مال غنیمت، جزیہ اور بیت المال کے احکام


مال غنیمت کا حکم

وَ اَمَّا غَنَائِمُ دَارِ الْحَرْبِ فَمَا نُھِبَ مِنَ الْکَفَرَۃِ اَوِ الْبُغَاۃِ الْمُحَارِبِیْنَ مَعَ الْاِمَامِ اَوْ مَعَ اَھْلِ الْاِسْلَامِ فَمَا وُجِدَ مِنَ الْکَفَرَۃِ فِی الْمَعْرِکَۃِ اَوْ مِنْ بُیُوْتِھِمْ سَوَائٌ فِی الْغَنِیْمَۃِ وَمِنَ الْبُغَاۃِ فِی الْمَعْرِکَۃِ فَقَطْ۔
میدان جنگ کے مال غنیمت وہ ہیں جو امام یا اہل اسلام کے خلاف جنگ کرنیوالے کافروں اور باغیوں سے لوٹا گیا ہو پس جو چیزیں کافروں سے میدان جنگ سے ملیں یا ان کے گھروں سے غنیمت میں دونوں یکساں ہیں۔ لیکن باغیوں سے صرف میدان جنگ کی چیزیں غنیمت ہونگی۔

جزیہ کا مسئلہ

وَ اَمَّا الْجِزْیَۃُ فَھِیَ مَا یُوْخَذُ مِنْ اَھْلِ الذِّمَّۃِ وَ ھُمُ الْکَفَرَۃُ الْکِتَابِیُّوْنَ وَ مَنْ لَہُ شِبْھَۃُ کِتَابٍ کَالْیَھُوْدِ وَ النَّصَارٰی وَ الصَّابِئِیْنَ وَ الْمَجُوْسِ وَ شُقُوْقِھِمُ الَّذِیْنَ اَنْظَرَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ اِلٰی ثَمَانِ مِائَۃِ سَنَۃٍ شَمْسِیَّۃٍ تَمْضِیْ مِنَ الْھِجْرَۃِ وَ مَا اَنْظَرَھُمْ اِلاَّ بِشَرَائِطَ۔

جزیہ وہ چیز جو اہل ذمی سے لی جاتی ہے یہ وہ کافر ہیں جو اہل کتاب ہیں اور وہ بھی کہ جن کے پاس کتاب جیسی کوئی چیز ہومثلاًیہود،نصاری، ستارہ پرست ،آتش پرست اوران کے وہ فرقے جنہیں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے آٹھ سوشمسی سال تک مہلت دی تھی، یہ مہلت گزر گئی یہ مہلت ان کو بعض شرائط کیساتھ دی گئی تھیں۔وہ شرائط یہ تھیں۔

مہلت کی شرائط کیاتھیں؟

وَمِنْھَا اَنْ لَّا یَعْمُرُوْا کَنَائِسَھُمْ وَ بِیَعَھُمْ وَ دُیُوْرَھُمْ اِذَا خَرِبَتْ وَمِنْھَا اَنْ لَّا یَرْفَعُوْا جُدْرَانَ بُیُوْتِھِمْ اَرْفَعَ مِنْ بُیُوْتِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ مِنْھَا اَنْ لاَّیَرْکَبُوْا عَلَی السُّرْجِ وَ اِنْ رَّکِبُوْا عَلَی الْخَیْلِ رَکِبُوْا بِالْبَرْذَعَۃِ اَوِ الْاِکَافِ وَ اَرْسَلُوْا کِلْتَیْ رِجْلَیْھِمْ مِنْ جَانِبٍ وَّاحِدٍ وَ مِنْھَا اَنْ یُّعْلِمُوْا عَلَامَۃً تُمَیِّزُھُمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی لِبَاسِھِمْ فِیْ الْحَمَّامَاتِ بِالْجَلاَجِلِ مِنَ الْجَرْسِ وَ غَیْرِہِ عَلٰی اَعْنَاقِھِمْ اَوْ عَلٰی اَرْجُلِھِمْ ۔
۱۔یہ کہ کفار اپنی عبادتگاہوں، چرچوں اور مندروںکے خراب ہونیکی صورت میںدوبارہ تعمیر نہیں کرائینگے۔۲۔یہ کہ وہ اپنے مکانوں کی دیواریں مسلمانوں کے مکانوں سے اونچی نہیںکرینگے۔ ۳۔یہ کہ زین پرسوار نہیں ہونگے اور اگر گھوڑے پر سوار ہوں تو برذعہ ( ؎۱) یاپالان پر سوار ہونگے اور اپنے دونوں پیروں کو ایک طرف لٹکاکر سوارہونگے۔ ۴۔یہ کہ وہ مسلمانوںسے امتیاز کرنیوالی کوئی علامت زوردار آوازوالی گھنٹیاں وغیرہ اپنے کپڑوںپر حماموں میں استعمال کرینگے مثلاًگلے اور پیروں میں ۔
وَ مِنْھَا اَنْ لَّا یَبْعَثُوْا جَاسُوْسًا وَّ لَا صَحِیْفَۃً وَّ لَا خَبَرًا اِلٰی دَارِ الْحَرْبِ وَ مِنْھَا اَنْ لَّایُحَارِبُوْا الْمُسْلِمِیْنَ اِنْ یَّرَوْا کُفَّارًا مُّحَارِبِیْنَ وَ مِنْھَا اَنْ لَّا یَشْرَبُوْا الْخَمْرَ بِالْعَلَانِیَۃِ وَ مِنْھَا اَنْ لَّایَاکُلُوْا لَحْمَ الْخِنْزِیْرِکَذَالِکَ وَ مِنْھَا اَنْ لَّایَقْرَؤُوْا کُتُبَھُمْ وَ صُحُفَھُمْ عَلٰی رُؤُوْسِ الْاَشْھَادِ جَھْرًا وَ مِنْھَا اَنْ لاَّ یُظْھِرُوْا عَقِیْدَتَھُمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ مِنْھَا اَنْ لَّایَشْتِمُوْا مُسْلِمًا وَمِنْھَا اَنْ لَّایَضْرِبُوْا مُسْلِمًا وَ لَوْ اَھَانَھُمْ۔
۵۔یہ کہ وہ میدان جنگ میںکوئی جاسوس ، خط یا کوئی خبر نہیں بھیجیںگے ۔۶۔یہ کہ اگر وہ دیگرکافروں کومسلمانوں سے برسرپیکار دیکھیںتووہ مسلمانوںسے نہیںلڑینگے ۔ ۷۔یہ کہ وہ سرعام شراب نہیںپئیں گے۔ ۸ ۔یہ کہ وہ سر عام سور کا گوشت نہیں کھائیںگے۔۹۔یہ کہ وہ لوگوںکے جم غفیر کے سامنے اپنی کتابیں اورصحیفے بلند آوازکیساتھ نہیںپڑھیں گے۔۱۰۔ یہ کہ وہ مسلمانوں کے درمیان اپنے عقائد کااظہار نہیں کرینگے۔۱۱۔یہ کہ وہ مسلمانوںکو گالی نہیں دینگے۔۱۲۔یہ کہ وہ توہین کے باوجود کسی مسلمان کونہیں ماریںگے ۔

جزیہ کی اقسام

وَ مَا یُوْخَذُ مِنْھُمْ عَلٰی نَوْعَیْنِ اَحَدُھُمَا مَا یُوْخَذُ مِنْ رُؤُوْسِھِمْ فَھُوَ مِنْ کُلِّ رَأْسٍ مِّنْ مُّوْسِرِیْھِمْ ثَمَانِیَۃٌ وَّ اَرْبَعُوْنَ دِرْھَمًا وَ مِنْ اَوْسَطِھِمْ اَرْبَعَۃٌ وَّ عِشْرُوْنَ دِرْھَمًا وَ مِنْ مُعْسِرِیْھِمْ اِثْنَاعَشَرَ دِرْھَمًا۔ وَ یَجُوْزُ اَنْ یُّوْخَذَ مِنْھُمْ اَقَلَّ اَوْ اَکْثَرَ بِرَأْیِ الْاِمَامِ لِمَصْلَحَۃِ الْاِسْلَامِ وَ ھٰذَا لَا یُوْخَذُ مِنَ الصِّبْیَانِ وَ الْمَجَانِیْنِ وَ الْمَمَالِیْکِ وَ الْھِمِّ وَ الزَّمِنِ وَ یَجُوْزُ اَخْذُھَا فِیْ اَوَّلِ السَّنَۃِ وَ فِیْ الْاَوْسَطِ وَ فِیْ اٰخِرِھَا وَ لَا یَجُوْزُ فِیْ سَنَۃٍ مَرَّتَیْنِ وَ مَنْ اَسْلَمَ فِیْ اَیِّ وَّقْتٍ مِّنَ السَّنَۃِ وَ لَوْ کَانَ فِیْ اٰخِرِھَا سَقَطَتْ جِزْیَۃُ ھٰذِہِ السَّنَۃِ عَنْہُ۔
جوجزیہ ان کافروں سے لیا جاتاہے اس کی دوقسم ہیں۔ ۱۔ ایک وہ جوان کے ہرفرد سے لیا جائے ۔ یہ اس طرح کہ ہر مالدار کافر سے اڑتالیس درہم ، متوسط مالداروں سے چوبیس درہم اور غربت کاشکار کافروںسے بارہ درہم لئے جائیں۔ کافروں سے جزیہ کی مقدار کو اسلام کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے امام کی رائے سے کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ جزیہ بچوں، پاگلوں، غلاموں، بوڑھوں اور اپاہج افراد سے نہیں لیا جائیگا۔ جزیہ سال کی ابتدا، درمیان یا آخر تینوں وقتوں میں لینا جائز ہے تاہم ایک سال میںایک دفعہ سے زیادہ جزیہ کی وصولی جائز نہیں ۔اگر کوئی کافر سال کے کسی بھی وقت میںاسلام قبول کرلے تو اس سے اسی سا ل کاجزیہ بھی ساقط ہوجائیگا اگرچہ سال کے آخر میںہی اسلام قبول کیو ںنہ کیا ہو۔
وَ اَمَّا مَا یُوْخَذُ مِنْ اَمْوَالِھِمْ فَالْاِخْتِیَارُ لِلْاِمَامِ اِنْ شَائَ اَخَذَ کَالْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنْ شَائَ اَخَذَ بِمَصْلِحَۃٍ اُخْرٰی
۲۔ اور جو جزیہ ان کے اموال سے لیاجاتا ہے ۔اس میں  امام کو اختیار ہے کہ عام مسلمانوںکی طرح وصول کرےیا کسی اور مصلحت سے ۔
اَمَّا فِیْ زَمَانِنَا ھٰذَا فَالْحُکْمُ لَیْسَ کَذَالِکَ لِاِنْقِضَائِ مُدَّۃِ اِنْظَارِھِمْ وَ ھِیَ ثَمَانِمِائَۃِ سَنَۃٍ شَمْسِیَّۃٍ وَ عَاھَدَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمَ مَعَھُمْ بِاَنَّ بَعْدَ اِنْقِضَائِ ھٰذِہِ الْمُدَّۃِ اِمَّا الْاِسْلَامَ وَ اِمَّا السَّیْفَ فَالْاٰنَ حُکْمُھُمْ حُکْمُ الْحَرْبِیِّیْنَ وَ حَلَّتْ دِمَائُھُمْ وَ اَمْوَالُھُمْ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ بَعْدَ اَنْ یَّدْعُوْھُمْ اِلَی الْاِسْلَامِ مُجَدَّدَۃً وَ یُنْذِرُوْھُمْ بِالْقَتْلِ وَ النَّھْبِ فَاِنْ لَّمْ یُسْلِمُوْا وَجَبَ عَلَیْھِمُ الْقَتْلُ لَا غَیْرَ ۔
تاہم موجودہ زمانے میںان کو دی جانیوالی مدّت آٹھ سو ہجری شمسی سال ختم ہوجانے کے باعث حکم ایسا نہیں ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کیساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ یہ مدت گزر جانے کے بعدیا اسلام قبول کیا جا ئے یا جنگ ہوگی۔ پس اب ان کا حکم بھی کافر حربی کی طرح ہے اور ان کا خون اور مال مسلمانوںکےلئے اسلام کی طرف دوبارہ دعوت دینے اور قتل و غارت سے ڈرانے کے بعد حلال ہے ۔اگرانہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو انہیںقتل کرنا واجب ہے کوئی اور صورت نہیں۔

بیت المال کی اشیاء کے احکام

وَ مِمَّا یَتَعَلَّقُ بِبَیْتِ مَالِ الْاِسْلَامِ وَ کَانَ اخْتِیَارُہُ لِلْاِمَامِ قَطَائِعُ مُلُوْکِ الْکَفَرَۃِ وَ اَمْوَالُھُمْ وَخَزَائِنُھُمْ وَ مَالٌ لاَّ وَارِثَ لَہُ وَ مِنَ الْاَرَاضِیْ وَالْاَوْدِیَۃِ وَ رُؤُوْسِ الْجِبَالِ الَّتِیْ لَا مَالِکَ لَھَا۔
جن چیزوں کاتعلق بیت المال سے ہے اور امام کو ان اشیا کا اختیار حاصل ہے وہ یہ ہیں۔۱۔ کافربادشاہوںکی جاگیری زمین (۱؎ )۔۲۔ان کے اموال ۔۳۔ان کے خزانے ۴۔لاوارث کامال۔۵۔ایسی زمینیں،وادیاں اور پہاڑوںکی چوٹیاںجن کا کوئی مالک نہ ہو ۔