آج کا مخلوط معاشرہ اور مرد اورعورت کی ذمہ داریاں


تحریر بختاور ظہیر شگری


مخلوط معاشرہ
اختلاط کا مطلب میل جول ہے۔دین کا مقصدتزکیہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان پاکیزہ بنے۔ اس میں شرم و حیا بھی موجود ہو، خدا خوفی بھی ہو اور پاکیزہ نفسی بھی ہو۔
چنانچہ اصل بات یہ ہے کہ غیرمحرم افراد کا میل جول کسی معقول وجہ ہی سے اور کسی مقصد ہی کے لیے ہونا چاہیے، خواہ مخواہ اور محض گپ شپ کی خاطر یہ درست نہیں ہے۔ مرد اور عورت اپنی ساخت ہی کے اعتبار سے اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی رغبت پیدا ہو، لہٰذا خواہ مخواہ میل ملاقات کے مواقع پیدا کرنا اور گفتگو کرنا، کسی صورت میں بھی درست نہیں، لیکن اگر کسی واقعی ضرورت یا مجبوری کے تحت غیر محرم افراد کو باہم ملنا جلنا پڑے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ غض بصر اور حفظ فروج کے ان آداب کو ملحوظ رکھا جائے جو اسلام نے بتائے ہیں۔
غامدی صاحب نے اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت‘‘ میں ان آداب کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’اسلام نے اختلاط مرد و زن کے درج ذیل آداب سکھائے ہیں:
۱۔ ایک دوسرے کے گھروں میں جانے کی ضرورت پیش آ جائے تو بے دھڑک اور بے پوچھے اندر داخل ہونا جائز نہیں ہے ۔ پہلے اجازت مانگنی چاہیے۔
نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ اجازت عین گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور اندر جھانکتے ہوئے نہیں مانگنی چاہیے ، اس لیے کہ اجازت مانگنے کا حکم تو دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ گھر والوں پر نگاہ نہ پڑے ۔
۲۔ عورتیں اور مرد ایک دوسرے سے اپنی نظریں بچا کر رکھیں ۔ نگاہوں میں حیا ہو اور مردو عورت ایک دوسرے کے حسن و جمال سے آنکھیں سینکنے ، خط و خال کا جائزہ لینے اور ایک دوسرے کو گھورنے سے پرہیز کریں۔ نہ وہ باہم نگاہ بھر کر دیکھیں اور نہ اپنی نگاہوں کو ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے بالکل آزاد چھوڑ دیں۔ اس طرح کا پہرا اگر نگاہوں پر نہ بٹھایا جائے تو نبیﷺکے الفاظ میں یہ آنکھوں کا زنا ہے۔
[http://www.javedahmadghamidi.com/books/view/ghair-mehram-say-ikhtala ۔]
۳۔عورت و مرد کاا ختلاط ناجائز ہے ۔اور جہاں مرد و عورت کی باہمی اختلاط اور بے پردگی کی محفل جمی ہو وہاں شریف زادیوں کا شرکت کر نا جائز نہیں ہے ۔
۴۔بے پردگی اور بے راہ روی کے خلاف آواز بلند کر نا ہر مؤمن و مؤمنہ کا شرعی فریضہ ہے ۔
۵۔عورتوں کی محفل و مجلس میں نا محرم مرد کا داخل ہو نا یا نا محرموں کا مدعو کرنا کہ جہاں پردہ دار بی بیوں کی خاص نشست ہو ناجائز ہے۔
[مقالہ’حجابِ اسلامی” ہر حال میں ہر عورت کے لئے پردے کی حفاظت لازم]www.erfan.ir/31520.html۔[
زمانے کے اہل تقویٰ اور اہل دین کے لیے شیطان نے بد نگاہی کا جال خاص طور پر ڈالا ہوا ہےکیونکہ اس فتنہ میں ظاہری موانع کم ہیں اس لیے نفس کو شیطان جلد ہی اس فتنے میں مبتلا کر دیتا ہے۔لیکن جس طرح ایک شفیق باپ یہ چاہتا ے کہ میرے بیٹے عزت سے رہیں اور کسی بد فعلی میں ذلیل نہ ہوں تو خدا کی رحمت غیر محدود بھی یہ چاہتی ہے کہ میرے بندے کسی ذلیل فعل سے حقیر اور رسوا نہ ہوں اور اہل تقویٰ کیساتھ رہ کر با عزت زندگی گزارے،حلال پر اکتفا کریں اور حرام سے پرہیز کریں اور جب اہل دنیا، دنیا کی لذتوں سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں تو میرے خاص بندے میری عبادت اور میرے ذکر کی لذت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور یہ ٹھنڈک دائمی ہے۔
مگر افسوس کہ ہم ان آنکھوں سے ہر نا جائز اور ممنوع چیزیں دیکھنے میں اس طرح محو ہو گئے کہ اب تو اسکی برائی بھی ہمارے دلوں سے نکل چکی ہے اور اب تو یہ احساس بھی باقی نہیں رہا کہ یہ بھی کوئی مذموم اور گناہ کی چیز ہے۔
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں کہ:
النظر سھم من سھام ابلیس مسموم و کم نظرہ اورثت حسرۃ طویلۃ
نگاہ لذت شیطان کے زہر آلود ہ تیروں میں سے ایک تیر ہے، کتنی ہی ایسی نگاہیں ہیں جو اپنے ساتھ حسرت اور تاسف لاتی ہیں۔
ایک اور حدیث ہےمیں ہے کہ:
زنا العینین النظر
نگاہ لذت دونوں آنکھوں دونوں آنکھوں کا زنا ہے۔[ حرام نگاہ ،ص۱۱۔]
کسی پر بھی لذت کی نگاہ کرنا حرام ہے ( ہمسر کے علاوہ) اگرچہ محرم پر ہی کیوں نہ کی گئی ہو، خواہ مرد پر ہو یا زن پر، حیوان پر ہو یا جماد پر، تصویر پر ہو یا فلم پر ، مجسمہ ہو یا اس طرح کا کچھ بھی، حتیٰ کہ اپنے بدن پر بھی لذت کی نگاہ کرنا حرام ہے۔[ معیار ہای احکام،ص۱۱۲۔]
۱:نا محرم مرد اور عورت
اسلام میں مرد اور عورت کے رشتے یا تعلق کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
۱۔محرم ۔
۲۔نا محرم۔
محرم مرد سے مراد:
محرم ہمارے نزدیک ترین رشتے کو کہا جاتا ہے، جس سے شادی کرنا ہمیشہ کے لئے ممنوع ہوتا ہے،جیسے ماں ، باپ، بہن ،بھائی۔
جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً۔ [سورہ نساء آیت ۲۲۔]اوروہ جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سےنکاح مت کرنا (مگر جاہلیت میں) جو ہوچکا (سوہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخوشی کی بات تھی۔ اور بہت برا دستور تھا”
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَآئِكُمُ اللاَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ الأُخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا؛ [سورہ نساء آیت ۲۳ ۔]تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے”
محرم سے مراد:
نا محرم وہ ہوتا ہے جس سے معاشرت میں حد شرعی اور عرفی رکھی گئی ہے ، جس سے شادی جائز ہوتی ہے،اور ازدواج کے ذریعے اس محدودیت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
مرد کا پردہ:
حجاب ضروریات دین میں سے ہے اور ہر ایک پر واجب ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ مرد اور عورت کے حجاب کرنے کی حدود میں فرق ہے۔ احکام شرعی کو بنیاد بناتے ہوئے ہم یہ بات جانتے ہیں کہ مرد کا حجاب اسکی نگاہ کا حجاب ہے۔ مرد کو چاہئے کہ وہ عورت پر لذت کی نگاہ سے پرہیز کرے۔
سورہ نور کی میں اللہ کا ارشاد ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِـمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُـمْ ۚذٰلِكَاَزْكـٰىلَـهُـمْۗاِنَّاللّـٰهَخَبِيْـرٌبِمَايَصْنَعُوْنَ۔[ سورہ نور آیت ۳۰]
“ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں،یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔”
خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت بینائی ہے، انسان کو چاہئے کہ اس عظیم نعمت سے اپنے اور اپنے ہم جنسوں کی ترقی وکمال کی راہ میں استفادہ کرے اور نامحرموں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرے۔ نظام قدرت اور اس کی خوبصورتی کو دیکھنے میں اگر دوسروں کی حق تلفی نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن دوسروں پر نظر ڈالنے کے کچھ خاص احکام ہیں۔[ گاہ محرم و نا محرم و ازدواجhttp://ahlulbaytportal.net/۔]
اسلام میں نگاہ کرنے کے حوالے سے مرد کے لئے حکم پہلے آیا ہے اور عورت کے لئے بعد میں آیا ہے۔
نگاہ کرنا دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک نگاہ وہ ہے جو محرم پر کی جائے اور ایک نگاہ وہ ہے جو نا محرم پر کی جائے، اور اس میں بھی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔
۱۔ لذت کی نگاہ۔
۲۔ بغیر لذت کی نگاہ۔
لذت کی نگاہ صرف ہمسر کے لئے جائز ہے جب کہ باقی سب کو اگر لذت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ حرام ہے۔
جہاں تک تعلق ہے بدن پر نگاہ کرنے کا تو وہ چاہے لذت کے قصد سے ہو یا بغیر لذت کے، حرام ہے۔
عورت کا پرددہ
اللہ نے عورت کو خوبصورت اور ظریف بنایا ہے،یہ خصوصیت اس بات کا موجب بنتی ہے کہ مرد عورت کی طرف نگاہ کرتا ہے اور متوجہ ہوتا ہے۔اس لئے عورت کو چاہئے کہ آج کے مخلوط معاشرے میں وہ اپنی حفاظت کرے تاکہ نا محرم کی حرام نگاہ سے بچ سکے۔دو صفات حیا اور عفت بہترین اوزار ہیں حفاظت کے لئےاور یہ عورتوں کے لئے نعمت ہےجسے عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ دیا گیا ہے،حیا اور عفت کا مطالبہ یہ ہے کہ عورت خود کو ڈھانپ کر باہر معاشرے میں قدم رکھے اور حجاب اسلامی کی رعایت کرے۔
خاندان کی حرمت کی حفاظت کے لئے تمام گھر والوں کا وظیفہ ہے کہ حجاب کی رعایت کی جائے۔ اس سے بے توجھی خاندان کی حرمت کی طرف ناپاک نگاہ کا موجب بنتی ہے۔
قرآن کریم میں فوائد حجاب کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حجاب پاکدامن عورت کو ناپاک عورتوں سے جدا کرتا ہے۔
حجاب عورت کی شخصیت کی حفاظت ،جوانوں کو منحرف ہونے سے بچانے اور فساد سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے۔ بغیر کسی شک کے حجاب مسلمات اسلام میں سے ہے اور تمام فقھاء اسلام کا اس پر اتفاق ہےاور ہر حالت میں بد حجابی اور بے حجابی شریعت مقدسہ کے خلاف ہے۔ حجاب ضروریات دین میں سے ہے اور اسے قرآن سے لیا گیا ہے اور تمام مذاھب اسلامی اسے قبول کرتے ہیں۔[ حدود-شناسی-حجاب-و-پوشش-اسلامیhttp//www.mehernews.com/۔]جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
‏.وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ” [سورہ نور ، آیت ۳۱}اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور سسر اور بیٹیوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیورمعلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ “.
اس آیت میں با ایمان عورتوں کو حکم ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور عام طور پر ظاہر ہونے والی زینتوں کے سوا‎ئے دوسری زیتوں کو ظاہر نہ کریں اور اپنی چادر کو اپنے گریباں پر ڈال دیں اور زینت کو بعض معین افراد (جو آیت میںذکر ہو‎ئے ہیں) کے لئے ظاہر کریں اور اپنے پاوں کو ایسے زمین پر نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہوجا‎ئے: یہ آیت فقہاء کے لئے حجاب کے وجوب ثابت کرنے اور اس کے حدود اور دا‎ئرہ کو معین کرنے کے لئے مہم مستند ہے۔ اور حجاب کی بحث احادیث میں بھی اس آیہ شریفہ بالخصوص اس کلمہ «اِلّاماظَہرَ» ( ظاہری زینت) کی تفسیر کے حکم میں ہے اور ان کی طرف نگاہ کرنے کے حکم میں ہے۔. البتہ کبھی کبھار دوسری آیات سے بھی استناد ہوا ہے۔ جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 جس میں تبرج (زینت) سے منع ہوا ہے اور اسی طرح سورہ نور کیآیت نمبر 30 اور 31 آیہ جلباب۔. بعض احادیث میں حجاب کے دوسرے پہلو کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے جیسے عمر رسیدہ خواتین کا حجاب، بلوغ کے بعد حجاب کا وجوب، یا بعض خاص قسم کے مرد یا نابالغ بچوں سے حجاب۔[ حجابhttp://ur.wikishia.net/view/۔]
اس آیت کے ذیل میں یہ بات روشن ہے کہ حجاب کی اسلام میں کس قدر اہمیت ہے۔
ایک اور آیت میں آیا ہے:
‏يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [ سورہ احزاب آیت ۵۹۔] اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں۔ یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔
عربی زبان کے ماہرین اور مفسروں نے جلباب کے لئے مختلف معانی ذکر کئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
۱۔سر سے پا‎‎‎ؤں تک ‎ڈھانپنے والا لباس جیسے بڑی چادر
۲۔وہ ڈھیلا لباس جو عورتیں کپڑوں کے اوپر پہنتی ہیں جو پاوں تک پہنچتا ہے۔
۳۔لحاف، مقنعہ اور سکارف جو عورت کا چہرہ اور سر کو ‎ڈھانپ لیتا ہے۔
بعض روایاتسے اخذ ہوتا ہے کہ مردوں کے بعض کپڑوں کو بھی جلباب کہا جاتا ہے۔ اس آیہ شریفہ کے حکم میں جلباب سے مراد پورا بدن ‎ڈ‎ھانپنے والا (جیسے چادر یا لحاف) کپڑا ہونے کا احتمال قوی ہے۔
«ذلک اَدْنی اَن یعْرَفْنَ» یعنی مؤمن عورتیں کن لوگوں سے پہچانی جا‎ئیں اس بارے میں مفسروں کے مابین ایک نظریہ نہیں ہے۔ بعض لوگ آیت شریفہ کی شأن نزول کو مدنظر رکھتے ہو‌‎ئے کہتے ہیں کہ مدینہ کی خواتین کو آوارہ لوگوں کی طرف سے بری حرکات اور آداب و نزاکت کے دا‎ئرے سے باہر کی حرکتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اعتراض کرنے پر ان کی طرف سے کنیز سمجھ کر مرتکب ہونے کا عذر پیش کرنے کی وجہ سے جلباب، آزاد عورتوں کو کنیزوں سے پہچاننے اور آوارہ لوگوں کی اذیت اور آزار سے بچنے کے لئے وسیلہ قرار دیا گیا۔. اگرچہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کنیزوں کو چھیڑنے سے شارع راضی ہو۔
ان کے مقابلے میں بعض مفسروں کا کہنا ہے کہ جلباب پہننا دوسری عورتوں کے مقابلے میں پاکدامن اور باعفت خواتین کی نشانی ہے۔جبکہ اہل سنت کے بہت سارے مفسرین اور فقہا‌ءاور بعض شیعہ مفسرین اور فقہا‌ء نے بھی حجاب کے الزامی ہونے کو آیہ جلباب سے تمسک کیا ہے۔، جبکہ بعض اور فقہاء کی نظر میں اس آیہ میں یہ حکم نہ واجب ہے اور نہ ہی عام، بلکہ جلباب عورتوں کو پاکدامن اور «آزاد»دکھانےاورانکی شخصیت محفوظ کرنے کا ایک وسیلہ ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے مدینہ کی بعض خواتین نے اس کا استقبال کیا۔
اس آیت سے بھی حجاب کی اہمیت واضح ہے، کہ اسلام نے کس قدر حجاب کو پسند کیا ہے۔
بہت سی روایات بھی موجود ہیں جو عورت کو یہ سمجھاتی ہیں کہ حجاب کی کس قدر حیثیت ہے۔
۱:مرد اور عورت کے درمیاں کلام اور گفتگو کی حدود
آج کے معاشرے میں جہاں مرد اور عورت مل کے کام کرتے ہیں کسی ادارے میں ہو یا کسی بازار میں گفتگو کرنی پڑتی ہے، مگر اسلام نے کچھ خاص حدود بتائی ہیں کہ جن کا خیال کرتے ہوئے ہم نا محرم سے فقط کام کےسلسلے میں بات کر سکتے ہیں۔
عورت اور مرد کے درمیان پردہ اور فاصلے کا ہونا ضروری ہے، اگر ایسا نہ ہو اور آوارگی کے ساتھ رہنے سہنے کو اگر کھلی چھوٹ دی جائے تو جنسی خواہشات بھڑکیں گی، جسکا نقصان اس معاشرے کو اٹھانا پڑے گا۔ [پردہ اور حجاب،ص۳۵۔]
امام محمد باقر ؑ کا فرمان ہے:
“نا محرم سے گفتگو کرنا شیطان کے قدم پر قدم رکھنا ہے”
رسول اللہ ﷺ کی ازواج سے کہا گیا:
جب امت کے مردوں سے بات کرو تو بات میں خضوع نہ ہو۔ رفعق اور نرم کلام نہ ہو۔ میٹھی اور سریلی آواز سے بات نہ کرو جیسے عورتوں کی جبلت میں نرم کلامی ہوتی ہے ۔
کیونکہ رسول اللہﷺ کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے تھے۔ منافق فاجر بھی آتے تھے۔ پھر حضور ﷺ کی وفات کے بعد زیادہ احتمال ہے کہ ایسے لوگ ازدواج مطہرات کے پاس مسائل دریافت کرنے کو آئیں اسلئے اللہ تعالیٰ نے ان بیبیوں کو ارشاد فرمایا۔[ عورت و مرد مقام اور ذمہ داریاں،ص۸۷۔]
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚإِنِاتَّقَيْتُنَّفَلَاتَخْضَعْنَبِالْقَوْلِفَيَطْمَعَالَّذِيفِيقَلْبِهِمَرَضٌوَقُلْنَقَوْلًامَّعْرُوفًا[سورہ احزاب آیت ۳۲۔]
“اے نبی ﷺ کی بیویو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو نرم لہجے میں بات نہ کرنا ، کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑھ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو”
معاشرتی روابط میں اہم مسئلہ گفتگو کا ہے، جب ہم معاشرے میں نکلتے ہیں تو کسی نا کسی وجہ سے نا محرم سے صحبت کرنی پڑتی ہے ، مثلاً خرید و فروخت میں، دفاتر میں، تعلیم حاصل کرنے میں، اسکے علاوہ اور بھی بہت سی جگہوں پر نا محرم سے بات کرنا پڑتی ہے۔ اسلام نے اس سب سے منع نہیں کیا مگر کچھ احکام بتائے ہیں جیسا کہ رسول ﷺ کا فرمان ہے:
فَمَا مِنْ رَجُلٍ خَلَا بِامْرَأَةٍ إِلَّا کَانَ الشَّیطَانُ ثَالِثَهُمَا؛[ دعائم الاسلام،ج 2، ص 214، ح 788۔]
“ کوئی بھی مرد کسی بھی نا محرم سے خلوت نہ کرے ۔ کیونکہ شیطان ان کے درمیان تیسرا فرد ہے”
امیر المؤمنین نے بھی اس بات کی نہی کی ہے کہ نا محرم سے گفتگو جائز نہیں ہے۔[مستدرک الوسائل،ج 14، ص 273، باب 83، ح 2۔]
ایک اور جگہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں:
عِبادَ اللَّهِ اِعْلَمُوا… مُحادَثَةُ النِّسَاءِ تَدْعُوا اِلَی الْبَلاءِ وَ یزیغُ الْقُلُوبَ وَ الرَّمْقُ لَهُنَّ یخْطَفُ نُورَ اَبْصارِ الْقُلُوبِ وَ لَمْحُ الْعُیونِ مَصائِدُ الشَّیطانِ۔[ تحف العقول،ص 149 و 150۔]
“اے بندگان خدا ! جان لو کہ نا محرم سے گفتگو بلاؤں کے نازل ہونے کا سبب ہے اور تمہارے دل کو منحرم کرنے کا سبب ہے ۔۔۔۔”
اور اسی طرح فرمایا کہ:
مَنْ فَاکَهَ امْرَأَةً لَا یمْلِکُهَا [حَبَسَهُ اللَّهُ] بِکُلِّ کَلِمَةٍ کَلَّمَهَا فِی الدُّنْیا أَلْفَ عَامٍ
“جو کوئی بھی نا محرم سے مزاق کرتا ہے تو خدا اسے اسکے ہر کلمے کے بدلے میں ایک ہزار سال جہنم میں ڈالے گا”[ وسائل الشیعه،ج 20، ص 198، باب 106، ح 25418۔]
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نا محرم سے گفتگو کلّی طور پرحرام نہیں ہے، جبکہ یہ کہا گیا ہے کہ احکامات کی پیروی کرتے ہوئے نا محرم سے معاشرت کی جائے۔
لوازم ارتباط میں ایک مصافحہ کرنا ہے، جیسا کہ آج کے معاشرے میں جو خواتین باہر کام کرتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مردوں سے مصافحہ کرتی ہیں جب کہ یہ حرام ہے۔ اور عورت کو ایسی جگہ کام ہی نہیں کرنا چاہئے جہاں اس قسم کا کام کرنا پڑے جو شریعت کے خلاف ہو۔
رسول خداﷺ کا فرمان ہے:
مَنْ صافَحَ امْرَأَةً حَراماً جاءَ یوْمَ الْقِیامَةِ مَغْلُولًا ثُمَّ یؤْمَرُ بِهِ إِلَی النَّارِ۔[ وسائل الشیعه،ج 20، ص 198، باب 106، ح 25418۔]
“کہ جو کوئی بھی نا محرم کو ہاتھ ملائے گا، روز محشر غل و زنجیر کے ساتھ وارد ہوگا، اور خدا حکم دے گا کہ اسے آتش جہنم میں ڈالا جائے”
انقلاب اسلامی ایران کے بانی سید روح اللہ خمینی لکھتے ہیں:
“ ہر وہ شخص کہ جس پر نگاہ کرنا حرام ہے، اس کو لمس کرنا بھی اسی طرح حرام ہے، اس بنا پر جائز نہیں ہے کہ نا محرم مرد اور عورت ایک دوسرے کو لمس کریں، بلکہ اگر اس بات کا قائل ہوں کہ عورت ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے تو اس اس بات کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس بات کو جائز کہ دیا جائے کہ چہرے اور ہاتھ کو لمس کرنا جائز ہے مگر یہ کہ اسے کسی کپڑے سے ڈھانپ کر لمس کیا جائے، مگر احتیاط اس میں ہے کہ اس ترح بھی لمس نا کیا جائے”[ کتاب النکاح ، ج2 ، مسأله 47 ؛ 40۔]
بعض استثنائی موارد میں لمس بدنی کو جائز کہا گیا ہے جیسے علاج کرتے ہوئے۔ ابو بصیر کی روایت ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا کہ آیا نا محرم کو چھونا جائز ہے تو امام نے فرمایا نہیں مگر لباس کے اوپر سے۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ لمس کرنا استثنائی موارد میں جائز ہو جاتا ہے مگر کلّی طور پر حرام ہے۔
اسلام میں عورت کامقام :
اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے، ارشاد ربانی ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً.[ سورہ نساء آیت ۱]
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔‘‘
2۔ اﷲ تعالیٰ کے اجر کے استحقاق میں دونوں برابر قرار پائے۔ مرد اور عورت دونوں میں سے جو کوئی عمل کرے گا اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشادِ ربانی ہے :
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ.[ سورہ آل عمران آیت ۳۔]
’’پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو‘‘
6۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حقِ ملکیت عطا کیا ہے۔ وہ نہ صرف خود کما سکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل ہونے والی املاک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا[سورہ نساء آیت ۷۔]
’’مردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے ‘‘
گویا مندرجہ بالا قرآنی آیات و احادیث نبوی سے پتہ چلا کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں نہ صرف باعزت مقام و مرتبہ عطا کیا بلکہ اس کے حقوق بھی متعین کردیئے جن کی بدولت وہ معاشرے میں پرسکون زندگی گزار سکتی ہے۔
جس زمانے میں تمام قومیں عورت کے لیے کسی بھی حق کی قائل نہیں تھیں، اس وقت قرآن کریم نے اس طرح کا اعلان کیا : عورتوں کے لیے مناسب حقوق ہیں جس طرح کہ ان کے ذمہ وظیفہ ہے۔ یعنی وہ یہ حق رکھتی ہیں کہ معاشرتی امور میں شرکت کریں البتہ یہ شرکت اسی حد تک ہے کہ جتنی ان کی معاشرے میں ذمہ داری ہے۔
اور جس زمانے میں عورتوں کو اپنی نظر و رائے کے اظہار کا کوئی حق نہیں تھا، اسلام اس زمانے میں عورت و مرد کے لیے نظر دینے، ووٹ ڈالنے(بیعت کرنے) میں مساوات و برابری کا قائل تھا، اور رسول اکرم نے بھی قرآن کریم کے دستور کے مطابق جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: “ان(عورتوں) سے بیعت لو اور ان کے لیے خداوندعالم سے مغفرت و بخشش طلب کرو کہ خداوندعالم بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے”۔ عورتوں کی بیعت کو قبول فرمایا۔
ان قوموں کی پست و نیچ فکر کے مقابلے میں کہ جو معتقد تھے کہ عورت صرف مرد کی خدمت کے لیے خلق ہوئی ہے، قرآن کریم نے تاکید فرمائی: “عورتیں تم مردوں کے لیے لباس ہیں اور تم بھی عورتوں کے لیے لباس ہو”۔ یعنی مرد و عورت ایک دوسرے کی ضرورت اور ایک دوسرے کی خدمت میں ہیں۔
اسلام سے پہلے عورتوں کے حق میں ہر طرح کے ظلم و ستم اور ان کے ساتھ حقارت و توہین آمیز رفتار کے باوجود اسلام نے قرآن کریم میں اس طرح اعلان فرمایا:” اپنی زندگی میں اپنی عورتوں کے ساتھ انصاف اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔
لیکں افسوس آج کے معاشرے کی رنگینیوں میں عورت اپنا مقام کھو چکی ہے اور خود کو مردوں کے مقابلے لائی ہوئی ہے اسلامی قوانین اور حدود کا معلوم نہیں ہے اور اسلام کو پیچھے چھوڑا ہوا ہے۔
منابع
1. پردہ اور حجاب، مرتضیٰ مطہری، شہید مطہری فاونڈیشن لاہور، بی۔تا۔
2. تحف العقول، حسن بن شعبة حرّانی،انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1404 ق۔
3. حرام نگاہ ،سید عابد حسین زیدی،پیغام وحدت اسلامی، کراچی،بی۔تا۔
4. دعائم الاسلام، نعمان بن محمّد تمیمی،دارالمعارف، مصر، 1385 ق۔
5. عورت و مرد مقام اور ذمہ داریاں ،آمنہ جعفری، کریم پبلیشرز لاہور،بی تا۔
6. مستدرک الوسائل، میرزا حسین النوری،الطبرسی،آلالبیت ،۱۳۲۰ھ۔
7. معیار ہای احکام، حمود اکبری، گلستان ادب، قم۔
8. وسائل الشیعه، شیخ حر عاملی،آل البیت ،۱۱۰۴ق۔
9. www.javedahmadghamidi.com
10. www.erfan.ir
11. ahlulbaytportal.net