرنے لگے اور ابن ملجم نے حضرت علی ؈، یرک بن عبداللہ نے معاویہ اور عمرو بن بکیر نے عمرو بن العاص کو رمضان کی سترہ تاریخ کو قتل کرنے کا اعلان کیا۔ اس مذموم سازش میں ابن ملجم نے حضر ت علیؑکو شہید کیا تاہم معاویہ پر وار میں معمولی زخم آئے اور عمرو بن العاص اس دن طبیعت کی ناسازگی پر نماز پڑھانے مسجد نہ آنے پر بچ گئے۔
(تاریخ طبری)
تاریخ اس بات پر متفق ہےکہ دنیا میں جب بھی کوئی تنازعہ، مقدمہ،ظلم و ستم، اذیت و بربریت اور نزاع ہوا۔دو فریق کے مابین ہوا جن میں سے ایک حق پر اور دوسرا ناحق ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حق اور باطل، اسلام و کفر کی معرکہ آرائی روز اول سے روزِ آخر تک جاری رہے گی۔ مستند تاریخ اور روایات کے مطابق جب 60 ہجری میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین مبین کے روح کی منافی ظلم و جبر پر مبنی حکومت کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا۔ بعد ازاں تاریخ نے دیکھا سب سے بڑا جہاد جس کی ادائیگی کیلئے نواسہ رسول سیدنا حسین ابن علی؉ فرمان نبوی اور اسوہ نبوی ﷺکی پیروی میں یزید کے خلاف میدان کربلا میں وارد ہوئے اور حق و صداقت، جرات و شجاعت کی بے مثال تاریخ رقم کی جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے حیات مبارک میں جتنی جنگیں ہوئی اشاعت اسلام کیلئے تھیں۔ اس کے بعد کے جنگیں اسلام پھیلانے کیلئے کم اور مسلمانوں کے آپس میں جنگیں زیادہ ہوئی ہیں جن میں مشہور جنگیں جنگ صفین، جنگ جمل، جنگ نہروان اور معرکۂ کربلا نظر آتے ہیں۔اس طرح اسلام میں فتنوں، سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور اسلام فرقوں میں بٹتا گیا اور اسلام زوال پذیر ہوتا گیا۔
تاریخ اس بات پر بھی متفق ہےکہ جس طرح گلشن محمدؐ کے تمام پھولوں کو زہر اور خنجرسے شہید کیا گیا۔ خصوصاًمیدان کربلا میں مظلوم کربلا امام حسینؑ اور آل محمدؐ کو جس طرح مسلمانوں نے شہید کیا وہ تاریخ اسلام پر بدنما داغ ہے۔ یزید نے جس طرح مسلمانوں پر حکومت کی اور ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیرا اس پر ہمیشہ مطعون رہےگا اور زمانہ اس پر لعنت بھیجتا رہےگا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو نبی بنایا اور ان کے ذریعے ہم تک اپنا پیغام پہنچایا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو نبی بنایا اسی طرح امامت کا منصب بھی عطا فرمایا تاکہ جو نظام حضرت محمدﷺ نے دیا تھا اس نظام کو قیامت تک چلایاجاسکے۔ یکے بعد دیگرے جب گیارہ اماموں ؑ کو مسلمانوں نے ہی زہر اور خنجر سے شہید کیا گیاتویہی سبب تھا کہ دنیا کو حجت خدا سے خالی نہیں رکھنا تھایہ مشیت الہی تھی کہ حضرت امام مہدیؑکو غیب میں لے جایا گیا۔
مسلک نوربخشیہ دین اسلام کے سلاسل تصوف میں سے ایک ممتاز سلسلہ جو کہ سلسلہ ذھب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ سرکار دو عالم کے بعد آدم الاولیا حضرت علی ؈کی خلافت، ولایت اور امامت کو رسول اللہ کے قول و فعل کی روشنی میں من و عن تسلیم کرتے ہیں اور حضرت علیؑکے بعد گیارہ ائمہ معصومین ؊ بشمول امام زمانہ قائم آل محمد حضرت امام مہدیؑکو اسی سلسلہ کے ائمہ حقیقی سمجھتے ہیں۔ ان بارہ ائمہ حقیقی ؊کے علاوہ ائمہ اضافی کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے جو کہ حضرت امام علی رضا ؈کے شاگرد خاص حضرت معروف کرخی سے یداًبید ٍچلتا ہوا عصر حاضر کے پیر طریقت حضرت سید محمد شاہ نورانی مدظلہ عالی تک پہنچتا ہے۔ جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔
سلسلۂ طریقت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوکر حضرت امام علی رضا ؈ان سے حضرت معروف کرخی سے ہوتا ہوا موجودہ ۴۶ ویں پیر طریقت حضرت سید محمد شاہ نورانی مدظلہ العالیٰ تک پہنچا ہے۔
حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی 12 رجب 714 ہجری بمطابق 22 اکتوبر 1314 میں پیدا ہوئے۔ کشمیر اور گلگت بلتستان میں 15 ویں عیسوی میں اشاعت اسلام کے لئے تشریف لائے۔
حضرت شاہ سید محمد نوربخش 15 شعبان 795 بمطابق 26 جون 1393 میں پیدا ہوئے ہم نوربخشی انکی شہرۂ آفاق کتاب ’’فقہ الاحوط‘‘ اور ’’کتاب الاعتقادیہ‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔ جس میں اصولی اور فروعی مسائل کا بیان ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی کہ مسلمانوں نے اپنی ظاہری دنیاوی حکومت کی خاطر اماموں پر ظلم و ستم، جبر و زیاتی جاری رکھی اسی طرح پیران طریقت کو بھی مختلف ادوار میں قید وبندکی صعوبتیں دیتے رہے۔
948 ہجری سے 957 ہجری کے دوران جب مرزا حیدر کاشغری کو کشمیر کی حکومت ملی تو اس نے نوربخشی سلسلے پر سختیاں کیں اور اسے کچلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔
اس کے دور میں نوربخشیوں پر بے پناہ ظلم ہوا ہزاروں نوربخشی قتل ہوئے، خانقاہوں سمیت کئی مسجدوں کو شہید کیا۔ حتیٰ کہ بزرگوں کے مقبرے بھی گرادیئے گئے۔ کتابوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ ان ساری کارروایئوں کیلئے اس وقت کے ڈکٹیٹر نے علماء ہند سے فتوے بھی حاصل کئے۔ فتوے کا متن تاریخی کتابوں کی زینت ہےاور جن باتوں کی بناء پر نوربخشیوں کو قابل گردن زدنی قرار دیاگیا وہ اتنی معمولی اور بے وزن ہیں کہ آج کے جمہوری دور میں ایسی باتوں پر اس قدر سخت فتویٰ دینے والا فاتر العقل کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا اور سوائے تنگ نظر، بدظن و خودغرض کے ایسے فتوے پر عمل نہیں کرسکتا۔ اس طرح کشمیر میں سلسلہ نوربخشیہ کو سخت دھچکا لگا۔ رہی سہی کسر مغل حکمران جہانگیر نے پوری کی۔ اس طرح کشمیر سے نوربخشیہ سلسلے کا خاتمہ ہوگیا۔
انیسویں صدی عیسوی تک بلتستان کی سالم آبادی نوربخشی تھی۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان سے قبل نوربخشی طلباء دہلی، امرتسر اور منصوری جاکر مقلدوغیرمقلد بن جاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اب یہ طلباء جہلم، فیصل آباد، لاہور، گوجرانوالا اور کراچی رخ کرنے لگے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے اکثر نوربخشیوںنے اپنا مذہب چھوڑدیا ۔ ان غیر مقلدین کی درسگاہوں سے فارغ یافتہ نوربخشی طلباء اور علماء نے نوربخشی مراکز، ادارے مدرسے اور مساجد کی خدمات سنبھالی ہیں۔
معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ اس پاک مسلک کو ختم کرنے کا سلسلہ تاحال جاری رہے۔ ترقی و ترویج کیلئے ہر دور میں کوششیں ہوتے رہے مگر وسائل کی کمی اور رسل و رسائل نہ ہونے کی وجہ سے مسلک نوربخشیہ زوال پذیر رہی تا وقتیکہ 14 ویں ہجری تک۔ اس دور کے علماء کرام اور دانشوروں نے غور و فکر کی اور مسلک کی آبیاری پر توجہ دینا شروع کی۔ جب میر سید محمد شاہ زین الاخیار ؒ 1356 ہجری میں وفات پاگئے تو مسند پیریت پر میر سید عون علی شاہ عون المومنین ؒ فائز ہوئے آپ کاسن پیدائش 1349 ہجری ہے۔ آپ کا انتقال 1412 ہجری میں ہوئے۔ اس کے بعد پیریت کے منصب پر موجودہ پیر سید محمدشاہ نورانی مدظلہ العالیٰ فائز ہوئے۔ پیر طریقت میر سید عون علی شاہ عون المومنین کے دور میں نوربخشی مدرسہ بنانے کا آغاز ہوا اور بنیادی اسلامی علوم کے ساتھ نوربخشی تعلیمات کی ابتداء ہوئی جو درج ذیل ہیں:
(۱) دارالعلوم نوربخشی خپلو
(۲) جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ(ٹرسٹ رجسٹرڈ) کراچی
(۳) مدرسہ شاہ ہمدان سکردو
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ (ٹرسٹ رجسٹرڈ) کراچی 1990ء میں انجمن فلاح و بہبودی نوربخشی بلتستانیاں(رجسٹرڈ)کراچی کے زیر انتظام معرض وجود میں آیا۔ اس وقت تک ظاہری طور کراچی میں نوربخشی برادری کے مابین باہمی اتحاد و اتفاق قائم تھا۔ جب 1995ء میں مذکورہ جامعہ کو ٹرسٹ رجسٹرڈ کیا گیا۔ تب سے کراچی میں نوربخشی برادری بظاہر دو حصوں میں تقسیم ہوئی ایک ٹرسٹ کے حمایتی جن کے ہاتھ میں انجمن کی بھاگ دوڑ تھی اور دوسرا مخالف جن کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ اس گروہ نے’ لیگل کمیٹی نوربخشیہ‘ کے نام سے انجمن اور ٹرسٹ کے خلاف تحریک شروع کی۔ جس کا چیئرمین کرنل (ر) غلام حیدر تھا جنہوں نے فوجی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ کام شروع کیا تھا انہوں نے چند دیگر لوگوں کی حمایت سے اراکین انجمن کے خلاف کراچی میں پہلا مقدمہ دائر کیا اور پھر دوسرا مقدمہ جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ (ٹرسٹ رجسٹرڈ) کے خلاف دائر کیا۔ یہاں یہ بات انتہائی پر مسرت ہے کہ اب تک مقدمہ بازی میں انجمن ہٰذا سرخرو ہوئی ہے۔ ریکارڈ پر دستیاب خطوط سے واضح ہوتا ہے کہ کرنل ریٹائرڈ غلام حیدر نے ٹرسٹ میں کوئی عہدہ نہ دینے پر ٹرسٹ کے مسئلے کو مذہبی رنگ دیا اگر انہیں ٹرسٹ میں کوئی عہدہ دیدیاجاتا تو شاید وہ اسے مذہبی مسئلہ نہ بناتے۔
کرنل (ر) غلام حیدر کے انتقال کے بعد لیگل کمیٹی کی بھاگ دوڑ غلام محمدولد قاسم علی یوچنگ کے ہاتھ آگیا۔ جنہوں نے رہی سہی کسر پوری کی اور کراچی میں مقدمات کے انبار لگادیئے۔ پھر یکے بعد دیگرے نوربخشیوں کے مابین مقدمات کا دائرہ وسیع ہوکر پورے پاکستان میں پھیل گیاجس کا سبب یہ ہے کہ آج ایک دوسرے کے خلاف کراچی سمیت سکردو اور گانچھے میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ نوربخشیوں میں مقدمہ بازی کی ابتدا کرنے کا سہرا کرنل غلام حیدر اور غلام محمد یوچنگپہ کے سرجاتا ہے۔
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ (ٹرسٹ رجسٹرڈ) کراچی کے پرنسپل شیخ سکندر حسین نے نصاب کے مطابق چودہ طلباء کو جو قریب فارغ التحصیل تھے کو ذمہ داری سونپی کہ چہاردہ معصومین ؑ پرتاریخ اسلام کی کتابوں سے مواد جمع کریں۔ جب مواد جمع ہوا تو اس کی کمپوزنگ کی گئی اور کتابی شکل دیدی گئی اور شیخ سکندر حسین کے زیر نظریہ کتاب ’سیرۂ معصومین ؑ (جلد دوم) 2002ء میں تالیف کرکے شائع ہوئی تو لیگل کمیٹی نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ یہ کتاب چونکہ چہاردہ معصومین ؑ کے حالات و واقعات پر مبنی تھےاور ظاہر ہے کہ امامت، خلافت اور دیگر چند معاملات پر اختلافات موجود ہے اور انہیں مورد نزاع بنایا جاسکتا ہے ۔ اس موقع سے غلام محمد اینڈ گروپ نے خوب فائدہ اٹھایا اور جو مسئلہ پیر طریقت کی سرپرستی میں علمائے کرام نے بلتستان میں حل کرلیا تھا اسے دوبارہ کسی اور زاوئےسے سازش اور گٹھ جوڑ سے لیگل کمیٹی نے خوب تشہیر کی اور دس (۱۰) نکات کو جواز بناکر نام نہاد 45 نوربخشی علماء سے فتویٰ حاصل کرکے شیخ سکندر حسین کے خلاف ضلع گانچھے میں مقدمہ دائر کیاحقائق سے آگاہ ہونے پر سرکار نے مقدمہ واپس لیا۔ اس کے بعد ہاتھ کچھ نہ آیا تو دوسرے مسلک کے کئی علماء سے اس کتاب کے مندرجات کے خلاف فتوی صادر کرایا۔ ان فتوؤں کو بنیاد بنا کر 2003ء میں کورٹ میں ایک پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کیاجس میں 14 طلباء کرام کے ساتھ ساتھ نہ صرف شیخ سکندر حسین کا نام شامل کیا گیا بلکہ اس میں مسلک کے روحانی پیشوا و پیر طریقت کا نام بھی ڈالاگیا۔ جو تاحال زیر سماعت ہیں۔ اس مقدمہ میں شامل تمام لوگ ضمانت پر ہیں۔ جناب شیخ سکندر حسین، سید شبیر حسین شارگو، اعجاز حسین غریبی، مولانا عبدالرحیم صوفی ہر پیشی پر حاضری دے رہے ہیں اور باقی لوگ پیشی سے مستثنیٰ ہے۔
گلگت بلتستان اور کراچی میں ناکامی کے بعد لیگل کمیٹی کو اپنے مقاصد میں کامیابی نظر نہیں آئی تومقدمات کا دائرہ وسیع کیا اور اندرون سندھ ضلع سانگھڑجو کراچی سے بذریعہ کار پانچ (5) گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے میں اپنے خیرخواہوں اور نوربخشی کیلئے بدخواہوں کے ذریعے ایک مقدمہ 2008ء میں دائر کیا اس مقدمہ میں مدعی ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں کو بنایا تھا تاہم تمام تر مواد کراچی سے لیگل کمیٹی نے فراہم کئے۔ اس مقدمہ میں یکے بعد دیگرے جناب اعجاز حسین غریبی اور شیخ سکندر حسین پابند سلاسل بھی ہوا۔ یوں تو اس مقدمہ میںلاکھوں کا سرمایہ خرچ ہوا۔ انتہائی اذیت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کئی دفعہ جانوں کا خطرہ بھی پیش آیا۔ کم و بیش اس مقدمہ میں 100 پیشیاں ہوئیںجن میںجناب شیخ سکندر حسین، شیخ محسن اشراقی اور اعجاز حسین غریبی کے ہمراہ محسنین نوربخشیہ کے کئی جانثاروں نے ان کے ساتھ سانگھڑ کا سفر کیا۔ آخرکارپیر طریقت حضرت سید محمد شاہ نورانی کی دعاؤں ،نوربخشی عوام خصوصاً خواتین کی شب و روز دلی دعاؤں کی بدولت اور جناب اعجاز حسین غریبی کی انتھک محنت اور تیاری کے نتیجے میں اس مقدمہ میں سرخروئی نصیب ہوئی۔ اس مقدمہ کی جیت میں یوں تو کئی لوگوں کا کردار شامل ہیں مگر اعجاز حسین غریبی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ جن کی محنت نے اس مقدمہ کی جیت میں اہم کردا ر ادا کیا ہے۔ جن کی تیاری دیکھ کر وکلا بھی دنگ رہ جاتے تھے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہمارے حصے کا کام بھی اعجاز حسین غریبی نے کیا ہے۔یوں یہ مقدمہ 26 مارچ 2014ء کوختم ہوا۔ اس کامیابی پر پوری نوربخشی برادری نے خوشیاں منائیں۔ دوسری جانب سازشی سکتے میں ہیں۔
مسلک نوربخشیہ کے غیور عوام آپ خوداندازہ لگائیں کہ اس مسلک کو کتنا رلایا ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق اب تک کل 18 مقدمات ایک دوسرے کے خلاف مختلف عدالتوں میں دائر ہوئے ہیںاور اس وقت جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہیں:
انجمن فلاح و بہبودی نوربخشی بلتستانیاں (رجسٹرڈ) کراچی کے خلاف:
نمبرشمار
مقدمہ کی سال
مقدمہ نمبر
ایف آئی آر نمبر
مدعی
مدعا علیہان
کب ختم ہوا
مقدمہ کہاں کیا
1
2013
43/13

علی خان، عبدالکریم بذریعہ اٹارنی غلام محمد
انجمن، پروونشل اسسٹنٹ رجسٹرار اور ڈائریکٹر انڈسٹریز، سندھ
اپیل زیر سماعت ہے
کراچی
جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ (ٹرسٹ رجسٹرڈ) کراچی کے خلاف:
نمبر شمار
مقدمہ کی سال
مقدمہ نمبر
ایف آئی آر نمبر
مدعی
مدعا علیہان
کب ختم ہوا
مقدمہ کہاں کیا
1
2013
168

ٹرسٹیز
غلام محمد خان
اپیل زیر سماعت ہے
ہائی کورٹ، کراچی
2
2013
169

انجمن
غلام محمد خان
اپیل زیر سماعت ہے
ہائی کورٹ، کراچی
سیرہ معصومینؑ (جلد دوم) اور اس سے منسلک کتابوں کے خلاف:
نمبر شمار
مقدمہ کی سال
مقدمہ نمبر
ایف آئی آر نمبر
مدعی
مدعا علیہان
کب ختم ہوا
مقدمہ کہاں کیا
1
2003
646/2003
پرائیوٹ کمپلینٹ
غلام محمد خان
شیخ سکندر حسین، سیدمحمدشاہ نورانی، محمد یونس، محمد یعقوب، غلام مہدی انجم، موسیٰ علی، سید بشارت علی، محمد شریف، اعجاز حسین، غلام عباس، سید علی شاہ، سید شبیر حسین، حامد علی کرخی، شکورعلی معصوم اور عبدالرحیم
زیر سماعت ہے
اے ڈی جے، کراچی
2
2009
479/2009
پرائیویٹ کمپلینٹ
شیخ سکندر حسین
غلام محمد خان وغیرہ
زیر سماعت ہے
اے ڈی جے، کراچی
3
2012
151/2012

شیخ سکندر حسین
غلام محمد خان وغیرہ
اپیل زیر سماعت ہے
ہائی کورٹ، کراچی
4
2013
07/2013

غلام محمد خان
شیخ سکندر حسین وغیرہ
اپیل زیر سماعت ہے
ہائی کورٹ، کراچی

خلاصہ کلام یہ ہے کہ معرکہ کسی نہ کسی شکل میں تا ابد جاری رہے گا۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
٭٭٭٭٭