سیرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخ کے آئینے میں- پہلی قسط


تحریر سیدہ کنیز زہرا موسوی


ولادت:
مولائے متقیان، یعسوب الدین امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ۱۳ رجب بروز جمعہ عام الفیل کے تیسویں سال خانہ کعبہ میں ولادت پائی۔ والد محترم کا نام عمران جو کہ ابو طالب کی کنیت سے مشہور تھے۔ جناب ابو طالب کا شمار مکہ کے بااثر لوگوں میں ہوتے تھے اور آپ قبیلہ بنی ہاشم کے سردار بھی تھے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بن اسد ابن ہاشم ابن عبد المناف تھیں۔
برصغیر کے مشہور اہل سنت عالم دین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: “اخبار متواترہ سے یہ بات ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علیؑ کو خانہ کعبہ کے اندر جنم لیا۔”۱؎
امام علی علیہ السلام کی والدہ مکرمہ خود بیان کرتی ہیں: جب ولادت کا وقت قریب آیا تو ایک دن میں خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھی کہ طواف کے چوتھے چکر میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر تکلیف کے اثار دیکھ کر فرمایا: کیا طواف مکمل کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں ۔تو آپؐ نے فرمایا: طواف پورا کریں اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو خانہ کعبہ کے اندر چلی جائیں۔۲؎
حضرت عباس ابن ابی طالب سے روایت ہے: میں نے اسی وقت دیوار کعبہ کو شق ہوتے دیکھا اور فاطمہ اندر جا کر ہماری نظروں سے غائب ہو گئی۔ تین دن تک فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر رہیں اورچوتھے روز حضرت محمدؐ دروازے سے کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت علیؑ کو گود میں لے کر ان کے چہرے پر اپنا چہرہ مبارک رکھا اور علی کی جو پہلی غذا تھی وہ آپؐ کا لعاب مبارک تھا۔ حضرت علیؑ خود فرماتے ہیں: میرے منہ میں یہ رسولؐ کا لعاب مبارک ہے۔ ۳؎
آپ کے والدہ ماجدہ نے اسد نام رکھا جبکہ حکم خداوندی کے تحت حضرت ابو طالب علیہ السلام نے آپ کا نام علی رکھا۔اس حوالے سے امیر کبیر حضرت میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربیٰ میں ایک تفصلی روایت نقل کیا ہے ، یہاں اس کا ترجمہ پیش کرتی ہوں :
“حضرت عباس ابن عبد المطلب سے امیرالمؤمنین علیہ السلام کو علی کے نام سے موسوم کرنے کے باب میں روایت ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد کو علی علیہ السلام حمل تھا وہ آئی اور کہنے لگی :میں نام میں رکھوں گی اور حضرت ابوطالب بولے نام میں رکھوں گا اور انہوں نے ورقہ بن نوفل کے پاس اپنا معاملہ لے گئے تو اس نے کہا : اگر بیٹا ہوا تو نام رکھنا باپ کا حق ہے اور اگر بیٹی ہوئی تو نام رکھنے کا حق ماں کوحاصل ہے۔ جب بیٹا پیدا ہوا تو کہنے لگی اے ابوطالب اپنے نومولود کو نام رکھو، تو انہوں نے کہا : میں نے اس کا نام حارث رکھا۔ فاطمہ بولی: میں اپنے بیٹے کا نام حارث نہیں رکھوں گی۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگی کہ حارث ابلیس کے ناموں سے ایک ہے۔ پس حضرت ابوطالب نے کہاکہ آؤ ہم رات کو (کوہ) ابو قبیس پر چڑھیں اور سبز آسمان کے مالک سے دعا کریں۔ شاید وہ خدائے مہربان اس بارے میں ہمیں کچھ بتائے۔ جب شام ہوئی اور رات کی تاریکی چھا گئی تو دونوں میاں بیوی نکلے اور (کوہ) ابو قبیس پر چڑھنے لگے۔ جب اوپر پہنچ گئے تو حضرت ابوطالب نے یہ شعر پڑھا۔
”اے شب تاریک اور روشن ہونے والی صبح کے پروردگار تو ہمیں اپنے مقرر کردہ حکم سے بتا دے کہ ہم اس نومولود بچے کا نام کیا رکھیں؟” اس وقت اچانک آسمان سے ایک خوفناک آواز آئی۔ حضرت ابوطالب نے اس طرف دیکھا تو کیا نظر آتا ہے ایک سبز زبرجد کی تختی ہے اس میں چار لکیریں لکھی ہوئی ہیں۔ حضرت ابوطالب نے اس تختی کو اپنے دونوں ہاتھوں سے لیا اور خوب زور سے اپنے سینے سے لگایا (اور دیکھا تو) اس میں یہ شعر درج تھا۔
خَصِّصْتُمَا بِالْوَلَدِ الزَّکِیِّ
وَالطَّاهر الْمُنْتَجَبِ الرَّضِیِّ
وَاِسْمه مِنْ قَاهر السَمِّی
عَلِیّ اِشْتَقَّ مِنْ الْعَلِیِّ
تم دونوں فرزند نیک، پاکیزہ، برگزیدہ اور پسندیدہ سے مخصوص کئے گئے ہو۔ اور اس کا نام خدائے قاہر و بزرگ کی طرف سے علی ہے جو کہ عُلٰیٰ (جو اسم خداوندی ہے) سے مشتق ہے۔
پس حضرت ابوطالب بہت زیادہ خوش ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوگئے اور دس اونٹوں سے اپنے نومولود فرزند کا عقیقہ کیا اور احسن طریقے سے دعوت ولیمہ کھلائی۔ یہ تختی بیت الحرام میں لٹکی ہوئی تھی اور بنی ہاشم اس تختی پر قریش سے فخر کرتے تھے’ یہاں تک عبدالملک بن مروان نے عبد اللہ بن زبیر سے جنگ کے وقت اسے اکھاڑ دی۔[مودۃ القربی، مودۃ ۸،حدیث۴]
تربیت و پرورش
آنے والے حالات اور مستقبل قریب کے پیش نظر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زیر نگرانی آپ کی شخصیت کی تشکیل کی۔ چونکہ حضرت محمدؐ کو مکمل علم تھا اور بخوبی یہ جانتے تھے کہ آپ کے بعد علی ہی امت مسلمہ کے امور سنبھالیں گے اور وہ گراں قدر امانت (امامت و خلافت) انہی کے ذمہ ہونگے جس کا ذکر قرآن میں یوں ہوا ہے:
“ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا”۔ ۴؎
تفسیر حسینی میں ملا حسین واعظیؒ نے بحوالہ حضرت میر قاسم فیض بخشؒ اس امانت سے خلافت ربانی مراد لیا ہے۔۵؎
اس لئے آپؐ نے منظم دستور العمل کے تحت اپنے زیر دامن تربیت کی غرض سے اس وقت جبکہ آپ کی عمر ۶ ہی سال تھی ان کے والد کے مکان سے اپنے گھر منتقل کر لیا تاکہ براہ راست اپنی زیر نگرانی تربیت و پرورش کر سکیں۔۶؎ البتہ بعض مورخین نے اس گھر منتقلی کی وجہ قحط سالی قرار دیا ہے۔
حضرت محمدؐ کو علی سے اس قدر محبت تھی کہ آپ کو معمولی دیر کی جدائی بھی گوارا نہ تھی چنانچہ جب کبھی عبادت کی غرض سے آپؐ مکہ سے باہر تشریف لے جاتے تو حضرت علیؑ کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ ۷؎ اور یہ تربیت ہی کی ایک کڑی تھی۔
خود حضرت علیؑ فرماتے ہیں : جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے اسی طرح میں پیغمبر اکرمؐ کے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ آپؐ ہر روز اپنے اخلاقی فضائل کا پرچم میرے سامنے لہراتے اور فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں ۔۸؎
زندگی کے اہم واقعات
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی زندگی میں ایسے اہم واقعات رونما ہوئے جسے تاریخ اسلام میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔یہاں پر چند اہم واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہوں :
شب ہجرت
جب اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا تو مشرکین مکہ پریشان ہوئے اور اہل قریش کے چالیس بہادروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اس رات حضورؐ کو قتل کر دینگے اس غرض سے انہوں نے رسولؐ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ اس کی خبر ملتے ہی آپؐ نے حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کر کیااور فرمایا: لوگوں کو ان کی امانتیں واپس کر دیں اس کے بعد حضرت فاطمہؑ اور بعض خواتین کو ساتھ لے کر مدینہ آجائیں، اور آپؐ ہجرت کر گئے۔ جو خطرات حضور کو پیش آنے والے تھے وہ خطرات آپ نے مول لئے اور جان کی بازی لگاتے ہوئے حضورؐ کی حفاظت فرمائی۔ اس قربانی کی اہمیت اس آیت سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ” انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔” ۹؎
ہجرت مدینہ کے بعد مواخات مدینہ کا مرحلہ آیا۔ اس موقع پہ آپؐ نےحضرت علیؑ کو دنیا و آخرت کابھائی بناتے ہوئے وہ تاریخی جملہ فرمائے کہ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی نظر میں حضرت علیؑ کا کیا مقام تھا اور آپکی نظروں میں آپکی کیا وقعت و اہمیت تھی۔ آپؐ نے فرمایا “قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے تمہارے رشتہ برادری میں تاخیر نہیں کی بلکہ تمہیں اپنے رشتہ اخوت و برادری کے لئے منتخب کیا ہے تم ہی دین و دنیا میں میرے بھائی ہو”۔ ۱۰؎
اگر حضرت علیؑ کی شجاعت و بہادری کا جائزہ لیا جائے تو اپنی قربانیوں اور راہ حق میں جانبازیوں کے باعث صحابہ رسول کے درمیان لاثانی و بے مثال ہے۔ غزوہ تبوک کے علاوہ آپؑ نے تمام غزوات میں شرکت کی اور غزوہ تبوک میں رسولؐ کی ہدایت کے مطابق آپؑ مدینہ میں مقیم رہے۔ یہ آپ کی قربانیوں اور جانبازیوں ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام نے سپاہ شرک پر غلبہ حاصل کیا۔
اسی بہادری و شجاعت کا جھلک ہم یہاں بیان کرینگے:
جنگ بدر میں جب مشرکین کی طرف سے عتبہ، شیبہ اور ولید میدان جنگ میں اتر کر اسلام کو چیلنج کرنے لگے تو رسولؐ کی حکم سے حضرت عبیدہ بن حارث، حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت علی بن ابی طالبؑ ان سے مقابلہ کے لئے آئے۔ حضرت عبیدہ عتبہ سے، حضرت حمزہ شیبہ سے اور حضرت علیؑ ولید سے برسر پیکار ہوئے۔ حضرت علیؑ نے پہلے ہی وار میں دشمن کو خون میں نہلا دیا اور حضرت حمزہ کی مدد کے لئے بڑے اور شیبہ کو بھی قتل کرنے کے بعد حضرت عبیدہ کی مدد کی۔۱۱؎
اسی لئے جب آپؑ نے معاویہ کو خط لکھا تو اس میں تحریر فرمایا تھا کہ وہ تلوار جس سے میں نے ایک ہی دن میں تیرے دادا(عتبہ)، تیرے مامو(ولید)، تیرے بھائی (حنظلہ) اور تیرے چچا (شیبہ) کو قتل کیا تھا اب بھی میرے پاس ہے۔
اس کے علاوہ بدر کی مزید گمسان کی لڑائی میں ۲۷ سے زیادہ مشرکین آپ کے تلوار کے زد میں آئے۔
اس جنگ کے مقابلے میں جنگ احد مسلمانوں کے لئے خاصا پیچیدہ جنگ رہی کیوں کی رہبرؐ کی حکم عدولی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوئی اور آپؐ کا دندان مبارک تک شہید ہوئے۔
اس مرحلے میں بھی سپاہ اسلام کو فتح آپؑ ہی کی دست مبارک سے ہوئی۔
مقابلہ میں لشکر قریش کے یکے بعد دیگرے نو جنگجو حضرت علیؑ کے شمشیر کا تاب نہ لاتے ہوئے مارے گئے تو باقی افراد راہ فرار اختیار کی۔
جب آبنائے عینین کے بیشتر تیرانداز سولؐ کے حکم کی عدولی کرتے ہوئے اپنے جگہ سے ہٹ گئے تو اس وقت خالد بن ولید نے اپنے گھڑ سوار لشکر کے ساتھ چوٹی کے پیچھے سے حملہ آور ہوا۔ اس اچانک اور انتہائی کمر شکن حملے سے۷۰ کے قریب مسلمان شہید ہوئے اور باقی ماندہ راہ فرار اختیار کی۔ اس موقع پہ حضرت علیؑ مع کچھ اصحاب حضور اکرمؐ کی پاسبانی و حفاظت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس افراتفری کے عالم میں جبکہ کچھ ہی اصحاب دشمن سے برسرپیکار تھے مشرکین نے ہر طرف سے رسولؐ کو نشانہ بنایا اور دندان مبارک شہید ہوئے۔ اس وقت حضرت علیؑ ہی تھے جنہوں نے دشمن کی پیش قدمی کو روکتے ہوئے انکو منتشر کیا۔ آپ کی یہ قربانی اتنی اہم تھی کہ حضرت جبرائیل نے آپؐ کو مبارک باد دی اور آپؐ نے فرمایا علی منی وانا من علی اور لوگوں نے یہ ندا بھی سنی کہ “لاسیف الا ذولفقار و لافتی الا علی۔”۱۲؎
جنگ احزاب(خندق) کے موقع پر جب عمر بن عبدود جسے ایک ہزار پہلوانوں کا برابر سمجھا جاتا تھا، پانچ سپاہی لئے خندق پھلانگ کر آئے اور جنگ کے لئے للکارا۔ رسولؐ نے مسلمانوں کو تین دفعہ اس کی منہ بند کرانے کی دعوت دی تینوں دفعہ علیؑ ہی اٹھے اور اور مقابلے کے لئے بڑے تو حضورؐ نے ارشاد فرمایا: آج کامل ایمان کامل شرک سے مد مقابل ہےاور جبؑ آپ نے ایک ہی وار میں کُل شرک کے دو ٹکرے کر دئے تو آپؐ نے فرمایا آج تمہارے اس عمل کا امت محمد کے تمام اعمال سے مقابلہ کیا جائے تو اس عمل کو ان پر برتری ہوگی۔
کئی دن کے محاصرے اور یکے بعد دیگرے کئی صحابیوں کی حملےکے باوجود خیبر فتح نہ ہو سکا۔ یہ دیکھ کر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کہ یہ پرچم کل میں ایک ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور اس کے رسولؐ کو عزیز ہے۔ اور وہ بھی خدا اور اسکے رسولؐ کو عزیز رکھتا ہے۔اگلے روز علیؑ کو طلب کر کے پرچم تھما دیا اور آ پؑ میدان جنگ کی جانب روانہ ہوئے۔ مرحب اور اسکا بھائی حارث کو واصل جہنم کر دینے کے بعد قلعہ خیبر کو اکھاڑ دیا۔ اسی وجہ سے آپ کو فاتح خیبر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
راہ خدا میں علی کی جانبازیوں اور آپ کے ہاتھوں مشرکین کی ہلاکت کی وجہ سے آپ کے خلاف قریش کے دلوں میں وہ دشمنی و عداوت پیدا ہو گئی جس کے اثرات بعد میں منظر عام پر آئے۔ خصوصا مسئلہ خلافت کے سلسلے میں حضرت عثمان کا حضرت علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ “میں کیا کروں قریش آپ کو پسند نہیں کرتے۔ کیونکہ آپ نے ان کے ایسے ستر آدمیوں کو تہ و تیغ کر دیا ہے جن کا شمار قبیلے کے سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص میں ہوتا تھا۔”۱۳ ؎
حضرت علیؑ اور رسول کی جانشینی
بلا شک و تردید اسلام کے جو عظیم اور اہم ترین مسائل ہے ان میں امت کی ولایت و قیادت نیز امور مسلمین کی راہبری و سرپرستی بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے رسولؐ نے اپنے زمانہ حیات میں ہی مسئلہ رہبری و جانشینی کو طے کر دیں۔ چنانچہ تبلیغ اسلام کے اولین روز سے ہی مسئلہ توحید کے ساتھ مسئلہ خلافت کو واضح کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں رسول اکرمؐ نے اس الٰہی امر کا اعلان مختلف مواقع پر فرمایا۔ یہاں ہم زیل میں چند ایک کا ذکر کریں گے۔
دعوت ذی العشیرہ(حدیث یوم الدار)
بعثت کی تیسرے سال جب یہ آیت ناذل ہوئی: وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ۱۴؎
اس حکم کے پیش نظر آپؐ نے بنی ہاشم کے ۴۰ سرداروں کو جن میں ابو طالبؑ، ابو لہب، حضرت حمزہؑ وغیرہ شامل تھے مدعو کیا اور کھانا کھلانے کے بعد انکو عذاب الٰہی سے ڈرانے کے بعد راہ حق کی دعوت دیتے ہوئے کہا تم میں سے ایسا کون ہے جو اس راہ میں میرے مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی، وصی اور جانشین قرار پائے۔ اس سوال کو رسولؐ نے تین مرتبہ دہرایا اور ہرمرتبہ علیؑ ہی اپنے جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنے امادگی کا اعلان کیا۔ اس وقت رسول اکرمؐ نے حضرت علیؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تو گویا علیؑ ہی میرے بھائی، وصی اور جانشین ہیں لہٰذا تم انکی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ ۱۵؎ حدیث غدیر کو سلسلہ نوربخشیہ کے اہم قطب حضرت میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربیٰ سمیت اپنی دیگر کتابوں میں مختلف طُرق سے نقل کیا ہے ساتھ ہی حضرت شیخ علاءالدولہ سمنانی نے اس موضوع پر دو اہم کتابیں ” رساله مقاصدالمخلصین و رساله مناظر المحاظر للمناظر الحاضر” تحریر فرمائی ہے ۔
حدیث منزلت
غزوہ تبوک کے موقع پہ حضرت علیؑ کی اس مقام و منزلت کو جو آپؐ کے نزدیک تھا واضح کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ “کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ میرے اور تمہارے درمیان وہی نسبت ہے جو کہ موسیٰؑ اور ہارونؑ کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
۱۷۰محدثین کے طریق سے حدیث منزلت کو نقل کیا گیا ہے۔ ان میں سے ۱۰۰ طریق اہل سنت کے ہیں۔
اور قرآن کی تعلیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت موسیؑ نے حضرت ہارونؑ کے لئے مندرجہ ذیل مناصب چاہے تھے۔
مقام وزارت؛
“میرے کنبے سے ہارون کو وزیر مقرر کر دے جو کہ میرے بھائی ہے۔”۱۶؎
تقویت و تائید ؛
” اس کے زریعے میرا ہاتھ مضبوط کر۔”۱۷؎
“موسیٰ ؑنے ہارونؑ سے کہا تم میری قوم میں میرے خلیفہ اور جانشین ہو۔”۱۸؎
ان آیات سے واضح ہوا کہ اس حدیث کے مطابق علی ہی خلیفہ و جانشین رسولؐ ہیں۔
حدیث غدیر:
خدیر خم کے میدان میں حضرت علیؑ کا ہاتھ بلند کیا تو تمام لوگوں نے حضرت علیؑ کو رسول اکرمؐ کے دوش بدوش دیکھا اور آپؐ نے فرمایا :
“جس کا مولا میں ہوں علیؑ اس کا مولا ہے۔ ”
مزید آپ دعا کرتے ہوئے فرمایا:
” پروردگار تو اس شخص کو دوست رکھ جو علیؑ سے دوستی رکھتا ہو اور جو کوئی اس سے سے دشمنی رکھے تو بھی ان سے دشمنی رکھ۔۱۹؎
ایسے ہی سینکڑوں احادیث مودت القربیٰ و دیگر کتابوں میں روایت ہوئی ہے۔
اسی سلسلے میں شاہ سید محمد نووربخش ؒ فرماتے ہیں:
آنکہ را باشد خلافت از خدا
او بود بر کل عالم پیشوا
(جاری ہے)
حوالہ جات:
۱۔ قرۃ العین فی سیرت الشیخین شاہ ولی ص ۱۳۸، السفینہ نوریہ ص ۱۳۸
۲۔ السفینہ نوریہ ص ۱۴۰
۳۔ نہج الباغہ
۴۔ سورۃ احزاب ۷۲
۵۔ تفسیر حسینی ص ۶۸۴
۶۔ سیرت ابن ہشام ج ۱ص ۲۶۲، تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۱۲
۷۔ تاریخ طبری ج ۲ س ۳۱۳، شرح ابن ابی الحدید ج ۱۳ ص ۱۹۹
۸۔ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ ۱۹۲
۹۔ بقرہ ۲۰۷
۱۰۔ مستدرک الحاکم ج ۳ ص ۱۴
۱۱۔ الصحیح من سیرۃ النبی ج ۳ ص ۱۹۲
۱۲۔ مودت القربیٰ ص ۹۹، تاریخ طبری ج ۲ ص ۵۱۴، شرح ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۵۰
۱۳۔ شرح ابن ابی الحدید ، جلد ۹ ، ص ۲۳ ۔
۱۴۔ سورہ شعرا ۲۱۴
۱۵۔ تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۲۱، مجمع البیان ج ۸ ص ۷
۱۶۔ سورہ طہ ۲۹
۱۷۔ سورہ طہ ۳۱
۱۸۔ سورہ اعراف ۱۴۲
۱۹۔”مودت القربیٰ ص۸۲، سنن ترمذی ۳۸۷۶