قرآن زمان و مکان کے تناظر میں


تحریر سید صلاح الدین پیر زادہ


[دوسری قسط]
تحریر : سید صلاح الدین پیر زادہ
ہم بات کر رہے تھے کہ اللہ نے جب انسان کو عقل و شعور بخشا، ہدایت بخشی،اس کے بعد کہا : اِمَّا شَاکِراوَّ اِمَّا کَفُورَا ( سورہ دہر) ” یا حق مانتا یا انکار کرتا ” آپ کو پتہ ہے لغت میں کافر کسان کو کہتے مگر یہاں کافر کا مطلب یہ ہے کہ جو عقل و معرفت کا بیج ہی قبول نہیں کر،کافر وہ ہے جو عقل و دانش کا ، شعور کا بیج ہی اپنے اندر نہیں ڈال رہا۔اگر وہ بیج ڈال دے وہ اُ گنا شروع ہو جائے تو تحقیق و جستجو اور علم کا معیار آخری یہ ہے کہ وہ ضرور اللہ کی تلاش کرے اور اللہ کو پا جائے ۔ بدقسمتی سے آپ کی تمام علم و تحقیق ، تمام جستجو تمام کوشش اگر اللہ تک نہیں پہنچ رہی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ approach ناقص ہے ، تعلیمی انداز ناقص ہے۔ تو آپ کو واپس آنا چاہیے ، آپ کو fault discover کرنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ ہماری کس کم علمی کی وجہ سے ہم خدا کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں ۔
اللہ تعالٰی کی یہ بات بہت مدتوں بعد سائنس دانوں نے discover کی ، نہ یہ قدیمی سائنس دانوں کے پاس تھی ، نہ یہ قرآن کے زمانے میں کسی سائنسدان کے پاس موجود تھی ۔آج کل کے زمانے میں بلا آخر سائنسدان اس بات پر متفق ہوئے اور دو اصول قائم کئے کہ تمام حیات واقعی پانی سے پیدا ہوئی ہے اور پھر یہ بھی کہا کہ انسان آغازِ حیات میں محض ایک نفسِ واحد تھا اور حیات تمام ایک سنگل cell سے شروع ہوئی۔ ان باتوں کا سمجھنا اگرچہ تھوڑا مشکل تھا مگر سوال میں آپ لوگوں سے کیا تھا کہ عالمِ اسلام میں کیوں پہلے کسی نے علم کی کتابوں میں قرآن کے thesis نہ لکھے۔ معتزلہ ، اشاعرہ ماترید یہ جو Greek Philosophy سے اتنے متاثر تھے،جو لوگ Romans سے متاثر تھے ، اُن کو اُس وقت خیال کیوں نہ آیا کہ قرآنِ حکیم بنیادی حقائق کی جو بات کر رہا ہے.۔خیر آگے بڑھتے ہیں ایک عجیب و غریب بات جو اللہ نے فرمائی کہ ہم تجربے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے جاندار بنائے مگر اُن کو مختص نہیں کر دیا ، ہم نے اُن کو fix نہیں کر دیا ، ہم اُن کی تخلیق کو اپنے مقصد کے لئے متواتر بدلتے چلے آئے ہیں۔اُن میں changes آتی رہی ہیں ، اُن میں mutation ہوتی رہی ہیں۔اگر یہ کہو کہ Darwin سچا تھا تو Darwin صرف partially سچا تھا اس لئے کہ Darwin نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا … اُس نے تو اللہ کی زمین پر اللہ کے لئے نہ سہی کم از کم اپنی تحقیق و جستجو میں کسی معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ۔اُس کے بعد بہت تبدیلیاں ہوئیں ،Darwin متروک ہوا اور یہ اسی لئے ہوا کہ بعض changes ایسی تھیں جو اُس کے نظریہ پر پوری نہیں اُترتی تھیں مگر خدا اس سے بہت پہلے آپ کو کہہ رہا تھا :
نَحنُ خَلَقنهم وَشَدَدنَا اَسرهم وَاِذَا شِنَا بَدَّلنَا اَمثَالهُم تَبدِیلاَ (سوره دهر )( ہم نے انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئےاور ہم جب چاہیں ان جیسے اور بدل دیں )
یعنی کہ ہم کہیں نہ کہیں D.N.A میں ، embryo میں changes کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنے حالات کے مطابق آگے بڑھنا سیکھیں تاکہ ہم جو مقصد اس سے حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل کریں اور حتیٰ کہ : لَقَد خَلَقنَا اِلانسَانَ فِی اَحسَنِ تَقوِیم ( التین )
تاکہ وہ ایک ایسے توازن میں پہنچے کو ہمارا منشائے کائنات ہے ، جو ہمارا مطلب ہے .اس وجود انسان سے وہ ایسا علم پائے جو ہمیں جاننے کے لئے ضروری ہے تاکہ بلا آخر ہم اس پر وہ چوتھا قانون لاگو کر سکیں : اِنَّا ھَدَینٰہُ السَّبیلَ ….. بعض لوگ اعتراضات کرتے ہیں کہ کیا fixity میں انسان بنایا گیا ؟؟ کیا اسے مختص اور fix کر دیا گیا ؟ کیا اللہ نے اُس کے gene کو ابتدائی شکل میں ہی ایک مکمل انسان کی صورت میں فعال کیا ؟ اگر چہ مطلب تو انسان ہی بنانا تھا ، انسان ہی کو develop کرنا تھا مگر اُس کے اندر کوئی ایسی چیز نکالی نہیں تھی ، کوئی ڈالی نہیں تھی … پروردگار نے تمام مخلوقات کے بارے میں ایک اصول دیا اور فرمایا : ( سب خوبیاں اللہ کو جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ، فرشتوں کو رسول کرنے والا جن کے دو دوب، تین تین ، چار چار پر ہیں۔بڑھاتا ہے پیدائش میں جو چاہے ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے )
جو چیز چاہتا ہے بناتا ہے ، اس نے مخلوق کی ابتدا کی دو پاوں والے بنائے ، چار پاوں والے بنائے ، زیادہ پاوں والے بنائے ، مگر وہ یہ پاوں بنا کر ختم نہیں کر بیٹھا بلکہ اس نے جس کے gene میں چاہا ، بہتری پیدا کی جس میں چاہا mutaion create کیں ، embryo میں changes پیدا کیں ، اس نے جو چاہا کیا۔ میں ایک دفعہ پھر سے آپ لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہ رہا ہوں کہ اتنی technical scientific گفتگو جو اللہ قرآن میں کرتا رہا ، ہمارے تیرہ سو برس کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں سے کسی نے اُسے آگے بڑھایا ؟ کس نے خدا پر اعتبار کیا ؟ آج ہم گھڑی بھر میں یورپ اور مغرب سے آئی ہوئی کسی بھی تحقیق کا اعتبار کر لیتے ہیں،سوال یہ ہے ان مسلمان پڑھے لکھے لوگوں نے اتنا بڑا chapter قرآن حکیم میں سے کیسے چھوڑ دیا ؟ کیا یہ تو نہیں ہوا کہ غور وفکر کی بجائے رسم و رواج کے قرآن کو قبول کر کے اُس کے دروازے بند کر بیٹھے ؟
میں ابھی جو آپ کو مثال دوں گا وہ حیران کُن ہے : بہت پہلے تقریباًتین ہزار برس پہلے Ptolemy of Greece نے جدولِ شمسی دیا،Ptolemy کی جدولِ شمسی مانی گئی حتٰی کہ اُن لوگوں نے بھی مانی جو قرآن پڑھ رہے تھے ، جو قرآن پڑھا رہے تھے،Ptolemy نے کہا: زمین ساقط ہے اور باقی سیار ہیں اور اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ Ptolemy گیا ، قرآن آیا ، قرآن کی بعض science progress کرتی رہیں ، Copernicus کا زمانہ آیا ، Galelio کا زمانہ آیا مگر Progress of thought نہیں ہوئی بلکہ سارا شفٹ ہو گیا۔ کاپرنکس نے 1542 ء میں کہا: سورج ساقط ہے زمین نہیں Infact they were fighting about this simple fact کہ کوئی نہ کوئی چیز ساقط ہے ، کائی نہ کوئی چیز سیار ہے ۔ جو ثابت ہے وہ سیار ہیں مگر دیکھیے تو سہی بیج میں قرآن کیا کہہ رہا تھا، یہ حیران کن بات ہے کہ عصر گزرے ، سال ہا سال گزرے ، صدیاں گزریں ، کسی مسلمان نے اللہ کی بات پر اعتبار نہ کیا بلکہ حیران کن بات یہ ہے تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اُنیسویں صدی میں اسلام کے خلاف یہ بات ہوئی کہ Islam is not a religion of science کیونکہ اس وقت کے علماء نے اُنیسویں صدی تک یہ فتوٰی دیا کہ اگر کوئی شخص کہے گا کہ زمین گول ہے یا زمین متحرک ہے تو ہم اُس کی گردن اُڑا دینگے کیونکہ بطلیموس نے یہ نہیں کہا اور حیران کن بات ہے کہ قرآن ایک دن کے لئے بھی اُن سے چھپا نہیں تھا اور مسلسل پروردگار عالم ایک ہی بات کہہ رہا تھا :وَسَخَّرالشَّمسَ وَالقَمَرَ کُلُّ یَّجرِی اِلی اَجَلِ مُّسَمَّی (سورہ لقمان)( اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا …ہر ایک ایک مقررہ معیار تک چلتا ہے )
سورج کیا ، چاند کیا اور ستارے کیا ، سارے کے سارے چل رہے ہیں۔ان میں سے کوئی ساقط نہیں ہے ، ان میں سے کوئی کھڑا نہیں ہے ،نہ Ptolemy درست ، نہ Copernicus درست ، نہ Galelio درست۔بات وہ جو اللہ نے بڑھے کھرے انداز میں کہی ،مگر اس chapter میں ایک statement بھی کسی مسلم سائنسدان کی نہیں ملتی کہ تمام سیار ہیں اس میں ثابت کوئی نہیں ہے ۔ کائنات ایک سمندر کی طرح ہے اور اس میں سب چل رہے ہیں ، نہ صرف یہ کہ چل رہے ہیں ، بلکہ سورہ یٰسین میں پروردگار نے مزید بڑی عجیب و غریب بات کہ دی :
وَکُلُّ فِی فَلَکِ یَّسبَحُونَ ( یٰسین )( اور ہر ایک اپنے اپنے فلک میں تیر رہا ہے )
ویسے سورہ یٰسین سے مجھے ایک بات یاد آئی جب میں پڑھائی کی غرص سے خپلو میں تو اس ٹائم ایک عورت سخت بیمار تھی ایک آدمی بوا لوگوں کو لینے آئے تھے اور کہہ رہا تھا:فلاں وہ عورت بہت تکلیف میں ہے اور مرنے والی ہے سو سانس اٹکی ہوئی ہے آپ لوگ آ کے یٰسین پڑھ لے تو شاید اسکی چھٹی ہو جائے مجھے بڑا عجیب لگا Throughout پندرہ سو برس ہم نے سورہ یٰسین سے ایک سبق سیکھا ہے کہ مرنے والا تکلیف میں ہو ، سانس اٹکی ہوئی ہو ، سکرات کا عالم ہو تو یٰسین پڑھ لو اور اسکی چھٹی کرا دو ۔خیر ہم بات کر رہے تھیں جدولِ شمسی کے بارے میں آج ہم Cosmology میں مغرب سے ایک ہزار سال آگے ہوتے ،جب کوئی Sir James Jeans کہتا کہ Everything is moving in the universe تو ہم اُسے یہ کہتے کہ ہمیں یہ پہلے ہی پتہ ہے ،مگر ہم نے قرآن کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، ہم نے اس کے اُن علوم کی معرفت کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا ، ہم نے اپنی توجہات ان مسائل کی طرف لگائےرکھی۔
علم کی اتنی بڑی رسوائی اور اتنے بڑے زمانوں میں ، اتنی صدیوں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور اللہ کو جتنا offend ہم کر سکتے تھے ہم نے کیا ۔ ہم نے غیروں کی باتوں پر اعتبار کیا ، ہم نے فلسفے پر اعتبار کیا ، اس لئے کیا کہ ہم ذہنی تحقیر کے عادی تھے،جیسے آج ہم بمقابلہ یورپ اپنی ذہنی حقارتوں کے قائل ہیں،ہم میں یہ شعور ہی نہیں پیدا ہو رہا ..eastern hemisphere کا brain quantity میں اُس سے کہیں بہتر ہے ، مگر ہم اُن کی طرف سے آئی ہوئی ہر ایجاد کو حیرت اور دہشت سے دیکھتے ہیں، ان کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کی ایجاد ہم پر اُن کا رعب بڑھا دیتی ہے ، خوف بڑھا دیتی ہے ۔
یہ بات زمان و مکان کے بارے میں ہے ،میں بڑی اُداسی سے یہ آیت پڑھتا ہوں ، اس لئے کہ جن لوگوں نے بھی مجھ سے پہلے یہ آیت پڑھی انہوں نے اس کے سادہ سے مطلب کو پورا نہ ہوتا دیکھ کر اس کو کوئی نہ کوئی تاویل کا معنی دے دیا،یہ آیت بہت ہی سادہ تھی ، آئن سٹائن سے پہلے لکھی گئی quantum اور relativity سے بہت بہت پہلے لکھی گئی :
“وَ السَّمَآ ءِ بَیَنهَا بِاَیِد “( اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا )
ہم نے آسمانوں کو اپنی قوتوں سے بنایا ، اپنے دست سے ، اپنے ہاتھوں سے بنایا ، خصوصی توجہ سے بنایا ، خصوصی اصول پر بنایا :
” وَ انَّا لَمُوسِعُونَ ” ( الذریت )( اور بے شک ہم اسے وسعت دے رہے ہیں )
” لَمُوسِعُون ” پہلا ، سادہ اور لفظی ترجمہ جو لغت میں ملتی ہے وہ ہے وسیع تر کرنا،میں اس وقت حیران ہوا کہ جب میں نے دیکھا کسی مسلمان مفکر نے اس کو ” لَمُوسِعُون ” کے سادہ مطالب میں نہیں لکھا بلکہ انہوں نے دیکھا اور اُن کو نظر نہ آیا ، اللہ تو کہہ رہا تھا کہ ہم اسے وسیع تر کر رہے ہیں ، اُس کی بجائے انہوں نے ترجمہ یہ کیا کہ اس میں خلافت رکھ دی ، اس میں قوت رکھ دی ، اس میں دست و بازو رکھ دیئے اور سادہ سا ترجمہ انھوں نے مسخ کر دیا اور یہ نصیب پھر آئن سٹائن کا تھا ، جس نے موجودات خداوند میں تحقیق کی ، جس نے روشنی کی رفتار کی تحقیق کی ، جس نے relativity کا نظریہ تخلیق کیا اور بڑے سادہ سے انداز میں۔
میں نے اُس کی برسی پر فیس بک پر اُس کی ایک تصویر دیکھی …اس کے اوپر لکھا ہوا تھا :
The expanding univers of Einstein
پندرہ سو برس پہلے جو بات اللہ نے ختم کر دی تھی ، ہم نے اس پر کبھی اعتبار نہیں کیا مگر جب آئن سٹائن نے کہا کہ universe expand ہو رہی ہے ، جب cosmologist نے یہ کہا کہ universe expand ہو رہی ہے تو ہم نے فوراً اعتبار کر لی۔یہ کہاں کا ایمان تھا؟ یہ کہاں کا رتبہء عالیہ فکر تھا مسلمانوں کا اور ان بڑے بڑے ناموں کو جو آپ اور ہم سے پہلے گزرگئے؟ تو مجھے بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تمام تر توجہات school of thoughts کو رہیں ، رسم و رواج کو رہیں ، نماز کی اقسام میں رہیں ، روزے کی اقدار میں رہیں ، عید و ماتم میں رہیں۔
Which were very simple problems
یہ بہت سادہ مسائل تھے ،آپ نماز کیسے پڑھتے ہو ؟
خیر ایک بڑی important بات جو زمان و مکاں کے بارے میں تھی ، قرآن اس سے آج بھی differ کر رہا ہے ۔قرآن نہ سائنسدانوں سے agree کرتا ہے ، نہ فلاسفر سے وہ اپنی جگہ پر ایک بڑی solid statement دہراتا ہے کہ یہ کائنات ، یہ زمین ، یہ آسمان ، یہ زندگی ، انسان ۔
” کُلُّ یَّجرِی اِلی اَجَلِ مُسمیَّ ” ( لقمن )( تمام اپنے وقتِ مقرر تک چل رہے ہیں )
ذرا غور کیجیے کہ کیا مقررہ وقت بھی infinite ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی وقتِ مقرر بھی infinite ہو سکتا ہے؟ قرآنِ حکیم کے بقول زمانہ infinite نہیں ہے ، زمانہ finite ہے ۔اشیاء کے خدا تک پہنچنے تک کے وقت کو ٹائم کہتے ہیں اور کیا کسی مردے کو بھی وقت گننا آتا ہے ؟ یہ زندگی کے ساتھ ایک قدر وابستہ ہے ، نہ یہ اتنی ہولناک تھی جتنا اسے مغرب کے فلاسفر نے بنا لیا ، نہ یہ اتنی عجیب و غریب تھی کہ اس پر کسی کی دسترس ہوتی۔ اشیاء کے اپنے انجام تک پہنچنے کے process کو وقت کہتے تھے ۔اگر انسان نہ ہوتا ، وقت بھی نہ ہوتا ، اگر احساسِ زیاں نہ ہوتا تو وقت نہ ہوتا ۔ اگر جلدی نہ ہوتی تو وقت نہ ہوتا ۔ٹائم کا ایک تصور یہ بھی ہے Its a space in space جب جگہ نہ رہے گی۔قیامت تو تبھی آئے گی ناں ، جب جگہ نہ رہے گی …. قیامت تب آئے گی جب اشیاء کے تصرف کو ان کا مقام نہیں ملے گا ، اس لئے پرانے عرب لوگ کہا کرتے تھے: ” وقت کاٹتی ہوئی تلوار ہے”
وقت چیزوں کی تقسیم ہے ، حیات کی تقسیم ہے ، یہ اپنی ذات میں کوئی independent شے نہیں ہے ۔
آئیے ذرا حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔برباد بستیوں سے گزرتے ہوئے ، پیغمبر نے اوندھے پڑھے ہوئے گھروں کو دیکھا ، سوکھے ہوئے کنواں کو دیکھا ، ان کو الٹا پڑا ہوا دیکھا ، چھتوں پر اوندھے پڑے ہوے لوگوں کو دیکھا تو بہت پریشان ہوا اور پروردگار سے سوال کیا :
” اَو کَالَّذی مَرَّ عَلی قَریَته ” ( یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر )” وَ هي خَاوِیة عَلی عُرُوشها ” ( البقرہ )( اور وہ مسمار ہوئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر )
تو اس نے کہا: دیکھا تو سہی اے مالک ! تو مردہ کو زندہ کیسے کرتا ہے ؟ دیکھیے ! پیغمبر مشاہدے کی آرزو کر رہا ہے . ابراہیم علیہ السلام نے بھی کہا تھا :
” رَبِّ اَرِنِی کَیفَ تُحیِ المَوتی “( اے رب مجھے دیکھا کہ تو مردہ کیسے زندہ کرے گا )
تو اللہ نے فرمایا :
” قَالَ اَوَلَم تُومِن ” اے ابراہیم میں نے اتنی عقل دی آپ کو ، اتنا شعور بخشا اس کے باوجود آپ کو شبہ ہے .
” قَالَ بَلی وَلکِن لِیطمَئِنَّ قَلبِی ” ( البقرہ )( کہا کیوں نہیں اور لیکن یہ چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آجائے )
ہزار دلیل کے باوجود بھی دل مشاہدہ مانگتا ہے ، دل نظر مانگتا ہے ۔جب تک آپ personal نظر کسی چیز پر نہیں ڈال لیتے ، شاید آپ تھوڑے تھوڑے بے اطمینان رہتے ہو ۔
آپ نظر سے دیکھنا چاہتے ہو ، آپ کو نظری ، بصری شہادت چاہیے ، یہاں بھی پیغمبر request کر رہا ہے : اللہ سے سوال کیا تو اللہ نے کہا ٹھیک ہے demonstration دے دیتے ہیں ، سو برس کے لئے مار دیا پھر جگا دیا پوچھا :
” قَالَ کَم لَبِثتَ ” ( کہا کتنی دیر ٹھہرا )
اللہ نے پوچھا اے عزیز کتنی دیر سوئے رہے ہو ؟
” قَالَ لَبِثتَ یَومَّا اَو بَعضَ یَومِ ” ( کہا : دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا پھر کچھ کم )
یہ بڑی important آیت ہے ،one of the most impossible mention جس آیت ہوتا ہے ، وہ یہ آیت ہے ۔اللہ نے پوچھا کتنی دیر سوئے رہے اے عزیز کہا ایک یا آدھا دن سویا رہا ہوں …. اللہ نے کہا :
” قَالَ بَل لَبثتَ مِائة عَامِ فَانظُر اِلی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتسنه “( کہا : نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ جو اب تک بُو نہ لایا )
ذرا دیکھ تو شراب کو ، پانی تو دیکھ ، ویسے ہی پڑا ہے اس کو یعنی پانی کو کسی نے چھوا تک نہیں ، وہ ویسے ہی پڑا ہے اور سو برس کی گردش نے کھانے کو چھوا تک بھی نہیں .
” وَنظُر اِلی حِمَارِکَ “( ذرا گدھے کو تو دیکھ ، اس پہ سو برس پورے گزر گئے )
اللہ کی قدرت کے علاوہ جو سب سے عجیب و غریب بات اس پوری آیت میں ہے ، وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے span میں تین وقت گزر گئے ، ایک چھوٹی سی زمین پر ، ایک چھوٹی سی space میں تین وقت گزرے، ایک دن اور رات ، ایک لمحہ بھی نہ گزرا ……. ” لَم یَتَسنَّہ ” کسی نے اسے چھوا تک نہیں اور یہ یاد رکھیے گا کہ جب کھانے کا ذکر ہوا تو کھانا بظاہر خراب ہونے سے نہیں رُک سکتا .. کھانے کی کچھ جزیات ہے ، کچھ maggots ہیں ، کچھ اس کے اندر جراثیم ہیں ، جن کو ہر صورت اپنی مدتِ حیات پوری کرنی ہوتی ہے ، مگر وہاں زندگی کا یہ تمام procedure رک گیا …وقت سرے سے اس کھانے پر گزرا ہی نہیں ، وقت اس badger پر بھی نہیں گزرا …وقت اس جرثومے پر بھی نہیں گزرا جو پانی کے اندر تھا ، وقت اس کھانے میں اس خوراک کے اندر کسی جرثومے پر نہیں گزرا ….حیران کن بات یہ کہ سو برس میں زندگی کی minutest اور most important تمام صورتیں وہاں solidify ہو گئیں … نہ وہاں بارش تھی ،نہ سردی ، نہ آگ تھی ، پھر وہاں کیا قوت تھی جس نے صرف حکم دیا تھا کہ وقت نہ گزرے تو وقت نہیں گزرا ……چیزیں اپنی مدت تک نہ پہنچیں ….پھر اس نے کہا دیکھو ذرا گدھے کو سو برس گزر گئے ، ہڈیاں پڑی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پوچھا تو کتنی دیر رہا ؟؟ کہا دن یا آدھا دن …اس سے عجیب و غریب زمان و مکاں کی کوئی صورت سامنے نہیں آتی کہ چھوٹے سے span of time میں ایک جگہ سرے سے وقت نہیں گزرا ، دوسری جگہ وقت کو squeeze کیا گیا ، وقت کو ضبط کیا گیا ، وقت کو ، سو برس کو سمیٹ کر ایک آدھے دن میں ڈھال لیا گیا … حیران کن صورت جو اس میں آئی ہے کہ اللہ نے اُسے ہڈیوں پر گوشت چڑھا کر دیکھایا .
( اور اپنے گدھے کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اکٹھا کرتے ہیں ، پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں ، جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا وہ بولا میں خوب جانتا ہوں کہ تو سب کچھ کر سکتا ہے )
اس واقعے مجھے یہ پتہ چلا جہاں تک میری سوچ ہے کہ وقت بذاتہ کوئی شے نہیں ، اگر شے ہوتا کوئی اصول ہوتے ، کوئی اس کے انداز ہوتے تو وہ ایک طرف سے گزرتا ، ایک چھوٹے سے span میں ، ایک چھوٹی سی space میں اُس کے ساتھ وہ حشر کیا گیا کہ کہیں اُسے ایک لمحہ نہ گزرنے دیا گیا ، کہیں اُسے نچوڑ کر دن اور رات میں قید کر دیا ، اور کہیں سو برس میں گزار دیا گیا.یہ concept کسی مسلمان سکالر کو excite نہیں کر سکا ورنہ وہ بہت پہلے relative understanding کا مالک ہو جاتا۔بہت پہلے وہ ” اِنَّا لَمُوسِعُون ” کی جہت دریافت کر لیا ہوتا۔خدا ہم سب کو قرآن کے آیتوں پے غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
حوالہ جات
1. قرآن مجید
2. آرٹیکل نظریہ بیگ بینگ، اِدریس آزاد
3. بایولوجی بک
4. تلاش ، عکسی مفتی
5. حقیقت منتظر
6. ماڈرن سائنس اور قرآن
7. مقدمہ قرآن
8. نظریہ ڈارون
9. Law of Copernicus
10. Law of Galelio
11. Law of ptolemy
12. Quantum Physics
13. The Expanding univers of Einstein
14. Theory of relativity