خمس کے مصارف کا بیان


خمس کے مصارف

وَ مَصَارِفُھَا کَمَا ذُکِرَ فِی الْقُرْآنِ وَ قَالَ عَزَّوَجَلَّ ’’وَ اعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍی فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِیْ الْقُرْبٰی وَ الْیَتَامٰی وَ الْمَسَاکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ‘‘۔
خمس کے مصارف وہی ہیں جو قرآن پاک میں مذکورہ ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتاہے!جان لو جو چیز تمہیں مال غنیمت میں مل جائے تو بیشک اس میں اللہ ،رسول ؐ،اوررسول ؐکے قرابتدار یتیموں، مساکین اور مسافروںکا پانچواںحصہ ہے۔

۱۔ اللہ کے حصے کا مصرف

فَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَمَصْرَفُہُ اَوْلِیَائُ اللّٰہِ وَ ھُمْ لَا یُوْجَدُوْنَ فِیْ کُلِّ بُقْعَۃٍ مِّنَ الْقُرٰی وَ الْبُلْدَانِ وَ النَّاسُ لَا یَعْرِفُوْنَھُمْ فَاِنْ اَرَدْتَّ اَنْ تَعْرِفَھُمْ فَاعْرِفْھُمْ باِلْکَرَامَاتِ الَّتِیْ دَلَّ عَلٰی صِحَّتِھَا الْقُرْآنُ وَ سِیْرَۃُ الْاَنْبِیَائِ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ کَالْاِخْبَارِمِنَ الْغَیْبِ لِاَنَّ الْغَیْبَ لَا یَعْلَمُہُ اِلَّا اللّٰہُ فَاِذَا اَخْبَرَ اَحَدٌ مِّنَ الْغَیْبِ فَاعْلَمْ اَنَّہُ مِنَ اللّٰہِ فَھُوَ وَلِیُّ اللّٰہِ وَ اِنْ لَّمْ یُوْجَدْ ھٰؤُلَائِ الرِّجَالُ یَجُوْزُ صَرْفُ سَھْمِ اللّٰہِ فِیْ بِنَائِ الْمَسٰجِدِ وَ تَعْمِیْرِھَا وَ سَائِرِ بِقَائِ الْخَیْرِ وَ الْحِیَاضِ وَ الْقَنَوَاتِ وَ الْقَنَاطِیْرِ وَ سَائِرِ الْخَیْرَاتِ۔
جو حصہ اللہ کاہے اسکا مصرف اولیا ءاللہ ہیںاور وہ تمام دیہات اور شہروںکے ہر حصے میں نہیں پائے جاتے اورلوگ ان کو پہچانتے بھی نہیںاگر تم ان کو پہچانناچاہے تو ان کی کرامات سے جان لو جن کے صحیح ہونے پر قرآن پاک اور انبیا ء ؊کی سیرت دلالت کرے مثلاً غیب کی خبردینا اور غیب سوائے اللہ کے کوئی نہیںجانتا اور اگر کوئی غیب کی خبردے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا اللہ سے تعلق ہے او روہ ولی اللہ ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ پائے جاتے ہوںتو اللہ کاحصہ مسجد کی بنیاد رکھنے اور اس کی تعمیر اور نیکی کے مقامات ، تالابوں ، نہروں اور پل کی تعمیر اور دیگر اچھے کاموںکیلئے خرچ کرنا جائز ہے۔

۲۔ رسول ﷺ کے حصے کا مصرف

وَ مَا کَانَ لِلرَّسُوْلِ فَمَصْرَفُہُ اَلْعُلَمَائُ بِاللّٰہِ وَ بِاَحْکَامِ اللّٰہِ وَ بِطَرِیْقِ الْوُصُوْلِ اِلَی اللّٰہِ لِمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَ سَلَّمَ ’’اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ لَاالْجُھَّالُ الْمُتَلَفِّظَۃُ الْمُتَرَسِّمَۃُ الْمُتَشَبِّھَۃُ اَلْسِنَتُھُمْ بِالْعُلَمَائِ۔
جو حصہ رسولؐ کاہے اس کامصر ف وہ علما ء ہیں جو اللہ اور اسکے احکا مات کو جاننے والے ہیں اور اس راہ پر چلتے ہیںجو اللہ تک پہنچتی ہے۔ جس طرح فر مان نبوی ﷺہے کہ کہ علما ہی انبیاؑ کے وارث ہیں۔وہ لوگ نہیں جن کی زبانیں لفظی اور رسمی طور پر علماء سے مشابہت رکھتی ہیں۔

۳۔ قرابتداروں کے حصے کا مصرف

وَ مَا کَانَ لِذِیْ الْقُرْبٰی فَمَصْرَفُہُ السَّادَاتُ وَ ھُمْ بَنُوْ ھَاشِمٍ وَ فِیْ زَمَانِنَا ھٰذَا لَا یُوْجَدُ مِنْھُمْ اِلَّا بَنُوْ عَلِیٍّ وَّ بَنُوْ جَعْفَرٍ وَّ بَنُوْ عَبَّاسٍ فَلَوْ وُجِدَ اِمَامٌ فِیْ الْعَالَمِ مُتَّصِفٌ بِصِفَاتِ الْکَمَالِ حَسَبًا وَّ نَسَبًا لَا رَیْبَ اَنَّ ھٰذِہِ السِّھَامَ الثَّلَاثَۃَ تُصْرَفُ اِلَیْہِ لِاَنَّہُ وَلِیُّ اللّٰہِ وَ خَلِیْفَتُہُ وَ الْعَالِمُ بِاللّٰہِ وَ بِاَحْکَامِہِ وَ بِطَرِیْقِ الْوُصُوْلِ اِلَیْہِ وَ اَقْرَبُ الْاَقْرَبَائِ لِرَسُوْلِہِ۔
جو قرابتداروں کا حصہ ہے اس کامصرف سادات ہیں۔ وہ ہاشم کی اولادیں ہیں اور موجودہ دور میں ان میں سے بنو علی، بنو جعفر اور بنو عباس کے علاوہ نہیںپائے جاتے۔اگرکوئی دنیا میں ایسا امام پالے جو حسب ونسب دونوں لحاظ سے اوصاف کمال سے متصف ہوں تو بلا شک یہ تینوںحصے اس امام کو دیے جائینگے کیونکہ یہ اللہ کا ولی اور اس کاخلیفہ ۔اللہ اور اسکے احکامات کا علم رکھتا ہے اور اس راستے پر ہے جواللہ تک پہنچتاہے، اور رسول اللہ کاسب سے زیادہ قریبی ہے ۔

۴۔ یتیموں کے حصے کا مصرف

وَ مَا کَانَ لِلْیَتَامٰی فَمَصْرَفُہُ الْاَحَقُّ یَتَامٰی آلِ مُحَمَّدٍ اِنْ وُّجِدُوْا وَاِنْ لَّمْ یُوْجَدُوْا فَیَتَامٰی بَنِیْ ھَاشِمٍ وَّ اِنْ لَّمْ یُوْجَدُوْا فَیَتَامٰی اَوْلَادِ الْمُھَاجِرِیْنَ وَ اِنْ لَّمْ یُوْجَدُوْا فَیَتَامٰی اَوْلَادِ الْاَنْصَارِ وَ اِنْ لَّمْ یُوْجَدُوْا فَیَتَامٰی سَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ۔
جو حصہ یتیموں کا ہے اس کا سب سے زیادہ حقدار آل محمد ؊کے یتیم ہیں اگر وہ پائے جاتے ہوں۔ اگر وہ نہ پائے جائیں تو بنی ہاشم کے یتیم حقدار ہونگے ۔ یہ بھی نہ پائے جائیں تو مہاجرین کے یتیم ، اگر یہ بھی نہ ملیں توانصار کے یتیم ہیں ۔اگریہ بھی نہ ملے تومسلمانوں کے تما م یتیم حقدار ہونگے ۔

۵۔ مساکین کے حصے کا مصرف

وَمَا کَانَ لِلْمَسَاکِیْنِ فَمَصْرَفُہُ مَسَاکِیْنُھُمُ الْاَحَقُّ فَالْاَحَقُّ کَالْیَتَامٰی۔
جو حصہ مساکین کاہے۔ اس کامصرف یتیموںکی طرح سب سے زیادہ حقدار اور پھر حقدار مساکین ہیں۔

۶۔ مسافروں کے حصے کا مصرف

وَ ابْنُ السَّبِیْلِ کَذَالِکَ لِاَنَّ الزَّکٰوۃَ حَرَامٌ عَلَیْھِمْ فَلِذَالِکَ خَصَّھُمُ الرَّسُوْلُ بِالْخُمُسِ وَ الْخُمُسُ لَا یَتَکَرَّرُ بِتَکْرَارِ الْحَوْلِ بَلْ یَکُوْنُ مَرَّۃً وَّاحِدَۃً مِّنْ کُلِّ مَا یُخَمَّسُ۔
مسافر بھی اسی طرح (آل محمدکے یتیموں کا) ہے کیونکہ ان پر زکوٰۃ حرام ہے۔ اسی لئے رسول ﷺ نے خمس کو ان کیساتھ مختص فرمایا ہے۔ سال کے تکرار پر خمس دوبارہ واجب نہیں، جن سے خمس نکالاجائے اس پرصرف ایک دفعہ واجب ہے۔