روزے کی تاریخ


تحریر علامہ سید بشارت حسین تھگسوی


مقدمہ
اسلام دین فطرت ہے اس کے تمام احکام فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں ۔یعنی اسلام انسانیت کے لئے ایک بہترین نظام زندگی گزارنے کا طریقہ اور اصول بتاتا ہے ۔اسلامی قوانین اور سسٹم کے اندر کوئی ایک قانون بھی ایسا نہیں ہے جو انسان کے فطرت سے ہٹ کر ہو ۔اگر کوئی انسان یہ چاہے کہ وہ دنیا میں ایک آرام اور باسلیقہ زندگی گزاردے تو اسلام اس کے سارے اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے ،اسی لئے جو احکامات خواہ وہ عبادات کے پہلو سے ہو یا اخلاقی نقطہ نظرسے بیان ہوئے ہیں ان میں بھی مفاد بشریت کو مد نظر رکھاگیاہے ۔ مثلا ًاگر کوئی صبح کی نماز کے لئے نیند سے بیدار ہو کر اپنی صورت پر پانی ڈال لیتا ہے تو اس میں صرف ثواب و عقاب کا پہلو نہیں بلکہ انسانی صحت کے بہتریں اصولوں کا راز بھی پو شیدہ ہے ۔
اسی طرح ماہ مبارک رمضان کے روزے بھی فرض کرنے میں حکمت الہٰی مخفی ہے ،اسی لئے سال میں روزہ رکھنے سے جہاں انسان کو اپنی اوقات اور طاقت کا اندازہ ہوتا ہے اور خدا کی عظمت بزرگی یاد آتی ہے وہاں پر اس کے جسم سے بہت سے بیماریوں کا بھی صد باب ہوتا ہے ۔معروف عارف بزرگ حضرت جنید بغدادی نے اپنی کتاب سائر حائر میں روزے کے بائیس فوائد بیان کے ہیں جن میں سے بعض کا تعلق انسان کے روح اور بعض کا تعلق جسم سے ہیں۔اس مقالے میں روزے کی احکام ،مسائل ،فوائد ،اہمیت اور فضائل بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا روزہ صرف امت محمدی پر فرض کیا تھا یا دیگر امتوں میں اور دیگر اقوام اور مذاہب میں بھی اس کا رواج تھا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(۱ )
ترجمہ:اے ایمان والو ؛تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
روزے کی تعریف
والصیام والصوم فی اللغة مصدران بمعنى الکف عن الفعل : کالصیام عن الأکل والشرب والمباشرة والکلام والمشی وغیر ذلک ، وربما یقال : انه الکف عما تشتهیه النفس وتتوق إلیه خاصة ثم غلب استعماله فی الشرع فی الکف عن امور مخصوصة ، من طلوع الفجر إلى المغرب بالنیة۔
صوم اور صیام لغت میں دو الگ مصادر ہیں جوکسی کام سے روک کے رہنے کے معنی میں ہے۔جیسا کہ کھانے ،پینے اور مباشرت ،بات اور چلنا وغیرہ ۔جیسا کہ نفس کو روک کے رکھنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔پھر شریعت میں اکثر استعمال اس معنی میں استعمال ہو ا ہے کہ طلوع فجر سے لیکر مغرب تک نیت کے ساتھ کچھ مخصوص چیزوں سے پرہیز کرنا ہے ۔(۲)
صوم اور صیام میں فرق
ابو هلال عسکری صوم اور صیام کے فرق کے حوالے سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے :
قد یفرق بینهما بأن الصیام هو الکف عن المفطرات مع النیة ، ویرشد إلیه قوله تعالى : ” کتب علیکم الصیام کما کتب على الذین من قبلکم “. والصوم : هو الکف عن المفطرات ، والکلام کما کان فی الشرائع السابقة ، وإلیه یشیر قوله تعالى مخاطبا مریم علیها السلام : ” فإما ترین من البشر أحدا فقولی إنی نذرت للرحمن صوما فلن أکلم الیوم إنسیا “. حیث رتب عدم التکلم على نذر الصوم.
بے شک ان دونوں میں فرق کیا گیا ہے کہ صیام نیت کے ساتھ مفظرات سے پرہیز کو کہتے ،یں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے ،تم پر صیام فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فر ض کیا گیا تھا ۔اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سابقہ شریعتوں میں بھی روزہ فرض تھا۔جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔حضرت مریم نے کہا میں نے بات نہ کرنے کا روزہ رکھا ہے ،یعنی صوم عام اور صیام خاص ہے ۔(۳)
آیت کی تفاسیر
اس آیت کی ذیل میں مفسر دوران علامہ شیخ محسن علی نجفی لکھتے ہیں :
اس آیت میں روزے کا حکم بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بھی ذکر فرمایا کہ یہ صرف تم پر نہیں بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی واجب کیا گیا تھا ۔اس میں دو نکتے پوشیدہ ہیں ۔
۱۔روزے کا وجوب انسانی فطرت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے ۔اگرچہ مختلف ادیان میں تقاضوں کے بدلنے سے شریعتیں بدلتی رہتی ہیں ،لیکن جو بات انسانی فطرت کے تقاضوں سے مربوط ہو وہ نہیں بدلتی ۔اسی وجہ سے روزہ تمام شریعتوں میں نافذ رہا ۔
۲۔مسلمانوں کی دل جوئی کے لئے کہ روزہ ان پر بارگراں نہ گزرے ،کہا گیا کہ یہ صرف تم پر ہی نہیں بلکہ سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔(۴)
اس آیت کی ذیل میں علامہ محمد حسین طباطبائی فرماتے ہیں :
“من قبلکم ” سے مراد سابقہ امتیں ہیں لیکن ان امتوں کو قرآن نے معین نہیں کیا کہ کون سے اقوا م پر روزے فرض کئے گئے تھے ۔تورات اور انجیل جو اس وقت یہودیوں اور نصاریٰ کے پاس ہیں ان میں روزے کے احکام کے حوالے سے کچھ نہیں پایا جاتا ۔تا ہم ان دونوں کتابوں میں روزہ کی تعریف کی گئی ہے ۔لیکن یہ لوگ سال میں مختلف شکلوں میں روزہ رکھتے تھے۔مثلاً گوشت کھانے سے اجتناب،دودھ اور دیگر مختلف چیزوں کے کھانے پینے سے اجتناب کرتے تھے ۔(۵)
اس کے علاوہ علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ جھودان اور ترسیان پر بھی روزہ فرض کیا گیا تھا ۔(۶)
ابن عمر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :صیام الرمضان کتب الله علی الامم قبلکم یعنی رمضان کے روزے تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ “من قبلکم “سے مراد اہل کتاب ہیں ۔(۷)
امام محمود بن عمر زمحشری فرماتے ہیں ” الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ” سے مراد سابقہ انبیا اور امت ہیں یعنی آدم سے لے کر تمہارے زمانے تک ۔ اسی لئے مولا ئے متقیان علی علیہ السلام نے فرمایا: سب سے پہلے روزہ رکھنے والا حضرت آدم ہیں ۔(۸)
تو ان احادیث اور اور تفاسیر کے مطالعے کے بعد یہ بات روشن ہوتی ہے کہ امت محمدی سے پہلے امتوں پر بھی روزے فرض کیے گئے تھے ،لیکن فرق صرف روش اور طریقوں میں تھا ۔اس بات کی مزید تاکید کے لئے ایک اور حدیث نقل کرتے ہیں جیسا کہ معروف عالم حر عاملی نے اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔ابن عمار بن مروان نے بن نسان سے انہوں نے ہارون سے نقل کیا ہے کہتے ہیں کہ :
ظہور اسلام سے پہلے سعدان ابن صدقہ نامی شخص نے اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کیا ۔جب یہ بات ان کے قبیلہ والوں تک پہنچی توانہوں اسے اپنے سردار کے پاس لے گئے سردار نے اسے سزا کے طور پر تین دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور کہا :صرف رات میں کھانا کھا سکتے ہیں۔ (۹)
اس روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام سے پہلے بھی روزہ رکھنے کا رواج تھا ۔ مندرجہ ذیل اقوام اور مذاہب میں بھی روزہ کی رواج کے حوالے سے تاریخی حقائق موجود ہیں ۔
حضرت ادریس (ع) کے صحیفہ میں روزہ
حضرت ادریس (ع)اپنے صحیفہ میں فرماتے ہیں کہ جب تم لوگ ماہ مبارک رمضان میں داخل ہوجائے تو خودکو ناپاکی اور پلیدی سے دور کریں اور خالص دل اور نورانی اور پاک فکر کے ساتھ خدا کے لئے روزہ رکھیں ۔تم لوگ نہ صرف کھانے پینے سے دور رہیں بلکہ اپنے تمام اعضا ء و جوارح کو بھی محفوظ رکھیں ۔(۱۰)
دین یہود میں روزہ
فرعون کے دریا نیل میں غرق ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (ع)کے قوم نے ان سے ایک کتاب کی تقاضا کیا ۔خدا بھی چاہتا تھا کہ ان کے قوم کے ہدایت کےلئے کتاب نازل کریں ۔حضرت موسیٰ (ع) پر وحی ہو ا کہ کوہ طور کے نیچے تیس دن روزہ رکھیں ،حضرت (ع) نے ایسا ہی کیا اور ان کو احساس ہوا کہ روزہ کی اثر سے ان کے منہ کے بو تبدیل ہو ا ہے ۔انہو ں نے سوچاکہ اس بو کے ساتھ مناجات مناسب نہیں ،لہذا ایک درخت کی لکڑی سے مسواک کیا تاکہ بو رفع ہو سکے ۔مناجات کے وقت جبریل (ع) آئے اور کہا :روزہ دار کی منہ کے بو خدا کے نزدیک بوی مشک سے بھی زیادہ خوشبو تر ہے ۔ (۱۱)
موجودہ دور میں قوم یہود کے ہاں روزے کی دو قسم ہیں ۔پہلا روز،ہ واجب سالانہ جو کہ قربانی کے دن گناہوں کے کفارہ کے عنوان سے رکھتے ہیں یہ روزہ بعد ظہر 5بجے سےلیکر دوسرے دن کے بعد ظہر 7بجے تک ہے یعنی 26گھنٹے کا روزہ ہے ۔دوسرا روزہ ،محرم الحرام میں زکریا نبی (ع)کی شہادت اور بیت المقدس کی خراب ہونے کی وجہ سے رکھتے ہیں بعد ظہر 9بجے سے لیکر دوسرے دن کے عصر تک رکھتے ہیں ۔قوم یہود کے ہاں روزے کی اداب مندرجہ ذیل ہیں ۔کھانے پینے سے پرهيز، دعاي اعتراف به گناه و توبه اور قرباني کے ساتھ روزے کی اختتام ،مٹی کے اوپر سونا ،قرائت تورات وغیرہ۔
دین مسيحيت میں روزہ
نصاریٰ پر بھی ماہ رمضان کے روزے فرض تھے جس طرح ہم پر رمضان کے روزے فرض تھے ان کے روزے گرمیوں میں آتے تو وہ دوسرے مہینوں میں پھیر دیتے تھے اور کفارہ کے طور پر ان میں اضافہ کرتے تھے حتیٰ کہ وہ پچاس دن ہوگئے ۔ان کے روزے کا طریقہ یہ تھا کہ وہ رات کو بھی کھانے پینے سے اجتناب کرتے تھے نہ ہی رمضان کے مہینے میں اپنے بیویوں سے ہم بستر ہوتے تھے ،اور روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ان کا روزہ ایک عشاء سے دوسری عشاء تک ہوتا تھا۔(۱۲) اور کتابوں میں ملتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے حواری بھی روزہ رکھتے تھے ۔(۱۳)
البتہ ابھی مسیحیت میں روزہ سے مراد مکمل طور پر کھانے پینے سے پرہیز کرنا نہیں ہے ۔اکثر روزہ دار مخصوص چند غذاوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔مگر یہ بات مسلم ہے کہ دین مسیحیت میں بھی روزہ ہے ۔
دین زرتشت میں روزہ
دین زرتشت کے ہاں روزے سے مراد جسم سست اور کام وکاج کے لائق نہ ہونے کی بنا پر کسی بھی کھانے پینے کی چیزسے اجتناب کرنا ہے ۔
ان کے ہاں ہر مہینے میں چار دن کا روزہ ہے ۔ان ایام میں وہ روزہ رکھنے کے ساتھ افراط نہ کرنے کے لئے جانوروں کے گوشت کھانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔مہینے کے چار مخصوص ایام اور ا ن کے نام یہ ہیں۔ وهمن، ہر مہینے کی دوسری تاریخ :ماه، ہر مہینے کی بارہویں تاریخ :گوش، ہر مہینے کی چودہویں تاریخ :اور رام، ہر مہینے کی اکیسویں تاریخ ۔(۱۴)
روزہ نہ صرف ادیان الہٰی میں ہے بلکہ ادیان غیر الہٰی میں بھی روزہ کا رواج ہے ۔مثلا مصری لوگ بت پرستی کے ایام میں روزہ رکھنے کو عام لوگوں کے لئے بالعموم اور ان کے دینی پیشواوں اور عورتوں کے لئے بالخصوص واجب سمجھتے تھے۔عربستان کے لوگ بھی اسلام سے پہلے روزہ رکھنے کو عبادات اور وظائف میں شمار کرتے تھے۔
ادیان غیر الہٰی میں روزہ رکھنے کی مندرجہ ذیل چند مثالیں ہیں۔
آيين هندو و جاين ( (Jain میں روزه
اس دو آئین کے ماننے والے اپنے روحانی ترقی کے لئے روزہ رکھتے ہیں حتیٰ ان کے دینی سربراہان اور پیشویان کوئی چیز کھائے پیئے بغیر مرنے کو سب سے بہترین موت قرار دیتے ہیں ۔(۱۵)
آئین بودا میں روزہ
اس آئین کے بہت سے پیرو کاران تہذیب نفس اور ترک دنیا کے خاطر دن میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں او ر بعض اوقات(مخصوصا مہینے کے اول اور آخر ) مسلسل بھوکے بھی رہتے ہیں۔(۱۶)
تبت کے لوگوں کا روزہ
تبت کے لوگوں کا ایک خاص رسم تھا جس میں چار روز مسلسل بھوکے رہتے تھے اور ان ایام میں اپنی گناہوں کا اقرار اور اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
خلاصہ بحث
بعض لوگ اطلاع نہ ہونے کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ اسلام کے اندر جو روزہ ہے وہ سب سے سخت ہیں ۔کیونکہ گرمیوں میں 16سے 17 گھنٹے اور سردیوں میں کم از کم 12 گھنٹے بھوک اور پیاس سے نڈھال رہنا پڑتا ہے ۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔جیسے کہ دن یہود میں 22سے 26 گھنٹے کا بھی روزہ ہے اور دین مسیحیت کے روزے کے احکام کے مطابق پورے ماہ اپنے بیوی سے بھی ہم بستر ہونے کا حق نہیں تھا، ساتھ ہی افطا ر کے علاوہ پوری رات بھر بھی کچھ کھانے پینے کا حق حا صل نہیں تھا۔اسلام کے اندر روزے کے احکا م منظم اور انسانی ضروریات کے تمام پہلوں کے مطابق ہیں جب باقی ادیان میں تغیر و تبدیلی آئی ہیں ۔
حوالہ جات
۱۔قرآن مجید ،سورہ بقرہ آیت ۱۸۳
۲۔تفسیر المیزان،محمد حسین طباطبائی، ص موسسه نشر اسلامی قم
۳۔الفروق اللغویة،ابو هلال العسکری، ص ۳۲۵، موسسه نشر اسلامی قم
۴۔الکوثر فی تفسیر القرآن،شیخ محسن علی نجفی ، ج۱ ،ص ۵۴۵،انتشارات انصاریان قم
۵۔تفسیر المیزان ،ج۱ ،ص
۶۔تفسیر کبیر(فارسی ترجمہ )،امام فخر الدین رازی ، ج۵ ،ص ۲۱۳۰
۷۔تفسیر ابن کثیر،امام اسماعیل ابن کثیر قریشی ، ج،۱ ص ۲۹۷،مکتبہ الہلال بیروت ،طبع اول
۸۔تفسیر کشاف،امام محمود ابن عمر زمحشری ، ج ۱ ص ۲۲۵،درالکتب العربی بیروت
۹۔وسائل شیعہ ،شیخ حر عاملی ،ج ۷ ص ۱۰
۱۰۔وقايع الايام خيابانى، ص 431.
۱۱۔تفسیر نمونہ،آیۃ ا۔۔۔ناصر مکارم شیرازی ، ج۱ ص ۶۳۳
۱۲۔تفسیر در منثور،علامہ جلال الدین سیوطی ، ج۱ص۴۶۷،ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور
۱۳۔تفسیر نمونہ ج۱ ص ۶۳۴
۱۴۔ زرتشتیان در ایران، هایده رمضان رستم آبادی، سنہ اشاعت پاییز ۱۳۸۴قمری
۱۵۔آشنایی با ادیان بزرگ ،حسن توفیقی ، ص ۴۱سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم انسانی
۱۶۔ آشنایی با ادیان بزرگ ص ۴۳