نوربخشیہ ،شریعت اور طریقت کا مسلک


تحریر


بسم اللہ الرحمن الرحیم

نوربخشیہ ،شریعت اور طریقت کا مسلک

تحریر : سید اذلان شاہ شگری

مقدمه

رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : الشَّرِيعَةُ اقْوالى‏ وَ الطَّريقَةُ افْعالى‏ وَ الْحَقيقَةُ احْوالى۔(مجمع البحرين، ص 4482) ترجمہ:شریعت میرے اقوال ،طریقت میرے افعال اور حقیقت میرے کردار[کا مجموعہ]ہے ۔

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تصوف میں استعمال ہونے اصطلاحات شریعت، طریقت اور حقیقت حدیث نبوی کی روشنی میں ہیں ۔لہذا اصل موضوع پر بحث سے کرنے پہلے ان اصطلاحات کی تعریفوں کو جاننا ضروری ہے ۔ عرفا و صوفیا ء نے ان اصطلاحات کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ،تا ہم تقریباً سب کا محور و مرکز ایک ہی ہے ۔ بعض عرفا فرماتے ہیں :« شریعت ظاہری احکام کی رعایت کا نام ہے جبکہ طریقت احکام باطن سے عبارت ہے» یعنی شریعت انسان کو طریقت اور حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ لہذا طریقت تک پہنچنے کے لئے شریعت کو عبور کرنا ضروری ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ شریعت انسان کے جسم اور بدن سے مربوط ہے جبکہ طریقت کا تعلق دل سے ہے ۔ یعنی شریعت ظاہری طور خدا وند متعال کی عبادات اور ریاضات سے اپنے جسم اور بدن کو مزین کرنے کا نام ہے اور طریقت کا مطلب عشق و محبت خداوند ی میں دل کا روشن ہونا ہے ۔بعض دیگر بزرگان فرماتے ہیں :شریعت کا کام ایک شمع یا روشنی کا ہے کہ وہ انسان کو راستہ دیکھاتا ہے یعنی شریعت کا ہدف صرف رہنمائی ہے جبکہ اصل راستہ کمال طریقت ہے یعنی طریقت کا ہدف “وصول الیٰ الحق” خدا تک پہنچنا ہے ۔اسی لئے تمام حقیقی صوفیائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شریعت کے بغیر طریقت اور حقیقت تک رسائی ناممکن ہے ۔ اسی لئے عالم اسلام کے مشہور مفسر قرآن و متکلم امام فخر الدین رازی اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں ابو العباس محمد بن یزید المبرد کا یہ قول نقل کرتے ہیں : اَلشَّرِیْعةُ اِبْتِدَاءُ الطَّرِیْقَة وَ الطَّرِیْقَةُ الْمِنْهاجُ الْمُسْتَمِرُ﴿ تفسیر الکبیر، سورۃ المائدہ، زیر آیت: ۴۹﴾یعنی شریعت ، طریقت کی ابتدا ہے اور طریقت ایک مسلسل راستہ ہے۔ لہٰذا ایک صوفی پہ لازم ہے کہ وہ ایک عام مسلمان کی نسبت ، شریعت کی پاسداری زیادہ پابندی سے کرے ۔ جیسا کہ امام عبد الوہاب الشعرانی اپنی تصنیف “طبقات الکبریٰ” میں کہتے ہیں:مَالتَّصَوُّفُ اِنَّمَا هُوَ زُبْدَة عَمَلِ الْعَبْدِ بِاَحْکَامِ الشَّرِیْعَة ﴿ طبقات الکبرٰی ، مقدمہ، ص ۹﴾ یعنی بندے کا احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونے کا نچوڑ تصوف ہے۔

لہذا شریعت ، طریقت اور حقیقت کے حوالے سے بزرگان کی ان تعریفو ں کو پیش کرنے کے بعد ہم یہ نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں کہ تصوف کی ابتدائی شریعت ، اصل راستہ طریقت اور منزل حقیقت ہے لہذا اگر کوئی بھی اپنے آپ کو صوفی کہلانے کی خواہش مند ہو یا تصوف و عرفان کے رموز سے واقف ہونے کا دعویدار ہو تو اس کےکے لئے ضروری ہے کہ پہلے شریعت کو سکھ لیں کیونکہ کوئی بھی سکھے بغیر اس پر عمل ممکن نہیں ہے ۔ جب شرعی علوم کی تعلیم مکمل ہو تو اس پر عمل پیرا ہوکر ہی طریقت اور حقیقت کے راستے پر چل سکتے ہیں ۔

اکثر صوفیائے کرام پر تنگ نظروں کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ شریعت کی نفی کرتے ہیں- اِس الزام کی وجہ جہالت ہوتی ہے،یعنی وہ بزرگان تصوف خصوصاً حضرت شیخ الطائفہ جنید بغدادی ، شیخ نجم الدین کبریٰ اور دیگر بزرگان تصوف کی زندگی کے حالات سے بے خبر ہیں ۔ اگر جہالت نہ ہو تو پھر تعصب ہوتا ہے اِس لئے جو شخص تعصب اور جہالت سے پاک ہو وہ کبھی ایسی بات نہیں کر سکتا-

جس طرح طریقت کے لئے شریعت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے اس طرح اسی طرح انسان کو کمال تک پہنچنے کے لئے یا بالفاظ دیگر خدا تک رسائی کے لئے طریقت کے رموز کو جاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے ۔اس بات کی طرف بھی صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے بہت زور دیا ہے جیسا کہ مشہور صوفی و عارف ابو القاسم قشیری (متوفی ۳۷۶ ھ) شریعت و طریقت کے باہمی ربط کو یوں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :وَکُلُّ شَرِیْعَة غَیْرِ مُوَیَّدَة بِالْحَقِیْقَة فَغَیْرُ مَقْبُوْلٍ۔پس جس شریعت کو حقیقت کی تائید حاصل نہ ہو وہ غیر مقبول ہے،اوروَکُلُّ حَقِیْقَة غَیْرِ مُقَیَّدَة بِالشَّرِیْعَة فَغَیْرُ مَقْبُوْلٍ۔اور جو حقیقت شریعت سے مقید نہ ہو وہ بھی غیر مقبول ہے-( الرسالۃ القشیریہ،ص ۱۱۸)

یعنی اِن دونوں میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنا ایک راستے کو ترک کرنے کے مترادف ہے کہ اگر ایک کو ترک کیا تو فسق کیا اور اگر دوسرے کو ترک کیا تو گمراہی کی-

سلسلہ نوربخشیہ کا اہم متیاز

لہذا قرن دوم کے بعد سے ابھی تک معرض وجود پر آنے والے سلاسل تصوف کے تمام بزرگوں کا اس بات پر اتفاق بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت اور طریقت دونوں لازم و ملزوم ہے ۔ تصوف کے ان تمام سلسلوں میں سے سلسلہ نوربخشیہ [سلسہ ذہب ] کو ایک خاص امتیازی حیثیت حاصل ہے جو دوسرے سلاسل تصوف میں موجود نہیں ۔ یعنی اس وقت آپ جتنے بھی تصوف کے سلسلوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ فقہی اعتبار سے اہل سنت یا اہل تشیع کے کسی بھی امام یا مجتہد کا پیرورکار ہونے کے ساتھ کلامی اعتبار سے معتزلہ ، اشاعرہ ، ماتریدیہ یا کلام شیعہ کے ماننے والے ہیں ۔ جیسے کہ نقشبندیہ ، سہروردیہ ، چشتیہ و غیرہ احکام میں اہل سنت کے ائمہ اربعہ[ امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی ،امام حنبل ] میں سے کسی ایک کے تابع ہیں جبکہ نعمت اللہیہ اور دیگر شیعی سلاسل تصوف موجودہ زندہ مجتہدین میں سے کسی کے تقلید میں ہیں جبکہ سلسلہ نوربخشیہ کے پیرور کا فقہی اور کلامی اعتبار سے اپنا ایک مستقل مسلک “صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ” کے نام سے موجود ہے ۔ نوربخشی فقہی اعتبار سے حضرت سید محمد نوربخش قہستانی [متوفی،۸۶۹] کی کتاب فقہ احوط پر عمل پیرا ہیں جبکہ کلامی اعتبار سے بھی انہیں کی کتاب رسالہ الاعتقادیہ کو ہی کلامی منبع سمجھتے ہیں ۔اس سلسلے میں بطور دلیل ہم حضرت میر سید محمد نوربخش قہستانی اور دیگر بزرگان سلسلہ ذہب [مسلک صوفیہ امامیہ نوربخشیہ ] کے کتابوں سے حوالے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بزرگان سلسلہ نوربخشیہ بھی طریقت اور شریعت کو لازم وملزوم سمجھتے تھے ۔

میر سید محمد نوربخش رح اپنی مایہ ناز کتاب فقہ احوط کے مقدمے میں فرماتے ہیں : وَ اُبَیِّنَ الشَّرِیْعَةَ المُحَمَّدِیَّةَ کَمَا کَانَتْ فِی زَمَانِه مِنْ غَیْرِ زِیَادَةٍ وَّ نُقْصَانٍ۔[فقہ احوط،مقدمہ]

یعنی شاہ سید محمد نوربخش جو ایک صوفی اور عارف تھے،آپ قطب الاقطاب اور غوث المتاخرین کے درجے پر فائز بھی تھے لیکن شریعت محمدی کو ہوبہو بیان فرمانے کا دعویٰ بھی فرماتے ہیں ۔ کیونکہ آپ کے ہاں بھی شریعت کے بغیر طریقت کا دعویٰ باطل ہے ۔

اس کے علاوہ بھی بزرگان سلسلہ نوربخشیہ کی سینکڑوں کتابوں میں ایسے قرائن اور شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مسلک نوربخشیہ شریعت ، طریقت اور حقیقت کی تعلیمات پر مشتمل ایک حسین امتزاج کا نام ہے ۔

منابع و مآخذ

1. مجمع البحرين- به احتمام- نجيب مايل هروى- انتشارات مولى ۔

2. فقہ احوط، مير سيد محمد نوربخش قهستاني۔

3. الرسالۃ القشیریہ،ابو القاسم قشيري، دارالکتب العلمیه بيروت ، لبنان۔

4. طبقات الکبرٰی ، عبد الوهاب شعراني ۔

5. تفسیر الکبیر، امام فخر الدين رازي ۔