امام سجاد ؑ کی سیرت کا تبلیغی پہلو


تحریر سیدہ شہناز فاطمہ کاظمی


مقدمہ
تمام حمد اس اللہ کے لیے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی ممکن نہیں ،جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے،نہ کوشش کرنے والے اس کا حق اداء کر سکتے ہیں۔اس کی کمال ذات کی کوئی حدمعین نہیں نہ اس کے لیے توصیفی الفاظ ہیں۔اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا،اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایاتھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔
دین کی ابتداء خدا کی معرفت ہے ۔کمال معرفت اس کی تصدیق ہے،کمال تصدیق اس کی توحید ہےکمال توحید تنزیہ و اخلاص ہے۔
اسی لیے انسان کو کمال تک پہچانے کے لیے خدا نے انبیا ءو اوصیاء کو مبعوث کیے،جب رسالت و بعثت کا سلسلہ ختم ہوا تو خداوند عالم کی طرف سے امامت کا سلسلہ شروع ہوا۔انہی امامان میں سے ایک ستارہ امام سجاد ؑ ہے۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا نام نامی، اسم گرامی روحانی اقدار کے بہترین نمونہ کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ زہد وتقویٰ اور عبادت سمیت انسان کی تمام خوبیوں اور اعلیٰ صفات و کمالات کو دیکھا جائے تو وہ ایک ایک کر کے امام سجاد علیہ السلام میں واضح طور پر موجود ہیں، جب ہم خاندان رسالت پر نظر ڈالتے ہیں تو امام سجاد علیہ السلام چودہویں کے چاند کی مانند دمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس عظیم خاندان کا ہر فرد اپنے اپنے عہد کا بے مثال انسان ہوتا ہے۔ ایسا انسان کہ انسانیت اس پر فخر کرے۔ اگر ہم ان کے کردار و عمل کو دیکھیں تو ہمیں ماننا پڑے گا اسلام کی تمام تر جلوہ آفرینیاں، ایمان کی ساری ساری ضوفشانیاں آپ میں موجود ہے۔
پس اس مقالہ میں بھی ہم امام سجاد ؑ کی خدمات دین پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس میں سب سے پہلے امام سجادؑ کا تعارف ،نام و نسب ،خصوصیات کے بعد امام کی خدمات کی طرف اشارہ کیا ہے۔جن میں کتب کی نشر و اشاعت ،خطبات کے ذریعہ اور عمل کے ذریعہ تبلیغ دین انجام دیتے رہے۔
مفہوم شناسی
سیرت کالغوی و اصطلاحی مفہوم:
لغوی:
لغت کی کتب میں ملتا ہے کہ “سیرت”یعنی طریقہ،ہیئت اور حالت کو کہتے ہیں۔[ معجم مقاییس اللغۃ،ج۳،ص۱۲۱،مجمع البحرین، ،ج۳،ص۳۴۰]نیز سنت،مذہب،روش،رفتار،راہ رسم اور سلوک و طریقہ کے بھی معنی کئے ہیں۔کسی شخص کی سیرت سے مراداس کے نامہ اعمال اور لوگوں میں اس کا برتاؤ بھی بیان کیاگیا ہے۔[ اساس البلاغہ ،ص ۲۲۶]
اصطلاحی
قاضی محمد اعلیٰ تھانوی نے اپنی مشہور کتاب “کشاف اصطلاح الفنون” میں سیرت کے لغوی معنیٰ بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :
ثم غلبت فی الشرع علی طریقة المسلمین فی المعاملة مع الکفار والباغین وغیرھما من المستأمنین والمرتدین وأھل الذمة
یعنی شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کا زیادہ استعمال مسلمانوں کے اس طریقہء کار پر ہوتا ہے جو وہ کفار، غیرمسلم محاربین ، مسلمان باغی، مرتدین، اہل ذمہ وغیرہ سے معاملہ کے بارے میں اختیار کرتے ہیں[http://mazameen.com]
تبلیغ کی ضرورت و اہمیت:
اسلام میں دعوت و تبلیغ فرض عین کا درجہ رکھتی ہے۔اللہ تعالٰی نے امت مسلمہ کے لئے لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا فرض قرار دیا ہے۔
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲ .
’’تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں کی (رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی تبلیغ اور دعوتِ اسلام میں گزری۔ قرآنِ حکیم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ کے عملی مراحل اور اصول سکھاتے ہوئے فرمایا
اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَة وَالْمَوْعِظَة الْحَسَنَة وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ.
اے رسول معظم! آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہے۔ { www.itdunya.com}
۱۔نام و نسب
امام زین العابدین ؑ خاندان رسالت کی چوتھی کڑی ہے۔آپ علی بن ابی طالبؑ کے صاحبزادے حضرت امام حسین کے بیٹے ہیں ، علی بن حسین ان کا نام ہے ، قرشی اور ہاشمی ہیں ، ابوالحسن ان کی کنیت ہے، ابو الحسن ، ابو محمد اور ابو عبدالله بھی کہا جاتا ہے۔[ http://ur.wikipedia.org]
حضرت امام حسین اپنے والدِ ماجدعلی سے اظہارِ عقیدت کے لئےاپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے ۔اسی مناسبت سے زین العابدین کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد ،ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔ [سیرت معصومین، ج اول،ص۵۵۸]
۲۔ولادت امام سجادؑ
آسمان ولایت کے چوتھے درخشان ستارےامام علی بن الحسین کی پیدائش پانچ شعبان ۳۸ہ کو شہر مدینہ میں ہوئی۔
سید الشہداء امام حسین ؑ آپ ؑ کے والد گرامی اور ایران کی یزدگرد کی بیٹی آپ کی مادر گرامی ہیں۔[ تاریخ اسلام ، ص ۵۲۲]
۳۔امام سجاد ؑ کی اخلاقی خصوصیات
امام زین العابدین ؑ انسانیت کی خصوصی صفات اور نفس کمالات کا نمونہ تھے۔مکارم اخلاق اور ستم رسیدہ فقراء کی دستگیری میں آپ کے مرتبہ کا کوئی نہ تھا ۔ اب آپ کے اخلاق و عادات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
آپ ؑ سے متعلق افراد میں سے ایک شخص نے لوگوں کے مجمع میں آپ کے شان میں ناروا کلمات کہے اور چلا گیا ۔ امام چند لوگوں کے ساتھ اس کے گھرگئے اور فرمایا تم لوگ ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہمارا بھی جواب سن لو۔
راستہ میں آپ مندرجہ ذیل آیت ،جس میں کچھ مومنین کے اوصاف عالی کا تذکرہ ہے پڑھتے جاتے تھے۔
ترجمہ:وہ لوگ جو غصہ کو پی کر لوگوں سے در گزر کرتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔[ سورہ آل عمران آیت۱۳۴]
جب اس آدمی کےگھر کے دروازہ پر پہنچے اور امام ؑنے اس شخص کو آواز دی تو وہ اس گمان میں اپنے کو لڑنے کے لیے تیار کر کے باہر نکلا کہ امام ؑ گذشتہ باتوں کا بدلہ لینے آئے ہیں۔حضرت امام سجادؑ نے فرمایا:میرے بھائی تو تھوڑی دیر پہلے میرے پاس آیاتھااور تو نے جو کچھ باتیں کہی تھیں اگر وہ میرے اندر ہے تو خدا مجھے معاف کرئے اور اگر نہیں تو خدا سے میری دعا ہے کہ خدا تجھ معاف کرے۔
امام سجادؑ کی غیر متوقع نرمی نے اس شخص کو شرمندہ کر دیاوہ قریب آیا اور امامؑ کی پیشانی کو بوسہ دے کر کہا:میں نے جو باتیں کہیں وہ آپ میں نہیں ہے اور میں اس نات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا تھا میں اس کا زیادہ سزاوار ہوں۔ [ تاریخ اسلام ، ص ۵۲۳]
امام سجاد ؑ کی سیرت کا تبلیغی پہلو
امام زین العابدین ؑباوجود اس کے کہ باپ کے شہادت کے وقت بیمار تھےباپ بھائیوں اوراصحاب کی شہادت پر دل شکستہ اور رنجیدہ بھی تھے لیکن پھر بھی یہ رنج و آلام آپ کے فرائض کی انجام دہی اور خون الود انقلاب کربلا کے تحفظ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔آپ نے لوگوں کی افکار کو روش کرنے کے لیے ہر ممکن و مناسب موقع سے فائدہ اٹھایا۔جن میں کتب کی نشرو اشاعت، خطبات و تقاریر کے ذریعہ اور عمل کے ذریعہ معارف کی نشر واشاعت کرتے رہیں۔
۱۔کتب کےذریعہ معارف الہٰی کی نشرو اشاعت۔۲خطبات و تقاریر کے ذریعہ تبلیغ۔۳عمل کے ذریعہ تبلیغ
1۔کتب کی نشرو اشاعت
امام سجادؑ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہر ممکن کوشش کی ۔جن میں سے آپ کی ایک اہم خدمت کتابوں کی نشر و اشاعت تھی۔جن میں شاگردوں کے ذریعہ نشر و اشاعت، احکام الہٰی کی نشر و اشاعت،دعاؤں کے ذریعہ نشر و اشاعت،اجتماعی و انفرادی نشر واشاعت شامل ہے۔
۱۔شاگردوں کے ذریعہ نشرو اشاعت
امام سجاد ؑ کی امامت کا دورانیہ چونتیس سال پر محیط تھا جس میں آپ کو اپنے اجداد کی نسبت علمی مشاغل کے لیے نسبتا بہتر وقت میسر آیا جس کی وجہ سے آپ نے احادیث کی نشر و اشاعت کے لیےزیادہ کا م کیا ۔ آپ کے دور امامت میں آپ ہی کے تربیت یافتہ موثق شاگردوں کے کئی آثار سامنے آئے جو آج بھی تشنگان علم کی دسترس میں ہیں ۔ امام کی خاص شاگردوں اور راویوں میں سے ابو حمزہ ثمالی،سعید بن جبیر ،زید بن علی حسین ،داود بن یحیی اور آپ کی بیٹی علیہ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔[ کتاب سلیم بن قیس ، ص۱۶۷]
شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں امام سجاد ؑ کے ۱۷۲ شاگردوں کے نام لکھے ہے جن میں سے بعض اپنے زمانے کے معروف محدث اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے۔[تاریخ حدیث ، ص ۴۹]
۲۔دعاؤں کے ذریعہ معارف الہٰی کی نشر واشاعت
امام سجاد ؑ نے دعاؤں کے ذریعہ معارف الہٰی کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کچھ کتابیں لکھی ۔جن میں “صحیفہ سجادیہ “سب سے زیادہ مشہور ہے۔
“صحیفہ سجادیہ”
امام سجاد ؑ کی احادیث کی اشاعت کے لیے انجام دی جانے والی گران قدر خدمات آپ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب “صحیفہ سجادیہ ” کے ذریعہ مزید نمایاں ہوتی ہیں ۔یہ عظیم کتاب مکتب اہل بیت کے ماننے والوں کے لیے قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد اہم اور مقدس کتابوں میں سے شمار ہوتے ہے اس میں امام سجاد ؑ کی ۵۴ دعائیں ہیں۔ان دعاوں میں امام سجاد نے ستائش خدا کے ساتھ انسانی تربیت کے بہت سے رہنما نکات بیان فرمائے ہیں ۔
معروف عالم دین آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب “الذریعہ الی تصانیف الشیعہ “میں صحیفہ سجادیہ کاترجمہ اس طرح کیا ہے”پہلی صحیفہ جس کا اسناد امام زین العابدین ؑ تک متصل ہوتے ہیں کو “اخت القرآن “،انجیل اہل بیت”اور زبور آل محمد کہا جاتا ہے اور اس کو صحیفہ کاملہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[ وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ ، ج ۱۱،ص۱۳۱]
۳۔انفرادی اور اجتماعی طریقوں سے معارف الہٰی کی نشر و اشاعت
امام سجادؑ نے فردی و اجتماعی دنوں طریقوں سے معارف الہٰی کو لوگوں تک پہنچایا اس کے اب یہ بندہ پر ہے کہ وہ اس پر عمل کر ے یا نہ کرے۔امام نے جو کتاب انفرادی اور اجتماعی مسئلوں پر لکھا ہے وہ رسالۃ الحقوق ہے۔
رسالۃالحقوق
رسالۃالحقوق امام سجاد ؑ کے ایک طویل حدیث ہے جس میں آپ نے مومنین کی دوسروں سے متعلق اہم اخلاقی ذمہ داریاں بیان کی ہیں ،جن میں والدین کی اولاد سے متعلق فرائض ،اولاد کے والدین سے متعلق ،میاں بیوی کے ایک دوسرے سے متعلق فرائض، ہمسائیوں کے حقوق ،اساتذ اور شاگردوں کے ایک دوسرے سے متعلق حقوق اور انسانی اعضا کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔اس رسالہ میں موجود اخلاقی مفاہیم کی اہمیت کی بنا پر اہم علما نے اس کا تذکرہ اپنی اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ جن میں سے علامہ سید حسن بن علی الحسینی القبانچی کی “شرح رسالۃ الحقوق” معروف ہے۔[ الذریعہ ،ج ۱۳،ص۳۴۶]
۴۔احکام الہٰی کے ذریعہ معارف الہٰی کی نشر واشاعت
احکام الہٰی ا نسانی زندگی میں سب سے اہم چیز ہے اس لیے امامؑ نے احکام الہٰی کے ذریعہ بھی معارف الہٰی کی نشر و اشاعت کی۔
مناسک الحج
امام سجاد ؑ سے منسوب حج سے متعلق فقہی احکام پر مشتمل کتاب ہے۔جو تیس ابواب پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ امام سجاد ؑ سے منسوب کچھ اور کتابیں بھی مختلف اسلامی منابع میں نقل ہوئی ہے جن میں امام سجاد ؑ کے شاگرد خاص ابو حمزہ ثمالی سے منقول “صحیفہ الزھد”اورالجامع فی الفقہ” کا نام لیا جاتا ہے۔[ سہ ماہی نور معرفت۔ ص۶۲]
بحارالانور میں موجود ایک روایت کے مطابق امام سجاد ؑنے اپنے شہادت سے پہلےامام محمد باقر ؑ کو ایک صدوق حوالہ کیا جس میں آپ کی مکتوب کتابیں موجود تھیں۔[ حیاۃ الامام زین العابدینؑ، ج ۲،ص ۲۱۹]
2۔خطبات و تقاریر کے ذریعے تبلیغ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلبیت امام حسین ؑ کا اسیر ہونا۔آپ کے مقدس انقلاب کو کامیابی تک پہنچانے میں بڑامؤثر ثابت ہوا۔چوتھے امام نے اسیری کے زمانے میں ہرگز تقیہ نہیں کیا اور کمال بردباری اور شہامت کے ساتھ تقریروں اور خطبوں میں واقعہ کربلاکو لوگوں کے سامنے بیان فرمایااور حق اور حقیقت کا اظہار کرتے رہے۔مناسب موقع پر خاندان رسالت کی عظمت کو لوگون تک پہنچاتے رہے ،اپنے پدر بزرگوار کی مظلومیت اور بنی امیہ کی کے ظلم و ستم اور بے رحمی کو لوگوں کے سامنے واضح کرتے رہے۔
پہلا خطبہ دربار یزیدی میں
امام سجاد ؑ نے یزید سے کہا میں جمعہ کے دن خطبہ دینا چاہتا ہوں یزید نے کہا ٹھیک ہے۔جمعہ کا دن آیا تو یزید اپنے مزدور خطیبوں میں سےایک کو منبر پر بھیجااور اس سے کہا :جہان تک ہو سکے علیؑ بن حسین کی اہانت کر نا اور شخیین و یزید کی مدح کرنااور اس نے ایسا ہی کیا۔
امام نے یزید سے کہا مجھے خطبہ پڑھنے کی اجازت دی جائے اور اپنا وعدہ پورا کر،یزید اپنے وعدہ پر پشمان تھا ،وہ نہیں چاہتا تھا کہ امام خطبہ دے،معاویہ بن یزید نے باپ سے کہا :ان کے خطبہ سے کیا اثر ہو گا؟اجازت دیدیجئے تاکہ وہ جو کہا چاہتا ہے کہیں ۔
یزید نے کہا کہ اگر یہ منبر پر چلے گئے تو خاندان ابو سفیان کو ذلیل ئے بغیر نہیں اتریں گے،مختصر یہ کہ اہل شام کی اصرار پر اجازت مل گی۔
امام ؑ منبر پر تشریف لے گئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد خطبہ شروع کیا سارا مجمع رو رہا تھا۔ آپ نے فرمایا:
“خدا نے ہمیں چھ خصلتیں عطا کی ہیں اور ہمیں سات خصوصیت کے ذریعہ دوسروں پر فضلیت دی ہے ہمیں علم ،بردباری ،سخاوت ،فصاحت ،شجاعت،اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا کی اور دوسرں پر اس خرح فصیلت دی کہ رسول ﷺ صدیق ،امیر المو منین علیؑ جعفر طیار ،شیر خدا و شیر رسولﷺ،حمزہ رسول کے دونوں فرزند امام حسنؑ وامام حسینؑ ہم میں قرار دئیے ہیں۔[ صحیفہ کربلا، ص۴۵۶]
میں شہید کربلا حسین ؑ کا فرزند ہوں ، میں علی مرتضیٰ کا پسر ہوں میں محمد مصطفیٰ کا بیٹا ہوں میں فاطمہ الزھراؑ کا فرزند ہوں میں خدیجہ الکبریٰ کا پسر ہو ں ،میں سدرۃ المنتہیٰ کا بیٹا ہوں ،میں شجر طوبی ٰ کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہو ں جو اپنے خون میں نہایا،میں اس کا بیٹا ہوں جس کے ماتم میں جنات روئے ،میں اس کا بیٹا جس پرپرندوں نے نوحہ کیا۔ [ایضاً،ص ۴۶۲]
خطبہ امام ؑ کا نتیجہ
حاضرین امام ؑ کے اس خطبہ سے بہت متاثر ہوئے آ پؑ نے اپنے خطبہ سے ان کے اندر بیداری کی ایک لہر دوڑادی اور انھیں جرات و جسارت بخشی ،اس مجمع میں ایک یہودی عالم بھی تھا ۔اس نے یزید سے پوچھا یہ جوان کون ہے ؟
یزید نے کہا : یہ علی بن حسین ہیں۔
اس نے کہا کون حسین؟
یزید نے کہا علی بن ابی طالب کے بیٹے۔
اس نے پھر پوچھا ان کے والدہ کون ہیں ؟
یزید نے کہا :دختر محمدﷺ۔
یہودی نے کہا یہ تمہارے رسولﷺ کی بیٹی کی فرزند ہے جسے تم نے قتل کیا تم رسول خدا ﷺ کے کتنے بڑے جانشین ہو،خدا کی قسم اگر ہمارےپیمبر موسیٰ بن عمران کی کو ئی اولاد ہوتی تو ہم پرستش کی حد تک اس کا احترام کرتےجبکہ تمہارے رسول کی کل وفات ہوئی ہے اور آج تم نے ان کے بیٹے کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے ان کو قتل کردیا؟ افسوس ہے تمہارے حال پر۔
یہودی کی اس بات پر یزید کو غصہ آیا اور حکم دیا کہ ذرا اس کی خبر لو،یہودی عالم اٹھا اور کہا :اگر تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تو مجحے کوئی فرق نہیں پرتا۔میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ جو اولاد رسول کو قتل کرتا ہے اس پر ہمیشہ لعنت ہوتی ہے اور اس کاٹھکانا جہنم ہے۔[ حیاۃالحسین،ج ۳،ص ۳۹۵]
دوسرا خطبہ شہر کوفہ میں
بے شک امام سجاد (عليہ السلام) اور حضرت زينب کبري (عليہا السلام) اور خاندان رسالت کے دوسرے افراد کے خطبوں نے حقائق کو بےنقاب کرنے ميں بہت اہم کردار ادا کيا اور فرزند رسول حضرت سيدالشہداء (عليہ السلام) کي شہادت کے بعد تحريک عاشورا کو دوام بخشنے ميں اہم ترين کردار ادا کيا- امام (ع) کے ابلاغ و تبليغ کے نتيجے ميں بہت سے سوئے ہوئے ضمير اور غفلت زدہ لوگ بيدار ہوئے؛ اہل بيت (ع) پر روا رکہے ہوئے مظالم سے باخبر ہوئے، ظالم اموي حکمرانوں کے چہرے بے نقاب ہوئے اور اہل بيت رسالت (ص) کے فضائل و مناقب کو عام کيا اور ائمہ اہل بيت (ع) بطور خاص اہل بيت رسول (ص) سے ناآشنا شاميوں کے درميان، فرزندان و جانشينان رسول (ص) کے طور پر متعارف کرايا-
امام سجاد (عليہ السلام) نے شہر کوفہ ميں سادہ، اور سطحي فکر کے حامل، عہد شکن اور ہر ہوا اور آندہي کے سامنے سرتسليم خم کرنے والے کوفيوں سے مخاطب ہوکر فرمايا:
“اے لوگو! ميں تمہيں خدا کي قسم دلاتا ہوں، بتاۆ! کہ کيا تم نے ميرے والد کو خط نہيں لکہے اور ان سے بےوفائي نہيں کي؟ کيا تم نے ان کے ساتھ مضبوط عہد و پيمان منعقد نہيں کيا اور پہر ان کے خلاف نہيں لڑے اور انہيں شہيد نہيں کيا؟ وائے ہو تم پ، کيا بہونڈے عمل کے مرتکب ہوئے تم! تم رسول اللہ (صلي اللہ عليہ و آلہ) کے چہرہ مبارک کي طرف کس طرح منہ اٹہا کر ديکہ سکو گے جب وہ تم سے فرما ديں: تم نے ميرے فرزندوں کو قتل کيا، ميرے احترام کو تباہ کيا پس تم ميري امت سے نہيں ہو؟!،
ابہي امام (ع) کا خطبہ اختتام پذير نہيں ہوا تہا کہ لوگوں رو رو کر ايک دوسرے پر ملامت کرنے لگے؛ وہ اس بدقسمتي پر ـ جو انہوں نے خود ہي اپنے لئے چن لي تہي ـ افسوس کررہے تھے اور اشک ندامت بہارہے تھے-[ احتجاج طبرسي، ج ۲،ص ۳۲]
کوفہ ميں امام (ع) کے خطبے ميں ذيل کے موضوعات کو مدنظر رکہا گيا ہے۔
اپنا اور خاندان عصمت و طہارت اور اپنے والد اور جد امجد کا تعارف
کربلا ميں روا رکہے جانے والے جرائم اور الميوں کو بے نقاب کرنا۔
کوفيوں کو ياد دلانا کہ انہوں نے سيدالشہداء (عليہ السلام) کو خطوط لکھے، آپ (ع) کو کوفہ آنے کي دعوت دي اور پھر امام حسين (ع) سے بے وفائي کرنا۔
تیسرا خطبہ مدت اسیری میں
امام سجاد ؑ نے واقعہ کربلا کے بعد جس جس شہر میں بھی گئے وہاں کے لوگوں کو امام حسین ؑ کی مظلومیت اور یزید کی ظلم کو خطبوں میں بیان کرتے رہے۔تاکہ لوگو میں روح کی مبارزہ اور جہاد کی بیداری پیدا ہو جائے۔
روح مبارزہ وجہاد کی بیداری
اسیری کے تمام مدت میں امام سجادؑ بہت سے لوگوں کے تصور کے بر خلاف جو کہ آپ کو شکست خوردہ سمجھتے تھے ،ہرمحفل و مجلس میں اپنی اور اپنی والد کی کامیابی اور بنی امیہ کے گروہ کی شکست کے بارے میں خطبات و تقاریر کرتے تھے۔
دوسری طرف آپ نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنے خاندان کی عظمت اور خصوصیتوں اور بنی امیہ کے ظلم و جور کے بیان کے ذریعہ مسلمانوں کو انقلابی فکر کو بیدار کریں اور گناہ امیہ سے نفرت کا احساس اور انجام پا جانے والے گناہوں کے جبران کی ضرورت کو لوگوں کے ضمیر ووجدان میں زندہ کریں۔
ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ اس مثبت رویہ کی وجہ سے اموی سلطنت کے خلاف عراق و حجاز میں انقلاب کا پرچم بلند ہو کیا اور ہزاروں افراد خون حسین ؑ کا انتقام لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔[تاریخ اسلام ، ص ۵۲۵]
3۔عمل کے ذریعہ تبلیغ
جس طرح امام ؑ نے کتب کی نشر و اشاعت اور خطبات کے ذریعہ لوگوں کو معارف الہیٰ کی تعارف کروائی ۔اسی طرح اپنے عمل کے ذریعے بھی لوگوں کو حق کی طرف بھلانے کی کوشش کی ۔کیونکہ ایک انسان جب تک خود اپنی بات پر عمل نہ کرے دوسرے نہیں کرتے اس لیے امام ؑ نے خود عمل کے ذریعہ معارف الہٰی کو لوگوں کے پہنچایا ۔جیسے کہ:
۱۔ امام سجاد ؑ کے گھر میں آگ:
علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں کہ روایت ہوئی ہے:
امام سجاد ؑ جس گھر میں سجدہ میں مشغول تھے وہاں آگ لگ گئی اہل خانہ نے شور مچا دیا کہ آگ آگ لیکن حضرت نے کوئی توجہ نہ کی ،اور سجدے سے سر نہ اٹھایا،یہاں تک کہ آگ بجھ گئی۔ جب حضرت سے عرض کیا گیا کہ کس چیز نے آپ کو آگ سے غافل کر دیاتا؟
حضرت ؑ نے فرمایا: الہتنی عنہا النار الکبریٰ
مجھے اس آگ سے ایک بڑی آگ (یعنی آخرت کی آگ )نے غافل کردیا تھا۔”[ مناقب اہل بیت ،ج ۲،ص ۱۳]
۲۔امام سجاد ؑ کی دعا اور باران رحمت کا نزول:۔
ایک دفعہ بارش رک گئی لوگ دعائیں مانگ مانگ کر تہک گئے مگر بارش نہ ہوئی ان میں سے ایک نے امام ؑ کو پہچان کر دعا کے لیے عرض کیا تو فرمایا:
ہم نے عرض کیا : اے جوان ہمارا کام دعا کرنا ہے اور خد ا کا کام قبول کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا : کعبہ سے دور ہو جاؤ،اگر تمہارے درمیان ایک شخص بھی ایسا ہوتا جسے خدا پسند کرتا تو ضرور اس کی دعا قبول کرلیتا ۔پھرخود کعبہ کے نزدیک آئے اور زمین پر سجدہ میں گر گئے ۔پس ہم نے سنا کہ سجدہ میں عرض کر رہے تھے۔اے میرے آقا اس محبت کے واسطے جو تو میرے ساتھ کر تا ہے ، ان لو گوں پر رحمت نازل فرما۔
ثابت کہتا ہے: ابھی حضرت کا کلام مکمل نہ ہوا تھا کہ بارش ایسے جاری ہو گئی جیسے مشکیزہ کے منہ سے پانی گرتا ہے۔
میں نے عرض کیا :اے نوجوان! آ کو کیسے معلوم کہ خدا تجھے دوست رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
اگر وہ مجھے دوست نہ رکھتا ہوتا تو وہ مجھے اپنی زیارت کے لیے دعوت نہ دیتا ، پس اس وجہ سے کہ اس نے مجھے زیارت کے لیے طلب کیا ہے کہ وہ مجھے دوست رکھتا ہے اور میں نے اس محبت کا واسطہ دے کر جو اسے میرے ساتھ تھی دعا کی۔پس اس نے قبول کر لی۔
پہر وہ ہم سے یہ شعر پڑہتے ہوئے جدا ہو گئے
من عرف الرب فلم تغنہ
معرفۃ الرب فذاک الشقی
ماضر فی الطاعۃ مانالہ
فی طاعۃ اللہ و ماذالقی
ما یصنع العبد بغیر التقی
والعز کل العز للمتقی
“پس جو خدا کو پہچانتا ہو اور یہ پہچان اسے بےنیاز نہ کرے تو وہ در حقیقت شقی اور بد بخت ہے”
اللہ کی اطاعت سے جو نعمتیں میسر آتی ہے وہ مضمر نہیں ہے اور نہ ہی وہ مشکلات نقصان دہ ہیں جو اس راہ میں نازل ہوتی ہیں”
بندہ تقویٰ کے بغیر کیا کرتا ہے ؟تما م عزت اور ابرو تقویٰ کے سایہ میں ہے اور با تقویٰ اشخاص کے ساتھ ہے”
ثابت کہتا ہے:میں نے مکہ والوں سے سوال کیا کہ یہ جوان کون ہے؟
انہوں نے کہا: وہ علی ابن الحسین بن ابی طالب ؑ ہیں۔ [ مناقب اہل بیت ،ج ۲،ص ۱۳]
۳۔کاروان حج کی خدمت کرنا
امام سجاد علیہ السلام حج پر تشریف لے جارہے تھے آپ نے اس قافلہ کو جانے دیا جو آپ کو جانتے تھے اور ایک اجنبی قافلہ کے ساتھ ایک مسافر اور پردیسی کے طور پر شامل ہو گئے۔ آپ نے ان سے کہا کہ میں آپ لوگوں کی خدمت کرتا جاؤں گا۔ انہوں نے بھی مان لیا۔اونٹوں اور گھوڑوں کے سفر میں بارہ دن لگتے تھے ، امام علیہ السلام اس مدت میں تمام قافلہ والوں کی خدمت کرتے رہے۔ اثناء سفر میں یہ قافلہ دوسرے قافلہ کے ساتھ جا ملا ان لوگوں نے امام علیہ السلام کو پہچان لیا اور دوڑ کر آپ کی خدمت میں آئے عرض کی مولا (ع) آپ کہاں؟ امام نے سب کی خیرت دریافت کی انہوں نے اس قافلے سے پوچہا کیا تم اس نوجوان کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں یہ ایک مدنی نوجوان ہے اور بہت ہی متقی اور پرہیز گار ہے۔ وہ بولے تمہیں خبر نہیں یہ حضرت امام زیں العابدین علیہ السلام ہیں، اور آپ ہیں کہ امام سے کام لئے جارہے ہیں۔ یہ سن کر وہ لوگ امام کے قدموں میں گر پڑے عرض کی مولا آپ ہمیں معاف کر دیجئیے کہ ہم نے لا علمی کی بناء پر آپ کی شان میں گستاخی کی کہاں آپ کی عظمت ورفعت اور کہاں ہماری پستی؟
ہم پر کہیں عذاب الہٰی نہ آپڑے۔ آپ ہمارے آقا و مولا (ع) ہیں۔
آپ کو سرداری کی مسند پر بیٹھنا چاہیے تھا۔ اب آپ تشریف رکہیں ہم آپ کی خدمت کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ میں انجان اور اجنبی بن کر آپ لوگوں کے قافلہ میں اس لئے شامل ہوا تہا کہ آپ زائرین بیت اللہ ہیں، آپ کی خدمت کر کے ثواب حاصل کروں، آپ فکر نہ کریں میں نے جو بھی خدمت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب مجھ کو ملے گا۔[سیرت معصومین، ج۱، ص ۵۶۲]
نتیجہ :
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہو تا ہے کہ امام سجاد ؑ اپنے زندگی کے کچھ ایام بیماری کی حالت میں ہونے کے باوجود تبلیغ دین کرتے رہے، یہاں تک کہ کربلا کے میدان میں ،اسیری کوفہ ،اسیری شام، اور مدینہ میں واپسی کے بعد بھی ہر موڑ پر دین کی تبلیغ کا علم اونچا رکھا۔اور انسانوں کو معارف الہیٰ تک پہچانے کے لیے کتب نویسی،خطبات وتقاریراور عمل کے ذریعہ لوگوں کی رہنمائی کئے۔
فہرست منابع:
1. ثقۃالمحدثین آقائی شیخ عباس قمی،سیرت معصومین،(مترجم:سید صفدر حسین نجفی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ ۔
2. جاراللہ محمود بن عمرالزمخشری،اساس البلاغہ،تحقیق عبدالرحیم محمود،دار المعرفہ بیروت۔
3. سید احمد مستنبط قدس سرہ،مناقب اہل بیت ،(مترجم:ناظم رضا عترتی)،لاہور،ادارہ منہاج الصالحین۔
4. سید رضا مودب،تاریخ حدیث ، قم ایران،مرکز بین المللی جامعۃ المصطفیٰ ۔
5. شریف قریشی، حیاۃ الامام زین العابدینؑ،قم،ایران،دارالکتب العلمیہ۔
6. شیخ عباس قمی،سیرت معصومینؑ،(مترجم:سید صفدر حسین نجفی) ،لاہور،مصباح القرآن ٹرسٹ۔
7. علاوالین موسوی ،کتاب سلیم بن قیس ، تہران ،ایران،موسسہ البعثہ ،۱۴۰۸ق،۔
8. علی نظری منفرد،صحیفہ کربلا، (مترجم:نثار احمد زین پوری)طبع:۲۰۱۳ء،لاہور،مصباح القرآن ٹرسٹ ۔
9. محمد بن حسن حر عاملی،وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ ، تہران ایران،مکتبۃ الاسلامیہ الکبری۔
10. مدرسین حوزہ علمیہ قم،تاریخ اسلام ، کراچی،قائم گرافکس۔جامعہ علمیہ ڈیفنس ۔
11. مدرسین حوزہ علمیہ قم،تاریخ اسلام ، لاہور،معراج کمپنی ۔
12. معجم مقاییس اللغۃ،ج۳،ص۱۲۱؛فخر الدین بن محمد الطریحی،مجمع البحرین،المکتبۃالمرتضویہ،تہران،۱۳۶۵ش۔