تقدیرات پر اعتقادکا بیان


تقدیرات پر اعتقادکا بیان
وَیَجِبُ اَنْ تَعْتَقِدَاَنَّ التَّقْدِیْرَاتِ الْاَزَلِیَّۃَ مُحِیْطَۃٌ بِمَا کَانَ وَمَایَکُوْ نُ مِنَ الْکُلِیَّاتِ وَالْجُزْئِیَّاتِ بِحَیْثُ لَوْ سَقَطَتْ وَرَقَۃٌ مِنْ شَجَرَۃٍ لَمْ یَکُنْ اِلَّا بِقَدْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی شَانُہ‘ وَ مَنْ کَا نَ مُتَشِکِّکًا فِیْ ھَذَا الْکَلِمَۃِ الْمُحَقِّقَۃِ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّتَعَلَّمَ النُّجُوْمُ لِیَعْلَمَ یَقِیْنًا مِنْ تَجِرْبَۃِ اَحَکَامِ الْمَوَالِیْدِ اَنَّ کُلَّ صَغِیْرٍ وَ کَبِیْرٍ مُسْتَطَرٌ وَ تَجْرِبَۃُ اَحْکَامِ الْمَوَالِیْدِ تُوْ جِبُ یَقِیْنًا کَامِلاً شَامِلاً فِی الْقَدْرِ لِاَنَّ الْحَکِیّمَ الْکَامِلَ الْمُتُبَحَّرَ فِیْ عِلْمِ النُّجُوْمِ یَحْکُمُ عَلٰی الْمَوْلُوْدِ الَّذِیْ یَرْصُدُ دَرَجَۃَ طَابِعِہِ وَدَقِیْقَتِہِ بِاَنَّہ‘ عَالِمًاکَا نَ اَوْجَاھِلاًصَالِحًا اَوْ فَاسِقًا غَنِیًّا اَوْفَقِیْرًا خَیْرًاَوْشَرِیْرًا حَاکِمًا اَوْ مَحْکُوْمًا عَزِیْزًا اَوْ ذَلِیْلاً طَوِیْلاًعُمْرُہ‘ اَوْقَصِیْرًابَخِیْلاً اَوْ سَخِیًّا سَعِیْدًا اَوْ شَقِیًّا وَاللّٰہ‘ سُبْحَانَہ‘ وَتَعَالٰی یَقُوْلُ فِی الْکِتَابِ الْکَرِیْمِ وَالشَّمْسُ تَجْرِ یْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا ذَالِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ وَیَقُوْلُ اللّٰہ‘ تَعَالٰی شَانُہ‘ یُدَبِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلٰی الْاَرْضِ۔
یہ عقید ہ واجب ہے کہ تقدیرات ازلیہ کلیات وجزئیات میں سے جو کچھ ہونگے، اورجو کچھ ہونیوالے ہیں سب پراس طرح محیط ہیں کہ اگر کسی درخت سے کوئی پتہ گرے تو یہ تقدیر الہی جل شانہ ہی سے گرا ہے اگر کسی کواس کھلی ہوئی بات میں کوئی شک ہوتو اس پر واجب ہے کہ علم نجوم سیکھے تاکہ احکام موالید پر تجربے کے ذریعے اس کو یقینی علم حاصل ہو جائے کیونکہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز مسطور ہیں اور احکام موالید پر تجربے سے یہ یقیں کامل ہوجائے تاکہ یہ چیز تقدیر میں شامل ہے کیونکہ وہ حکیم کامل جو علم نجوم میں غوطہ زن ہے وہ کسی بھی نومولود عالم ہویا جاہل نیکوکار ہوگا یا گنہگار، امیر ہو یاغریب، اچھائی کرنے والا ہوگا یا شررات کرنے والا، حاکم بنے گا یا محکوم، باعزت بنے گا یا بےعزت لمبی عمر پائے گا یا چھوٹی عمر، کنجوس ہوگا یا سخی، نیک بخت ہوگا بخت اللہ جل شانہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔’’اور سورج بھی اپنے مقررمدار میں چلتا ہے یہ عزت وعلم والا اللہ کی جانب سے مقرر کردہ اندازہ ہے‘‘ اسی طرح ایک جگہ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے ’’اللہ ہی آسمان سے زمین تک کے امور کی تدبیر کرتا ہے‘‘

خیروشر پر اعتقاد کی نوعیت
وَمَنْ اَضَافَ السَّیِئَاتِ اِلٰی نَفْسِہِ رَعٰی صُوْرَۃَ اَدَبٍ وَھُوَ مُحِقٌّ مِنْ وَجْہٍ اِنْ لَمْ یَکُنْ مَفْرِطًا فِیْ جَھْلِہٖ مُتَعَصِّبًا مُکَفِّراً لِمَنْ یَقُوْ لُ کَلِمَۃًمُحَقِّقَۃً مُطَابِقَۃً لِلْوَاقِعِ فَمَنْ یَقُوْلُ اِنَّ الْخَیْرَ وَالشَّرَّ مِنْکَ وَمَنْ یَقُوْلُ مِنَ اللَّہٖ وَمَنْ یَقُوْلُ مِنْکَ وَمِنْہٗ فَفِیْ الْمِثَالِ یَتَبَیَّنَ اَنَّ الْاِخْتِلَافَ لَفْظِیٌّ وَمِثَالُہٗ انک کبستان اشجار ونجوم ومایفیض علیک من اللہ کنھرماء یسری فیھا فمن قال حلاوۃ الفواکہ ومرارتھا من الماء لان الماء ان لم یسر فیھا لایحصل شئی من الثمار صدق ومن قال الماء ذوطعم واحد والاثمارذات حلاوۃ و مرارۃ و حموضۃ وھذاالصفات لیست فی الماء والماء منزہ عنھا وھذہ الصفات من الاشجارصدق
ومن قال ان لم یسرالماء فیھا لم تجد شیئامن الھلاوۃ والحمو ضۃ وان لم تجد ایضا شیئا من الحلاوۃ والحمو ضۃ عرفنا ان ھذہ الصفات من کلیھما صدق ’’قل الحق وان کان مرا‘‘ وفی القران وردکلھا مرۃ یقو ل ’’مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتا ب من قبل ان نبرئھا ان ذالک علی اللہ یسیر‘‘ و یقو ل ایضا ’’قل لن یصیبنا الاماکتب اللہ لنا ھو مولینا وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘ و مرۃ یقو ل ’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘ و مرۃ یقول من عمل ’’صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیھا‘‘ ومرۃ یقول ’’وما تو فیقی الا باللہ علیہ توکلت وھورب العر ش العظیم‘‘
اگر کوئی بُرائیوں کی نسبت اپنی طرف کرے تواس مودبانہ صورت کی رعایت کی وہ ایک طرف سے حق گو ہے بشرطیکہ وہ اپنی جہالت میں تفریط کا شکارنہ ہو۔ نہ ہی تعصب کرنے والا ہو اورنہ ہی واقع کے عین مطابق کلمہ محققہ کہنے والے کو کفر کی طرف نسبت دینے والا ہو پس جوشخص کہتا ہوکہ خیروشر تمھاری طرف سے ہے اور جو کوئی کہے کہ اللہ کی طرف سے ہیں اور اگر کوئی کہے کہ بند ہ اور اللہ دونوں کی طرف سے ہیں مثال سے واضح ہو جاتاہے کہ یہ اختلافات لفظی ہیں اس کی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ تم درختو ں اور پودوں سے بھرے ایک باغ کی طرح ہے اور اللہ کی طرف سے تم پر جو جو نشانی ہوئی ہے وہ باغ کی نہر ہے جو اس باغ میں چلتی ہے اگر کوئی کہے کہ پھلوں میں مٹھاس اور کڑواہٹ پانی کی وجہ سے ہے کیونکہ اگر پانی اس میں سرایت نہ کر جاتا توپھلوں کا حصول ہی نہ ہوتا۔ تواس نے سچ کہا (اسی طرح)اگر کوئی کہے کہ پانی توایک ہی ذائقہ رکھتا ہے جبکہ پھلوں میں مٹھاس، کڑاوہٹ، کٹھاس دونوں ہیں اور یہ تینوں صفات پانی میں نہیں ہیں اور پانی ان تینوں صفات سے دورہے اورپھلوں میں یہ تینوں صفات اپنی پھلوں کی وجہ سے ہیں تواس نے (بھی)سچ کہا.

(اسی طرح)اگرکوئی کہے کہ اگر باغ میں پانی جاری نہ ہوتا تو پھلوں میں نہ مٹھاس پایا جاتا نہ ہی کٹھاس اسی طرح اگر یہ پھلدار درخت نہ ہوتے اور پانی کسی نالے میں بہہ رہا ہوتا توبھی پھلوں میں مٹھاس اورکٹھاس کا وجود نہ ہوتا چنانچہ اس مثال سے واضح ہواکہ یہ صفات دونوں کی طرف سے ہیں تواس نے بھی سچ کہا حق کہو اگر چہ وہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو قرآن پاک میں یہ تمام صورتیں وارد ہوئی ہیں ایک جگہ فرمایا ’’مصائب میں سے جو کچھ تم زمین میں یا اپنے نفس وںمیں پائے کہو یہ سب کتاب مبین (لوح محفوظ) میں موجود ہیں قبل اس کے کہ ان مصائب کا وجود ہو بے شک یہ امر اللہ کیلئے بہت آسان ہے ایک جگہ یوں فرمایا ’’میرے حبیب کہہ دیجئے کہ ہمیں جو کچھ مصائب کا سامنا ہوتا ہے وہ سب اللہ تعالی ہی کا لکھا ہے پس مومنوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کرے ایک جگہ یوں فرمایا وان لیس للانسا ن الاماسعی بے شک انسا ن کے لئے وہی ہے جس کے لئے وہ محنت کرے. ایک جگہ یوں فرمایا:من عمل مالھا جس نے نیک عمل کیا وہ اسی کے لئے ہے جس نے بُرائی کی وہ اسی کیلئے ہی وبال ہے ایک جگہ یوں فرمایا ’’اللہ ہی پربھروسہ کرکے ہمیں توفیق حاصل ہوتی ہے اسی پر میں نے توکل کیا اوروہ عرش عظیم کارب ہے‘‘

تقدیر، مقدورات، مقدرات
و اعلم ان من قال ان اللہ قادرمختار صدق لان ماصدرمنہ سبق علیہ علمہ وارادتہ ومایصدرمنہ شئی الا علی طبق علمہ وارادتہ فلاریب انہ مختار فی افعالہ و من قال انہ وجب بالذات صدق لانہ اوجب علی کل شئی من السموات و الارضین وما فیھما مایختص بہ من المنافع والمضار و غیر ھا وکان ذالک الایجاب فی الازل والمتشرعۃ یسمونہ التقدیر
واضح رہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی مکمل قدرت رکھنے والا اور خود مختار ہے تو صیحح کہتا ہے کیونکہ کچھ دست قدرت سے صادر ہوچکا ہے ان سب پر اللہ کاعلم اور ارادہ پہلے ہی تھا اور جو کچھ اب صادر ہونگے وہ بھی اللہ کے علم اور ارادے کے مطابق ہونگے پس کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ اپنے افعال میں مختار ہے اگر کوئی کہے کہ وہ تو موجب بالذات ہے وہ بھی سچ کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ہی نے آسمان وزمینوں اور ان کے مابین موجود ہر چیز کیسا تھ اس کا نفع اور نقصان وغیرہ مختص کر دیا ہے اور ایجاب کا یہ عمل روز ازل کو ہی ہوچکا ہے اہل سنت اس عمل کوتقدیر کانام دیتے ہیں۔
’’وسنۃاللہ التی قدخلت من قبل و لن تجد لسنت اللہ تبدیلا‘‘ واللہ تعالی علم ماکا ن ومایکون واراد و قدر واوجب ولایجوز لہ خلاف ماقدر فی الازل فکان موجبا بالذات ولابدایۃ لذاتہ وصفاتہ فیتحقق ان ما لم یکن مقدرا لم یکن مقدورا و ماکان مقدورا کان مقدرا فما شاء فعل وماشاء ترک فی الازل وعلی طبق المشیۃ الازلیۃ یظہرمایظہر فی ای زمان ارادہ فی الازل ومازعم القشریۃ ان الایجاب ینافی القدرۃ والاختیار باطل لان القدرۃ تنحصرعلی المقدرات وہی المقدرات والقدرۃ لاتتناول المحالات وعند المحققین مالم یکن مقدرا کا ن محالا وہو فعال لما یرید و لم یکن فعالا لما ترید فمن یغوص فی بحر معرفۃ الذات والصفات بالعقل الجزئی الرسمی کالعلماء القشریہ یغلط لان العقل قاصر عن معرفۃ شئی لیس لہ جنس ولافصل لیحد بھما ومن ثم انصف القاضی ناصرالدین البیضاوی وقال الاطناب فی ذالک قلیل الجزوی لان کنہ ذاتہ و صفاتہ محجو ب عن نظرالعقول لکن اکابرالانبیاء وکمل الاو لیاء بحکم ’’وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ‘‘ ایتمروا باالمجاھدات ونالوا ھدایۃ سبیل اللہ علی طبق ’’و الذین جاھدوافینالنھدینھم سبلنا‘‘
’’یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پہلے بھی رہی تھی اور اے حبیب تواللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے اور اللہ تعالیٰ ماکان ومایکون کامالک ہے وہ ارادہ کرتا ہے تقدیر بنتا ہے اور (اس تقدیر کے مطابق) لازم قراردیتا ہے اور کچھ ازل کے روز مقرر بن چکا ان کی مخالفت کا امکا ن نہیں۔ لہٰذااللہ ہی موجب بالذات ہواہے اس کی ذات اور صفات کی کوئی مبتدا نہیں ہے پس واضح ہوا کہ جوچیز مقرر نہیں ہے وہ مقدور بھی نہیں او ر جو مقدور ہے اس کی تقدیر ضرور لکھی ہو ئی ہے (اللہ ہی نے) روز ازل کو جوچاہا کردیا اور جو چاہا چھوڑ دیا اور مشیت الہی کے مطابق منصہ شہود کسی بھی زمانے میں ہر وہی چیز ظاہر ہوتی ہے جس کے ظہور ہونے کا ارادہ روز ازل کواللہ نے فرمایا ہو تا ہم قشریو ں کا یہ کہنا ہے کہ اشیاء ان لوازمات کا سونپنا قدرت اور کے منافی ہے بالکل ہی باطل قول ہے کیونکہ قدرت صرف مقدورات میں ہی منحصر ہے وہ مقدرات ہیں اور محالات (ناممکن) میں قدرت کا عمل دخل نہیں ہوتا اور محققین کا کہنا یہ ہے کہ جو چیز مقدورنہیں ہے وہ محال ہے جبکہ اللہ تعالی وہی کام کرنے والا ہے جسے وہ چاہتا ہے وہ ایسا نہیں کہ جوتو چاہے وہ کرے اسی لئے اگر کوئی قشری علماء کی عقل جزئی کے ذریعے اللہ کی ذات اور صفات معرفت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جائے وہ غلطیا ں کرے گا کیونکہ عقل الٰہی ایسی چیز کی سمجھ سے قاصر ہے جس کا کوئی جنس اور فصل نہ ہو تا کہ دونوں کوممتاز بنایا جاسکے اسی موضوع پر قاضی ناصرالدین بیضاوی نے انصاف کی بات کی اور کہا کہ اس بارے میں طویل بحث کے فائدے کم ہیں کیونکہ اللہ کی ذات اورصفات کی سمجھ عقلوں کی نظر سے مخفی ہے تاہم اکابرانبیاء اور کامل اولیاء اس حکم خداوندی کے تحت کہ اللہ کی راہ میں ایسا مجاہدہ کیاکرو کہ حق ادا ہو جائے انہوں نے مجاہدات کا ارادہ کیا اور مطابق وہ لوگ جنہوں نے ہماری راہ مجاہدہ کیا ہم انہیں ضرور راستہ دکھاتے ہیں کے تحت اللہ کی سیدھی راہ پائی
فو صلواالی المکاشفات الملکیۃ والمشاھدات الملکوتیۃ والمعاینات الجبروتیۃ والتجلیات الاھوتیۃ واستغرقوا کالقطرۃ فی بحرالاحدیۃ و فنوافی اللہ و بقوا باللہ واتصفوا بصفات اللہ بحکم ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کما ورد فی الحدیث القد سی ’’لایزال العبد یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ و بصرہ ویدہ و رجلہ و لسانہ فبی یسمع وبی یبصر و بی یبطش و بی یمشی وبی ینطق فمن کا ن بصر ہ اللہ لہ فھو یراہ‘‘
پس ایسی ہستیا ں عالم ملک کے مکاشفات، عالم ملکوت کے مشاہدات عالم جبروت کے معاینا ت اور عالم لاہوت کے تجلیات تک پہنچ گیں اور وہ لوگ عالم احدیت کے سمندرمیں قطرہ آب کی طرح غرق ہوگئے وہ اللہ کی ذات میں فنا ہوگئے اللہ کے حکم سے باقی ہوگئے اور تخلواباخلاق اللہـ،، اللہ کی صفات کو اپناؤ کے تحت صفات خداوندی سے متصف ہو گئے جس طرح حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے کہ ’’بند ہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے حقیقی محبت کرتا ہو ں تو میں اس کا کان اس کی آنکھ ،اس کا ہاتھ ،اس کا پاؤں اور اس کی زبان بن جاتا ہوں پس وہ بندہ میرے ذریعے سنتاہے میرے ذریعے دیکھتا ہے میرے ذریعے پکڑتا ہے میرے ذریعے چلتا ہے اور میرے ذریعے بولتا ہے اورجب اللہ جس شخص کی آنکھ کے منزلہ پہ آجائے تو وہ اسے دیکھتا ہے ‘‘