سرچشمئہ نورِ ہدایت کی پہلی برسی


تحریر


سرچشمہ نورِ ہدایت کی پہلی برسی
تحریر:سیّدلیاقت علی شاہ براہوی

جس کا وجود علم و عمل کی مثال تھا
وہ اہلِ علم و صاحبِ کردار چل بسا
معزز قارئین کرام!4 جولائی 2021 ء کو خطہ بلتستان سمیت پورے پاکستان میں جہاں جہاں بلتی آباد ہیں، خاص کر براہ بالا میں میر سید جما ل الدین الموسوی(مرحوم) کی پہلی برسی انتہائی عقیدت و احترام اور انمول آنسوئوں کے نذرانے کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔
ربِ ذوالجلال سے التجا و دعا ہے کہ وہ ان نذرانوں کو مقبول و منظور فرما کرمرحوم کے درجات کو بلند کرے ،آمین۔
راقم نے میر سیّد جمال الدین الموسوی(مرحوم) کی پہلی برسی کے موقع پر ایک خصوصی مضمون تحریر کیا ہے، جو کہ نذر قارئین ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
قارئین کرام!4 جولائی 2020 ء کا دن عالم اسلام کے لئے بالعموم اور نوربخشی دنیا کے لئے بالخصوص ایک سیاہ دن ثابت ہوا کیونکہ اس دن چراغ دین روشن کرنے والے اور اس کی روشنی کو کفر و ضلالت کے جھکڑوں سے بچا کر ہر سو پھیلانے والے ضو فشاں نورانی بزرگ ہم سب کو روتے تڑپتے سوگوار چھوڑ کر خالقِ حقیقی کے مہمان بن گئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ” کُلُّ نَفْسِِ ذَایقَةُ الْمَوْت” کے مصداق ہر نفس نے ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر جانا ہوتا ہے اور حکمِ الٰہی کے تحت لواحقین و پسماندہ گان مصیبت کی اس گھڑی میں رضائے الٰہی کی خاطر یہ غم و صدمہ برداشت کر کے صبر و شکر کا راستہ اختیار کرے تو اللہ پاک ان کے لئے اپنی رحمتوں اور نعمتوں کا در کھول دیتا ہے۔یہی ان کی بڑی کامیابی ہے۔پھر فطرت خداوندی کے تحت ہر گزرتے لمحات کے ساتھ ساتھ یہ غم و صدمہ کم ہوتے ہوئے اپنے اثرات کھو دیتا ہے۔ لیکن کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی جدائی کے غم میں دنیا ایک عرصے تک ماتم کناں رہتی ہے۔ انہی بندگان خاص میں سے ایک عظیم ہستی میرے ممدوح’ میرے بھائی میر سیّد جمال الدین الموسوی(مرحوم) ہیں۔جن کی وفات پر حسرت عین اس وقت ہوئی جب نوربخشی دنیا میں بہت سے علماء کبار پہلے ہی وفات پا چکے تھے اور اہل علم و عرفان ناپید ہونے لگے تھے۔علم و عرفان کی دنیا میں قحط الرجال کا دور شروع ہو چکا تھا۔ یوں آپ کی موت اس سلسلے کی آخری کڑی ثابت ہوئی اور4 جولائی 2020 ء کو قضائے الٰہی سے آپ بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ۔
موت برحق ہے۔اس کا وقت معین ہے کوئی ساعت نہ آگے ہو سکتی ہے نہ پیچھے۔ موت مقررہ ساعت میں ہی آجاتی ہے۔ یہ عمومی موت ہے جو ہر نفس پہ موکل ہے۔ لیکن جو خواص کی موت ہے ۔انبیاء و اولیا کی موت ہے۔ شہداء و صالحین و متقین کی موت ہے۔ان کی موت موت نہیں بلکہ گویا وہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔
مَوْتُ التُّقّٰی حَیَاتُ لاَّنِفَادَلَھَا قَدْمَاتَ قَوْمُ وَھُمْ فِی النَّاسِ اَحْیَای
یعنی پرہیز گاروں کی موت ان کے لئے ایسی زندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ بہت سے لوگ مر گئے ہیں، لیکن وہ لوگوں میں زندہ ہیں۔اسی طرح علماء کی موت بھی خواص کی موت سے مرتبے میں کم نہیں۔حضورِ انورۖ نے فرمایا ہے کہ” مَوْتُ العَالَمِ مَوْتُ العَالَمْ” یعنی ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت ہے۔
موت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہوئے کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا ہے؟کہ،
اَلْمَوْتُ بَابُ کُلُّ نَفْسِِ دَاخِلُوْھَا
الْمَوْتُ کَاسُ کُلُّ نَفْسِِ شَارِ بُو ھَا
یعنی موت ایک دروازہ ہے جس میں داخل ہو کر ہر ایک نے گزرنا ہے اور موت ایک ایسا جام ہے جسے ہر جاندار نے پینا ہے۔
قارئین کرام ! مرحوم و مغفورمیر سیّدجمال الدین الموسوی یقینا ایک عظیم سرمایہ تھا۔ آپ نے اپنی پوری زندگی پاک مسلک کی خدمت، حفاظت، ترقی و عروج، ترویج و اشاعت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔آپ صاف گو، کم گو، بے باک ، سادہ مزاج ، انتہائی سنجیدہ اور دور اندیش عالم با عمل صوفی تھے۔مگر ضروری اور واجبی باتیں ہمیشہ متانت ، وقار اور حکمت کے ساتھ کرتے تھے۔بارعب شخصیت اور خاندانی وجاہت کے باوجود عامة الناس میں گھل مل جاتے تھے۔ گفتگو ہمیشہ دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے۔بلند آواز میں کبھی بات نہ کرتے تھے۔اگر کسی کی بات پر غصہ آتا تو آپ کے چہرے سے ناگواری عیاں ہو جاتی تھی لیکن سخت الفاظ میں اس کی سرزنش کرنے کی بجائے نرمی اور حکمت آمیز گفتگو کے ذریعے سے پند و نصیحت اور اصلاح فرماتے تھے۔ آپ کی زندگی کا نمایاں انفرادی پہلویہ تھا کہ ، “اَلْحِکْمَةُ عَشَرَةُ اَجْزَائِِ تِسْعُھَافِی الصُمْت” کا مکمل مرقع تھا۔آپ ایک خاموش طبع اور بات کو تول کر بولنے والا انسان تھا۔آپ کے اندر سادگی اور خدمت خلق کا جذبہ بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ آپ نے خاندانی عظمت و وقار اور علمی جلالت کے باوجود ایک درویش کی طرح زندگی گزاری۔ دنیاوی جاہ و منصب اور حرص و لالچ سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔
آپ کی جلالت علمی محتاج بیان نہیں۔آپ کا شمار چوٹی کے معتبر علماء حق میں ہوتا تھا۔ علم کی پختگی اور وسعت نظری کے لحاظ سے بے مثال تھے۔بڑے بڑے اہل علم حضرات آپ کی علمیت اور فقاہت کے معترف تھے۔آپ جرأت و بے باکی، حق گوئی، اصول پسندی اور زہد و تقوٰی جیسی صفات سے متصف تھے۔آپ پوری زندگی اربابِ اختیار اور سیاسی طبقے سے دور رہے اور ان کے ساتھ قربت بڑھانے اور ان سے مرعوب و متاثر ہونے کی کسی بھی صورت کو اہل علم کی شان اور منصب کے خلاف سمجھتے تھے۔آپ نے ساری زندگی ایک عالم ربانی کی حیثیت سے گزاری اور قرآن کی آیات ” لَا یَخَافُوْنَ لَوْ مَةَ لَالٔمِِ اورلَا خَوْفُ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنo کی عملی تصویر پیش کی۔آپ سچا عاشق رسول اور محب اہل بیت تھے۔ آپ ہمیشہ امن و محبت اور اتفاق و اتحاد کے علم بردار رہے اورہر قسم کے سطحی اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے اپنے علم و فضل اور بے داغ کردار سے زمانے کو فیضیاب کیا۔
معزز قارئین کرام! آپ سے عرض کرتا چلوں تو علاقہ براہ بالا میں نکاح خوانی کا معاملہ ہو یا شادی بیاہ کا معاملہ ہو،پیدائش پر نام رکھنے کا معاملہ ہو یا فوتگی پر تدفین و تکفین اور نماز جنازہ کا معاملہ ہوآپ ہر موقع پر عوام الناس کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے پیش پیش رہتے تھے۔علاقے میں خوشی کی محفل ہو یا غم کی مجلس ہو محفل میلاد ہو یا مجلس عزاء ،تمام محافل و مجالس کی رونق اور روح رواںآپ کی ذات ہوتی تھی۔ان محافل و مجالس میں آپ کی دل کو چھو لینے والی باتیں اور وعظ و نصیحت عوام الناس کو راہ راست پر رکھنے کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔آپ علم میں یگانہ روزگار تھے تو عمل میں باب العلم کے تابعدار، آپ بلند پایہ مبلغ، شعلہ نوا مقرر و ذاکر اہل بیت بھی تھے۔
آپ کی زندگی مسلک نوربخشیہ کے لئے عموماََ اور اہلیان براہ کے لئے خصوصاََ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی ہے۔آپ کی خصوصی توجہ، دانش مندانہ و مدبرانہ فیصلوں کی بدولت علاقہ براہ اتفاق و اتحاد اور امن و سکون کی نعمتوں سے مالامال رہے۔براہ بالا کی فضاؤں میں آپ کی قدر و منزلت کے نقارے بجتے رہیں گے۔ یہاں کا ہر فرد بشر ان کی عظمت و رفعت کے گن گاتے رہیں گے اور تا ابد ان کی تابناک خدمات اور روشن زندگی کی یادیں تازہ ہوتی رہیں گی۔انشاء اللہ۔
حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص سے مروی ایک حدیث میں رسولِ اکرمۖ نے فرمایا :
اِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللہ عَلٰی مَنَابِرِِمِّنْ نُوْرِ الَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِی حُکْمِھِم وَاَھْلِیْھِمْ وَمَا وَ لُوْا۔
بیشک عدل و انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس نورانی منبروں پر رانق افروز ہوں گے جو اپنے معاملات، اہل و عیال اور ملنے والوں میں انصاف کرتے ہیں۔(مسلم، ریاض الصالحین)
مجھے یقین ہے کہ میرے عظیم بھائی میر سیّد جمال الدین الموسوی انہی نورانی منبروں پر رونق افروز ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔آپ کچھ عرصہ علیل رہے اور بالآخر4جولائی 2020ء بمطابق 12ذی القعد 1441ھ بروز ہفتہ صبح ٹھیک 6 بجے خالق حقیقی سے جا ملے اور لاکھوں چاہنے والوں کی آہوں اور سسکیوں میں اسی روز ٹھیک 2 بجے سپرد خاک ہوئے۔اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ۔
ان کی پہلی برسی کے موقع پر خاندان سادات بر اہ سمیت پورے خطۂ بلتستان کے لوگ دعا گو ہیں کہ اللہ پاک مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نو رستہ تیرے در کی نگہبانی کرے
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را