غدیر خم اور حضرت علیؑ کی منزلت


تحریر


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
غدیر خم اور حضرت علیؑ کی منزلت

ازقلم:-صابرہ بانو

پیغمبر ؐاسلام کی جانشینی ہمارے عقیدے کے مطابق ایک الہٰی منصب ہے جو خدا کی طرف سے اسکے حقدار کو ملتا ہے۔
رسول اکرمﷺ نے اسلام کی شروع ہی سے جب انہوں نے اسلام کی دعوت کو لوگوں میں عام کرنا شروع کیا اور انہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو اپنی رسالت سے آگاہ کیا، قیامت کے عذاب سے ڈرایا ۔ تبلیغی محفلوں میں اپنی جانشینی کے مسئلے کو بھی بیان کیا اور بنی ہاشم میں سے 45لوگوں کو بلا کر حکم الٰہی کو بیان کیا۔
پیغمبر ؐاسلام نے فرمایا! تم میں سے جو کو ئی بھی سب سے پہلے میری دعوت کو قبول کرے گا اور میری مدد کرے گا میرا بھائی،وصی اور جانشین ہوگا اور تاریخ نے بھی اس بات کی گواہی دی کہ سوائے حضرت علی علیہ اسلام کے کوئی بھی اپنی جگہ سے کھڑا نہ ہوا اور کسی نے رسول اکرمؐ کی دعوت کو قبول اور مدد کرنے کی حمایت نہیں کی لہٰذا رسول اکرمؐ نے اس مجمع میں فرمایا کہ! یہ نوجوان ( حضرت علی علیہ اسلام) میرا وصی اور جانشین ہے اور تاریخ میں یہ واقعہ(یوم الدار)اور (بدء الدعوہ) کے نام سے مشہور ہے۔
اسکے علاوہ بھی رسول اللہؐ نے اپنی۲۳ سالہ رسالت میں مختلف مقامات اور مناسبت پر حضرت علی علیہ اسلام کی جانشینی کے مسئلے کو امت کے سامنے بیان فرمایا اور ان کے مقام کو سب سے زیادہ برتر اور اہم قرار دیاہے۔
ایک حدیث جو سب سے زیادہ اہم اور خاص امتیاز حاصل ہوئی وہ (حدیث منزلت) ہے یعنی رسول خداؐ نے حضرت علی ؑکو اپنے لئے ایسا سمجھا کہ جیسے موسیٰؑ کے لئے ہارونؑ اسکے علاوہ ایک اور حدیث(حدیث سد ابواب) ہے۔
مدینہ میں ہجرت کے بعد اصحاب پیغمبرؓکے گھروں کے دروازے مسجد نبوی میں کھلا کرتے تھے کچھ ہی عرصے بعد رسول خداؐ کو حکم الہٰی ہوتا ہے کہ اے محمدؐ مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔ سوائے حضرت علی علیہ اسلام کے ۔ اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جسے ہم (حدیث اخوت) کے نام سے پہچانتے ہیں حضرت علیؑ کے بلند مقام کی گواہی دیتی ہے۔
اورسب سے بڑھ کر روز مباہلہ کہ جس دن خداوند عالم نے (سورہ ال عمران)میں حضرت علی علیہ اسلام کو رسول اکرمﷺ کا نفس قرار دیا اور بلآخر سب سے زیادہ واضح اور مستند حدیث (حدیث غدیر) ہے جو رسول خداؐ نے اپنے آخری حج سے واپسی پر بیان فرمائی۔
سرکار دوعالم ماہ ذیقعدہ کی ۲۶ تاریخ کو ہجرت کے دسویں سال آخری حج کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے۔۹ ماہ ذالحجہ کو میدان عرفات میں حضورﷺ نے ناقہ غضباء پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ حج سے فارغ ہو کر آپؐ نے مدینہ کی طرف واپس سفر شروع کیا۔ ۱۸ ذالحجہ کے دن غدیر خم کے مقام پر پہنچے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہر علاقہ کو راستہ جاتا ہے ۔ ۹ ذالحجہ سے ۱۸ ذالحجہ تک تین بار اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوتا رہا کہ!
ارشاد باری تعالیٰ!
ترجمہ :اے رسول ؐ جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پہنچادو ،اگر تم نے ایسا نہ کیا تو(سمجھ لو کہ)تم نے اس کا پیغام ہی نہیں پہنچایا (تم ڈرو نہیں)خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ،خدا ہر گز کافروں کی قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔
خدا کا حکم پہنچتے ہی رسولؐ نے وہیں پڑاو لگایا رسول خداؐ نے کارواں کو روکنے کا حکم دیا اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب حاجی ایک ایسے مقام کے نزدیک ہو چکے تھے کہ جہاں سے مدینہ ،مصر اور عراق کے مسافر الگ الگ ہو جاتے تھے ،جو لوگ آگے نکل گئے تھے انہیں واپس بلایا اورجو پچھے سے آرہے تھے انہیں ساتھ ملا یا اور کجاوئوں کامنبر بنوایا ۔بلال کو حکم دیا کہ حی علی خیر العمل کی ندا بلند کر بلال کی آواز پر میدان عرفات کا گمان ہونے لگا اصحاب موسیٰ ؑ کی تعداد کے مطابق کم از کم ستر ہزار صحابہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرنے کے لئے رسول اللہؐ منبر پر تشریف لائے۔ حضرت علیؑ کو بھی بلا کر اپنی دائیںجانب برسرمنبر اونچی جگہ پر بٹھایا رسول خداؐ نے ایک نظر اپنے چاروں طرف کے مجمع پر گمائی کہ جس پر سکوت طاری تھا اور سب کی نگاہیں پیغمبر اسلامؐ پر جمی ہوئی تھیں ایسے عالم میں رسول خداؐ نے ارشاد فرمانا شروع کیا اور سب سے پہلے خداوند کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا کہ!
مجھے خدا وند عالم کی طرف سے بلاوا آیا ہے جسے قبول کئے بغیر چارہ نہیں وقت آگیا ہے اور میںتم لوگوں سے عنقریب جدا ہو جائوںمگر غور سے سنو میں تم لوگوں میں دو ایسی گراں قدر چیزیں چھوڑنے والا ہوں کہ اگر ان دونوں سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہونگے وہ دونوں چیزیں کتاب اللہ اور میری عترت ہیں اور یقین کرو کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ دونو اکھٹے حوض کوثر پرمیرے پاس پہنچ جائے۔سنو ان دونوں سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جاو گے اور میرے اہلبیت کو تعلیم نہ دینا کیونکہ وہ تم سے زیادہ علم کے مالک ہیں۔
(تاریخ ابن کثیر)
پھر پیغمبر اکرمؐ نے استفسار کیا!
اے لوگو !کیا میں تم سے زیادہ تمہاری جانوں کا مالک نہیں ہوں؟
قالو بلی: سب نے کہا ہاں ۔ اسی وقت حضورؐ نے حضرت علیؑ کے ہاتھ کو پکڑکر بلند کیا اور فرمایا!
مَن کنتُ مَولاہ فھٰذا علی مَولاہ اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرواخذل من خذلہ
(مودۃ القربیٰ مودت۵)(کشف الحقیقت ج۵)(فلاح المومنین)
جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اسکا مولا ہے خدایا جو علیؑ سے دوستی رکھے اس سے تو بھی دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور جو اسکی نصرت کرے تو بھی اسکی نصرت کر اور جو اس سے کنارہ کشی کرلے اسے تو بھی چھوڑدے۔
اسکے بعد حضرت علیؑ کے سر پر دستار باندھی اور فرمایا سب سے بیعت لے لیں اور تمام اصحاب کو حکم دیا کہ جاکر علیؑ کی بیعت کرو۔ جب تبلیع ولایت علیؑ سے فارغ ہوئے توقرآن کی یہ آخری آیت نازل ہوئی:۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (سورۃ مائدہ آیت۴)
ٓآج ہم نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دیںاور تمہارے دین اسلام کو پسند کر دیاہے۔
اسی مناسبت سے ہم محبان علیؑ ذی الحجہ کی ۱۸ تاریخ کو جشن مناتے ہیں ہمارے پیران طریقت نے مسئلہ غدیر کی مناسبت سے ۱۸ ذی الحجہ کو فرمانِ نبوی کے مطابق روزہ رکھتے ہیں اور مخصوص نماز قبل از ظہردو رکعت نماز غدیر پڑھتے ہیں اس کے بعد علما و السادات عظام فلسفہ غدیر اور مسئلہ امامت کو اجاگر کرتے ہیں ۔
امیر کبیر سید علی ہمدانی نے دعوت شریف میں ۱۸ ذی الحجہ کو مخصوص اعمال و فضیلتِ روزہ بیان کی ہے۔
اِس دن نوربخشی حضرات خلوص ودل کے ساتھ جشن غدیر مناتے ہیں ۔
دعا ہے کہ پر وردگار ہمیں ہر روز ایسا دن دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور معرفت اہلبیت کی نور سے ہمارے دلوں کو پر نور عطا فرمائے
(آمین یا رب العالمین)