فضائل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور مسلک نوربخشیہ


تحریر تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی thagasvi1992@gmail.com


فضائل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور مسلک نوربخشیہ
[میر سید علی ہمدانی اور سید محمد نوربخش کی تعلیمات کی روشنی میں ]
مقدمہ
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی شخصیت کی فضائل اور اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے قرآن وحدیث ،اقوال معصومین و بزرگان دین اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ضروری ہے ۔اسی لئے جناب سیدہ زہرا (س) کی شخصیت بھی اسلامی تعلیمات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے کیونکہ آپ کا تعلق اس خاندان سے ہے جس کے بارے میں خود قرآن مجید کبھی آیہ تطہیر کی صورت میں تو کبھی آیہ مودت کی شکل میں تو کبھی آیہ مباہلہ کی صورت میں تو کبھی ہل اتیٰ کی شکل میں مدح سرا ہے ۔دوسری طرف ان کے فضائل و مناقب احادیث رسول اللہ اور اقوال معصومین اور اصحاب کبار فراوان تعداد میں عالم اسلام کی کتابوں میں موجود ہیں ۔کوئی ایسا شخص ہو جس نے اہل بیت کا تذکرہ کیا ہو مگر جناب سیدہ (س) کا ذکر نہ کیا ہو ۔مورخین اسلام نے بھی ہر موقع پر اس عظیم شہزادی کی عظمت وطہارت و عصمت کے بارے میں قلم اٹھایا ہے ۔ بزرگان سلسلہ نوربخشیہ نے اپنی کتابوں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب بیان کیے ہیں ۔
عالم اسلام کے دیگر علما ء ، مورخین ، محققین و محدثین کی طرح سلسلہ نوربخشیہ کے بزرگان اور علماء نے اس عظیم خاتون کی عظمت و فضیلت اور شرف کے حوالے سے قلم فرسائی کرتے ہوئے خاتون جنت سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار فرمایا ہے ۔
مسلک نوربخشیہ
جناب زہرا کے فضائل و مناقب مسلک نوربخشیہ کے بزرگان کی تعلیمات کی روشنی میں نقل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس مسلک کے بارے میں چند مطالب بیان ہوجائے ۔ اس مسلک اور فرقہ کی پہچان کے لئے تین زایوں سے دیکھنا ہوگا :
۱۔ فقہی مسلک: سید محمد نوربخش سے پہلے اس سلسلہ تصوف کے بزرگان کے درمیان کوئی اہم فقہی کتاب نہیں تھی لیکن سید محمد نوربخش نے ایک مستقل کتاب “فقہ الاحوط ” کے نام سے تدوین کیا اور اس میں فقہی مسائل کو بیان کیا ۔ ان کے بعد آج تک ان کے سارے مرید اور مقلدین اس کتاب پر عمل پیرا ہیں ۔ لہذا اس حوالے سے اس کو فقہی مسلک کا عنوان دیا جاسکتا ہے ۔ معاصر عالم علامہ محمد بشیر اس حوالے سے لکھتے ہیں :
فرقہ نوربخشیہ فقہی احکام میں سید العارفین حضر ت سید محمد نوربخش موسوی قہستانی کی پیروی کرتے ہیں ،اسی وجہ سے نوربخشیہ کہلاتے ہیں جیسے کہ فرقہ جعفریہ، اسماعلیہ، حنفیہ ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ وغیرہ ۔[فقہ احوط ، مقدمہ ، ص ۷]
کلامی مسلک: نوربخشیہ کو ایک زاویہ کے تحت فرقہ کلامی بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ نوربخشی پیرورکاروں کے پاس کلامی حوالے سے الگ مستقل کتاب ہے جیسا کہ اشاعرہ ، معتزلہ اور ماتریدیہ ۔ اس کتاب میں ان کے عقائد کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے یہ کتاب بھی میر سید محمد نوربخش ہی کی تصنیف ہے ۔ محمد بشیر اس حوالے سے کہتے ہیں :
ہمارا سلسلہ منقطع ہوئے بغیر چہاردہ معصومین علیہم السلام سے متصل ہوتا ہے ،ہم اعتدال کے راستے پر گامزن ہیں، ہم وہ حقیقی شیعہ ہیں جو روحانیت کو چودہ معصومین علیہم السلام سے لیتے ہیں ۔[فقہ احوط ، مقدمہ ، ص ۸]
تصوفی و عرفاني مسلک : نوربخشيه ايک ايسا مسلک ہے کہ عرفان و تصوف کی کتابوں میں ایک تصوف کے سلسلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ اس سلسلہ کی ابتدا امام ثامن حضرت امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام سے ہوتی ہے اسی وجہ سے اس سلسلے کو “سلسلہ ذہب ” کہا گیا ہے ۔ اسی لئے فرقہ نوربخشیہ ایک تصوفی و عرفانی فرقہ اور مسلک ہے اس خصوصیت کے ساتھ وہ اپنے طریقتی سلسلے میں بارہ ائمہ علیہم السلام کی عصمت و طہارت کا قائل ہیں ۔
مندرجہ بالا مطالب کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نوربخشیہ ایک فقہی ، کلامی اور عرفانی مسلک ہے جس کا سلسلہ بارہ ائمہ علیہم السلام سے متصل ہے اور آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ و عارف میر سید محمد نوربخش کے مقلد ہونے کی وجہ سے نوربخشیہ کہلاتا ہے ۔ان کے سلسلے میں علمی حوالے سے برجستہ شخصیات جیسے میر سید علی ہمدانی اور میر سید محمد نوربخش وغیرہ موجود ہیں ۔
میرسید علی ہمدانی اور فضائل جناب زہرا[س]
سلسلہ ذہب کے اہم قطب اور پیر امیر کبیر سید علی ہمدانی[متوفی ۷۸۶] اپنی معروف کتاب مودۃ القربیٰ کے مقدمہ میں اہل بیت بتول یعنی اولاد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے محبت و مودۃ کو خدا تک رسائی کا زریعہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :
فَوَجَبَ عَلی مَنْ طَلَبَ طَرِیْقَ الْوُصُوْلِ وَ مَنهجَ الْقُبُوْلِ مُحَبَّةَ الرَّسُوْلِ وَمَوَدَّةَ اَھلِ بَیْتِ الْبَتُوْلِ (مودۃ القربیٰ ، مقدمہ ،ص ۱۳) یعنی جو کوئی خدا تک رسائی چاہتا ہو اور اس کے مقبول بندوں میں شامل ہونے کے خواہشمند ہو تو اس کے لئے واجب ہے کہ وہ رسول اکرم کی محبت اور اہلبیت بتول علیہم السلام کی محبت کا دم بھر لیں ۔
میر سید علی ہمدانی نے اپنی اسی کتاب میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل اور مناقب کے حوالے سے رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی احادیث نقل کی ہیں ۔ذیل میں ہم چند احادیث بعنوان مثال پیش کریں گے :
سب سے پہلے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے اس حدیث مبارکہ نقل کیا ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِنَّمَا سُمِّیَتْ اِبْنَتِیْ فَاطِمَةَ لِاَنَّ اﷲَ فَطْمها وَ فَطْمَ مُحِبِّبها مِنَ النَّارِ۔(مودۃ القربیٰ ،مودۃ ۱۱، ح ۳، ص ۱۱۳) رسول خدا نے فرمایا: بلاشبہ میری بیٹی کا نام فاطمہ رکھا گیا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو جہنم کی آگ سے بچائے رکھا ہے۔
اسی حدیث کو میر سید علی ہمدانی اپنی دوسری کتاب السبعین فی فضائل امیر المومنین میں سلمان فارسی کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
شاہ ہمدان نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت رسول خدا کی محبت کو عائشہ کی زبانی یوں نقل کی ہے :
عَنْ عَائِشَةٍ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ اِذَا قَدَمَ مِنْ سَفَرٍ قَبَّلَ نَحْرَ فَاطِمَةَ وَقَالَ مِنها اَشُمُّ رَائِحَة َالْجَنَّةِ۔ (مودۃ القربیٰ، مودۃ ۱۱، حدیث ۱۳،ص ۱۱۷)ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ جب کسی سفر سے لوٹتے تھے تو فاطمہ کا حلقوم چومتے تھے اور فرماتے تھے میں اس سے بہشت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔
میر سید علی ہمدانی نے اس حدیث کو بھی نقل کیا ہے کہ اگر کوئی روئے زمین پر بغض فاطمہ میں قدم رکھے تو اس نے حرام کام انجام دیا ہے ، جب اس کا قدم رکھنا ہی حرام ہو تو جتنی بھی عبادت انجام دیں اس کا یقیناً کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ لِعَلِیٍّ یَاعَلِیُّ اِنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعَالی زَوَّجَکَ فَاطِمَةَ وَجَعَلَ صِدَاقها الْاَرْضَ فَمَنْ مَشی عَلَیها مُبْغِضاً لَکَ مَشی حَرَاماً ۔(مودۃ القربیٰ، مودہ ۱۳، ح ۱۲، ص ۱۳۶)رسول اکرم نے علی سے فرمایا اے علی اﷲ تعالیٰ نے فاطمہ کی تزویج آپ سے کردی۔ اور اس کا مہر زمین کو مقرر فرمایا پس جوکوئی آپ سے بغض رکھتے ہوئے زمین پر چلے تو اس کا چلنا حرام ہے۔
اس حدیث کو میر سید علی ہمدانی میں السبعین فی فضائل امیر المومنین میں عبداللہ ابن مسعود کی روایت کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ [السبعین فی فضائل امیر المومنین ،ح ۱۰، ص ۴۴]
مودۃ القربیٰ کے مختلف ابواب میں جناب زہرا رسول کے جگر کاٹکڑا ہونے، تمام کائنات میں سب سے افضل خاتون ہونے اور امیر المومنین علیہ السلام کی بہترین زوجہ ، حسنین کریمن کی مادر گرامی ہونے اور جناب زہرا کا قیامت کے دن اپنے بیٹے حسین پر رونے والوں کی شفاعت طلب کرنے کے حوالے سے رسول خدا کی کئی احادیث نقل کی ہیں ۔ساتھ ہی جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی وصیت اور رحلت کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
اس کے علاوہ دعوات صوفیہ امامیہ میں موجود دعاوں میں بھی جناب زہرا (س) سے توسل بھی ان کی آنحضرت سے محبت و اعتقاد کی دلیل ہے ۔
حضرت سید علی ہمدانی (رح)کے مطابق ہر واجب نماز کے بعد تعقیبات میں چہاردہ معصومین علیہم السلام سے متوسل ہو کر جو دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک جملہ یہ ہے : وَبِشَرَافَةِ الْفَاطِمَةِ وَنِسْبَتها (دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۱۰۷)حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شرافت و نسبت کا واسطہ۔ انہوں نے دعائے توسل خمسہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
اِلهِیْ بِحُرْمَةِ خَمْسَةِ نِ الَّتِیْ هوَ مُحَمَّد وَعَلِیّ وَفَاطِمَةُ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَسَادِسِ همْ جِبْرَا ئِیْلُ عَلَیهمُ السَّلَامُ اَنْ تَحْفَظَنَا مِنْ آفَاتِ الدُّنْیَا وَالْاخِرَةِ (دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۱۰۹)
ترجمہ: اے میرے اللہ ان پانچ ہستیوں یعنی محمد ،علی ،فاطمہ ،حسن ، حسین ،ان میں سے چھٹا جبرئیل (ہے) کی حرمت کا واسطہ ہم کو دنیا و آخرت کی بلاوں سے بچائے رکھے۔
اور سلسلہ نوربخشیہ کے کلمہ طیبہ کو امیر کبیر سید علی ہمدانی(رح) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
لَا اِله اِلَّا الله مُحَمَّد رَّسُوْلُ الله عَلِیّ وَّلِیُّ الله وَفَاطِمَةُ اَمَةُ الله وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ صَفْوَةُ الله عَلی مُحِبِّیهمْ رَحْمَةُ الله وَعَلی مُبْغِضِیهمْ لَعْنَةُ الله (دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۲۲۲)
ترجمہ :اللہ کے سواکوئی معبود نہیں ،حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں ،حضرت علی اللہ کے ولی ہیں ،حضرت فاطمہ) اللہ کی بندی ہے ،حضرت امام حسن اور امام حسین اللہ کے برگزیدے ہیں ۔ان سے محبت رکھنے والے پر اللہ کی رحمت اور بغض رکھنے والوں پر لعنت ہو۔
اسی طرح شاہ ہمدان (رح)کے نے جناب سیدہ (س) کی یوم شہادت کے دن دو رکعت نماز زیارت اس طریقے سے پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر سو مرتبہ ‘ دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سو مرتبہ پڑھے۔ نیت یہ ہے
اُصَلِّیْ صَلوةَ زِیَارَةِ فَاطِمَةَ الزَّهرآ رَکْعَتَیْنِ قُرْبَةً اِلَی الله (دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۲۵۲)
اسی طرح میت کے کفن پر بھی کلمہ طیبہ کے ساتھ اس شعر کو بھی لکھنے کا حکم دیا ہے ۔
مصطفےٰ باسہ محمد مرتضیٰ باسہ علی
جعفر وموسیٰ وزہرا یک حسین ودو حسن
(دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۲۹۶)
میر سید علی ہمدانی کی کتابوں میں منقول حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ عاشق اہلبیت تھے ساتھ ہی جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے خصوصی مدح خوانوں میں سے تھے ۔
سید محمد نوربخش اور فضائل حضرت زہرا [س]
سلسلہ نوربخشیہ کے قطب الاقطاب اور فقہ میں مجتہد میر سید محمد نوربخش نے بھی اپنی تعلیمات میں جناب زہرا اور ان کی نسل کو خاص اہمیت دیا ہے جیسا کہ ان کے ہاں امامت کی شرائط میں سے ایک فاطمی ہوناہے جیسا کے آپ فرماتے ہیں:
و اصل الامامة الشجاعة و القریشیة و صفاتها الصوریة السیادة المنصوصة الفاطمیة و العلم و التقوی والشجاعة و السخاوة. (رسالہ اعتقادیہ ، ص ۲۸)امامت کی بنیا د شجاعت اور قریشی النسب ہو نا ہے ۔ امامت کی صفات صوریہ ہیں۔ ١) نص صریح کے ذریعے سید ہونا ثابت ہو ۔ ٢)اولافاطمہ سے ہو ۔ ٣)علم والا ہو ۔ ٤) پرہیز گار ہو (٥) شجاعت والا ہو (٦) سخاوت والاہو ۔
اسی طرح میرسید محمد نوربخش نے جہاد اکبر کے امام کی شرائط میں سے بھی سب سے بہتراولاد فاطمی کو قرار دیا ہے ۔
وَلَابُدَّ فِیْ کُلِّ مِّنهمَا مِنْ اِمَامٍ ذَکَرٍ حُرٍّ بَالِغٍ عَاقِلٍ مُسْلِمٍ عَادِلٍ عَالِمٍ شُجَاعٍ سَخِیٍّ تَقِیٍّ قُرَیْشِیٍّ بَلْ هاشِمِیٍّ بَلْ عَلَوِیٍّ بَلْ فَاطِمِیٍّ فَلِلْجهادِ الْاَصْغَرِ یَکْفِی هذا الْقَدْرُ فِیْ صِفَاتِ الْاِمَامِ (فقہ الاحوط ، باب الجہاد، ص ۱۱۰)ان دونوں میں سے ہرایک کے لئے ایک ایسے امام کا ہونا ضروری ہے جو مرد ہو ، آزاد ہو ، بالغ ہو عقلمند ہو ،مسلمان ہو ، عدل والا ہو ،علم والا ہو بہادرہو ،سخاوت کا حامل ہو ،تقوی کا حامل ہو ، قریشی بلکہ ہاشمی ہو بلکہ علوی ہو بلکہ فاطمی ہو ۔جہا د اصغر کے لئے انہی صفات کا امام کافی ہے۔
در حضرت زہرا (س) کو جلانے کے اس المناک و اندوہناک حادثے کومیر سید محمد نوربخش(رح) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
ای کہ از نار نفاق افروختی
بہر دنیا دین و ایمان سوختی
آتشی بر باب با ب اللہ زدی
تا زبالش رہروان را راہزدی
بر شکستی آن درو درگاہ دین
بر نہادی از حسد بنیاد کین
(کشف الحقیقت ،ج۳، ص ۵۶)
ترجمہ:اے وہ شخص جس نے نفاق کی آگ لگادی ،دنیا کے خاطر دین اور ایمان کو جلا ڈالا ،اللہ کے گھر کےدروازے کو آگ لگائی ،تم حسد اور کینا کے بنیاد پرتونے دین کے درگاہ کوروندا ہے ۔
اس کے علاوہ معروف نوربخشی عالم دین مولوی حمزہ علی نے اپنے کتاب میں زیارت حضرت زہرا (س) کو اس طرح بیان کیا ہے ۔
آپ کی تربت کی طرف منہ کر کے ان الفاظ میں زیارت پڑھیں ۔
السلام علیک یا بنت رسول الله، السلام علیک یا بنت حبیب الله، السلام علیک بنت نبی الله، السلام علیک یا بنت خیر خلق الله،السلام علیک یا بنت خلیل الله،السلام علیک یا بنت صفی الله، السلام علیک زوجة ولی الله،السلام علیک یا ام الحسن و الحسین سیدا شباب اهل الجنة، السلام علیک یا سیدة نساء العالمین، السلام علیک یا والدة الحجج علی الناس العالمین، السلام علیک و رحمة الله و برکاته.
زیارت کی بعد محمد و آل محمد پر درود پڑھیں اور دو رکعت نماز زیارت فاطمہ (س) پڑھ کر اپنی حاجت پروردگاہ کے حضور میں التماس کریں انشا ء اللہ مئوثر ہو گا ۔(فلاح المومنین ،ص ۲۰۹)
مولوی حمزہ علی نے اپنے دوسری کتاب میں اس روایت کو بھی نقل کیا ہے ،جس سے جناب سیدہ (س) ان کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم نے بالائے عرش کچھ انوار دیکھے تو اس وقت خدا وند عالم سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو اس وقت ارشاد باری تعالیٰ ہوا ان میں سے ایک نورمیرے حبیب محمدمصطفی کا ہے اور دوسرا ان کے وصی علی مرتضیٰ کا ہے اور وہ دوانوار حسن مجتبیٰ اور حسین سید الشہدا کے ہیں ۔حضرت ابراہیم نے عرض کیا :ان کے پاس ایک اور نور بھی ہے جو کہ مثل زہرہ کے تابان دیکھ رہا ہوں ۔ارشاد ہوا وہ نور فاطمہ زہرا (س) دختر سید ة النساء العالمین زوجة الاوصیا کا ہے اس کا نام فاطمہ اس لئے رکھا ہے کہ روز قیامت اپنے دوستداران کو آتش جہنم سے چھڑائے گی۔(نور المومنین ،ص ۲۸۷)
خاتمہ
آخر میں خاتمہ کے طور پر ایک نکتہ ذکر کر کے موضوع سمیٹ لیتا ہوں کہ جس طرح عالم اسلام میں جناب سیدہ (س) کی یوم شہادت کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں ،مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے ہاں بھی ہے اور اس سلسلے طریقت کے بزرگان کے مطابق جناب سیدہ (س ) کی شہادت ٣ رمضان المبارک کو ہوئی ہے اور اسی دن نماز زیارت کا بھی حکم ہے ،جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔(دعوات صوفیہ امامیہ ، ص ۲۵۲)
مندرجہ بالا روایات اور احادیث و عملیات کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کی عالم اسلام کے باقی مسالک کے علماء و بزرگان کے طرح سلسلہ ذہب مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ کے بزرگان دین بھی جناب سیدہ زہرا (س) سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے ،کیونکہ یہ ہستیاں حضرت زہرا و آل زہرا (س) کے مودة محبت کے بغیر دین و ایمان کامل نہیں سمجھتے تھے۔آخرکیوں نہ سمجھیں خود خدا متعال قرآن میں ان کے مدح سرا ہیں ،فرشتے ان کے خدمت کو فخر سمجھتے ہیں ،الوالعزم انبیا علیہم السلام مشکل کے وقت ان سے توسل کرکے نجات حاصل کرتے ہیں ۔تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہر وقت ان کے محبت و مودت کا اعلان قول و فعل سے کریں۔
دعا ہے کہ پروردگار عالم ہمیں دنیا میں ان کے محبت کے ساتھ سیرت پر چلنے کی اور قیامت کے دن ان کے شفاعت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا ء فرما۔(آمین یا رب العالمین)

منابع و مآخذ
1. دعوت صوفیہ امامیہ،سید علی ہمدانی ،اردو ترجمہ،سید خورشید عالم ،ناشر:انجمن فلاح وبہبود سرموں چھوغو گرونگ کراچی پاکستان ،سال اشاعت ٢٠٠٩۔
2. رسالہ اعتقادیہ،میر سید محمد نوربخش،ترجمہ ابو یاسر ،ناشر :انجمن صوفیہ نوربخشیہ کراچی پاکستان
3. السبعین فی فضائل امیر المومنین ، سید علی ہمدانی ،اردو ترجمہ،علامہ غلام عباس کوروی ،ناشر:معلمین جامعہ اسلامیہ صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹرست رجسٹرڈکراچی پاکستان ،سال اشاعت ١٩٩٩۔
4. الفقہ الا حوط،میر سید محمد نوربخش،ترجمہ ابو العرفان علامہ محمد بشیر براہوی ،ناشر :ندوہ اسلامیہ نوربخشیہ کراچی پاکستان،سال اشاعت ١٩٨٨۔
5. فلاح المومنین ،آخوند حمزہ علی ،ناشر ،ہارون بک ڈپو خپلو پاکستان۔
6. کشف الحقیقت،میر سید محمد نوربخش،طبع ایران،بی تا۔
7. مودة القربیٰ، سید علی ہمدانی ،اردو ترجمہ،آخوند محمد تقی حسینی ،ناشر:جامعہ باب العلم سکردوپاکستان ،سال اشاعت دسمبر ٢٠١٢۔
8. نور المومنین ،آخوند حمزہ علی ،ناشر ،انجمن صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ٹھسگام کرگل ہندوستان۔